Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
کہو (کہ مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے انکو بلا دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کو بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔
56۔ 57:۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکوں میں سے کچھ لوگوں نے جنات کے ایک گروہ کو اپنا معبود بنا رکھا تھا اتفاق سے جنات کا گروہ مسلمان ہوگیا اور انسانوں کے اس فرقے کو جو ان جنات کی پرستش کیا کرتے تھے ان جنات کے مسلمان ہوجانے کی خبر نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کے گروہ کے شرمندہ کرنے کو یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ اے نبی اللہ کے ان بیخبر شرک کرنیوالوں سے یہ کہہ دو کہ اللہ کے سوا جن کو تم اپنا معبود ٹھہراتے ہو اگرچہ پہلے بھی ان تمہارے معبودوں کو کسی نیک وبد کا اللہ کے کار خانہ میں اختیار گنتے ہو اور وہ خدا کو خدا جانتے ہیں اور عمل نیک کو خدا کی رضامندی کا ذریعہ ٹھہراتے ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں تم کو ان کا حال معلوم نہیں تو ذرا تم لوگ ان کا حال دریافت تو کرو کہ وہ کس حال میں ہیں۔ تفسیر ابن جریر میں دوسرے طریقہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے بجائے جنات کے ملائکہ کے ایک گروہ کو مشرکین کا اپنا معبود ٹھہرانا اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کو معبود ٹھہرانا جو ہے 2 ؎ اس کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ناثابت اور ضعیف ٹھہرایا ہے کیونکہ بخاری کی روایت سے صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ ایسا تھا کہ پہلے مشرکین کے معبود بننے پر راضی تھا اور پھر اسلام لاکر اپنے اس فعل سے وہ گروہ بزار ہوگیا یہ بات ملائکہ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیز ( علیہ السلام) کے حق میں ہرگز صادق نہیں آتی کیونکہ ملائکہ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیز ( علیہ السلام) کبھی مشرکین کے معبود بننے پر راضی نہیں ہوئے۔ آخر آیت میں فرمایا کہ اللہ کا عذاب بلاشک ڈرنے کی چیز ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رح) کی روایت ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا مجھ کو دوزخ کے عذاب کا کچھ حال معلوم ہے اگر لوگوں کو وہ حال معلوم ہوجائے تو وہ ہنسنا چھوڑ دیں اور سوا رونے کے ان کو کچھ کام نہ رہے۔ 3 ؎ یہ حدیث ان عذاب ربک کان محذورا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا عذاب ایسی ڈرنے کی چیز ہے کہ اس میں گرفتار ہونا تو درکنار اس کا پورا حال سننا بھی انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 685 ج 2 کتاب التفسیر۔ 2 ؎ تفسیرابن جویر ص 104 ج 15۔ 3 ؎ ایضا ترغیب ص 261 ج 2 نیز دیکھئے مشکوٰۃ باب البکاء والخوف فصل اول بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ ۔
Top