Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 47
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَا : جس غرض سے يَسْتَمِعُوْنَ : وہ سنتے ہیں بِهٖٓ : اس کو اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ : جب وہ کان لگاتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَاِذْ : اور جب هُمْ : وہ نَجْوٰٓى : سرگوشی کرتے ہیں اِذْ يَقُوْلُ : جب کہتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : سحر زدہ
یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس نیت سے یہ سنتے ہیں ہم اسے خوب جانتے ہیں اور جب یہ سرگوشیاں کرتے ہیں (یعنی) جب ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کیا گیا ہے۔
47۔ 52:۔ سیرۃ محمد بن اسحاق اور دلائل النبوہ بیہقی میں ناقابل اعتراض سند کی ابن شہاب زہری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز ابو سفیان اور ابوجہل اور چند قریش جمع ہوئے اور جس وقت آنحضرت ﷺ نماز میں قرآن شریف اپنے گھر میں پڑھ رہے تھے اس وقت چھپ کر قرآن شریف سنا اور پھر آپس میں صلاح کرکے آنحضرت ﷺ کو جادو کیا ہوا ایک شخص اور حشر کی آیتوں کو خلاف عقل ہونے کا ذکر کرنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیتیں نازل فرمائیں 1 ؎۔ حاصل معنے یہ ہیں کہ قرآن شریف سن کر یہ لوگ جو آپس میں باتیں کرتے ہیں وہ اور اللہ کے رسول کی شان میں یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہیں وقت مقررہ آنے پر مناسب مؤاخذہ ان سے کیا جائے گا چناچہ اس وعدہ کے موافق اس گروہ میں کے چند شخص جنگ بدر میں ہلاک ہوگئے اور ابوسفیان وغیرہ فتح مکہ پر مسلمان ہوگئے اور حشر کا انکار ان لوگوں نے جو کیا تھا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ انسان پیدا ہونے سے پہلے آخر مٹی ہی تھا جس اللہ نے مٹی کا پتلا پہلی دفعہ بنایا اور اس پتلا میں روح پھونکی پھر اس اللہ کو دوسری دفعہ وہ کام کرنا جو ایک دفعہ وہ کرچکا ہے کیا مشکل ہے بلکہ جو کوئی ایک دفعہ ایک کام کرچکے پھر اس کو وہ کام سہل ہوجاتا ہے اسی واسطے حشر کے خلاف عقل ہونے میں اوپر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے کہ پہلی پیدائش سے حشر آسان ہے پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی تنبیہ کے لیے فرمایا کہ مٹی کا پتلا تو کیا ہے اگر یہ مر کر لوہا یا پتھر یا کوئی سخت چیز بھی ہوجاویں تو اللہ کی قدرت تو وہ ہے کہ اللہ ضرور ان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ آگے فرمایا دوبارہ زندہ ہونے کی تاکید سن کر یہ لوگ تعجب سے پوچھیں گے کہ آخر ہم کو دوبارہ کون زندہ کرے گا تو اے رسول اللہ کے ان سے کہہ دیا جائے کہ جس نے پہلے تم کو نیست سے ہست کیا وہی تم کو دوبارہ پیدا کرے گا پھر فرمایا اس جواب کو سن کر یہ لوگ مسخراپن سے گردنیں مٹکا کر یہ کہیں گے کہ آخر اس وعدہ کا ظہور کب ہوگا ان سے کہہ دیا جائے کہ گھبراؤ نہیں شاید اس کا ظہور بھی جلدی ہونے والا ہے پھر فرمایا اب تو یہ لوگ ایسے مسخراپن کی باتیں کرتے ہیں لیکن دوسرے صور سے پہلے جب ایک مینہ برس کر ان کے جسم تیار ہوجاویں گے اور ان جسموں میں روحیں پھونک دی جاویں گی اور ان کو میدان محشر میں حاضر ہونے کا حکم ہوگا تو اللہ کی قدرت کو دیکھ کر بےساختہ اللہ کی تعریف ان کی زبان پر آجاوے گی اور حساب و کتاب کے بعد جس بیشمار مدت کے لیے ان کو دوزخ میں جھونک دیا جائیگا تو اس بیشمار مدت کے مقابلہ میں دنیا میں رہنے کی مدت ان کو بالکل کم نظر آئے گی۔ دوسرے صور سے پہلے جو میں برسے گا صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ ؓ کی روایت کے حوالہ سے اس کا ذکر کئی جگہ اس تفسیر میں کردیا گیا ہے۔ سورة القمر میں آئے گا کہ دوسرے صور کی آواز صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎ کہ نیک آدمی کے مردے کو قبر میں رکھتے ہی جنت کا ٹھکانہ اور بدشخص کے مردہ کو دوزخ کا ٹھکانہ فرشتے دکھلا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس ٹھکانے میں رہنے کے لیے قیامت کے دن تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اسی طرح ابوداؤد اور مسند امام احمد کے حوالہ سے براء بن عازب ؓ کی صحیح حدیث بھی گزر چکی ہے 3 ؎۔ کہ بدلوگ دوزخ کے ٹھکانے سے ڈر کر عذاب قبر کو غنیمت جانیں گے اور قیامت کے نہ قائم ہونے کی ہر وقت دعا کرتے رہیں گے۔ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ دوسرے صور کی آواز سے ان منکرین قیامت کا ٹڈیوں کی طرح حساب و کتاب کے لیے میدان محشر کی طرف دوڑنا اور حساب و کتاب کے بعد بیشمار مدت کا دوزخ میں جھونکے جانے کا حکم سن کر اس کے مقابلہ میں دنیا میں رہنے کی مدت کو بالکل چند روزہ مدت خیال کرنا یہ تو اپنے وقت پر ہوگا لیکن ان میں سے ہر ایک شخص کو اس کا ٹھکانا زیست کے تھوڑے سے دن گزر جانے کے بعد مرنے کے ساتھ ہی دکھلا دیا جائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اب تو یہ لوگ مسخراپن سے قیامت کے آنے کی جلدی کرتے ہیں مگر دوزخ کے اپنے ٹھکانے کو دیکھ کر ہر وقت قیامت کے نہ قائم ہونے کی دعائیں مانگیں گے۔ 1 ؎ تفسیر الدر المنثورص 187 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر ہذاج 3 ص 334۔ 3 ؎ تفسیر ہذاج 2 ص 334۔
Top