Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
اور جب تم قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کردیتے ہیں
45:۔ تفسیر ابراہیم بن منذر میں ابن شہاب زہری کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت اللہ کے رسول قرآن شریف کی آیتیں مشرکین مکہ کے روبرو پڑھتے تھے اور ان کو ہدایت کرتے تھے تو وہ لوگ ٹھٹھے سے کہتے تھے وفی اذاننا وقر ومن بیننا وبینک حجاب یعنی جن باتوں کے ماننے کے لیے اے محمد ﷺ تم ہم سے کہتے ہو ان باتوں کے سننے سے ہمارے کان بہرے ہیں اور ان باتوں کے ماننے کے حساب سے ہم میں اور تم میں ایک آڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کی بات کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی 1 ؎۔ سورة حم السجدہ میں آوے گا جن باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے وہ باتیں مشرک لوگ مسخراپن سے کیا کرتے تھے۔ اس سے شان نزول کی روایت کی پوری تائید ہوتی ہے حاصل معنے آیت کے اس صورت میں یہ ہیں کہ یہ مشرک لوگ جو کچھ ٹھٹھے سے کہتے ہیں وہ سچی بات ہے بدبختی ازلی جو ان کے سر پر سوار ہے وہ ان کو قرآن شریف کی ہدایت کی باتیں سننے نہیں دیتی تو گویا یہ لوگ حقیقت میں بہرے ہیں اور آنکھوں کے سامنے کے آثار قدرت الٰہی ان کو نظر نہیں آتے اس لیے حق باتوں میں اور ان میں ایک طرح کی آڑ ہے وہ آڑ بھی وہی بدبختی ازلی ہے جو ان کو دیکھنے کی حق باتیں دیکھنے نہیں دیتی حاصل کلام یہ ہے کہ جس آڑ کا آیت میں ذکر ہے وہ آڑ اس صورت میں ایک باطنی اور معنوی چیز ہے سوا اس کے آنحضرت ﷺ اور کفار کے مابین میں اللہ کے حکم سے ایک فرشتہ بھی حائل رہا کرتا تھا تاکہ قرآن شریف میں جو آیتیں کفار کی طبیعت کے مخالف ہیں ان کو سن کر کفار لوگ آنحضرت سے کچھ بےادبی سے پیش نہ آویں اس آڑ پر بھی آیت کا مطلک صادق آتا ہے اسی واسطے بعضے علماء نے اس مطلب کو شان نزول قرار دیا ہے لیکن وہ آیت کے مضمون کا مصداق ہے شان نزول نہیں ہے۔ چناچہ مستدرک حاکم، مسند ابویعلی، مسند بزار، تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے 2 ؎ اس کا حاصل یہ ہے کہ جب سورة تبت نازل ہوئی اور ابولہب کی بیوی نے سنا کہ اس کی ہجو قرآن شریف میں اتری ہے تو وہ عورت ایک پتھر لے کر آنحضرت ﷺ کو مارنے آئی اور حضرت ابوبکر ؓ صدیق کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ وہ عورت جھنجھلا کر کبھی یہ پتھر آپ کو نہ مار دے تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ صدیق کی تسکین کی اور یہ آیت پڑھی اور فرمایا ایک فرشتہ مجھ میں اور ایسے لوگوں میں آڑ ہے 3 ؎۔ غرض روایت میں اس وقت وحی کے نازل ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرشتہ پہلے سے تعینات تھا اس وقت آپ ﷺ نے یہ آیت بطور تصدیق کے پڑھی تھی اس صورت میں ایک آڑ ظاہری بھی آیت کے مطلب میں سوا اس آڑ باطنی اور معنوی کے داخل ہے۔ بزار نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے 4 ؎۔ آخر آیت میں فرمایا کہ جب قرآن کی آیتوں میں اللہ کی وحدا نیت کا ذکر آتا ہے تو یہ مشرک لوگ پیٹھ موڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ صحیح سند سے مسند امام احمد ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابو طالب کی بیماری کے وقت چند مشرکین مکہ اور اللہ کے رسول ﷺ ایک مجلس میں جمع ہوئے اور اس مجلس میں جب اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر کیا تو یہ مشرک لوگ غصہ ہو کر اس مجلس سے چلے گئے۔ آخر آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ جب اللہ کی توحید کا ذکر آتا تو یہ مشرک لوگ پیٹھ موڑ کر بھاگ جاتے ہیں یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ سورة ص کی تفسیر میں یہ ابو طالب کی بیماری کا قصہ تفصیل سے آوے گا 5 ؎۔ 1 ؎ تفسیر ہذاص 50 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر المنثور ص 186 ج 4۔ 3 ؎ فتح البیان تفسیر سورة تبت۔ 4 ؎ ایضا۔ 5 ؎ ملا خطہ ہو تفسیر ابن کثیر ص 28 ج 4۔
Top