Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 44
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
تُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَهُ : اس کی السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) السَّبْعُ : سات وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان میں وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتی ہے بِحَمْدِهٖ : اس کی حمد کے ساتھ وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَفْقَهُوْنَ : تم نہیں سمجھتے تَسْبِيْحَهُمْ : ان کی تسبیح اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : بردبار غَفُوْرًا : بخشنے والا
ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اسکی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے بیشک وہ بردبار (اور) غفار ہے۔
44:۔ جس طرح بیت آدم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف زبانیں بنائی ہیں کوئی عربی بولتا ہے کوئی ترکی کوئی فارسی جب تک ایک فرقہ خاص طور پر دوسرے فرقے کی زبان نہ سیکھے اپنی زبان کے سوا دوسری زبان کا ایک لفظ نہیں جانتا اسی طرح اللہ نے زمین آسمان ‘ جھاڑ پھاڑ ‘ سب کو ایک ایک زبان دی ہے وہ اپنی زبان میں رات دن اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں ہر فرقہ انسانی کا دوسرے فرقے انسانی سے میل جول دنیا کی آبادی کی غرض سے اللہ کو منظور ہے اس لیے ایک ملک کا آدمی ضرورت سے دوسرے ملک کی زبان کو سیکھنا چاہے تو یہ بات اللہ تعالیٰ نے حد تعلیم انسانی پر انسان کے اندر رکھی ہے جھاڑ پھاڑ کی۔ زبان سے اس طرح کی کوئی غرض انسانی کا تعلق نہیں ہے اس لیے جھاڑ پھاڑ کی زبان کی سمجھ عام لوگوں کے فہم سے ایک غیر چیز ہے مگر جس طرح خاص خاص ایک فرقہ کے لوگ دوسرے فرقے انسانی کی زبان سیکھ لیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کو اپنے علم خاص سے بہرہ مند فرماتا ہے وہ جھاڑ پھاڑ کی زبانیں سمجھتے ہیں چناچہ اس باب میں قرآن شریف کی آیتیں اور بہت حدیثیں اور آثار ہیں 1 ؎۔ کسی قدر ان میں سے بیان کیے جاتے ہیں قرآن شریف میں تسبیح کی سورتیں بعض تسبح کے لفظ سے شروع ہوئی ہیں اور بعض یسبح کے لفظ سے جس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ آسمان و زمین کل چیزیں اپنی زبان میں ہر وقت اللہ کو یاد کرتی ہیں اور اس کے نام تسبیح پڑھتی ہیں ان تسبیح کی آیتوں کی تفسیر صحیح حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہیں چناچہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ کھانا کھاتے وقت کھانے کی تسبیح کی آواز ہم صحابہ لوگ سنا کرتے تھے 2 ؎۔ صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو پتھر نبوت سے پہلے مجھ سے سلام علیک کیا کرتا تھا اس کو خوب پہچانتا ہوں 3 ؎۔ بخاری میں حضرت عبد اللہ ؓ بن عمر سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے آنحضرت ایک کھجور کی لکڑی پر چڑھ کر خطبہ پڑھا کرتے تھے جب آپ کے خطبہ پڑھنے کے لیے ممبر بن گیا تو آپ ﷺ نے اس لکڑی پر خطبہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ اس غم سے وہ لکڑی کا ٹکڑا ایسا رویا کہ آپ ﷺ نے اور اصحاب نے اس کے رونے کی آواز سنی اور آپ بےتاب ہو کر ممبر سے اترے اور اس لکڑی کے ٹکڑے کو اپنا منہ لگا کر کچھ بات چپکے سے اس سے کہی جب وہ لکڑی کا ٹکڑا چپ ہوا۔ مسند امام احمد وغرا میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ اپنے ہاتھوں میں کنکر اٹھاتے تھے تو شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کی طرح ان کنکریوں کی تسبیح کی آواز ہم لوگ سنا کرتے تھے 4 ؎۔ نسائی میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا مینڈک کو مت مارو اس کا بولنا اللہ کی تسبیح ہے 5 ؎۔ اوپر صحیح بخاری اور مسلم کی روایتیں گزری ہیں ان سے مسند امام احمد اور نسائی کی روایتوں کو پوری تقویت ہوجاتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بعضے علماء نے یہ جو لکھا ہے کہ جن و انسان کے سوا اور چیزیں زبان حال سے اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ یہ قول صحیح نہیں بلکہ اکثر حدیثوں اور آثار سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز اللہ نے ایک خاص گویائی دی ہے اس گویائی سے وہ چیز اللہ کی تسبیح میں مشغول ہے اور اکثر سلف کا یہ مذہب ہے کہ چیز کی ایک زندگی کی سی حالت ہے مثلا پیڑ کا ہرا رہنا ‘ کپڑے کا میلا اور پرانا نہ ہونا ایسی حالت تک ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اس مذہب کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کی روایت صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ہے اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا گذر ایک روز دو قبروں پر ہوا اور آپ نے فرمایا ان دونوں قبروں میں جو مردے دفن ہیں ان پر عذاب قبر ہو رہا ہے ایک شخص ان دونوں مردوں میں سے پیشیاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہیں کیا کرتا تھا اس کے عذاب میں پکڑا گیا اور دوسرا شخص چغلخوری کے عذاب میں گرفتار ہے۔ یہ فرما کر آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی درخت کی لے کر اس کی دو شاخیں کیں اور دونوں شاخیں ان دونوں قبروں پر لگا دیں اور یہ فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں گی شاید ان دونوں کے عذاب میں تخفیف رہے گی 6 ؎۔ اس حدیث سے علماء نے یہ مطلب نکالا ہے کہ ہری شاخ اللہ کی تسبیح کرتی تھی اسی تسبیح کے اثر سے عذاب میں تخفیف ہوئی تھی جب وہ شاخیں سوکھ گئیں اور تسبیح الٰہی بند ہوگئی تو وہ اثر بھی جاتا رہا جس اثر سے عذاب کی تخفیف ہوئی تھی پھر عذاب بد ستور قائم ہوگیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی ایک حدیث گزر چکی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بردباری ہے کہ مشرک لوگ اس کی تعظمم میں غیروں کو شریک کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے رزق اور صحت کے انتظام میں کچھ خلل نہیں ڈالتا۔ یہ حدیث انہ کان حلیما غفورا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سوا ان مشرکوں کے اور سب چیز خالص اللہ کی عبادت کرتی ہیں اور یہ مشرک لوگ اگرچہ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی بردباری سے ان پر کسی عذاب کے نازل کرنے میں جلدی نہیں کرتا اور ان کے رزق اور صحت کے انتظام کو بحال رکھتا ہے۔ 1 ؎ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کیثرص 420 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیرص 42 ج 3۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 524 باب علامات النبوۃ۔ 4 ؎ اور تفصیلا البدایہ والنہایہ ص 132 ج 6 میں براوایت حضرت ابودر ؓ دلائل النبوۃ بیہقی کے حوالہ سے ہے قدرے الفاظ بھی مختلف ہیں (ع ح) ۔ 5 ؎ تفسیر ابن کثیرص 42 ج 3۔ 6 ؎ تفسیر ابن کیثرص 42 ج 3 و صحیح بخاری ص 182 ج اباب الجرید علی القبر 12 منہ۔
Top