Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے اور انسان دل کا بہت تنگ ہے۔
100۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قریش کی ان باتوں کا ذکر فرمایا تھا جن باتوں کا ضد سے معجزہ کے طور پر وہ ظاہر ہونا چاہتے تھے ان باتوں میں قریش نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہوجائے گا تو ہم مسلمان ہو کر اس سونے کو ہر طرح سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے یہ اس کا جواب اللہ نے دیا ہے کہ ایک صفا پہاڑ تو کیا دنیا میں جتنی سونے چاندی کی کانیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ کی موجود ہیں ان سب کے یہ مالک بن جائیں جب بھی خرچ کرنے میں دل تنگی کریں گے کیونکہ ہر انسان کی جبلی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ مال کے خرچ کرنے میں تنگدلی کرتا ہے۔ یہاں بعضے مفسروں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ بعضے آدمی ذاتی سخی ہوتے ہیں پھر سب آدمیوں کو جو آیت میں دل تنگ فرمایا گیا ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ دنیا دار دنیا کی نمود کے لیے اور دین دار دین کے اجراء کے لیے سخاوت کرتے ہیں یہ اوپری سبب ہیں جن کے تصور سے آدمی میں سخاوت آجاتی ہے ورنہ ہر دل میں مال کی محبت ہے جس نے دل کو پیدا کیا ہے اس سے بڑھ کر دل کا حال کون جان سکتا ہے اسی واسطے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی جو روایت ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کا پیٹ مال سے اس وقت تک نہیں بھرتا جب تک قبر کی مٹی اس کے پیٹ میں نہ بھرے جائے۔ 1 ؎ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 450 باب العمل والحرص۔
Top