Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 67
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَجَآءَ : اور آئے اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : شہر والے يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے
اور اہل شہر (لوط کے پاس) خوش خوش (دوڑے) آئے۔
67۔ 72۔ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم کو یہ خبر ہوگئی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں دو تین مہمان آئے ہیں تو وہ لوگ دوڑے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے مکان پر آئے اور ان مہمانوں کو خوبصورت چودہ پندرہ برس کے کم سن دیکھ کر اپنے جی میں بہت خوش ہوئے۔ لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے کہا کہ یہ لوگ میرے عزیز مہمان ہیں ان کی طرف کسی قسم کا برا خیال نہ کرو اور میری رسوائی نہ چاہو اور خدا سے ڈرو کسی کی آبرو کے پیچھے پڑنے سے کیا حاصل۔ کیوں میری عزت کے در پے ہورہے ہو۔ ان کی قوم نے جواب دیا کیا ہم نے تم کو منع نہیں کر رکھا ہے کہ تم کسی کی حمایت نہ تم کسی کو کیوں اپنا مہمان بناتے ہو ساری دنیا سے تمہیں کیا سرو کار سورت ہود میں ترتیب کے ساتھ یہ قصہ بیان ہوچکا ہے یہاں قصے میں ترتیب نہیں ہے سورت ہود میں لوط (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ یہ مہمان دراصل فرشتے ہیں جب قوم نے بےحد اصرار کیا اور کوئی بات نہ مانی تو فرشتوں نے کہا تھا کہ تم اپنے دل میں رنجیدہ نہ ہو یہ ہمارا کیا کرسکتے ہیں ہم آدمی نہیں ہیں خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ اسی قوم کو اس کے بد افعال کی سزا دینے آئے ہیں غرض کہ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بہتیرا سمجھایا یہاں تک کہا کہ تمہیں لڑکوں کے ساتھ فعل بد کے مرتکب ہونے سے شرم نہیں آتی لو یہ میری لڑکیاں حاضر ہیں ان سے نکاح کرلو خدا نے عورتوں کو مردوں کے واسطے پیدا کیا ہے ان سے نفع اٹھاؤ۔ اور لڑکوں کی رغبت چھوڑ دو لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کرنے کی عادت سے کیوں اپنے کو ہلاک کرنا چاہتے ہو سورت قمر میں آوے گا کہ جب ان لوگوں نے حضرت لوط کی نصیحت نہ سنی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھس جانے اور مہمانوں کو چھین لینے کا ارادہ کیا تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ایک پر مار کر ان سب کو اندھا کردیا یہ لوگ صبح کر پھر آنے کی دھمکی دے کر وہاں سے خبر دیتا ہے کہ اے ہمارے رسول ہم تیری حیات اور عمر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی بد مستی میں بیہوش ہو رہے تھے وہ کب کسی کی سنتے مفسروں نے یہاں یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت کی عمر کی قسم جو اللہ پاک نے کھائی ہے اس سے آپ کا مرتبہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ اور کسی رسول و نبی کی حیات کی قسم اللہ تعالیٰ نے نہیں کھائی ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی جان ایسی نہیں پیدا کی جو حضرت رسول مقبول ﷺ سے بڑھ کر ہو اور اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی جان کی قسم نہیں کھائی سوائے حضرت محمد ﷺ کی جان کے 1 ؎۔ جیسا اس آیت میں مذکور ہوا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ ؓ اشعری کی حدیث جو اوپر گزر چکی 2 ؎ ہے، اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ تک ان لوگوں کی سرکشی کا یہ حال تھا کہ اللہ کے رسول کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھس جاتے اور مہمانوں کے چھین لینے پر مستعد تھے مہلت کا وقت گزرتے ہی آنکھوں سے اپاہج اور اسی اپاہجی کی حالت میں تھوڑی دیر کے بعد ہلاک ہوگئے اور صبح کو پھر اللہ کے رسول کے گھر پر چڑھ کر آنے اور مہمانوں کو زبردستی چھین لینے کی دھمکی جو ان لوگوں نے دی اس دھمکی کے ظہور کی تمنا ان لوگوں کے دل میں ہی رہی۔ معتبر سند سے مسند ابو یعلی میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول ہے جس میں انہوں نے لعمرک کی تفسیر بحیاتک فرمائی ہے 3 ؎۔ معتبر سند سے طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عین صبح کی اذان کے وقت قوم لوط پر عذاب آیا۔ 1 ؎ تفسیر ابن جریر ص 44 ج 14۔ 2 ؎ یعنی صفحہ 299 پر۔ 3 ؎ مجمع الزوائد ص 46 ج 7 تفسیر سورت الحجر۔
Top