Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 63
قَالُوْا بَلْ جِئْنٰكَ بِمَا كَانُوْا فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ
قَالُوْا : وہ بولے بَلْ : بلکہ جِئْنٰكَ : ہم آئے ہیں تمہارے پاس بِمَا : اس کے ساتھ جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَمْتَرُوْنَ : شک کرتے
وہ بولے کہ (نہیں) بلکہ ہم آپ کے پاس وہ چیز لے کر آئے ہیں جس میں لوگ شک کرتے تھے۔
63۔ 64۔ اب یہاں سے لوط (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوا فرشتے خدا کے بھیجے ہوئے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے ہو کر یک بیک لوط (علیہ السلام) کے یہاں پہنچے وہ ان کو خوبصورت نو عمر لڑکے دیکھ کر ڈرے کہ یہ لوگ کسی اور شہر کے رہنے والے ہیں یہاں جو اس طرح آگئے ہیں بڑی قباحت کی بات ہے میری قوم کو لڑکوں سے بد فعلی کرنے کی عادت ہے جس وقت ان لوگوں کو ان نو عمر لڑکوں کے آنے کی خبر معلوم ہوگی تو فوراً یہاں آجائیں گے اور مجھ سے سخت جھگڑا ہوگا دیکھئے کیوں کر ان سے پیچھا چھوٹتا ہے اسی خیال سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان آنے والوں سے کہا کہ تم کون لوگ ہو ہم تمہیں نہیں پہچانتے ان فرشتوں نے کہا کہ ہم خدا کے بھیجے ہوئے ہیں آپ کچھ خوف نہ کریں ہم اس قوت کی سرکوبی کے لئے آئے ہیں اب ان لوگوں کو عذاب کے آنے کا پورا یقین ہوجائے گا اور ہم جو کچھ کہتے ہیں اس میں ذرا بھر فرق نہیں ہے۔ ہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ ہلاک ہوں گے۔ سورت اعراف میں گزر چکا ہے کہ حضرت لوط کی قوم کے لوگ حضرت لوط کو بستی سے نکال دینے کی دھمکی دیا کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو الٹ دینے کا حکم دیا تھا کہ یہ لوگ اللہ کے رسول کو جس بستی سے نکال دینے کی دھ کی دیتے تھے اس بستی کا نام بھی دنیا میں باقی نہ رہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی 1 ؎ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے اس طرح کے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے اور جب پکڑتا ہے تو ان کو بالکل غارت کردیتا ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب تک مہلت کا زمانہ رہا قوم لوط (علیہ السلام) کے لوگ طرح طرح سے جھگڑتے اور اللہ کے رسول کو بستی سے نکال دینے کی دھمکی دیتے رہے جب عذاب کا وقت آگیا تو خود ہی بستی سے ایسے نکلے کہ سیدھے جہنم کو گئے اور بستی بھی اوندھی ہوگئی۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 205، 215، 224، 235۔ 276۔ 282۔
Top