Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 4
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا وَ لَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ
وَمَآ : اور نہیں اَهْلَكْنَا : ہم نے ہلاک کیا مِنْ : کسی قَرْيَةٍ : بستی اِلَّا : مگر وَلَهَا : اس کے لیے كِتَابٌ : ایک لکھا ہوا مَّعْلُوْمٌ : مقررہ وقت
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس کا وقت (مرقوم و) معین تھا۔
4۔ 5۔ اس آیت میں اس بات کی خبر دی گئی کہ کوئی گاؤں بغیر حجت تمام کئے ہوئے ہلاک نہیں کیا گیا اور جب تک اس کا مقرر وقت نہ آچکا عذاب نہیں نازل کیا گیا جب کسی قوم کا وقت مقرر آجاتا ہے تو پھر نہ اس سے گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے اجل کے معنے وقت مقررہ کے ہیں اس سے زیادہ اس کی تفصیل سورت انعام میں گزر چکی ہے۔ اس آیت میں اہل مکہ کو جو کافر اور مشرک تھے خوف دلایا گیا ہے کہ تم جس کفر اور شرک پر جمے بیٹھے ہو ایک روز یہ کفر اور شرک جڑ سے اکھڑ جاوے گا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھا 1 ؎ ہے۔ یہ حدیث کتاب معلوم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے ہر کام کا وقت دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے لکھا جا چکا ہے اس واسطے ہر کام اپنے وقت مقررہ پر ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ عذاب کی جلدی جو کرتے ہیں پہلی امتوں کی طرح ان کے حق میں بھی عذاب کا وقت مقررہ جب آجاوے گا تو ان کو اس جلدی پر پچھتانا پڑے گا۔ صحیح سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت جس کا حاصل یہ ہے کہ عذاب کی جلدی کرنے والے مشرکین مکہ میں سرکش ابو جہل وغیرہ جب بدر کی لڑائی میں مارے گئے تو مرنے کے بعد اپنی حالت پر ان کو پچھتانا پڑا مگر یہ بےوقت کا پچھتانا کچھ ان کے کام نہ آیا وقت مقررہ پر ان سرکشوں کے مارے جانے کے قصہ کو اور فتح مکہ کے قصہ کو بھی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ بدر کی لڑائی کا قصہ پہلے گزر چکا ہے۔ فتح مکہ کے وقت ان مشرکوں کی کمزوری جس حد تک پہنچی اس کا ذکر بھی ایک جگہ گزر چکا 2 ؎ ہے کہ اللہ کے رسول نے ان کے جھوٹے معبودوں کو لکڑیاں مار مار کر زمین پر گرادیا۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 335 باب حجاج آدم و موسیٰ ۔ 2 ؎ جلد ہذا ص 235۔ 255۔ 271۔
Top