Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
45۔ 50۔ اللہ پاک نے دوزخ والوں کا حال بیان کر کے اہل جنت کا ذکر کیا کہ متقی لوگ جنت کے باغ اور نہروں میں ہوں گے اور صحیح وسالم وہاں رہیں گے کوئی رنج کوئی تکلیف کوئی بیماری وہاں نہیں ہوگی اور دنیا میں جنتی دو شخصوں کے درمیان شکر رنجی ہوگی وہ رنج و کدورت ان کے دلوں سے نکال دی جاوے گی اور جنت میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے مسندوں پر بیٹھے ہوں گے 1 ؎۔ بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ دس صحابہ ہیں حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، زید، عبد اللہ بن مسعود ؓ ان کے دلوں میں آپس میں جو کچھ دنیا میں ملال تھا وہ جنت میں بالکل نہیں رہے گا اور آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے اور جنت میں کسی قسم کی مشقت وغیرہ نہ ہوگی اور نہ لوگ وہاں سے نکلیں گے بلکہ نہایت آرام کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اس کے بعد حضرت صلعم کو اللہ پاک نے یہ ارشاد فرمایا کہ میرے بندوں کو یہ خبر دیدو کہ میں رحمت والا بھی ہوں اور میرا عذاب بھی سخت ہوا کرتا ہے تفسیر ابن ابی حاتم میں مصعب بن ثابت کی روایت سے جو حدیث ہے اس میں ( نبئی عبادی انی انا الغفور الرحیم۔ وان عذابی ھو العذاب الالیم) کی شان نزول یہ ہے کہ حضرت رسول خدا ﷺ اپنے چند صحابہ کی طرف ایک روز جا نکلے وہ لوگ ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا جنت اور دوزخ کو یاد کرو تو آیت اتری 2 ؎، اور قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں یوں کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر بندہ خدا کی رحمت کی قدر جانے تو کبھی گناہوں سے نہ بچے اور اگر اس کے عذاب کو جان لیوے تو اپنے کو ہلاک کر ڈالے 3 ؎، اس کے بعد کی آیتوں میں اللہ پاک نے اپنے اگلے رسولوں کے قصہ کو بیان کیا تاکہ لوگ اس کی عبادت کی رغبت کریں اور گناہوں سے بچیں اور بد بختوں کا انجام سن کر اس سے عبرت پکڑیں۔ اس جگہ چار قصے بیان کئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا لوط (علیہ السلام) کا شعیب (علیہ السلام) کا پھر صالح (علیہ السلام) کا اور پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ سے شروع کیا ہے۔ ان قصوں میں نیک فرمانبردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے امن میں رکھا اور عذاب سے بچایا ہے۔ اور نافرمان لوگوں کو طرح طرح کے عذاب سے ہلاک کیا ہے اس واسطے یہ قصے اللہ کی رحمت اور اس کے عذاب کی گویا تفسیر ہیں اوپر دس صحابہ کی آپس میں رنجش اور ملال ہونے کا جو ذکر گزرا یہ روایت تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے حوالے سے 4 ؎ ہے۔ بعضے سلف نے اس روایت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے قبائل جو آپس میں لڑتے رہتے تھے اس زمانہ کی حق العباد کے طور کی کچھ خفگی جو ان لوگوں کے دل میں ہوگی تو جنت میں جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کو آپس کی محبت سے بدل دیوے گا۔ اس قول کی تائید ابو سعید خدری ؓ کی صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا پل صراط سے اتر جانے کے بعد دوزخ اور جنت کے درمیان میں ایک پل ہے وہاں اہل جنت کو روکا جا کر ان کی آپ کی رنجش دور کردی جاوے گی 5 ؎۔ تذکرہ قرطبی میں حضرت علی ؓ کا ایک قول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے قابل جنت لوگوں کو ایک چشمہ میں نہانے کا حکم ہوگا جس سے ان کی آپس کی رنجش دور ہوجاوے گی 6 ؎۔ یہ چشمہ اسی پل کے پاس ہے جس کا ذکر ابو سعید خدری ؓ کی اوپر کی حدیث میں ہے۔ 1 ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جیسا کہ ابھی آتا ہے۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 552 ج 2۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 553 ج 2۔ 4 ؎ تفسیر الدرالمنثور ص 1: 1 ج 4۔ 5 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 552 ج 2۔ 6 ؎ مختصر تذکرۃ قرطبی ص 109۔
Top