Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 39
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب بِمَآ : جیسا کہ اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاُزَيِّنَنَّ : تو میں ضرور آراستہ کروں گا لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ : اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان کو اَجْمَعِيْنَ : سب
(اس نے) کہا پروردگار جیسا تو نے مجھے راستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے (گناہوں کو) آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا۔
39۔ 40۔ مسند امام احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت 1 ؎ میں شیطان کے اس قول کی اور اس قول کے جواب کی جو اللہ تعالیٰ نے شیطان کو دیا ہے پوری تفسیر ہے جس کو اس آیت کی تفسیر کہنا چاہیے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا 2 ؎ ہے۔ حاصل مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے اللہ کی عزت کی قسم کھا کر یہ کہا کہ جب تک ہر انسان میں جان باقی ہے جس طرح اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا ہر ایک آدمی کو بہکانے میں اور بہکا کر ہر طرح کے برے کام ان سے کرانے میں کوتاہی نہ کروں گا اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے عزت و جلال کی قسم کھا کر شیطان کو جواب دیا کہ میں بھی جب تک مجھ سے وہ تیرے بہکائے ہوئے گنہگار توبہ و استغفار کریں گے ان کو بخشے ہی جاؤں گا اس سے معلوم ہوا کہ شیطان بہکانے سے نہیں تھکتا اور اللہ بخشنے اور مغفرت اور توبہ کے قبول کرنے سے نہیں تھکتا گنہگار بندہ ہی اپنی بےنصیبی سے توبہ و استغفار کرنے سے تھک جاوے تو تھک جاوے صحیحین میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح خون آدمی کے سارے جسم میں چکر مارتا ہے اسی طرح شیطان آدمی کے سارے جسم کو ہر وقت گھیرے رہتا ہے 3 ؎ اور مسلم میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان بادشاہوں کی طرح سمندر کے پانی پر اپنا تخت بچھا کر بیٹھتا ہے اور اپنے شیاطینوں کو لوگوں کے بہکانے کے لئے بھیجتا ہے کوئی شیاطین میاں بی بی میں لڑائی کروا دیتا ہے تو اس سے بہت ہی خوش ہوتا ہے اور اس کو گلے سے لگاتا ہے اور کہتا ہے تو نے بڑا کام کیا 4 ؎۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شیاطین اور ایک فرشتہ ہر انسان پر تعینات ہے فرشتہ ہر وقت نیک کام کی صلاح دیتا رہتا ہے اور شیطان بد کام کی رغبت ہر وقت دلاتا 5 ؎ رہتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ نیک کام کی توفیق کے وقت اللہ کا شکر کرے اور برے کام کے خیال کے وقت لا حول پڑھے حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے خدا نے پیدا کی ہے۔ مال اولاد جہاں اور امتحان کی چیزیں ہیں وہاں شیطان اور اس کے شیاطین بھی ایک امتحان کی چیز ہے۔ اس امتحان میں پورا اترنے کا اول اور اعلیٰ درجہ توبہ ہے کہ آدمی شیطان کے بہکاوے میں نہ آوے لیکن یہ درجہ ہر انسان کے لئے مشکل ہے ہاں اس درجہ کے حاصل کرنے کی ہر انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ شیطان کے بہکانے سے جب کوئی گناہ کرے تو فوراً صدق دل سے توبہ و استغفار کرلے کیونکہ ترمذی اور ابوداؤد اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی روایت میں یہ آچکا ہے کہ دن میں ستر دفعہ بھی کوئی شخص گناہ کر کے توبہ کرے تو وہ شخص گناہوں پر اصرار کرنے والا نہ لکھا جاوے گا۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 6 ؎۔ مسند امام احمد ترمذی ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر گناہ سے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے اگر آدمی فوراً توبہ کرتا رہے تو وہ دھبہ بڑھنے نہیں پاتا ورنہ بغیر توبہ کے گناہ پر گناہ کرنے سے سارے دل پر زنگ آجاتا ہے ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا کہا ہے 7 ؎۔ 1 ؎ تفسیر ہذا جلد اول ص 368 وجلد دوم ص 237 و جلد ہذا ص 221۔ 2 ؎ الترغیب ص 295 ج 1 باب الاستغفار۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 18 باب فے الوسوسۃ۔ 4 ؎ مشکوٰۃ ص 18 باب فے الوسوستہ۔ 5 ؎ جلد ہذا کے ص 261، 285 پر حوالہ دیکھئے۔ 6 ؎ تنقیح الرواۃ ص 82 ج 2 باب الاستغفار والتوبۃ۔ اور صحیح ابن حبان کی سند بھی صحیح ہے ترمذی ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر انسان گنہگار ہے مگر وہ گنہگار خوب ہیں جن کو توبہ نصیب ہو حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 2 ؎ (2 ؎ الترغیب ص 220 ج 2 الترغیب فی التوبۃ۔ 7 ؎ مشکوٰۃ ص 4۔ 2 باب الاستغفار والتوبۃ۔
Top