Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 34
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۙ
قَالَ : اس نے کہا فَاخْرُجْ : پس نکل جا مِنْهَا : یہاں سے فَاِنَّكَ : بیشک تو رَجِيْمٌ : مردود
(خدا نے) فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے۔
34۔ 38۔ جب شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کی راہ سے اپنے کو آدم سے افضل سمجھا تو اللہ پاک کا یہ حکم اس کے حق میں صادر ہوا کہ تو فرشتوں کے زمرہ سے نکل جا اور اگر کبھی ادھر کا قصد کرے تو تجھ پر انگارے برسیں گے اور قیامت تک تجھ پر پھٹکار ہوتی رہے گی یہاں مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ قیامت تک پھٹکار ہونے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ قیامت کے بعد پھر اس پر لعنت نہ ہوگی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک صرف لعنت ہی لعنت ہے اور بعد قیامت کے لعنت سے بڑھ کر اس پر عذاب بھی ہوگا۔ اس عذاب کے سامنے وہ اس پھٹکار کو بھول جائے گا بہر حال جب اس کو یہ معلوم ہوگیا کہ خدا نے قیامت تک عذاب کو اس کے حق میں موقوف رکھا ہے تو اس نے خدا سے یہ سوال کیا کہ مجھے اس وقت معلوم تک ڈھیل دی جائے اور میں اس روز تک زندہ رہوں۔ اس سے پہلے نہ مروں اللہ جل شانہ نے اس کی بات منظور کی اور فرمایا کہ اس وقت معلوم تک تجھ کو ڈھیل دی گئی اور اس سے پہلے تجھے موت بھی نہیں آئے گی۔ اس نے اس خیال سے قیامت تک زندہ رہنے کا سوال کیا کہ آدم کی اولاد جب تک زندہ رہے گی میں اس کو بہکا بہکا کر راہ راست سے علیحدہ رکھوں گا اور جس طرح آخرت میں مجھ پر عذاب ہوگا اسی طرح آدم (علیہ السلام) کی اولاد پر بھی عذاب ہوتے دیکھوں گا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہ قول ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) جو پہلی مرتبہ صور پھونکیں گے جس سے کل مخلوق بیہوش ہوجائے گی اس وقت تک ابلیس کی موت ٹل گئی ہے پہلے صور پر سب لوگوں کے ساتھ یہ بھی بیہوش ہوجائے گا پھر دوسرا صور چالیس برس کے بعد پھونکا جائے گا جس سے کل لوگ ہوشیار ہوں گے یہاں تک کہ قبروں سے مردے بھی جی اٹھیں گے اس وقت ابلیس بھی اٹھے گا اور یہی چالیس برس تک اس کا بیہوش پڑا رہنا گویا اس کی موت ہے۔ اگرچہ حکم الٰہی کی مخالفت اور گنہگاروں سے بھی ہوجاتی ہے کیونکہ گناہ کا ہر ایک کام حکم الٰہی کے مخالف ہے لیکن شیطان نے یہ نافرمانی تکبر کی راہ سے کی اور سرکشی سے اس کا اقرار اللہ تعالیٰ کے روبرو کر کے پھر اس پر اصرار بھی کیا اس لئے اللہ تعالیٰ کی اس پر یہ خفگی ہوئی کہ بغیر توبہ کی توفیق کے اس کو ہمیشہ کے لئے ملعون ٹھہرا دیا برخلاف آدم (علیہ السلام) کے کہ وہ گیہوں کھا کر نادم اور پشیمان ہوئے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی۔ معتبر سند سے طبرانی اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے تکبر کو اللہ تعالیٰ کے غصہ کا سبب فرمایا 1 ؎ ہے یہ حدیث شیطان کے آسمان پر سے اتارے جانے اور ہمیشہ کے لئے ملعون ٹھہرنے کی گویا تفسیر ہے۔ 1 ؎ الترغیب ص 187 ج 2 مطلب فی مادرد فی الکبر
Top