Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
26۔ 27۔ فرمایا کہ انسان کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا اور جن کو آگ کی لو سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ و مجاہد و قتادہ کا قول ہے کہ صلصال خشک مٹی کو کہتے ہیں اور حما مسنون گوندھی ہوئی کیچڑ کو کہتے ہیں اللہ پاک نے جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو پاک و صاف سوکھی مٹی کو پانی میں گوندھ کر خمیر بنایا اور اس سے آدم (علیہ السلام) کا پتلا بنا کر اس میں روح کو پھونک دیا ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کا پتلہ بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کی مٹی لی ہے۔ اسی واسطے اولاد آدم کی حالت مختلف ہے کوئی گورا ہے کوئی کالا کوئی خوش مزاج ہے اور کوئی بد مزاج۔ ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 1 ؎۔ یہ حدیث اس بات کی تفسیر ہے کہ آیت میں انسان سے مقصود آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ اس حدیث کے موافق ان ہی کے پتلہ کے لئے تمام زمین کی مٹی لی گئی ہے پھر اس کے بعد اولاد آدم کی پیدائش کا سلسلہ منی سے جو قرار پایا ہے اس کا ذکر قرآن شریف اور صحیح حدیثوں میں جدا آیا ہے سورت بقرہ میں سلف کے قول گزر چکے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پیدا ہونے سے دو ہزار برس پہلے زمین پر جنات رہتے تھے وہی قول اس بات کی تفسیر ہے کہ جنات کی پیدائش انسان سے پہلے ہے سورت الرحمن میں آوے گا۔ { وخلق الجان من مارج من نار } [66۔ 151] اس کی تفسیر میں صحیح قول حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کو خالص آگ کی لو سے پیدا کیا ہے کہ اس میں دھویں کا کچھ ملاؤ نہیں 2 ؎ تھا۔ اگرچہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہی قول نارا لسموم کی تفسیر ہے لیکن بعض روایتوں میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے السموم کی تفسیر گرم ہوا کی بھی آئی ہے اوپر کی تفسیر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کا پتلہ مٹی اور پانی سے اور جنات کا پتلہ آگ کی لو سے بنا ہے لیکن حکماء کہتے ہیں کہ انسان میں مٹی کا جز اور جنات میں آگ کا غالب ہے ورنہ پوری سرشت دونوں پتلوں کی آگ پانی ہوا خاک ان چار چیزوں سے ہے 3 ؎۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا پتلہ بنا کر بغیر روح پھونکنے کے یونہی چھوڑ دیا تھا شیطان اس پتلے کو اندر سے خالی دیکھ کر یہ کہا کرتا تھا کہ جاندار ہونے کے بعد پتلہ کسی بات کی سہارا لور برداشت نہ کرسکے گا۔ اس حدیث سے حکما کے قول کے پابند لوگ یہ بات نکال سکتے ہیں کہ روح کے پھونکے جانے سے پہلے اس کھوکھلے پتلے میں ٹھنڈی گرم ہوا گھسی اور حکماء کے قول کے موافق آگ پانی ہوا خاک ان چار چیزوں سے پتلے کی سرشت قرار پائی مگر حکماء کے قول کی تائید میں کوئی صاف دلیل شرعی نہیں ہے۔ 1 ؎ تنقیح الرواۃ۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 550 ج 2۔ 3 ؎ ص 227 ج 2 باب خلق الانسان خلقا لا یتمالک عن انس ؓ ومشکوٰۃ ص 506 باب بدر الخلق الخ۔
Top