Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 25
وَ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ١ؕ اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تیرا رب هُوَ : وہ يَحْشُرُهُمْ : انہیں جمع کرے گا اِنَّهٗ : بیشک وہ حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اور تمہارا پروردگار (قیامت کے دن) ان سب کو جمع کرے گا وہ بڑا دانا (اور) خبردار ہے۔
25۔ اس سے اوپر کی آیت میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اللہ پاک نے ہر ایک شئی کو پیدا کیا ہے اور پھر وہی ہر شی کو ناپید بھی کرے گا اور جو لوگ مرچکے ہیں ان کو بھی وہ جانتا ہے اور جو لوگ موجود ہیں یا پیدا ہونے والے ہیں ان کی بھی اس کو خبر ہے۔ اس کے جتلانے کے بعد اب یہ فرمایا کہ اس نے اپنی حکمت اور علم کے موافق حشر کا دن قرار دیا ہے وہ لوگوں کو اس روز اکٹھا کرے گا اور نیک عمل کرنے والوں کو نیک جزا دے گا اور برے عمل کرنے والوں کو برائی کی سزا دے گا وہ بڑا حکمت والا ہے سب کام اس کی حکمت سے ہوا کرتے ہیں اس کا علم ایسا ہے کہ کوئی شئی اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سورت القلم میں آوے گا۔ { افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون } [68: 35] جس کا مطلب یہ ہے کہ سب کی آنکھوں کے سامنے دنیا کے حاکموں نے قصور دار لوگوں کو سزا دینے اور بےقصور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا قانون ٹھہرا رکھا ہے پھر یہ منکرین حشر اللہ تعالیٰ کی شان میں یہ ظلم اور ناانصافی کیوں کر جائز رکھتے ہیں کہ وہ اپنے نافرمان لوگوں کو اور فرمانبرداروں کو یکساں کر دیوے گا یہ ان منکرین حشر کی نادانی ہے جو یہ لوگ حشر کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کے انصاف کو دنیا کے حاکموں کے انصاف سے بھی گھٹانا چاہتے ہیں ورنہ حشر کے دن جو کچھ ہونے والا ہے ان منکرین حشر کی آنکھوں کے سامنے دنیا کے حاکم وہی ہر روز کر رہے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سورت القلم کی آیت اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی وہ حدیث قدسی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظلم میں نے اپنی ذات پر حرام ٹھہرا لیا ہے گویا اس آیت کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور اپنے علم کے موافق حشر کا دن جو قرار دیا ہے وہ عین انصاف اور دنیا کے انصاف پسند حاکموں کا بھی یہی شوہ ہے اور جو لوگ حشر کے منکر ہیں وہ بڑے ناداں ہیں کہ اللہ کی شان میں ظلم اور ناانصافی کو جائز رکھتے ہیں۔
Top