Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 24
وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ
وَلَقَدْ عَلِمْنَا : اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں الْمُسْتَقْدِمِيْنَ : آگے گزرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَلَقَدْ عَلِمْنَا : اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں الْمُسْتَاْخِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
اور جو لوگ تم میں پہلے گزر چکے ہیں ہم کو معلوم ہیں۔ اور جو پیچھے آنے والے ہیں وہ بھی ہم کو معلوم ہیں۔
24۔ ترمذی، نسائی، حاکم، ابن ماجہ وغیرہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وقت میں عورتیں اور مرد جماعت میں آن کر بعضی بد رویہ عورتیں اگلی صف میں اور بد رویہ مرد اس صف کی پچھلی صف میں کھڑے ہو کر وہ مرد عورتوں کو گھورتے رہتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے لیکن اس شان نزول میں تردد ہے کہ اس شان نزول کی روایت صحیح طور پر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ تک نہیں پہنچے کس لئے کہ ترمذی میں عمرو بن مالک سے نوح بن قیس اور جعفر بن سلیمان ان دونوں شخصوں نے اس شان نزول کو مختلف طور پر روایت کیا ہے جس میں نوح بن قیس نے تو روایت کو حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ تک پہنچایا ہے اور جعفر بن سلیمان نے نہیں پہنچایا بلکہ ابو جوزا اوس بن عبد اللہ تابعی پر ہی روایت کو موقوف رکھا ہے اور ترمذی نے جعفری بن سلیمان کی روایت کو بہ نسبت نوح بن قیس کی روایت کے زیادہ معتبر کہا ہے 1 ؎۔ اس سبب سے صحیح شان نزول وہی ہے جو معتبر سند سے تفسیر ابن جریر وغیرہ کی دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے آئی ہے کہ اولاد آدم میں سے جو لوگ آج تک مرچکے ہیں اور جو آیت کے نزول کے وقت موجود ہیں اور جو آئندہ پیدا ہوں گے 2 ؎۔ ان سب اگلے پچھلوں کا ایک ایک کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ اوپر کی آیت میں لوگوں کے مرنے اور اللہ کے ان کے وارث ہونے کا ذکر ہے اس لئے اس شان نزول کو سیاق کلام سے بھی ایک ربط اور لگاؤ اوپر کے کلام سے ہے۔ غرض یہ ہے کہ جب اس شان نزول کو مجاہد بن جبیر نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے جنہوں نے تیس دفعہ سارا قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے تفسیر کے آجانے اور روایتوں کے یاد رہنے کی غرض سے پڑھا ہے اسی واسطے سفیان ثوری ؓ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ تفسیر کے باب میں مجاہد کی روایت آجاوے تو پھر دوسرے کسی کی روایت کی ضرورت نہیں اور اسی واسطے امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں مجاہد کی روایت پر زیادہ بھروسہ کیا ہے تو یہی شان نزول زیادہ مقبول ہے۔ مشرکین مکہ کا حشر پہ یہ اعتراض تھا کہ انسان کے مرجانے کے بعد اس کی خاک رواں دواں ہوگئی تو پھر یہ خاک کیوں کر جمع ہوجاوے گی اور اس کا پتلہ کیوں کر بن جاوے گا اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس اعتراض کا جواب مختصر طور پر دیا ہے سورت ق میں آوے گا کہ ہوا میں اڑ جانے یا پانی کے ریلے میں بہ جانے سے انسان کی خاک جہاں جہاں رواں دواں ہوگی اس کا سب حال لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اس لئے آسانی سے وہ سب خاک جمع ہوسکتی ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث گزر چکی ہے 3 ؎۔ کہ ایک شخص نے اپنے مر نے کے بعد اپنی لاش کو جلانے کی اور آدھی خاک کو ہوا میں اڑا دینے اور آدھی کو دریا میں بہا دینے کی وصیت کی اور وصیت کے موافق عمل بھی ہوا۔ جنگل اور دریا میں سے اللہ تعالیٰ نے اس خاک کے جمع ہوجانے کا حکم دیا جب وہ خاک جمع ہوگئی تو اس کا پتلا بنایا گیا اور اس پتلے میں روح پھونکی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے یہ وصیت کیوں کی اس نے جواب دیا کہ یا اللہ مجھ کو تیرے روبرو کھڑے ہونے کی دہشت بہت تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے سب گناہوں کو معاف کردیا۔ رواں دواں خاک کے جمع ہوجانے کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 549۔ 550۔ ج 2 اور اس روایت کو بوجہ شدید ضعف مسترد کردیا ہے۔ 2 ؎ ص 319 ج 2 باب تحریم الظلم۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 22 باب الایمان بالقدر و جامع ترمذی ص 120 ج 2 تفسیر سورت البقر۔
Top