Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں
21۔ 23۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ جتنی چیزیں دنیا میں ہیں خواہ کسی قسم کی ہوں ان سب کا خزانہ اللہ کے پاس ہے۔ جب جتنی ضرورت ہوتی ہے اس میں سے ضرورت کے موافق دنیا میں اتاری جاتی ہیں۔ اکثر مفسرین خزائن کے معنے مینہ کا خزانہ بیان کرتے ہیں اور بقدر معلوم کی تفسیر میں یہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ کم بارش ہوتی ہے اور دوسری جگہ زیادہ ایک جگہ بالکل بارش نہیں ہوتی اور دوسری جگہ خوب ہوتی ہے اور بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو اس قطرے کو وہیں گرنے دیتے ہیں جہاں حکم ہوتا ہے اور یہ بات یاد رکھتے ہیں کہ اس قطرے سے کیا کیا پیداوار ہوئی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہوا کو حکم دیتا ہے وہ چلنے لگتی ہے اور بادلوں کو ادھر سے ادھر لی جاتی ہے اور جس طرح دودھ والے جانوروں کا دودھ دوہا جاتا ہے اسی طرح بادلوں میں سے مینہ برسنے لگتا ہے۔ جس سے ندی نالے تالاب بھر جایا کرتے ہیں اور لوگ پھر اس کو کام میں لاتے ہیں آپ بھی پیتے ہیں اپنے جانوروں کو بھی پلاتے ہیں اور کھیتوں اور باغوں کو سیراب کرتے ہیں کسی میں یہ قدرت نہیں ہے جو پانی کو جمع کر کے رکھ چھوڑے یہ اسی کی ادنیٰ قدرت اور بندوں پر مہربانی ہے کہ ہر جگہ خزانے پانی کے مہیا رکھتا ہے اگر وہ چاہے تو فوراً پانی خشک ہوجائے۔ سورت حم السجدہ میں آوے گا۔ { وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا } (41: 10) جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے کھانے پینے کی چیزیں اس طرح برکت دے کر زمین میں رکھی ہیں کہ ایک اناج کے دانہ سے سینکڑوں دانے اور ایک گٹھلی سے ہر طرح کے بہت سے پھل ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ مینہ برسنے سے پہلے ہوا کو حکم دیتا ہے وہ آسمان کے دریا میں سے پانی لے کر بادلوں میں پہنچاتی ہے اور پھر بادلوں میں سے پانی برستا 1 ؎ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کی قدرت سے ہر چیز کا ہمیشہ کے لئے جو یہ ذخیرہ ہے اسی کو فرمایا کہ جتنی چیزیں دنیا میں ہیں ان سب کا خزانہ اللہ کے پاس ہے اکثر سلف نے مینہ کو جو اللہ تعالیٰ کا خزانہ بتلایا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ زمین میں اللہ کی قدرت سے ہر چیز کی پیداوار کے جو خزانے ہیں ان کا ظہور مینہ کے سبب سے ہوتا ہے ایک سال مینہ نہ ہو تو اناج میوہ اور ترکاریوں کی پیداوار میں کمی پڑجاتی ہے اس لئے اصل سب چیزوں کا خزانہ گویا مینہ ہے ورنہ آسمان و زمین دونوں میں اللہ کے خزانے موجود ہیں چناچہ سورت انعام میں گزر چکا ہے کہ سب غیب کے خزانوں کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں سوا اس کے اور کسی کو ان کنجیوں کا حال معلوم نہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اس کے خزانوں میں سے بہتے ہوئے پانی کی طرح ہر چیز خرچ ہو رہی ہے مگر اس کے خزانوں میں کچھ کمی نہیں 2 ؎ ہوئی۔ صحیح مسلم میں ابوذر ؓ کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمام دنیا کے جنات اور انسان ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنا اپنا مطلب چاہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کے مطلب کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ کے خزانوں کے آگے یہ اتنا خرچ ہے جیسے دریا میں سے کوئی ایک سوئی ڈبو کر نکال لے 3 ؎۔ ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی کثرت اور ان کے بےانتہا ہونے کی تفسیر اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ پھر فرمایا یہ سب انتظام دنیا کے قیام تک ہے آخر جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے اسی کے حکم سے ساری دنیا فنا ہوجاوے گی اور دنیا کی چیزوں پر سے لوگوں کا عارضی قبضہ اٹھ کر سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے قبضے میں چلی جاویں گی۔ یہاں مختصر طور پر { وانا لنحن نحی و نمیت ونحن الوارثون } فرمایا سورت مریم میں آوے گا۔ { انا نحن نرث الارض ومن علیھا والینا یرجعون } [19: 4] ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کے فنا ہوجانے اور دنیا کی چیزوں پر سے لوگوں کا عارضی قبضہ اٹھ جانے کے بعد ان چیزوں کے برتنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہو کر یہ حساب دینا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو ان لوگوں نے کیوں کر برتا۔ ترمذی مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے ابو برزہ اور معاویہ بن جبل ؓ کی صحح روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں 4 ؎ کہ قیامت کے دن چار چیزوں کے حساب کے لئے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا (1) تمام عمر کن کاموں میں صرف کی (2) جوانی میں کیا کیا (3) دنیا میں مال کیوں کر کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا (4) دین کا کوئی مسئلہ سیکھا تو اس پر کیا عمل کیا۔ سورت مریم کی آیت اور اس حدیث سے { ونحن الوارثون } کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی اختیار کی چیزوں پر جس طرح کسی کا عارضی قبضہ نہ تھا دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد وہی حال پھر ہو آوے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس عارضی برتاؤ کا حساب ہر شخص سے لیوے گا۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر 549 ج 2۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 21 باب الایمان بالقدر۔ 3 ؎ ص 319 ج 2 باب تحریم الظلم (الترغیب ص 297 ج 1۔ 4 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 100۔
Top