بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 1
الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ
الٓرٰ : الف لام را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَ : اور قُرْاٰنٍ : قرآن مُّبِيْنٍ : واضح۔ روشن
الرا یہ (خدا کی) کتاب اور قرآن روشن کی آیتیں ہیں۔
1۔ الٓر حروف مقطعات میں سے ہے جن کا ذکر سورة بقرہ میں ہوچکا ہے کہ اس کے معنے سوائے خدا کے کسی کو نہیں معلوم اور جس طرح تمام سورتوں میں جو حروف مقطعات سے شروع ہوئی ہیں قرآن کی عظمت بیان فرمائی ہے اسی طرح اس سورت میں بھی حروف مقطعات کے بعد فرمایا کہ یہ سورت قرآن مجید کی آیتوں میں سے تھوڑی سی آیتیں ہیں اور پھر قرآن کی صفت بیان فرمائی کہ اس سے حق بات ناحق بات سے صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور معجزوں کے علاوہ مجھ کو قرآن شریف ہی کا ایک ایسا معجزہ دیا گیا ہے جس کے سبب سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور امتوں کے نیک لوگوں کی تعداد سے زیادہ ہو 1 ؎ گی۔ یہ حدیث { وقران مبین } کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کی آیتوں میں ایسی صاف صاف نصیحتیں ہیں جن سے قیامت تک بہت لوگوں کو ہدایت ہوگی اگرچہ بعضے سلف نے کتاب کی تفسیر تورات اور انجیل کو ٹھہرایا ہے مگر تورات اور انجیل کا اوپر کہیں ذکر نہیں ہے اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ کتاب اور قرآن شریف کی آیتوں میں ایسی صاف صاف نصیحتیں ہیں جن سے قیامت تک لوگوں کو ہدایت ہوگی اگرچہ بعضے سلف نے کتاب کی تفسیر تورات اور انجیل کو ٹھہرایا ہے مگر تورات اور انجیل کا اوپر کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ کتاب اور قرآن دونوں لفظوں سے قرآن ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ آیتیں ایسی صاحب عظمت کتاب کی ہیں جس کا نام قرآن ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 744 ج 2 باب کیف نزول الوحی
Top