Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلایا اور اس پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز اگائی۔
19۔ 20۔ آسمان چاند سورج تاروں کے پیدا کرنے کا حال بیان کر کے زمین کے پیدا کرنے کا ذکر کیا کہ ہم نے زمین کو مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک پانی پر بچھا دیا ہے اور اس پر جا بجا پہاڑوں کے بوجھ رکھ دئیے ہیں اور خوب اچھی طرح مضبوط کردیا ہے جس طرح کیلیں ٹھونک کر تخت وغیرہ مضبوط بنائے جاتے ہیں اور زمین میں سے طرح طرح کی اشیاء پھل میوے ترکاریاں غلے روٹی ان اسی طرح پہاڑوں میں سے چاندی سونے لوہے وغیرہ کی کانیں غرض ہر چیز نہایت موزو نیت سے پیدا کی اور اس میں تمہاری روزی رکھی ہے تم بھی کھاتے پیتے ہو اور اپنے بال بچوں کو بھی کھلاتے پلاتے ہو اپنے جانوروں کو بھی چراتے ہو اور جس مخلوق کو تم جانتے بھی نہیں کہ کہاں ہیں اور کیا ہیں ان کی بھی روزی خدا نے اسی زمین میں رکھی ہے یہ اسی خدا کا کام ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال لونڈی غلاموں اور سواری کے جانوروں کو بھی ہم دیتے ہیں تو کھاتے ہیں اگر ہم نہیں دیں گے تو بھوکے مریں گے یہ گمان تمہارا محض غلط ہے سب کی روزی خدا کے ہاتھ میں ہے وہی تم سے دلواتا ہے تو تم کیا دے سکتے ہو۔ سورت النمل میں آوے گا کہ جب زمین پانی پر بچھائی گئی تو ملتی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے خوب جم جانے کے لئے اس میں پہاڑ ٹھونکے۔ صحیح بخاری 1 ؎ کے حوالہ سے سعید بن زید ؓ کے قصہ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص بالشت بھر زمین بھی کسی کی ناحق طور پر دبا لیوے گا تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کے اسی قدر ٹکڑے کا ایک طوق بنایا جا کر اس شخص کے گلے میں ڈالا جاوے گا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد اور ترمذی میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کے راستے کا فاصلہ 2 ؎ ہے۔ سورت نحل کی آیت { والقی فی الارض رواسی ان تمید بکم } اور اوپر کی حدیثوں کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اوپر تلے سات زمینیں پانی پر لمبائی میں بچھائی گئی ہیں ایک زمین سے دوسری زمین پانسو برس کے راستے پر ہے اس سے اہل ہیئت کے اس قوت کا ضعیف ہونا نکلتا ہے کہ ایک زمین سے دوسری زمین تک کچھ فاصلہ نہیں ہے اور بعضے متکلمین نے یہ جو لکھا ہے کہ زمین ایک ہے سات نہیں ہیں یہ قول بھی سعید بن زید ؓ کی حدیث کے مخالف پڑتا ہے۔ معایش معیشت کی جمع ہے کھانے پینے پہننے کی وہ سب چیزیں معیشت کہلاتی ہیں جن پر آدمی کی زندگی کا مدار ہے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں معتبر سند سے حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے آدمی کا رزق 3 ؎ بڑھتا ہے۔ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ثوبان ؓ کی معتبر حدیث ہے کہ کثرت گناہوں کے سبب سے آدمی کے رزق گھٹ جاتا 4 ؎ ہے۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جس طرح آدمی کی معیشت کی چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اسی طرح ان کے گھٹتے اور بڑھتے کے اسباب بھی دنیا میں پیدا کئے ہیں۔ 1 ؎ ص 332 ج 1 باب اثم من ظلم شیأمن الارض۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص۔ 51 باب بدء الخلق الخ۔ 3 ؎ الترغیب ص 129 ج 2 الترغی فی الرحم۔ 4 ؎ الترغیب ص 123 ج 2 باب التزھیب من ارتکاب النفائر و المحضرات من الذنوب الخ۔
Top