Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کیلئے اس کو سجا دیا۔
16۔ 18۔ ان آیتوں میں اللہ پاک اپنی قدرت کا حال بیان فرماتا ہے کہ اس آسمان کو ہم نے کیسی حکمت اور ترکیب سے بنایا اس میں بڑے بڑے تاروں کے محل برجوں کی طرح بنائے ہیں اور چاند سورج ستاروں سے آسمان کو زینت دی ہے۔ آسمان میں بارہ برج ہیں ہر برج میں تیس تیس درجے جس میں آفتاب ہر روز سیر کرتا ہے ہر درجہ کو ایک ایک روز میں تمام کرتا ہے اور اس حساب سے تین سو ساٹھ دن میں یعنی ایک سال میں آسمان کا پورا دور ختم کرلیتا ہے جس کی وجہ سے جاڑا گرمی برسات کی فصلیں ہوتی ہیں اور ان فصلوں سے دنیا میں عجیب عجیب تغیر ہوتے رہتے ہیں اور طرح طرح کے نفع حاصل ہوتے ہیں جس دور کو سورج بیس دن میں پورا کرتا ہے چاند اس کو اٹھائیس دن میں پورا کرتا ہے اور جس طرح سورج کا دورہ فصلوں کے لئے ہے اسی طرح چاند کا دورہ مہینوں اور برس کے حساب کے لئے ہے چناچہ اس کا ذکر سورت یونس میں گزر چکا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ چاند سورج ستارے بروج ایسی کھلی کھلی دلیلیں ہیں جن سے ہر ذی ہوش خدا کی وحدانیت اور اس کے قادر ہونے پر دلیل پکڑ سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ فرمایا کہ آسمان کو اس بات سے محفوظ رکھا کہ شیاطین یہاں آکر فرشتوں کی باتیں سن جاویں اور دنیا میں جا کر نئے نئے شعبدے اٹھاویں کیونکہ جب وہ یہاں کا قصد کرتے ہیں فرشتے آگ کے انگارے لئے کھڑے رہتے ہیں اور پھینک مارتے ہیں یہ جل بھن کر راکھ ہوجا تے ہیں ابوہریرہ ؓ کی صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی حکم فرماتا ہے تو فرشتے تعظیم کے طور پر اپنے پر مارتے ہیں جس سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسے لوہے کی زنجیر پتھر پر رگڑی اور گھسیٹی جائے جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو آپس میں پوچھتے ہیں کہ ہمارے رب نے کیا ارشاد کیا پاس والے فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جو کچھ اس پاک اور برتر نے فرمایا بالکل ٹھیک اور برحق فرمایا وہ بڑا بزرگ ہے اور شیاطین بھی وہاں لگے رہتے ہیں ایک کے کاندھے پر ایک ایک پر ایک چڑھ کر آسمان تک پہنچتے ہیں اور وہاں کان لگائے فرشتوں کی یہ باتیں سنا کرتے ہیں اور سب سے اوپر کا شیطان اگر کوئی بات فرشتوں کی باتوں میں سے سن لیتا ہے تو اپنے نیچے کے شیطان سے کہہ دیتا ہے پھر وہ اس سے نیچے والے کو یہاں تک کہ وہ اس بات کو کاہنوں سے آن کر بیان کرتے ہیں اور کاہن ایک سچ میں سو جھوٹ ملا کر ظاہر کرتا ہے اسی واسطے کاہنوں کی بعض بعض باتیں سچ ہوجایا کرتی ہیں بہرحال جس وقت یہ شیطان کان لگاتا ہے فرشتے اوپر سے انگارے پھینک مارتے ہیں جس سے یہ شیطان جھلس جاتا ہے اور جلدی سے اس بات کو اپنے ساتھی سے کہنا چاہتا ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جلنے سے پہلے ہی کہہ چکتا ہے اور کبھی کہنے سے پہلے مرچکتا ہے۔ اس مضمون کی حدیث صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے بھی ہے۔ شیاطین آسمان پر کی سنی ہوئی باتیں جن لوگوں سے آن کر کہتے تھے یہ لوگ کاہن کہلاتے تھے۔ یہ کاہن لوگ شیاطینوں کی نذر نیاز کرتے رہتے تھے اس لئے شیاطین اپنا مرتبہ ان کاہنوں کی نظر میں بڑھانے کے لئے آسمان کی خبریں سن کر ان کاہنوں سے آن کر کہا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث میں اسی واسطے کاہنوں کو شیاطینوں کے دوست فرمایا ہے 1 ؎۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے صحابہ نے کاہنوں کا ذکر آنحضرت ﷺ سے کیا آپ نے فرمایا یہ لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ اعتبار کے قابل نہیں ہوتیں اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت کوئی کوئی بات تو ان کاہنوں کی سچی ہوتی ہے آپ نے فرمایا انگارے برسنے سے پہلے کبھی جو بات حقیقت میں شیاطین آسمان پر سے سن آتے ہیں فقط وہ سچی نکل آتی ہے ورنہ کاہنوں اور انکے شیاطینوں کی سب باتیں جھوٹی اور گھڑی ہوئی ہوتی ہیں 2 ؎۔ صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم سے روایت ہے 3 ؎۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے کاہنوں کے پاس جا کر آیندہ کی باتیں ان سے پوچھنے کو منع فرمایا ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 233 ج 2 باب تحریم الکہانتہ دانیان الکہانتہ۔ 2 ؎ صحیح مسلم ص 233 ج 2 باب تحریم الکہانتہ الخ۔ 3 ؎ ص 232 ج 1 باب تحریم الکہانتہ الخ۔
Top