Ahkam-ul-Quran - As-Saff : 9
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ اللہ وہ ذات ہے اَرْسَلَ : جس نے بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنے رسول کو بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق کے ساتھ لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ غالب کردے اس کو عَلَي : اوپر الدِّيْنِ كُلِّهٖ : دین کے سارے کے سارے اس کے وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ : اور اگرچہ ناپسند کریں مشرک
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔
دین حق کا غلبہ دلیل نبوت ہے قول باری ہے (لیظھرہ علی الدین کلۃ تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے ) اس کا شماردلائل نبوت میں ہوتا ہے کیونکہ یہ بات اس وقت کہی گئی تھی جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، وہ بہت کمزور تھے اور انہیں ہر وقت دشمنوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا اور لوگوں کی نظروں میں مقہور و بےبس تھے۔ لیکن ان حالات کے باوجودیہ خبر اپنی تمام جزئیات کے ساتھ حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ اس زمانے میں ادیان درج ذیل تھے۔ یہودیت، نصرانیت، مجوسیت، صبائیت اور ان کے علاوہ بت پرست بھی تھے جن کا دائرہ ، عرب سے لے کر سندھ یعنی ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر ان ادیان کو ماننے والوں میں سے کوئی قوم ایسی باقی نہیں رہی جس پر مسلمان غالب نہیں آئے اور ان کے تمام علاقوں یا بعض کو اپنے زیر نگیں نہیں کیا اور انہیں دور دراز علاقوں کی طرف مار بھگایا۔ یہ ہے اس آیت کا مصداق جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام کو ان تمام ادیان پر غالب کردے گا۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے اور وہ غیب کی خبر صرف اپنے رسولوں کو وحی کے ذریعے بھیجتا ہے۔ اس لئے یہ آیت حضور ﷺ کی نبوت کی صحت کی ایک واضح دلیل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام ادیان پر غلبہ تو حضور ﷺ کی وفات کے بعد ہوا تھا اس لئے یہ حضور ﷺ کا غلبہ نہیں کہلا سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آپ کے لائے ہوئے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے گا کیونکہ ارشاد باری ہے (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے) ۔ اس سے مراد دین حق ہے۔ اگر اس سے حضور ﷺ کی ذات مراد لی جاتی تو پھر بھی یہ بات درست ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب حضور ﷺ کے دین اور آپ پر ایمان لانے والوں کو تمام ادیان اور اہل ادیان پر غالب کردیا تو اس صورت میں یہ کہنا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو غالب کردیا۔ جس طرح کوئی لشکر اسلامی اگر کسی شہر یا علاقے کو فتح کرلے تو یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ خلیفۃ المسلمین نے اسے فتح کیا ہے اگر چہ وہ قتال میں شریک بھی نہ ہوا ہو، کیونکہ اسلامی لشکر کای یہ اقدام اس کے حکم اور اس کی طرف سے لشکر کی تیاری کے تحت ہوا تھا۔
Top