Ahkam-ul-Quran - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
مومنو ! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے
جائز نذر کا پورا کرنا ضروری ہے ، ناجائز کا نہیں قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لم تقلون ما لا تفعلون۔ کبرمقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں۔ ) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کوئی عبادت یا تقرب الٰہی کی کوئی صورت یا عقد لازم کرلے تو اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسے پورا نہ کرنے کی صورت میں وہ شخص ایسی بات کا قائل گردانا جاتا ہے جسے وہ کرتا نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمی کی مذمت کی ہے۔ تاہم یہ حکم ایسی بات کے بارے میں ہے جو اللہ کی معصیت نہ ہو۔ کیونکہ کوئی شخص اگر اپنے اوپر اللہ کی معصیت لازم کرلے تو اسے پورا کرنا اس پر لازم نہیں ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لانذرفی معصیۃ وکفارتہ کفارۃ یمین ، اللہ کی معصیت کی کوئی نذر نہیں ہوتی، اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے) درج بالا حکم صرف ایسی چیزوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جن کے ذریعے تقرب الٰہی حاصل کیا جاتا ہو اور کسی نے انہیں اپنے اوپر لازم کرلیا ہو۔ مثلاً نذر کی تمام صورتیں اسی طرح انسانوں کے حقوق کے سلسلے میں ایسے عقود جنہیں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باندھتے ہیں اسی طرح مستقبل میں کسی کام کا سرانجام دینے کا وعدہ وغیرہ۔ یہ مباح ہوتا ہے اور بہتر بات یہ ہوتی ہے کہ حتی الامکان اس وعدے کو نبھایا جائے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ” انشاء اللہ میں فلاں کام کروں گا۔ “ سو ات کا اس طرح کہنا مباح ہے بشرطیکہ اس میں اللہ کی مشیت کا استثناء کیا گیا ہو اور اپنے دل میں اس نے اسے پورا کرنے کی گرہ باندھ رکھی ہو۔ اس کے لئے ایسا وعدہ کرنا جائز نہیں جسے پورا نہ کرنے کی اپنے دل میں گرہ باندھ رکھی ہو۔ کیونکہ یہی وہ صورت ہے جس سے اللہ نے روکا ہے اور اس کے مرتکب سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اگر اس نے اپنے دل میں اسے پورا کرنے کی گرہ باندھ رکھی ہو لیکن اپنے اس قول کو اللہ کی مشیت کے ساتھ استثناء کی صورت نہ دی ہو تو اس کی یہ بات مکروہ ہوگی کیونکہ اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ اپنے وعدے کو پورا بھی کرسکے گا یا نہیں۔ اس لئے اپنے وعدے کو مطلق رکھنا اور اللہ کی مشیت کے ساتھ مشروط نہ کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا جبکہ اسے وعدہ خلافی کا بھی خطرہ ہو۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے جو شخص یہ کہے ” اگر میں فلاں کام کرلوں تو میں حج کروں گا یا روزے رکھوں گا یا قربانی کے لئے جانور حرم لے جائوں گا۔ “ اس کے اس قول کی حیثیت اپنے اوپر نذر واجب کرنے کی طرح ہے کیونکہ اس صورت میں اس کا اس کام کو نہ کرنا اس امر کو مستلزم ہوگا کہ اس نے جو بات کہی تھی اسے کرکے نہیں دکھایا۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے مروی ہے کہ آیت کا نزول ایسے لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ اگر ہمیں اس عمل کا علم ہوجائے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے تو ہم اسے بروئے کار لانے میں پوری چستی کا مظاہرہ کریں۔ پھر جب جہاد کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو لوگ ڈھیلے پڑگئے اور جہاد پر جانے میں سستی کا مظاہر کیا۔ قتادہ کا قول ہے کہ آیت کا نزول ایسے لوگوں ایسے لوگوں کے بارے میں ہوا تھا جو کہا کرتے تھے کہ ہم جہاد پر گئے اور ہم نے جہاد میں بڑی کارکردگی دکھائی، حالانکہوہ سرے سے جہاد پر گئے نہیں۔ حسن کا قول ہے کہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مومنین اس لئے کہا کہ وہ ایمان کا اظہار کرتے تھے۔
Top