Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَنَّ : اندھیرا کرلیا عَلَيْهِ : اس پر الَّيْلُ : رات رَاٰ : اس نے دیکھا كَوْكَبًا : ایک ستارہ قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : اس نے کہا لَآ : نہیں اُحِبُّ : میں دوست رکھتا الْاٰفِلِيْنَ : غائب ہونے والے
(یعنی) جب رات نے ان کو (پردہ تاریکی سے) ڈھانپ لیا تو (آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانیوالے پسند نہیں۔
ابراہیم (علیہ السلام) کی جستجوئے حق قول باری ہے ( فلما جن علیہ اللیل دای کوکبا قال ھذا ربی چناچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے) اس کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دفعہ تارے پر نظر پڑنے کی حالت میں یہ بات کہی تھی، اور جو بات پہلے سے ان کے وہم میں تھی نیز ان کے گمان میں چھائی ہوئی تھی اس پر استدلال کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا اس لیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ستاروں کے نام پر بت بنا کر اس کی پرستش کرتی تھی ۔ وہ کہتے ” یہ زحل کا بت ہے، یہ سورج کا، یہ مشتری کا “ وغیرہ وغیرہ ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات بالغ ہونے سے پہلے فرمائی تھی یعنی اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے ابھی آپ کی عقل اور سمجھ بوجھ میں وہ پختگی نہیں پیدا کی تھی جس کی بنا پر ایک شخص مکلف قرار پاتا ہے ۔ جب آپ نے اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرنے والے واقعات و احوال کا مشاہدہ کیا اور آپ کے قلب و ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے۔ نیز دل و دماغ میں ابھرنے والے خیالات و احساسات نے آپ کے اندر غورو فکر کا زبردست داعیہ پیدا کردیا تو اس وقت آپ نے یہ فقرہ کہا تھا۔ روایت میں ہے کہ آپ نے والدہ نے نمرود کے خوف سے ایک غار کے اندر آپ کو جنم دیا تھا، نمرود اس زمانے میں پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کروا دیا کرتا تھا ۔ جب آپ کی والدہ آپ کو غار سے باہر لے کر آئیں اور آپ نے اپنی آنکھوں سے آسمان پر بکھرے ہوئے تارے دیکھے تو اس وقت یہ فقرہ ادا کیا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ یہ بات اپنی قوم کی بت پرستی کی تردید کرتے ہوئے نیز اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمائی تھی۔ فقرے سے ہمزہ استفہام حذف کردیا گیا ہے اور اصل فقرہ یہ ہے۔ (کیا یہ میرا رب ہے ؟ ) شاعر کا قول ہے کذبتک و عینک ام رایت بواسط غلس الظلام من الرباب خیالا کیا تیری آنکھوں نے تجھ سے جھوٹ کہا یا تو نے واسط شہر میں تاریکی کے پردے میں رباب ( محبوبہ کا نام ) کی کوئی پرچھائیں دیکھی۔ کذبتک کے معنی ہیں ” اکذ بتک “ ایک اور شاعر کا شعر ہے۔ رفونی و قالوا یا خویلد لاترع فقلت وانکرت الوجوہ ھم ھم انہوں نے میرے دل سے ڈر دورکر دیا اور کہنے لگا خویلد ! خوفزدہ نہ ہو، میں نے نا آشنا چہرے دیکھ کر کہا، آیا یہ لوگ وہی ہیں۔ ” ھم ھم “ کے معنی ہیں ” اھم ھم “ ( کیا یہ لوگ وہی ہیں) قول باری ہے ( لا احب الآفلین، ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں) آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تارا رب نہیں ہے۔ اگر یہ رب ہوتا تو میں اس کا گرویدہ ہوجاتا اور اس کی تعظیم کرتا جس طرح رب کی تعظیم کی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے استدلال کا جو طریقہ اپنا یا تھا وہ درست ترین اور واضح ترین طریقہ تھا۔ وہ اس طرح کہ جب آپ نے تارے کی بلندی اور اس کی روشنی دیکھی تو آپ کا ذہن اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کے متعلق آپ کی سوچ کا دھارا دو حصوں میں بٹ گیا یعنیی آپ یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس پر کیا حکم لگایا جائے۔ آیا اسے خالق اور رب مان لیا جائے یا اسے مخلوق اور مربوب کا درجہ دیا جائے۔ لیکن جب آپ نے اسے طلوع ہو کر غروب ہوتا ہوا دیکھا نیز حرکت کرتا ہوا اور ایک مقام پر پہنچ کر مٹتا ہوا پایا تو فوراً یہ فیصلہ دے دیا کہ یہ حادث ہے اس لے کہ حددث پر دلالت کرنے والی کیفیات اس کے اندر موجود نہیں، یہ رب نہیں ہوسکتا تھا، آپ کو اس بات کا علم تھا کہ جو خود حادث ہو وہ دوسرے اجسام کو وجود میں لانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس کے لیے ایسا کرنا محال ہوتا ہے۔ جس طرح اس تارے کے لیے حادث ہونے کی بنا پر ایسا کرنا محال تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی سوچ کے نتیجے میں اس تارے پر یہ حکم لگا دیا کہ حادث ہونے نیز رب اور خالق نہ ہونے کے لحاظ سے وہ ان کی طرح تھا۔ پھر جب چاند طلوع ہوا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی جسامت ، اس کی چمک، اور اس کی ضیا پاشی ستارے سے بالکل مختلف پائی تو آپ کا ذہن اس نکتے پر آ کر رک گیا کہ یہ میرا رب ہے، چناچہ آپ نے زبان سے بھی فقرہ ادا کیا۔ لیکن جب آپ نے اس کی کیفیات کو بغور دیکھا اور اس کے احوال کا مشاہدہ کیا تو اسے بھی اس لحاظ سے تارے کا ہم جنس پایا کہ اس میں بھی حادث کی صفات یعنی طلوع و غروب، زوال اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اتنقال وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ نے اس پر بھی وہی حککم لگا دیا جو اس سے پہلے تارے پر لگا چکے تھے اگر چاند ستارے کے مقابلہ میں زیادہ بڑا اور زیادہ روشن تھا۔ جسامت اور ضیاپاشی میں ان دونوں کا فرق چاند پر حدوث کا حکم لگانے سے مانع نہیں ہوا اس لیے کہ آپ نے اس میں حدوث کی نشانیاں دیکھ لی تھیں۔ پھر جب آپ نے صبح کے وقت سورج کو پورے آب و تاب سے طلوع ہوتے دیکھا، اس کی جسامت ، چمک اور تابانی دیکھی تو پکار اٹھے کہ یہ میرا رب ہے، اس لیے کہ ان اوصاف کے لحاظ سے وہ تارے اور چاند سے یکسر مختلف تھا۔ لیکن جب اسے ڈوبتا ہوا نیز ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہوا دیکھ لیا تو اس پر بھی حدود کا حکم عائد کردیا اور اعلان کر دییا کہ یہ بھی ستارے اور چاند کی طرح ہے اس لیے کہ حدوث کی نشانیاں ان تینوں میں پائی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس فکری سفر کا حال بتانے کے بعد فرمایا ( وتلک حجتنا اتینا ھا ابراہیم علی قومہ، یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قول کے مقابل میں عطا کی) اس میں توحید پر استدلال کے وجوب کی واضح ترین دلالت موجود ہے، نیز اس اس میں ان لوگوں کے قول کا بطلان بھی موجود ہے جو علم سے عاری ہونے کی بنا پر تقلید کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی کے لیے تقلید پر اکتفا کرلینا جائز ہوتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں سے بڑھ کر اس کے مستحق قرار پاتے۔ اگر تقلید بودے شیوہ خوب پیمبر ہم رہ اجرا در فتے ( اقبال (رح) ) للیکن جب آپ نے توحید باری پر استدلال کیا اور اپنی قوم کے مقابلہ میں اسے حجت کے طور پر پیش کیا تو اس سے ییہ بات ثابت ہوگئی کہ ہمارے لیے بھی یہی بات لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے انبیاء کرام کے ساتھ حضرت ابراہیم کا ذکر کرتے ہوئے سلسلہ تلاوت میں فرمایا ( اولئک الذین ھدی اللہ فبھدھم اقتدہ۔ اے محمد ﷺ ! وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو) اس کے ذریعے اللہ نے ہمیں بھیی توحید پر استدلال کرنے اور کافروں کے مقابلہ میں اسے حجت اور دلیل کے طورپ پیش کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ اپنانے کا حکم دے دیا۔ مذکورہ بالا اجرم فلکی کے احوال جس طرح اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ مخلوق ہیں خالق نہیں ہیں، ربوب ہیں، رب نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ اس پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ کائنات میں جو چیز بھی ان جیسی صفات کی حالم ہوگی ، یعنی ایک حالت پر اس کا دوام نہیں ہوگا بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال ، نیز آنے جانے اور گھٹنے بڑھنے کی کیفیات پائی جائیں گی، اسے خالق اور رب کے نام سے موسوم کرنا جائز نہیں وہ گا، بلکہ وہ مخلوق و مربوب ہوگی۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ کی ذات کی طرف ایک حالت سے دورسری حالت کی طرف انتقال نیز آنے جانے اور گھٹنے بڑھنے کی نسبت جائز نہیں اس لیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے استدلال کا نتیجہ صریحہ یہ ہے کہ جو چیز ان صفات کی حامل ہوگی وہ حادث ہوگی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص بھی ان کیفیات کی حامل ذات کی پرستش کرے گا وہ اللہ کی ذات و صفات سے بیخبر قرار پائے گا اس کی حیثیت ان لوگوں کی طرح ہوگی۔ جنہوں نے کسی ستارے یا کسی مخلوق کی پرستش کی ، اس پورے واقعہ میں یہ دلالت بھی موجود ہے کمال عقل کی بنا پر پیغمبروں کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت واجب تھی اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلم نے انبیا (علیہم السلام) کے دلائل کی سماعت سے پہلے ہی اللہ کی ذات کی معرفت پر استدلال کرلیا تھا۔
Top