Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 162
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک صَلَاتِيْ : میری نماز وَنُسُكِيْ : میری قربانی وَمَحْيَايَ : اور میرا جینا وَمَمَاتِيْ : اور میرا مرنا لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
(یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خدائے رب العالمین ہی کے لئے ہے۔
عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں قول باری ہے ( قل ان صلاتی و نس کی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔ کہو میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میراجینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے) سعید بن جبیر، قتادہ ، ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ ( نس کی) سے مراد ” حج اور عمرہ میں میرا طریقہ “ ہے ۔ حسن کا قول ہے ( نس کی) سے مراد ” میرا دین “ ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے اس سے مراد ” میری عبادت “ ہے۔ تاہم اس لفظ پر اس ذبح اور قربانی کے معنی زیادہ غالب میں جس کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں ” فلان ناسک “ ( فلاں ناسک ہے) یعنی اللہ کے لیے عبادت کرتا ہے۔ عبداللہ بن ابی رافع نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے ( انی وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلاتی و نس کی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذالک امرت و انا اول المسلمین۔ میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف پھیر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سب سے یکسو ہو کر، اور میں مشریکن میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری عبادت، میرا جینا، میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھانے والا میں ہوں) حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت عائشہ ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگتے ( سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔ اے میرے اللہ ! تیریذات پاک ہے اور تمام تعریفوں کے ساتھ متصف ہے اور تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیرا مرتبہ بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں) ہمارے نزدیک حضور ﷺ پہلی دعا قول باری ( فسبح بحمد ربک حین تقوم۔ جب تم کھڑے ہو تو اپنے رب کی تعریف کی تسبیح کرو) کے نزول سے قبل پڑھا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوگئی اور اس میں آپ کو نماز کے لیے کھڑے ہونے کے وقت تسبیح کا حکم دیا گیا تو آپ ﷺ نے پہلی دعا ترک کردی۔ یہ امام ابوحنیفہ کا اور امام محمد کا قول ہے ۔ امام ابو یوسف کے نزدیک دونوں دعائیں پڑھی جائیں گی اس لیے کہ دونوں دعائیں مروی ہیں ۔ قول باری ( ان صلاتی) سے نمازعید مراد لینے کی گنجاش ہے۔ قول باریی ( ونسکی) سے اضحیہ یعنی قربانی مراد ہے اس لیے کہ اضحیہ کو نسک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اسی طرح تقرب الٰہی کے طورپ ر ہر ذبیحہ کو نسک کہا جاتا ہے، قول باری ہے ( ففدیۃ من صیام او صدقۃ او نسک۔ روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ ادا کرے) حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( النسک شاۃ قربانی ایک بکری کی ہے) آپ ﷺ نے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو فرمایا تھا ( ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلوٰۃ ثم الذبح۔ آج کے دن ہماری سب سے پہلی عبادت نماز ہوگی اور پھر ذبح یعنی قربانی) آپ نے نماز اور قربانی دونوں کو نسک کا نام دیا۔ جب آپ نے لفظ نسک کو نماز کے ساتھ مقرون کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اس سے عید کی نماز اور قربانی دونوں مراد ہیں۔ آیت قربانی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ قول باری ہے ( وبذلک امرت) اور امر کا صیغہ وجوب کا مقتضی ہوتا ہے۔ قول باری ( وانا اول المسلمین) کے متعلق حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ” میں اس امت میں سب سے پہلا مسلمان ہوں “۔
Top