Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 141
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ٘ وَ لَا تُسْرِفُوْا١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : جس نے اَنْشَاَ : پیدا کیے جَنّٰتٍ : باغات مَّعْرُوْشٰتٍ : چڑھائے ہوئے وَّ : اور غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ : نہ چڑھائے ہوئے وَّالنَّخْلَ : اور کھجور وَالزَّرْعَ : اور کھیتی مُخْتَلِفًا : مختلف اُكُلُهٗ : اس کے پھل وَالزَّيْتُوْنَ : اور زیتون وَالرُّمَّانَ : اور انار مُتَشَابِهًا : مشابہ (ملتے جلتے) وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ : اور غیر مشابہ (جدا جدا) كُلُوْا : کھاؤ مِنْ : سے ثَمَرِهٖٓ : اس کے پھل اِذَآ : جب اَثْمَرَ : وہ پھل لائے وَاٰتُوْا : اور ادا کرو حَقَّهٗ : اس کا حق يَوْمَ حَصَادِهٖ : اس کے کاٹنے کے دن وَلَا تُسْرِفُوْا : اور بیجا خرچ نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْمُسْرِفِيْنَ : بیجا خرچ کرنے والے
اور خدا ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کیے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن کے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض باتوں میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (بعض باتوں میں) نہیں ملتے۔ جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو۔ اور بےجا نہ اڑانا۔ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
قول باری ہے ( وھوالذی انشا جنت معروشات و غیر معروشات وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان پیدا کیے) تا قول باری ( واتوا حقہ یوم حصادہ ۔ اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو) حضرت ابن عبا س اور سدی کا قول ہے کہ ( معروشات) سے مراد وہ انگوری باغ ہیں جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ ایک قول کے مطابق تعریش کا مفہوم یہ ہے کہ باے کو کسی دییوار کے ذریعے گھیر دیا جاتے۔ اس لفظ کے اصل معنی بلند کرنے کے ہیں۔ اس سے قول باری ( خاویۃ علی عروشھا) ہے۔ یعنی اپنی بلند کی ہوئی ٹٹیوں پر گر پڑی تھیں۔ عرش تخت کو کہتے ہیں) اس لیے کہ عرش زمین سے بلند ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کھیت ، کھجور، زیتون اور انار کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ( کلوا من ثمرہ اذا اثمر واتو خقہ یوم حصادہ۔ کھائو ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو) یہ ما قبل کی تمام مذکورہ چیزوں پر عطف ہے۔ یہ آیت زمین کی تمام پیداوار اور پھلوں میں جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے۔ اللہ کے حق کے ایجاب کا مقتضی ہے۔ عُشر قول باری ( واتوا حقہ یوم حصادہ) سے کیا مراد ہے۔ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، جابر بن زید، محمد بن الحنفیہ، حسن بصری، سعید بن المسیب، طائوس، زید بن اسلم ، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے عشر اور نصف عشر یعنی بیسواں حصہ مراد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ( ایک اور روایت کے مطابق) محمد بن الحنفیہ، سدی اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ اس آیت کے حکم نے عشر اور نص عشر کے حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ زکوٰۃ کے حکم نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ زکوٰۃ کے حکم نے قرآن میں مذکور یہ صدقہ کو منسو، کردیا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ اور مجاہد سے منقول ہے کہ یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں ہوئی۔ نیز یہ کہ فصل کی کٹائی کے موقعہ پر آیت میں مذکور حق واجب ہے اور یہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے رات کے وقت کھجور اتارنے اور انگور توڑنے نیز فصل کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ سفیان بن عینیہ کا قول ہے کہ حدیث میں وارد ممانعت فقراء و مساکین کو فائدہ پہنچانے کی خاطر کی گئی ہے تا کہ وہ اس موقع پر اکٹھے ہو سکیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ جب ” کٹائی ہوجائے تو مساکین کا حق الگ کردیا جائے۔ اسی طرخ ان کا حق الگ کر دو جب پیداوار کا تخمینہ لگائو اور جب فصل کاٹ کر ڈھیر لگا دو ، نیز مساکین کو فصل کاٹنے والوں کے پیچھے پیچھے رہنے کی اجازت دے دی جائے، اور جب تم فصل سے حاصل شدہ اناج کو ناپنا شروع کرو تو اس میں انہیں لَپ پھر کر دے دو ۔ جب تمہیں اس کی مقدار معلوم ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ الگ کر دو ۔ جب کھجور اتارنے لگو تو مساکین کے لیے اس میں سے الگر کر دو ۔ اسی طرح جب پھل کو تولنا شروع کرو تو اس وقت بھی انہیں اس میں سے کچھ دے دو اور جب تمہیں اس کی مقدار کا اندازہ ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ الگ کر دو ۔ “ حضرت ابن عباس ؓ ، محمد بن الحنفیہ اور ابراہیم نخعی سے یہ جو مروی ہے کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ کا حکم عشر اور نصف عشر کے حکم کی بنا پر منسوخ ہوگیا ہے اس سے ان حضرات کے اس مسلک کا پتہ چلتا ہے کہ قرآن کو سنت کے ذریعے منسوخ کردینا جائز ہے جس پیداوار پر عشر واجب ہوتا ہے اس کے متعلق فقہاء کے مابین دو طرح کا اختلاف ہے۔ ای تو یہ کہ پیداوار کی وہ کون کون سی اصناف ہیں جن میں عشر واجب ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کی مقدار کیا ہے۔ عشر واجب ہونے والی پیداوار کے متعلق اختلاف رائے کا ذکر امام ابوحنیفہ اور زفر کا قول ہے کہ زمین سے حاصل ہونے والی ہر پیداوار پر عشر ہے صرف ایندھن کی لکڑی ، قصب ( ہر وہ لکڑی جس میں پورے اور گرہیں ہوں مثلاً بانس ، نرکل وغیرہ ) اور حشیش یعنی خشک گھاس اس سے مستثنیٰ ہیں۔ امام ابویوسف اور امام محمد قول ہے کہ زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں میں سے صرف اس پیداوار پر عشر واجب ہوگا جس کا پھل باقی رہ جاتا ہو۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جن انج اور دانوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے وہ یہ ہیں گندم، جَو، مکئی ، چاول، چنا، لوبییا، باجرا ، مسور ، مٹر اور سلت یعنی بغیر چھلکے والا جَو، اور اس طرح کے دوسرے والے۔ نیز زیتون میں بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ صرف اس اناج میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جسے خشک کرلیا جاتا ہے۔ اور اس کا ذخیرہ کر کے غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زیتون میں کوئی زکوٰۃ نہیں اس لیے کہ وہ اوام یعنی سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ خشک کھجور ، خشک انگور یا انجیر ، گندم اور جَو کے سوا کسی اور اناج یا پھل میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عمر ؓ ، مجاہد، عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ سبزیوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ بصرہ میں گندنا ( ایک قسم کی بدبودار ترکاری جس کی بعض قسمیں پیاز اور بعض لہسن سے مشابہ ہوتی ہیں) کے مٹھوں میں سے زکوٰۃ وصول کرتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) کے متعلق سلف کے اختلاف رائے کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ یہ بیان ہوچکا ہے کہ آیت میں مذکور حکم کی منسوخیت اور عدم منسوخیت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ اس بارے مییں سلف کے مابین اختلاف آراء کو تین صورتوں میں محدود کیا جاسکتا ہے۔ آیا اس سے مراد فصلوں اور پھلوں کی زکوٰۃ ہے یعنی عشر اور نصف عشر یا اس کے سوا کوئی اور حق ہے۔ یا ی منسوخ ہے یا منسوخ نہیں۔ اس بات کی دلیل کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔ اُمت کا یہ اتفاق ہے کہ بہت سے اناج اور پھلوں میں اللہ کا حق واجب ہے یعنی عشر اور نصف عشر۔ ہمیں جب کوئی ایسا حکم نظر آئے جس پر پوری امت عمل پیرا ہو اور کتاب اللہ کے الفاظ بھی اس حکم پر مشتمل ہوں اور یہ کہنا درست ہو کہ ان الفاظ میں اس حکم کی تعبیر موجود ہے تو اس صورت میں یہ حکم لگانا واجب ہوجاتا ہے کہ امت کے اس اتفاق کی بنیاد کتاب اللہ ہے نیز جس حکم پر امت متفق ہوگئی ہے وہی آیت میں بھی مراد ہے اس لیے اس حق کے سوا کس اور چییز کا اثبات درست نہیں ہوگا۔ نیز حضور ﷺ کے قول ( فیما سقت السماء العشر ۔ جن فصلوں کو آسمان نے سیرات کیا ہو ان میں عشر واجب ہے) کے ذریعے اس حق کو منسوخ ثابت کرنا بھی جائز نہییں ہوگا۔ اس لیے کہ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آیت میں مذکورہ حق وہ عشر ہی ہو جس کا ذکر حدیثی میں آیتا ہے۔ اس صورت میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( فیما سقت السماء العشر) قول باری ( واتوا حقہ یوم حصادہ ) کی مراد کا بیان قرار پائے گا۔ جس طرح آپ کا یہ ارشاد ( فی ماتی درھم خمسۃ دراھم) ہر دو سو درہموں میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے ) قول باری ( واتو الزکوٰۃ ۔ اور زکوٰۃ ادا کرو) نیز قول باری ( وانفقو من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنالکم من الارض۔ ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمایا ہے اور ان میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے) کا بیان ہے۔ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) کا عشر اور نصف عشر کے حکم کے ذریعے منسوخ ہوجانا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ نسخ کا ورود ایسے دو حکموں سے ایک پر ہوتا ہے جنہیں یک جا کرنا درست نہ ہوتا ہو۔ لیکن جہاں دو حکموں کو یکجا کرنا درست ہوتا ہو وہاں ایک حکم کو دوسرے کے ذریعے منسوخ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست ہے کہ فصلوں کی کٹائی کے دن ان کا حق ادا کر دو یعنی دسواں حصہ علیحدہ کر دو ۔ جب یہ بات درست ہے تو پھر عشر کے حکم کے ذریعے اس کا منسوخ قرار پانا جائز نہیں ہوگا۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ آیت میں مذکورہ حق کا حکم ثابت ہے یعنی منسوخ نہیں ہوا اور یہ عشر کے سوا کوئی اور حق ہے جو فصل کی کٹائی کے قوت فصل کی گہائی کے وقت اور فصل ناپنے کے وقت واجب ہوتاے ( اشارہ مجاہد کے قول کی طرف ہے جس کا ذکر مصنف نے گزشتہ سطور میں کیا ہے) تو اس قول کو دو میں سے ایک معنی پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ یا تو وہ اس سے وجوب یا اسحباب مراد لیتے ہیں۔ اگر اس سے استحباب مراد ہے تو کوئی دلالت قائم کیے بغیر ان کے لیے اس قول کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی حکم کو ایجاب سے ندب یعنی استحباب کی طرف لے جانے کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہونی چاہیے خواہ وہ اس حکم کو واجب کیوں نہ سمجھتے ہوں۔ اگر ان کے خیال کے مطابق یہ حکم اسی طرح ہے تو اس بارے میں تواتر کے ساتھ روایات کا منقول ونا ضروری ہے اس لیے کہ لوگوں کو عام طور پر اس کی ضرورت پیش آتی تھی اور اس کے متعلق کم از کم اتنی روایات ضرور منقول ہوتیں۔ جتنی عشر اور نصف عشر کے متعلق مروی ہیں۔ جب عامۃ السلف اور فقہا کے علم میں ایسی روایتیں نہیں ہیں تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ استحباب کا یہ حکم مراد نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضور ﷺ کے بیان کے مطابق آیت میں مذکورہ حق سے عشر اور نصف عشر مراد ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فصل کی کٹائی کے دن زکوٰۃ نہیں نکالی جاتی بلکہ صاف کرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں زکوٰۃ مراد نہیں لی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حصاد فصل کی کٹائی کا نام ہے۔ جس وقت ایک شخص فصل کاٹ لے گا اس پر حاصل شدہ فصل کا دسواں حصہ نکالنا واجب ہوجائے گا۔ تا ہم سبزیوں میں یہ حق یعنی عشر ان کی کٹائی کے دن نکال دیا جائے گا۔ اس کے لیے اس کے سوا کسی اور چیز کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ ) کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یوم کو اس حق کی ادائیگی کے لیے ظرف قرار نہیں دیا جس کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ کٹی ہوئی فصل پر واجب ہون والے حی کے لیے ظرف قرار دیا گیا ہے۔ گویا یوں فرمایا ” اس حق کی ادائیگی کر دو جو فصل کی کٹائی کے دن اسے صاف کرنے کے بعد واجب ہوا۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب ہماری وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) سے عشر مراد ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زمین سے پیدا ہونے والی تمام اجناس میں عشر واجب ہے۔ اس حکم سے صرف وہی اجناس خارج ہوگی جن کی کسی دلیل کے ذریعے تخصیص ہوجائے گی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے زرع یعنی فصل کا ذکر عموم کے لفظ سے کیا ہے جس کے تحت انواع و اقسام کی تمام فصلیں آ جاتی ہیں ، پھر کھجور، زیتون اور انار کا الگ سے ذکر کیا تو اس کے بعد فرمایا ( واتو حقہ یوم حصادہ) یہ حکم ان تمام مذکورہ چیزوں کی طرف راجع ہے۔ اس لیے جو شخص ان میں کسی تخصیص کا دعویٰ کرے گا اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا الا یہ کہ وہ اس کی کوئی دلیل پیش کرے۔ اس لیے آیت کی بناء پر سبزیوں وغیرہ نیز زیتون اور انار میں حق یعنی عشر کا ایجاب ثابت ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ اجناس میں ان کی کٹائی کے دن اس حق کا ایجاب کردیا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان اجناس میں پختگی آ جائے اور وہ اس مرحلے پر پہنچ جائیں ک ان میں لگے ہوئے دانے اور پھل باقیی رہنے کے قابل ہوجائیں۔ لیکن جو دانے اور سبز پھل کٹائی کے مرحلے میں پہنچنے سے پہلے اتار لیے جائیں انہیں آیت کے الفاظ شامل نہیں ہوں گے اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ زیتون اور انار کی کٹائی نہیں ہوتی اس لیے یہ دونوں لفظ عموم میں داخل نہیں ہوں گے ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ک حصاد، کاٹ دینے اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا نام ہے ۔ قول باری ہے ( حتیٰ جعلنا ھم حصیدا خامدین۔ یہاں تک کہ ہم نے انہیں اس طرح کردیا کہ وہ کٹے ہوئے بےحس و حرکت پڑے تھے) فتح مکہ کے دن حضور ﷺ نے فرمایا تھا ( ترون اوباش قریش احصدوھم حصدا۔ تم قریش کے سفلہ اور کمینے لوگوں کو دیکھو گے کہ ان کی جڑ کاٹ دی گئی ہے) اس لیے فصل کے حصاد کا دن اس کی کٹائی کا دن ہے۔ یہ کٹائی سبزیوں میں بھی ہوتی ہے اور ان تمام پھلوں میں بھی جنیں درختوں سے اتار لیا جاتا ہے خواہ و پک گئے ہوں یا ابھی سبز اور کچے ہوں۔ یوم حصادہ کا مفہوم نیز تمام فقہاء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پول ( واتو حقہ یوم حصادہ) کے ذریعے کھجور کے درختوں پر لگنے والے پھلوں میں عشر واجب کردیا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری ( یوم حصادہ) سے ان کی کٹائی کا دن مراد ہے۔ اس لیے کہ حصاد کا لفظ کھجور کے درختوں سے پھل اتارنے کو بھی شامل ہے۔ یہاں لفظ حصاد کے ذکر کا یہ فائدہ ہے کہ درختوں میں ان پھلوں کے لگنے اور پکنے کے ساتھ حق یعنی عشر نکالنا اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک یہ پھل مالک کے ہاتھ نہ آ جائیں۔ مالک کے ہاتھ آ جانے کے بعد عشر نکالنا لازم ہوتاے۔ اس لیے کہ اس لفظ کے ذکر نہ ہونے کی صورت میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ درختوں میں ان پھلوں کے لگنے کے ساتھ ہی انہیں اتارنے اور سنبھالنے سے پہلے یہ حق واجب ہوجاتا ہے۔ اس لفظ کے ذکر سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مالک پر ان پھلوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی جو اس کے ہاتھ آ جائیں۔ تلف ہوجانے والے نیز ہاتھ نہ آنے والے پھلوں کو زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہوگی۔ زمین سے پیدا ہونے والی تمام چیزوں پر عشر کے وجوب پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( انفقو من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنا لکم مین الارض) اس میں زمین کی ہر قسم کی پیداوار کے لیے عموم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت مییں لفظ نفقہ کا ذکر ہے۔ اس سے صدقہ یعنی زکوٰۃ کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ نفقہ کے لفظ سے صدقہ کے سوا اور کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ کتاب اللہ میں یہ لفظ اسی مفہوم کے ساتھ وارد ہوا ہے ۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( ولا تیمموالخبیث منہ تنفقون اور تم خبیث مال کا ارادہ نہ کرو کہ پھر اس مییں سے خرچ کرنے لگو) نیز ارشاد ہوا ( والذین یھنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب علیم۔ جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہییں ایک دردناک عذاب کی بشارت دے دو ) نیز فرمایا ( الذین یفقون اموالھم باللیل و النھار سرا و علانیۃ جو لوگ اپنے اموال دن رات اور چھپا کر نیز کھلے بندوں خرچ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ) نیز دیگر آیات جو نفقہ کے اس مفہوم کی موجب ہیں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی صدقہ ۔ نیز قول باری ( یایھا الذین امنو انفقوا من طیبات ما کسبتم) امر کا صیغہ ہے جو وجوب کا مقتضی ہے۔ اور زکوٰۃ و عشر کے علاوہ کوئی ایسا نفقہ نہیں ہے جو واجب ہو۔ کیونکہ اپنے اہل و عیال کا نفقہ واجب نہیں ہوتا۔ نیز اپنی ذات اور اپنیی اولاد کا نفقہ ایک معقول اور از خود سمجھ میں آنے والی بات ہے اسے سمجھانے کے لیے امر کے صیغے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے آیت کو اس پر محمول کرنا ایک بےمعنی سے بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے نفلی صدقہ مراد ہے تو اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ بات بھی دو وجوہ سے غلط ہے اول یہ کہ امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے اسے دلیل کے بغیر استحباب اور تطوع پر محمول کرنا درست نہیں ہوگا۔ دوم یہ کہ ارشاد باری ( ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ حالانکہ ویہ چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے نیتاً گوارا نہ کرو گے ۔ اِلا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جائو) وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ اغماض واجب الاواء قرض کی واپسی کے تقاضے میں برتا جاتا ہے۔ لیکن جو چیز واجب الادا نہ ہو اس کے لینے میں کوئی اغماض برتا نہیں جائے گا اس لیے کہ لینے والے کے لیے یہ چیز منافع ار زائد رقم کی حیثیت رکھے گی۔ سنت کی جہت سے اس پر حضرت معاذ ؓ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت جابر ؓ کی روایت دلالت کرتی ہے۔ ان تمام حضرات نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( ماسقت السماء ففیہ العشر وما سقی بالسانیۃ فنصف العشر جس فصل کو آسمان نے سیراب کیا اس میں عشر ہے اور جسے رہٹ یا جانور کے ذریعے سیراب کیا گیا ہو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ہے) یعنی بارانی زمین کی فصلوں میں دسواں حصہ اور چاہی زمین کی فصلوں میں بیسواں حصہ۔ اس حدیث کو لوگوں نے قبول کیا اور اس پر عمل پیرا ہوئے اس لیے اس کی حیثیت خبر متواتر جیسی ہوگئی۔ اس کا عموم زمین کی ہر قسم کی پیداوار میں حق یعنی عشر اور اور نصف عشر کو واجب کرتا ہے۔ سبزیوں کا صدقہ اگر ہمارے مخالفین اس روایت سے استدلال کریں جسے یعقوب بن شیبہ نے بیان کیا ہے انہیں ابو کامل الحجدری نے ، انہیں حارث بن شہاب نے عطاء بن السال سے، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( لیس فی الحضروات صدقۃ ۔ سبزیوں میں صدقہ نہیں ہے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خود یعقوب بن شیبہ کا قول ہے کہ یہ منکر حدیث ہے۔ یحییٰ بن معین کہا کرتے تھے کہ حارث بن شہاب کی روایتیں ضعیف ہوتی ہیں۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عبدالسلام بن حرب نے یہ حدیث عطاء بن السائل سے ، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے مرسل روایت کی ہے۔ عبدالسلام بن حرب ثقہ راوی ہیں۔ موسیٰ بن طلحہ کی اصل روایت وہ ہے جسے یعقوب بن شیبہ نے بیان کیا ہے۔ انہیں جعفر بن عون نے، انہیں عمرو بن عثمان بن موہب نے موسیٰ بن طلحہ سے، کہ ایک حاکم ( علاقہ افسر) نے انہیں اپنیی زمین کی زکوٰۃ ادا کرنے کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ” یہ عشری زمین نہیں یہاں تو سبزیوں اور ترکاریوں وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے جبکہ تحصیل زکوٰۃ صدقات کے منتظم اعلیٰ حضرت معاذ ؓ کو حکم ہے کہ کھجور ، گندم جَو اور انگور میں زکوٰۃ وصول کی جائے “۔ موسیٰ بن طلحہ کی اصل روایت یہ ہے کہ اس میں حضرت معاذ ؓ کی روایت کی وضاحت کی گئی ہے کہ انہیں مذکورہ بالا اصناف سے زکوٰۃ کی وصولی کا حکم دیا گیا تھا۔ اگر اس کا ثبوت ہو بھی جائے تو اس میں باقی ماندہ پھلوں اور پیداوار سے زکوٰۃ وصول کرنے کی نفی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت معاذ ؓ کو صرف مذکورہ بالا اصناف سے زکوٰۃ کی وصولی کا منتظم بنایا گیا ہو۔ باقی ماندہ پیداوار کے لیے کوئی اور منتظم ہو۔ نیز اگر موسیٰ بن طلحہ کی روایت کی سند درست بھی ہوجائے اور روایت صحیح تسلیم کرلی جائے تو بھی اسے حضرت معاذ ؓ کی عشر اور نصف عشر والی روایت کے بالمقابل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ حضرت معاذ ؓ کی اس روایت کو امت نے پوری طرح قبول کر کے اس پر عمل بھی کیا جبکہ موسیٰ بن طلح کی روایت پر عمل میں امت کے اندر اختلاف رائے ہے۔ حضور ﷺ سے جب ایک مسئلے میں دو روایتیں منقول ہوں اور ایک پر عمل پیرا ہونے میں فقہا کے مابین اتفاق رائے ہو جب کہ دوسریی کے متعلق اختلاف رائے ہو تو پہلی روایت دوسری روایت کا ختمہ کر دے گی خواہ وہ روایت حکم خاص پر مشتمل ہو یا حکم عام پر۔ اس بنا پر حضرت معاذ ؓ کی روایت ( فیما سقت السماء العشر) کو موسیٰ بن طلحہ کی روایت ( لیس فی الخضروات صدقۃ) پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ بن طلحہ کی روایت پر ان سبزیوں وغیرہ کے سلسلے میں عمل کیا جائے جنہییں لے کر لوگ عشر وصول کرنے والے کے پاس سے گزریں۔ امام ابوحنیفہ رحتمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ایسی چییزوں سے عشر وصول نہیں کیا جائے گا جب کہ حضرت معاذ ؓ کی روایت پر زمین سے نکلنے والی ہر پیداوار کے سلسلے میں عمل کیا جائے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زمین میں سبزیوں کی کاشت اس کی پیداوار اور آمدنی مقصود ہوتی ہے جس طرح مختلف فصلوں کی کاشت کی صورت میں یہی چیز مدنظر ہوتی ہے جب دونوں صورتوں میں ایک ہی چیز مد نظر وہتی ہے تو پھر سبزیوں میں بھیی اسی طرح زکوٰۃ واجب ہونی چاہیے جس طرح اناج وغیرہ کی فصلوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ البتہ ایندھن میں استعمال ہونے والی لکڑی ، بانس، نرکل اور گھاس اس میں شامل نہیں ہیں اس لیے کہ پانی ملنے پر یہ چیزیں خود بخود اُگ آتی ہیں۔ ان کی کاشت مقصود نہیں ہوتی ہے اسی بناء ان میں کوئی زکوٰۃ وجب نہیں ہوئی۔ ان اشیاء میں وجوب حق یعنی زکوٰۃ کی نفی پر سب کا اتفاق ہے کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ کھجور کا عشر کھجور کا مالک کھجور کی جو مقدار اپنے استعمال میں لے آگے اس کی زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، زفر، امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ زمین کا مالک جس قدر پیداوار اپنے استعمال میں لے آئے گا اس کا بھیی حساب کیا جائے گا اور باقی ماندہ پیداوار کے ساتھ ملکر پوری پیداوار کی زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر زمین کا مالک پیدوار کا ایک حصہ اپنے استعمال میں لے آئے یا اپنے پڑوسیوں کو کھلا دے یا صدقہ کے طور پردے دے تو زکوٰۃ نکالنے میں اس مقدار کا حساب نہیں کیا جائے گا بلکہ باقی ماندہ پیداوار کی زکوٰۃ وصول کی جائے گی جب کہ اس کی مقدار کم از کم تین سو صاع ہو ( ایک پیمانہ جو تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) اس لیے کہ اسی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جو کہ اس نے کھالیا یا کھلا دیا اس کی زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ اگر اس نے تین سو صاع کھا لیے اور کھلا دیے تو بھیی اس سے کوئی عشر وصول نہیں کیا جائے گا اگر اس مقدار سے زائد اس کے پاس کچھ بچ رہا تو اس عشر یا نصف عشر وصول کیا جائے گا خواہ وہ مقدار قلیل ہو یا کثیر۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اناج کی صورت میں خرچ کا حصہ نکالنے سے پہلے زکوٰۃ علیحدہ کردی جائے گی۔ البتہ جتنی مقدار مالک اور اہل و عیال نے استعمال کرلی ہوگی اس کی زکوٰۃ نہیں نکالی جائے گی اس حیثیت اس تر کھجور جیسی ہے جس کا تخمینہ لگایا جاتا بلکہ باغ کے مالک اور اس کے اہل و عیال کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ تخمینہ لگانے والا باغ کے مالک اور اس کے اہل و عیال کے استعمال کے لیے پیداوار کا ایک حصہ رہنے دے گا اور اس کا تخمینہ نہیں لگائے گا۔ اسی طرح جو شخص اپنے درختوں پر لگی ہوئی تر کھجور اتار کر کھالے گا اس کا بھی حساب نہیں کیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) حاصل شدہ پیداوار کی پوری مقدار پر حق یعنی عشر کے وجوب کا مقتضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدار کی کوئی تخصیص نہیں کی جو مالک اور اس کے اہل خانہ اپنے استعمال میں لے آئیں اس لیے عشر کے حق کی پوری پیداوار پر محمول کیا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کٹائی کے دن حق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کٹائی سے پہلے جو مقدار استعمال میں لے آئی جائے اس پر حق یعنی عشر واجب نہیں ہوگا اس کے جواب کہا جائے گا کہ حصاد کاٹنے اور قطع کرنے کا نام ہے۔ اس لیے وہ اپنی پیداوار کا جو حصہ بھی قطع کرے گا اس کا دسواں حصہ نکالنا اس پر واجب ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو کٹائی کے دن سے پہلے استعمال میں آنے والے حصے میں عشر کی نفی کرتی ہو اس لیے کہ آیت میں اللہ کی مراد یہ ہوسکتی ہے کہ پوری پیداوار کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کر دو ، اس حصے کا بھی جو تم استعمال میں لے آئے ہو اور اس حصے کا بھی جو ابھی تمہارے استعمال میں نہیں آیا ہے۔ جن لوگوں نے استعما میں آنے والی پیداوار کی مقدار کا حساب نہیں کیا انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے شعبہ نے خبیب بن عبدالرحمن سے نقل کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن مسعود کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت سہل بن ابی ختمہ ؓ ایک دفعہ ہماری مجلس میں آئے تھے انہوں نے ہمیں حضور ﷺ کا یہ اراشد سناییا ( اذا خرصتم فخذوا و دعوا الثلث فان لم تدعوا الثلث فالریع جب تم پیدوار کا تخمیہ لگائو تو اسی حساب سے زکوٰۃ وصول کرلو اور تہائی حصہ رہنے دو اس کا تخمینہ نہ لگائو۔ اگر تہائی حصہ رہنے نہیں دیتے تو چوتھائی حصہ رہنے دو ) اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ یہ اس روایت کے ہم معنی ہو جس کے راوی خود حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓ ہیں، اس میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں پیداوار کا تخمینہ لگانے کے لیے روانہ کیا تھا۔ آپ کے پاس ایک شخص نے آ کر شکایت کی کہ انہوں نے پیداوار سے زائد کا تخمینہ لگایا ہے اس پر حضور ﷺ نے حضرت سہل ؓ سے فرمایا کہ تمہارے ابن عم کا خیال ہے تم نے زائد تخمینہ لگایا ہے۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ میں نے پیداوار کی اتنی مقدار رہنے دی ہے یعنی تخمینہ نہیں لگایا ہے جو ان کے اہل و عیال کے استعمال میں آسکے۔ نیز جس سے وہ مساکین کو بھی کھلا سکیں اور وہ مقدار بھی جو آندھیوں کی زد میں آ کر ضائع ہوجائے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا : تمہارے ابن عم نے تمہیں اچھی خاصی مقدار دے دی ہے اور تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے “ درج بالا روایت میں عریہ کے لفظ کا ذکر ہوا ہے۔ عریہ ( کھجور کا وہ درخت جس کے مالک نے اس کا پھل کھانے کے لیے کسی اور کو دے دیا ہو) دراصل صدقہ ہوتا ہے۔ حضور ﷺ نے دراصل تہائی پیداوار کو صدہ کردینے کا حکم دیا ہے۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو جریر بن حازم نے قیس بن مسعود سے اور انہوں نے مکحول شامی سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ( خففو فی الخرص فان فی المال العریۃ والوصیۃ تخمینہ لگانے میں ذرا تخفیف سے کام لیا کرو اس لیے کہ پیداوار میں عریہ یعنی صدقہ بھی لاحق ہوتا ہے اور وصیت بھ) آپ نے عریہ اور وصیت دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ عریہ سے صدقہ مراد ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ ( لیس فی العرایا صدقۃ عرایا ( عریہ کی جمع ہے) میں کوئی صدقہ نہیں) اس لیے کہ عریہ خود صدقہ ہے اس لیے آپ نے اس میں صدقہ واجب نہیں کیا : اس روایت کا فائدہ یہ ہے کہ عشر ادا کرنے والا جتنی مقدار وہ صدقہ کر دے گا اس کا حساب تو کیا جائے گا لیکن اس کی زکوٰۃ نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی مالک اس کا تاوان ادا کرے گا۔ پیداوار کی اس مقدار میں اختلاف رائے کا ذکر جس پر زکوٰۃ واجت ہوتی ہے امام ابوحنیفہ اور زفر کا قول ہے کہ زمین کی پیداوار خواہ قلیل ہو یا کثیر اس میں عشر اور نصف عشر واجب ہوگا البتہ وہ چیزیں اس سے خارج رہیں گی جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ امام ابویوسف امام محمد، امام مالک، قاضی ابن ابی لیلیٰ ، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک پیداوار پانچ وسق یعنی تین سو صاع ( ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) کو نہ پہنچ جائے جو حق یعنی عشر کے وجوب کی کم سے کم حد ہے اس وقت تک اس میں عشر واجب نہیں و گا۔ یہ اس وقت ہوگا جب پیداوار مکیل کی صورت میں ہو یعنی اسے ناپا جاتا ہو۔ اگر وہ جنس مکیل کے تحت آنے والی نہ و تو اس صورت میں امام ابو یوسف (رح) ن یہ اعتبار کیا ہے کہ وہ جنس مکیل کے تحت آنے والی اجناس میں سے جن میں عشر واجت ہوتا ہے سب سے گھٹیا جنس کے پانچ وسق کے برابر ہوجائے۔ شہد کا حکم البتہ شہد کو انہوں نے اس سے خارج رکھا ہے۔ ان سے یہ مروی ہے کہ جب شہد کی مقدار دس رطل کو پہنچ جائے تو اس میں عشر واجب ہوگا ( ایک رطل چالیس تولے ( آدھ سیر) کے مساوی ہوتا ہے) ایک روایت ہے کہ انہوں نے دس مشکیزوں کا اعتبار کیا ہے۔ ان سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ وسق کے تحت آنے والی اجلاس میں سب سے گھٹیاجنس کے پانچ وسق کی قیمت کی مقدار شہد میں عشر واجب ہوگا۔ امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں سب سے اعلیٰ پیمانے کا اعتبار کرتےیں جس کے ذریعے اس پیداوار کا اندازہ لگایا جاتا ہے پھر جب وہ پیداوار اس پیمانے کے پانچ گنا ہوجائے تو اس میں عشر واجب کرتے ہیں مثلاً زعفران کو لے لیجیے اس کی پیمائش کا سب سے بڑا پیمان مَن ( دو رطل) ہے۔ امام محمد زعفران میں عشر کے وجوب کے لیے پانچ من کی مقدار کا اعتبار کرتے ہیں اس لیے کہ ایک من سے زائد مقدار کے زعفران کو مَن کے حساب سے دوگنا یا اس کی کسر شمار کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ” دو من زعفران “ یا ” ساڑھے تین من، یا سوا تین من “ وغیرہ۔ روئی میں وہ پانچ گانٹھوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ روئی کا سب سے بڑا پیمانہ گانٹھ ہے۔ اس سے جو زائد ہوگی وہ اسی گانٹھ کی دوگنی مقدار یا سہ گنی یا اس کی کوئی کسر ہوگی۔ شہد کا سب سے اعلیٰ پیمانہ فرق ہے ( ایک پیمانے کا نام جس سے شہد کی پیمائش کی جاتی تھی اب اس کا رواج ختم ہوچکا ہے) اس لیے امام محمد کے نزدیک پانچ فرق شہد میں عشر واجب و گا، امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے حق میں قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ ) سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ آیت کا حکم آیت میں مذکور تمام پیداوار کی طرف راجع ہے۔ اس حکم میں تمام پیداوار کے لیے عموم ہے اگرچہ واجب ہونے والی مقدار کے لحاظ سے آیت میں اجمال ہے اس لیے کہ قول باری ( حقہ) ایک مجمل لفظ ہے جسے بیان کی ضرورت ہے۔ تا ہم واجب ہونے والی مقدار کا بیان حضور ﷺ کے ارشاد عشر اور نصف عشر کی صورت میں وارد ہوچکا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک پر قول باری ( انفقوا من طیبات ما سکبتم و مما اخرجنا لکم من الارض) سے بھی استدلال کیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ آیت میں زمین کی تمام پیداوار کے لیے عموم ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ ( فیما سقت السماء العشر) آپ نے قلیل اور کثیر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ قیاس اور نظر کی جہت سے بھیی یہ بات سامنے آتی ہے کہ زمینی پیداوار میں سب کے نزدیک سال گزرنے کا اعتبار نہیں کیا جاتا یعنی عشر کے وجوب کے لیے حولان حول ( سال گزرنے ) کی شرط کے اسقاط پر سب کا اتفاق ہے۔ اس لیے مقدار کے اعتبار کا سوقط بھی لازم ہوگیا جس طرح مال غنیمت اور رکاز یعنی مال مدغونہ اور زمین کے اندر پائی جانے والی معدنیات میں مقدار کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ عشر کے وجوب میں مقدار کا اعتبار کرتے ہیں وہ اپنے استدلال میں محمد بن مسلم الطائفی کی روایت پیش کرتے ہیں جو انہیں عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے سنائی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( لا صدقۃ فی شئی من الزرع او الکرم اوالنخل حتی یبلغ خمسۃ اوسق۔ فصل یعنی غذائی اجناس انگور اور کھجور میں کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک ان کی مقدار پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے) لیث بن ابی سلیم نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( لیس فیما رون خمسۃ وسق صدقۃ ۔ پانچ وسق سے کم مقدار میں کوئی صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں ہے) ایوب بن موسیٰ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اسے موقوف روایت کی ہے۔ یعنی اس روایت کا سلسلہ حضر ابن عمر ؓ پر جاکر ختم ہوگیا ہے۔ عبداللہ بن المبارک نے معمر سے، انہوں نے سہیل بن ابی صالح سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام ابوحنیفہ کی طرف سے ان روایات کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب حضور ﷺ سے ایک مسئلے کے بارے میں دو روایتیں منقول ہوں جن میں سے ایک عام ہو اور دوسری خاص ، اور فقہاء ان میں سے ایک رویات پر عمل پیرا ہونے میں متفق ہوں۔ جب کہ دوسری روایت پر عمل کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو ایسی صورت میں متفق علیہ روایت کو مختلف فیہ روایت پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی۔ جب عشر والی روایت پر عمل پیرا ہون میں سب کا اتفاق ہے اور مقدار والی روایت میں اختلاف رائے ہے تو اس صورت میں عشر والی روایت کو اس کے عموم محمول کرنا اولیٰ ہوگا اور یہ مختلف فیہ روایت کی حیثیت کو ختم کر دے گی۔ اس صورت میں اس روایت کو یا تو منسوخ تسلیم کرلیا جائے گا یا اسے ایسے معنوں پر محمول کیا جائے گا جو عشر والی روایت کی کسی طرح منافی نہ ہو۔ ایک اور پہلو سے اس پر نظر ڈالیے حضور ﷺ کا ارشاد ( فیما سقت السماء العشر) وسق کے پیمانے میں آنے والی اجناس اور نہ آنے والی اجناس دونوں کے اندر عشر کے ایجاب کے لیے عام ہے۔ جبکہ پانچ وسق والی روایت وسق کے پیمانے میں آنے والی اجناس کے لیے خاص ہے اس میں دوسری اجناس داخل نہیں ہیں۔ اس لیے وسق والی روایت کا عشر واجب ہونے والی مقدار کے لیے بیان بننا درست نہیں ہوگا۔ اس لیے ک بیان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان تمام صورتوں کو شامل ہوتا ہے جو بیان کی مقتضی ہوتی ہیں۔ جب وسق والی روایت وسق کے تحت آنے والی اجناس کی تعداد کے بیان تک محدود ہے دوسری اجناس کو شامل نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس عشر والی روایت وسق میں آنے والی اجناس اور نہ آنے والی اجناس دونوں کو شامل ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ وسق والی روایت عشر واجب ہونے والی مقدار کا بیان بن کر وارد نہیں ہوئی۔ ایک اور پہلو سے دیکھیے جو اجناس وسق کے تحت آتی ہیں وسق والی روایت ان میں عشر کے ایجاب کے لیے ان کی مقدار پانچ وسق تک پہنچنے کی مقتضی ہوگی اور جو وسق کے تحت نہیں آتی ہیں ان کی قلیل اور کثیر دونوں مقداروں میں عشر واجب ہوگا اس لیے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( فیما سقت السماء العشر) اس صورت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہوگی جو وسق کے تحت نہ آنے والی اجناس کی مقدار کی تخصیص کی موجب بن سکے۔ اس طرح یہ قول اس قابل ہوگا کہ اسے مطلقاً نظر انداز کردیا جائے اور اس کے قائل کو ساقط الاعتبار اور ناسمجھ گردانا جائے اس لیے کہ سلف اور خلف سب کا اس کے خلاف اتفاق ہے۔ وسق والی روایت کی حیثیت حضور ﷺ کے اس ارشاد جیسی نہیں ہے ) فی الرقۃ ربع العشر چاندی میں چالیسواں حصہ ہے ) یا ( لیس فیما دون خمس اورا زکوٰۃ پانچ اوقیہ ( ایک وزن جو سات مثقال کا ہوتا ہے) سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ چاندی کی جو بھی مقدار ہوتی ہے وہ وزن میں داخل ہوتی ہے ۔ اوقیہ کا ذکر وزن کے لیے ہوتا ہے اس لیے دوسری روایت میں مذکورہ تمام چاندی کی مقدار کے لیے مذکورہ بالا روایت کا بیان بن جانا درست ہوگیا۔ نیز ہم نے بیان کردیا ہے کہ مال کے اندر زکوٰۃ کے سوال اللہ کے اور بھی حقوق واجب تھے جو زکوٰۃ کی بنا پر منسوخ ہوگئے جس طرح ابو جعفر محمد بن علی اور ضحاک سے مروی ہے کہ قرآن میں مذکور ہر صدقہ کو زکوٰۃ نے منسوخ کردیا۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ مقدار کا اعتبا ان حقوق میں کیا گیا ہو جو پہلے واجب تھے اور پھر منسوخ ہوگئے جس طرح یہ قول باری ہے ( واذاخضرالقسمۃ اولو القربی والیتامیٰ و المساکین فارزقوھم منہ اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو ) یا جس طرح مجاہد سے مروی ہے ” جب فصل کاٹو تو مساکین کے لیے کچھ الگ کر دو ، اور جب گہائی کرو، اور جب دانے الگ کرو تو بھی کچھ دے دو اور جب ناپ کے ذریعے ۔۔۔۔ کی مقدار معلوم کرلو تو اس کی زکوٰۃ نکال دو “ یہ حقوق اب واجب نہیں رہے اس لیے ممکن ہے کہ پانچ وسق مقدار کی جو روایت منقول ہے ان کا ان جیسے حقوق میں اعتبار کیا گیا ہو۔ جب اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا تو اس روایت کے ذریعے آیت کی نیز اس حدیث کی تخصیص جائز نہیں رہی جس کی روایت پر سب کا اتفاق ہے۔ حضور ﷺ سے ایک روایت ہے ( لیس فیما دون خمسۃ و سق زکوٰۃ ۔ پانچ وسق سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے) یہ ممکن ہے کہ آپ نے اس سے مال تجارت کی زکوٰۃ مراد لی ہو وہ اس طرح کہ کسی شخص نے آپ سے تجارت کی غرض سے رکھے ہوئے طعام یا خشک کھجور کے متعلق جس کی مقدار پانچ وسق سے کمی تھی۔ سوال پوچھا ہو اور آپ نے اسے بتادیا ہو کہ اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اس لیے کہ اس زمانے میں اس مقدار کی قیمت زکوٰۃ کے نصاب کو نہیں پہنچی ہوگی۔ راوی نے حضور ﷺ کے الفاظ تو نقل کردیے لیکن سبب کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا جس طرح بہت سی روایات میں یہ صورت حال پائی جاتی ہے۔ عشر اور خراج کو اکٹھا کرنے کے متعلق اختلاف رائے کا ذکر امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ عشر اور زکوٰۃ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ امام مالک، سفیان ثوری، حسن بن صالح ، شریک بن عبداللہ اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر خراجی زمین ہو تو اس صورت میں پیداوار پر عشر واجب ہوگا اور زمین پر خراج عائد ہوگا عشر اور خراج ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کی دلیل یہ ہ کہ حضرت عمر ؓ بن الخطاب نے عراق کے دیہی علاقے فتح کرلیے تو آپ نے وہاں کی زمینوں پر خراج عائد کردیا اور پیداوار پر عشر واجب نہیں کیا۔ آپ نے یہ قدم صحابہ کرام کے مشورے اور ان کی رضا مندی سے اٹھایا تھا اس طرح اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہوگیا اور بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی اس پر عمل کیا۔ اگر ان دونوں باتوں کو یکجا کرنا جائز ہوتا تو حضرت عمر ؓ مفتوحہ زمینوں پر دونوں چیزیں عائد کردیتے اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے ( فیما سقت السماء العشر فیما سقی بالناضح نصف العشر) یعنی بارانی زمین کی پیداوار میں عشر واجب ہے اور چاہی زمین کی پیداوار میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے۔ حضور ﷺ نے دونوں قسموں کی زمین کی پیداوار پر واجب ہونے والی پوری مقدار بیان فرما دی۔ اگر اس کے ساتھ خراج بھی واجب وہ جائے تو یہ واجب ہونے والی مقدار کا ایک حصہ بن جائے گا لیے کہ خراج کبھی تہائی حصہ ہوتا ہے اور کبھی چوتھائی، کبھی ایک قفیز ( ایک پیمانہ کا نام ) ہوتا ہے اور کبھی ایک درہم۔ نیز حضور ﷺ نے چاہی زمین میں عشر کا نصف مقرر فرمایا اس لیے کہ زمنی کے مالک پر اخراجات کا بوجھ پڑجاتا ہے۔ اب اگر زمین پر خراج بھی عائد ہوجائے تو اس کے بوج کی وجہ سے باقی ماندہ نصف عشر کا سقوط بھی لازم ہوجائے گا اور اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اخراجات کے بوجھ کی کمی بیشی کی بناء پر مختلف زمینوں کے احکام بھی مختلف ہوجائیں جس طرح حضور ﷺ نے بارانی اور چاہی زمنیوں کے احکام میں اخراجات کے بوجھ کی بنا پر فرق رکھا تھا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہ جسے سہیل بن بی صالح نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا (منعت العراق قفیزھا و درھمھا۔ عراق نے اپنے قفیز اور درہم کی ادائیگی روک دی) اس کے معنی ہیں وہ جلد ہی ادائیگی روک دے گا۔ اگر عراق کی دیہی زمنیوں میں ۔۔۔۔۔۔ عشر واجب ہوتا تو یہ بات محال ہوتی کہ خراج کی ادائیگی تو رکی رہے اور عشر کی ادائیگی جاری رہے اس لیے کہ جو شخص خراج کی ادائیگی روک دے وہ عشر کی ادائیگی اور زیادہ سختی سے روک سکتا ہے۔ حضور ﷺ نے درج بالا قول میں عشر کا ذکر نہیں کیا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ خراجی زمین میں عشر واجب نہیں ہوتا۔ ایک روایت ہے کہ نہر الملک ( ایک نہر یا دریا کا نام) کی ایک چودھرائن مسلمان ہوگئی ۔ حضرت عمر ؓ نے اس علاقے کے حاکم کو لکھا کہ اگر یہ اپنی زمین قبضے میں رکھنا پسند کرے تو اس سے خراج وصول کیا جائے گا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اپنے علاقے کا ایک سردار مسلمان ہوگیا حضرت علی ؓ نے اس سے فرمایا کہ اگر تم اپنی زمین پر ٹھہرے رہو گے بعنی اپنی زمین قبضے میں رکھو گے تو ہم تم سے خراج وصول کریں گے۔ اگر خراج کے ساتھ عشر بھی واجب ہوتا تو حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ اس کے وجوب کی بھی انہیں خبر دیتے۔ ان دونوں حضرات کے اس اقدام کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی۔ ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ خراج اور عشر دونوں اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے ہیں اس لیے بیک وقت ان دونوں کو ایک شخص پر اکٹھا کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سب اس پر متفق ہیں کہ چرنے والے جانور اگر مال تجارت ہوں تو ان پر بیک وقت مویشیوں کی زکوٰۃ اور تجارت کی زکوٰۃ کا وجوب ممتنع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خراج کی حیثیت اجرت جیسی ہے اور عشر صدقہ ہے اس لیے جس طرح زمین کی اجرت اور اس کی پیداوار عشر کا یک ا ہوجانا جائز ہے۔ اسی طرح خراج اور عشر کا یکجا ہوجانا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کی خراجی زمین ۔۔۔۔۔ یعنی مال غنیمت کے حکم میں ہوتی ہے اور یہ حکم اس پر باقی رہتا ہے اور اس پر کاشت کرنے والے خراج کی ادائیگی کے بدلے میں اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس لیے خراج گویا زمین کی اجرت بن گیا۔ یہ صورت حال خراج کے ساتھ عشر کے وجوب کو مانع نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک تو یہ کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اجارہ پر لینے والے شخص پر بیک وقت عشر اور اجرت یکجا نہیں ہوسکتے اس لیے جب اجرت لازم ہوگی تو عشر ساقط ہوجائے گا۔ عشر زمین کے مالک پر واجب ہوگا جو اجرت وصول کرتا ہے۔ اس لیے امام اوب حنیفہ رحتمہ اللہ علیہ پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا جو شخص یہ کہتا ہے کہ خراجی زمین پر زمیندار کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ اسے فئی یعنیی مال غنیمت کے حکم میں رکھا جاتا ہے اس کا قول بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک اس قسم کی زمین پر زمیندار کی ملکیت ہوتی ہے اس موضوع پر کسی اور مقام میں بحث کی گئی ہے۔ پھر معترض کا یہ کہنا کہ خراج اجرت ہے کئی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ درخت اور کھجور کے پودے کو کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے جب کہ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ان دونوں کا خراج ادا کیا جاتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خراج اجرت نہیں ہے۔ نیز اجارہ اسی وقت درست ہوتا ہے جب یہ ایک مقررہ مدت کے لیے ہو جبکہ کسی بھی امام المسلمین نے خراجی زمینوں کے مالکان پر کچھ مقرر نہیں کیا۔ نیز اگر خراجی زمین اور اس پر بسنے والوں کو فئی کے حکم پر برقرار رکھا جائے تو پھر ان سے فی راس کے حساب سے جزیہ لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ فئی کی بناء پر ان کی حیثیت غلاموں کی ہوگی اور غلام پر کوئی جزیہ نہیں ہوتا۔ خراج اور عشر کے اسباب کا ایک دوسرے کے منافی ہونا بھیی ان دونوں کے اجتماع کی نفی پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ خراج کے وجوب کا سبب کفر ہے کیونکہ خراج جزیہ کی جگہ عائد کیا جاتا ہے جبکہ فئی یعنی غنیمت کے تحت حاصل ہونے والے تمام اموال نیز عشر کے وجوب کا سبب اسلام ہے جب ان دونوں کے اسباب ایک دوسرے سے مختلف ہوگئے تو پھر ان کے مسبب کا بھیی ایک دوسرے سے منافی ہونا ضروری ہوگیا۔
Top