Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 121
وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ١ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ١ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠ ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا
: اور نہ کھاؤ
مِمَّا
: اس سے جو
لَمْ يُذْكَرِ
: نہیں لیا گیا
اسْمُ اللّٰهِ
: اللہ کا نام
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاِنَّهٗ
: اور بیشک یہ
لَفِسْقٌ
: البتہ گناہ
وَاِنَّ
: اور بیشک
الشَّيٰطِيْنَ
: شیطان (جمع)
لَيُوْحُوْنَ
: ڈالتے ہیں
اِلٰٓي
: طرف (میں)
اَوْلِيٰٓئِهِمْ
: اپنے دوست
لِيُجَادِلُوْكُمْ
: تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں
وَاِنْ
: اور اگر
اَطَعْتُمُوْهُمْ
: تم نے ان کا کہا مانا
اِنَّكُمْ
: تو بیشک
لَمُشْرِكُوْنَ
: مشرک ہوگے
اور جس چیز پر خدا کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے۔ اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں۔ اور اگر تم لوگ ان کے کے کہے پر چلے تو بیشک تم بھی مشرک ہوئے۔
ذبیحہ پر ترک تسمیہ اور اقوال فقہاء قول باری ہے ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے) آیت میں اسے جانور کا گوشت کھانے کی ممانعت ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اس بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مسلمان ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اگر بھول کر بسم اللہ چھوڑ دے تو اس کا گوشت کھالیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں گوشت کھالیا جائے گا۔ اوزاعی سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے ۔ جو شخص بھول کر بسم اللہ نہ پڑھے تو ایسے ذبیحہ کے گوشت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ، حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد، عطاء، سعید بن المسیب، ابن شہاب اور طائوس سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس کا گوشت کھا لینے میں کوئی حرک نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ایسا ذبیحہ ملب اسلامیہ کے مطابق ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ مسلمان کے دل میں اللہ کی یاد ہوتی ہے۔ آپ کا یہ قول بھی ہے کہ جس طرح شرک کی صورت میں اللہ کے نام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اسی طرح ملت اسلامیہ پر ہوتے ہوئے اللہ کا نام بھول جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ عطاء کا قول ہے کہ المسلم ، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے مسلمان کے نام المسلم میں، خود اللہ کا نام کا ذکر موجود ہے، المومن بھی اللہ کا ایک نام ہے اس لیے ذبح کرنے والے کے نام المومن میں اللہ کے نام کا ذکر موجود ہے۔ ابن عمر ؓ کا خیال ابو خلاد الصم نے ابن عجلان سے روایت کی ہے، انہوں نے نافع سے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے اپنے ایک غلام سے جب و جانور ذبح کرنے لگا، فرمایا ” اللہ کے بندے، بسم اللہ پڑھ لو “ غلام نے جواب دیا ” میں نے پڑھ لیا ہے “۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے پھر یہی کہا، اس نے پھر یہی جواب دیا، تیسری دفعہ بھی آپ نے اس سے یہی کہا اور اس نے یہی جواب دییا۔ جب اس نے جانور ذبح کرلیا تو حضرت ابن عمر ؓ نے اس کا گوشت نہیں کھایا۔ یونس بن عبید نے قریش کے ایک آزاد کردہ غلام سے روایت کی ہے ، اس نے اپنے والد سے ، کہ وہ حضرت ابن عمر ؓ کے ایک غلام کے پاس سے گزرے تھے جو ایک قصاب کی دکان پر کھڑا تھا۔ قصاب نے ایک بکری ذبح کی تھی لیکن بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تھا ۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اسے وہاں کھڑا کر کے یہ حکم دیا تھا کہ جب کوئی شخص گوشت خریدنے آئے تو اسے میری طرف سے کہہ دینا کہ اس شخص نے بکری درست طریقے سے ذبح نہیں کی ہے اس لیے اس کا گوشت نہ خریدو ۔ شعبہ نے حماد سے روایت کی ہے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے کہ ایک شخص جانور ذبح کرتا ہے لیکن بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا ہے تو مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ اس کا گوشت نہ کھایا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ایسے جانور کے گوشت کی تحریم کی موجب ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو خواہ جان بوجھ کر نہ لیا گیا ہو یا بھول جانے کی بنا پر ایسا ہوا ہو۔ تا ہم ہمارے پاس ایسی دلالت موجود ہے جو یہ نشاندہی کرتی ہے کہ آیت میں نسیان مراد نہیں ہے ۔ یعنی نسیان کی بناء پر اگر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس سے گوشت کی حلت پر کوی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ جو لوگ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت میں بھی اس ذبیحہ کے گوشت کی حلت کے قائل ہیں ان کا قول آیت کے خلاف ہے۔ آیت کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایسے لوگوں کے پاس کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ علاوہ ازیں یہ قول ان تمام آثار و روایات کے خلاف جاتا ہے جس میں شکار اور ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنے کا ایجاب مروی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں نہی کے حکم سے وہ جانور مراد ہیں جنہیں مشرکین ذبح کرتے تھے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو شریک نے سماک بن حرب سے نقل کی ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ آپ نے فرمایا ” مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ جس جانور کو تمہارا رب قتل کر دے اور وہ مرجائے اس کا گوشت تو تم نہیں کھاتے ہو لیکن جو جانور تم خود قتل کر دو اور ذبح کر تو اس کا گوشت کھالیتے ہو “۔ اس پر اللہ تعالیٰ ن یہ آیت نازل فرمای۔ ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد مردار ہے۔ اس پر سلسلئہ تلاوت میں یہ قول بارب بھی دلالت کرتا ہے۔ ( لیوحون الیٰ اولیاء ھم لیجادلوکم۔ شیاطین ساتھیوں کے دلوں میں شکوک اور اعتراضات القا کرتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑا کریں) جب یہ آیت مردار نیز ان جانوروں کے بارے میں ہے جنہیں مشرکین ذبح کرتے تھے تو اس کا حکم ان ہی صورتوں تک محدود رہے گا۔ اس میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور داخل نہیں ہوں گے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر آیت کا نزول کسی خاص سبب کے تحت ہوا ہو تو اس سے اس کے حکم کو اسی سبب کے اندر محدود کردینا لازم نہیں آتا بلکہ حکم کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے جب کہ حکم میں سبب سے بڑھ کر عموم موجود ہو۔ اگر آیت میں مشرکین کے ہاتھوں ذبح شدہ جانور مراد ہوتے تو اللہ تعالیٰ کا ان کا ضرور ذکر کرتا۔ اور صرف ترک تسمیہ کے ذکر پر اقتصار نہ کرتا۔ جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ مشرکین اپنے ذبائح پر اللہ کا نام لے بھی لیں پھر بھی ان کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ علاوہ ازیں آیت میں مشرکین کے دبائح مراد ہی نہیں ہیں اس لیے کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کسی صورت میں بھی نہیں کھایا جاتا خواہ انہوں نے ان پر اللہ کا نام لیا ہو یا نا لیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کی تحریم کو منصوص طریقے سے بیان کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے ( وما ذبح علی النصب اور ایسا جانور جو کس آستانے پر ذبح کیا گیا ہو) نیز اگر آیت میں مردار یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور مراد ہوں پھر بھی ترک تسمیہ کی بناء پر ذبح کے عدم جواز پر آیت کی دلالت قائم رہے گی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ترک تسمیہ کو ذبح ہونے والے جانور کے مردار ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ہر ایسا جانور جسے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ مردار ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت بھی منقول ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں تسمیہ مراد ہے۔ کافر کا ذبیحہ مراد نہیں ہے۔ یہ روایت اسرائیل نے سماک سے کی ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ انہوں نے قول باری ( وان الیاطین لیوحون الی اولیاء ھم) کی تفسیر میں فرمایا : ” مشرکین کہا کرتے تھے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے گا اس کا گوشت نہ کھائو، اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس کا گوشت کھالو۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بتایا کہ مشرکین کی طرف سے جھگڑا ترک تسمیہ کے بارے میں تھا، جبکہ آیت کا نزول تسمیہ کے ایجاب کے سلسلہ میں ہوا۔ اس کا نزول نہ تو مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں کے بارے میں ہوا اور نہ مردار ہی کے بارے میں۔ جان بوجھ کر ترک تسمیہ کی بنا پر ذبح کا عمل فاسد ہوجاتا ہے اس پر یہ قول باری ( یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو) تا قول باری ( واذکروا اسم اللہ علیہ ۔ البتہ اس پر الہل کا نام لے لو) یہ تو واضح ہے کہ آیت میں صیغہ امر ہے جو ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ کھانے والے پر اللہ کا نام لینا واجب نہیں ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ شکار کے دوران اللہ کا نام لینا مراد ہے۔ آیت میں جن سائلین کا ذکر ہے وہ سب مسلمان تھے انہیں شکار کا گوشت کھانے کی تسمیہ کی شرط پر اجازت دی گئی اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے : ( فاذکرو اسم اللہ علیھا صواف۔ تم انہیں کھڑے کر کے ان پر اللہ کا نام لیا کرو) یعنی انہیں سخر یعنی ذبح کرنے کی حالت میں اس لیے قول باری ہے ( فاذا وجبت جنوبھا۔ پس جب ان کے پہلو زمین پر ٹک جائیں) حرف فاء تعقیب کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ سنت کی جہت سے اس پر حضرت عدی ؓ حاتم کی حدیث دلالت کرتی ہے ۔ آپ نے حضور ﷺ سے کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا ( اذا رسلت کلبک المعلم وذکرت اسم اللہ علیہ فکل اذا سمک علیک، وان وجدت معہ کلیا اخروقد قتلہ لا تکلہ فانما ذکرت اسم اللہ علیٰ کلبک ولم تذکرہ علی غیرہ۔ جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور اس پر اللہ کا نام لے لو۔ تو اس شکار کا گوشت کھالو جب کتا وہ شکار تمہارے لیے پکڑ رکھے ۔ اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا دیکھو جبکہ شکار قتل ہوچکا ہو تو اس کا گوشت نہ کھائو۔ اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر اللہ کا نام لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا) حضرت عدی ؓ مسلمان تھے۔ آپ نے انہیں کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا تھا اور بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت میں انہیں یہ کہہ کر شکار کا گوشت کھانے سے روک دیا تھا کہ ( فلا تکلہ فانما ذکرت اسم اللہ علی کلب، تو نہ کھا اسے بیشک تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی ہے) زیر بحث آیت اس جانور کا گوشت کھانے سے نہی کی مقتضی ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور ترک تسمیہ سے نہی کی بھی مقتضی ہے۔ اس نہی کی تاکید پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( وانہ لفسق ایسا کرنا فسق ہے) یہ حکم دونوں صورتوں کی طرف راجع ہے یعنی ترک تسمیہ کی طرف اور اکل کی طرف بھی۔ یہ قول باری اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہاں وہ صورت مراد ہے جس میں جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو اس لیے کہ بھول جانے والے انسان کو فسق کا نشان لگانا درست نہیں ہوتا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے عبدالعزیز الدر اور دی نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے کہ لوگوں نے حضور ﷺ سے عر کیا ” جب ہم بدوئوں کے ہاں رات گزارتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں کھانے میں گوشت پیش کرتے ہیں چونکہ کفر سے ان کا زمانہ قریب ہے، اس لیے ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ آیا انہوں نے جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھا ہے یا نہیں “۔ آپ نے جواب میں فرمایا ( سموا علیہ اللہ وکلوا، اس پر اللہ کا نام لے کر اسے کھالو) اگر تسمیہ ذبح کی شرط نہ ہوتی تو آپ سائلین سے یہ فرماتے کہ ” ترک تسمیہ سے تم پر گوئی گناہ لازم نہیں آتا “ لیکن آپ نے انہیں کھانے کا حکم دیا۔ اس لیے کہ بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملات کو جواز اور صحت پر محمول کیا جاتا ہے۔ فساد اور عدم جواز پر کسی دلالت کی بنا پر ہی محمول کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں اگر کسی مسلمان کا ترک تسمیہ مراد ہوتا تو جو شخص ایسے گوشت کا کھانا مباح سمجھتا ہے وہ ضرور فاسق کہلاتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ( وانہ لفسق) اب جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھنے والا مسلمان فسق کی علامت کا مستحق قرار نہیں پاتا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ آیت میں ترک تسمیہ مراد نہیں ہے بلکہ مردار یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور مراد ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر قول باری (وانہ لفسق) مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کی طرف راجع ہے۔ اگر ان میں سے بعض کی تخصیص پر دلالت قائم ہوجاتی ہے تو یہ دلالت ذبیحہ کے سلسلے میں مسلمان پر تسمیہ کے ایجاب کے بارے میں آیت کے حکم کے بقا کے لیے مانع نہیں ہوگی۔ نیز ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص تسمیہ کے وجوب کا اعتقاد رکھنے کے باوجود اسے جان بوجھ کر ترک کردیتا ہے وہ فاسق ہے، اسی طرح اس شخص پر بھی فسق کی علامت چسپاں ہوجائے گی جو اس اعتقاد کے باوجود اس قسم کے ذبیہ کا گوشت کھالے گا اس لیے کہ تسمیہ ذبح کی شرط ہے لیکن جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ اس حکم کا تعلق مردار سے ہے یا مشرکین کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانوروں سے ہے۔ مسلمانوں کے ذبائح سے نہیں ہے وہ فاسق نہیں کہلائے گا اس لیے کہ آیت کے حکم کی تاویل کی بناء پر اس سے فسق کی علامت زائل ہوجائے گی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب تسمیہ ایک ذکر کا نام ہے ذبح کے عمل کے دوران اور اس کی انتہا پر اس کا موجود ہونا واجب نہیں ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ابتداء میں بھی یہ واجب نہ ہو، اگر یہ واجب ہوتا تو پھر جان بوجھ کر ترک کرنے والے اور بھول کر ترک کرنے والے دونوں کا حکم یکساں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جس قیاس کا ذکر کیا ہے وہ محض ایک دعویٰ ہے۔ اس قیاس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس لیے اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایمان، شہادتین، تبلیہ اور استیذان وغیرہ کی صورتوں میں اس قیاس کا انتقاض لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ان امور میں نہ بقا کے دوران وجوب ہے اور نہ ہی انتہاء میں لیکن اس کے باوجود ابتداء میں اس کا وجوب ہے۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ بھول کر اگر بسم اللہ پڑھنا رہ جائے تو یہ ذبح کی صحت کو مانع نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ قول باری ہے ( ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ) اس میں عمداً ترک تسمیہ کرنے والوں کو خطاب ہے، بھول کر ترک تسمیہ کرنے والوں کو خطاب نہیں ہے۔ سلسلہ تلاوت میں قول باری ( وانہ لفسق) بھی اس پر دلالت کرتا ہے ۔ فسق اس شخص کی صفت نہیں بن سکتا جو بھول کر تک تسمیہ کا مرتکب بنا ہو، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بھول جانے والا شخص نسیان کی حالت میں بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ اوزاعی نے عطاء بن ابی رباح سے۔ انہوں نے عبید بن عمیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے حضور ﷺ نے فرمایا ( تجاوز اللہ عن امنی الخطاء والنسیان وما اسکرھوا علیہ ۔ اللہ نے میری امت سے خطاء اور نسیان کی بنا پر سززد ہونے والے افعال کا گناہ معاف کردیا ہے۔ اسی طرح اس فعل کا گناہ بھی جس پر مجبور کیا گیا ہو) جب بھول جانے والا شخص بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں تھا تو اس نے گویا ذبح کا عمل اسی طریقے پر سرانجام دیا جس کا اسے حکم ملا تھا اس لیے ترک تسمیہ اس کے اس عمل کو فاسد نہیں کرے گا۔ اس پر دوبارہ ذبح کے عمل کو لازم کرنا درست نہیں ہوگا اس لیے کہ اس عمل کو دوبارہ بروئے کار لانے کا وقت نہیں رہا ۔ بھول کر ترک تسمیہ کی صورت نماز میں تکبیر تحریمہ یا وضو وغیرہ بھول جانے کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے کہ نماز کی صورت میں اسے یہ باتیں یاد آ جانے پر ایک اور فرض اس پر لازم ہوجاتا ہے لیکن ذبح کی صورت میں بھول جانے والے پر کسی اور فرض کا لزوم درست نہیں ہوتا اس لیے کہ اس وقت تک ذبح کا محل و مقام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بسم اللہ پڑھنا اگر شرعی ذبح کی شرط ہوتا تو نسیان کی بنا پر اس کا سقول لازم نہ آتا جس طرح ذبح کرنے والا اوداج یعنی گردن کی رگیں نہ کاٹے تو ذبح کا عمل واقع نہیں ہوتا۔ یہ سوال دونوں گروہوں سے کیا جاتا ہے جو لوگ سرے سے تسمیہ کو ساقط کردینے کے قائل ہیں ان سے بھی اور جو لوگ نسیان کی حالت میں اسے واجب کرتی ہیں ان سے بھی ، جو لوگ تسمی کے اسقاط کے قائل ہیں وہ ہمارے خلاف یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ہم سب نسیان کی حالت میں متفقہ طور پر ترک تسمیہ کے جواز کے قائل ہیں جبکہ نسیان ذبح کی شرطوں کو ساقط نہیں کرتا۔ جس طرح ذبح کے عمل میں اوداج کو قطع نہ کرنے سے عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذکاۃ یعنی ذبح میں تسمیہ شرط نہیں ہے۔ جو لوگ نسیان کی حالت میں بھی تسمیہ کے وجوب کے اقئل ہیں وہ اسے اس صورت میں مشابہ قرار دیتے ہیں ججس میں ذبح کرنے والا حلقوم اور گردن کی رگیں بھول کر یا جان بوجھ کر نہ کاٹے۔ یہ بات ذبح کی صحت کے لیے مانع ہوتی ہے جن لوگوں نے بسم اللہ پڑھنے کی فرضیت کو سرے سے ساقط کردیا ہے ان سے وہ سوال درست نہیں ہے جو معترض نے اٹھایا ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے خیال میں ترک کلام نماز میں فرض ہے۔ اسی طرح وضو کرنا بھی نماز کا ایک فرض ہے۔ یہ دونوں چیزیں نماز کی شرائط میں داخل ہیں۔ پھر ان لوگوں نے بھول کر وضو نہ کرنے والے اور بھول کر نماز میں گفتگو کرنے والے کے درمیان فرق کیا ہے۔ یعنی پہلی صورت میں نماز نہیں ہوگی اور دسوری صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی بلکہ درست ہوجائے گی اسی طرح روزے کی صحت کے لیے نیت شرط ہے نیز کھانا پینا چھوڑے رکھنا بھی روزے کی صحت کی شرط ہے ۔ اگر ایک شخص بھول کر روزے کی نیت نہیں کرتا تو اس کا روزہ درست نہیں ہوگا لیکن اگر وہ بھول کر کھا لیتا ہے تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ یہ سوال سائل کے بیان کردہ اصل اور قاعدہ کی روشنی میں منتقض ہوجاتا ہے۔ جو لوگ نسیان کی حالت میں بھی تسمیہ کے وجوب کے قائل ہیں اور انہوں نے اس پر گردن کی رگوں کے ترک قطع سے استدلال کی اے ان سے بھی یہ سوال درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ گردن کی رگوں کو کاٹ دینا ہی ذبح کی صورت ہے جو جانور کی طبعی موت کے منافی ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ذبیحہ اور مردار کے درمیان فرق واقع ہوتا ہے۔ اس عمل کے لیے تسمیہ کی شرط اس بناء پر نہیں ہے کہ یہ نفس ذبح ہے یعنی بسم اللہ پڑھنا ہی ذبح کا عمل کہلاتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ یاد ہونے کی صورت میں ذبح کرنے والا اس کے پڑھنے کا پابند ہے۔ یاد نہ وہنے کی صورت میں وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ اس لیے نسیان کی بناء پر بسم اللہ نہ پڑھنا شرعی جواز کے وجود میں آ جانے کے لیے مانع نہیں بنا۔ اس بنا پر یہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔
Top