Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔
رئویت باری تعالیٰ قول باری ہے ( لا تدرکہ الابصارو ھو یدرک الابصار۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے) کہا جاتا ہے کہ ادراک کے اصل معنی لحقو یعنی پالینے اور جا لینے کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً آپ کہتے ہیں ” ادرک زمان المنصور “ یا ” ادرک ابا حنیفۃ “ ( اس نے خلیفہ منصور کا زمانہ پایا تھا یا اس اس نے امام ابوحنیفہ کو پایا تھا) نیز ” ادرک الطعام “ یا ” ادرک الزرع و الثمرۃ “ ( طعام پک کر تیار ہونے کے مرحلے کو پہنچ گیا یا فصل پک گئی پھل پک گئے) اسی طرح کہا جاتا ہے ” ادرک الغلام “ ( لڑکا بالغ ہوگیا) یعنی بالغ مردوں کی حالت کو پہنچ گیا۔ آنکھوں کا کسی چیز کو ادراک کرلینے کے معنی ہیں کہ آنکھیں اس چیز تک جا پہنچیں اور آنکھوں کو اس کی رئویت حاصل ہوگئی۔ اس لیے کہ اہل لغت کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتے ” ادرکت ببصریی شخصاً “ ( میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ ایک شخص کو جا لیا) تو اس کے معنی ہیں کہ ” میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا “۔ ادراک کو احاطہ کرنے کے معنی میں لینا درست نہیں ہے اس لیے کہ گھر ان تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوتا ہے جو اس میں موجود ہوتی ہیں لیکن وہ ان چیزوں کو مدرک نہیں کہلاتا۔ اس لیے قول باری ( لاتدر کہ الابصار) کے معنی یہ ہیں کہ آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔ اس میں آنکھوں کے ذریعے رئویت کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ کی مدح سرائی کی گئی ہے جس طرح اس قول باری ( لا تاخذہ سنۃ ولا نوم۔ اسے نہ اونگھ آسکتی ہے نہ نیند) میں نیند اور اونگھ کی نفی کر کے اللہ کی تعریف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے جس چیز کی نفی کر کے مدح سرائی کی ہو اس کی ضد کا اثبات ذم اور نقص کہلائے گا۔ اس لیے کسی حالت میں بھی اس کے نقیض یعنی صد کا اثبات نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح کہ اگر ( لاتاخذہ سنۃ ولا نوم) کی بناء پر صفت مدح کا استحقاق باطل ہو جاتاے سو اس کے نتیجے میں ایسی صفت لازم آتی جو نقص پر دلالت کرتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے رئویت بصر کی نفی کرکے اپنی تعریف فرمائی ہے تو اب اس کی ضد اور نقیض کا کسی صورت میں بھی اثبات جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ اس طرح ایسی صفت کا اثبات لازم آئے گا جو نقص پر دلالت کرنے ولای ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ قول باری ( وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف نظر میں کئی معانی کا احتمال ہے۔ ایک معنی ثواب اور بد لے کے انتظار کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سلف کی ایک جماعت سیمروی ہے۔ جب اس آیت میں تاویل کا احتمال ہو اس کے ذریعے اس آیت کے حکم کی تخصیص درست نہیں ہوگی جس میں کسی قسم کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کا احتمال ۔ رئویت ذات باری کے متعلق جو روایات منقول ہیں اگر وہ روایت اور اسناد کے لحاظ سے درست تسلیم کرلی جائیں تو ان میں مذجکورہ رئویت سے علم مراد ہوگا۔
Top