Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 83
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِذَا : اور جب جَآءَھُمْ : ان کے پاس آتی ہے اَمْرٌ : کوئی خبر مِّنَ : سے (کی) الْاَمْنِ : امن اَوِ : یا الْخَوْفِ : خوف اَذَاعُوْا : مشہور کردیتے ہیں بِهٖ : اسے وَلَوْ : اور اگر رَدُّوْهُ : اسے پہنچاتے اِلَى الرَّسُوْلِ : رسول کی طرف وَ : اور اِلٰٓى : طرف اُولِي الْاَمْرِ : حاکم مِنْھُمْ : ان میں سے لَعَلِمَهُ : تو اس کو جان لیتے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ : تحقیق کرلیا کرتے ہیں مِنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت لَاتَّبَعْتُمُ : تم پیچھے لگ جاتے الشَّيْطٰنَ : شیطان اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچا دیتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو ہوجاتے
قول باری ہے (ولوکان من عندغیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا۔ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے) اختلاف کی تین صورتیں ہیں تناقض ، کی صورت میں اختلاف جس میں ایک چیز کا ثبوت دوسری چیز کے فساد کو لازم کردے۔ تفاوت کی صورت میں اختلاف جس میں ایک حصہ توفصاحت و بلاغت کی بلندیوں کو چھورہا ہو اور دوسرا حصہ انتہائی گھٹیا اور پست ہو۔ اختلاف کی یہ دونوں صورتیں قرآن سے منفی ہیں ، اور یہ چیز اس کے اعجاز کے دلائل سے ایک دلیل ہے۔ کیونکہ جب فصحاء اور بلغاء کا کوئی کلام طویل ہوتاجائے جس طرح قرآن کی طویل سورتیں ہیں تو ایسی صورت میں اس طویل کلام میں فصاحت اور بلاغت کا یکساں معیار برقرار نہیں رہتا، اور اس میں عدم یکسانیت کی بنا پر وہ تفاوت پیدا ہوجاتا ہے جس کا ہم نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے تلاوم کی صورت میں اختلاف جس میں پورے کا پورے کلام لفظی اور معنی حسن کے لحاظ سے ایک دوسرے کے متناسب ہو۔ مثلا ق راتوں اور آیات کی مقداروں کے لحاظ سے اختلاف نیز ناسخ اور منسوخ کے احکام میں اختلاف ، اس آیت میں استدلال بالقرآن پر ابھارا گیا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ اس میں اس حق پر مختلف پیرایوں میں دلائل موجود ہیں جس کا اعتقاد رکھنا اور جس پر عمل کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ مسائل پر اجتہاد واستنباط۔ قول باری ہے (ولوردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، اگر یہ اس خبر کو رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائیں ، جوان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں) ۔ حسن اور قتادہ اور ابن ابی لیلی کا قول ہے کہ اولوالامر سے مراد اہل علم وفقہ ہیں سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد مراء وعمال ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس سے دونوں مذکورہ بالاگروہ مراد لینا درست ہے کیونکہ اولوالامر کا اسم ان دونوں پر واقع ہوتا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ اولوالامر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں لوگوں کے معاملات کو سنبھالنے اور انہیں درست رکھنے کے اختیارات ہوتے ہیں اہل علم کے ہاتھوں میں اس قسم کے اختیارات نہیں ہوتے تو ان کا شمار اولوالامر میں کیسے ہوسکے گا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اولوالامر وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر اختیارات رکھنے کی بنا پر ان کے معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ فقہاء کو بھی اولوالامر کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کا علم ہوتا ہے اور دوسروں پر ان کے قول کو تسلیم کرنا لازم ہوتا ہے اس بنا پر انہیں اولوالامر کے نام سے موسوم کرنا درست ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے (لیتفقھوا فی الدین ۔۔۔ تا۔۔۔۔ یحذرون۔ تاکہ باقی لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ اپنی قوم والوں کو جب وہ ان کے پاس واپس آئیں ڈراتے رہیں عجیب کیا کہ وہ محتاط رہیں) ۔ اللہ تعالیٰ نے فقہاء کے انذار پر محتاط رویہ اختیار کرنا لازم قرار دیا ہے اور جنہیں انذار کیا جارہا ہے ان پر ان کے قول کو قبول کرنا ضروری قرار دیا اس بنا پر ان حضرات پر اولوالامر کے اسم کا اطلاق درست ہوگیا۔ امراء اور اعیان سلطنت کو بھی اولوالامر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ ان لوگوں پر اپنے احکامات نافذ کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں جن پر انہیں بالادستی اور حکومت حاصل ہوتی ہے۔ قول باری ہے (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، استنباط استخراج کو کہتے ہیں ، اسی سے استنباط المیاہ والعیون (پانی نکالنا چشمے کھودنا) ماخوذ ہے اس لیے استنباط کا اسم ہراس چیز پر محمول ہوتا ہے جو کہیں سے اس طرح نکالی جائے کہ آنکھوں سے نظر آجائے یا دلوں میں اس کی معرفت حاصل ہوجائے۔ شریعت میں استنباط استدلال اور استعلام کی نظیر ہے ، اس آیت کے اندر حوادث یعنی پیش آنے والے نئے امور کے احکامات معلوم کرنے کے لیے قیاس سے کام لینے اور اپنی رائے اور اجتہاد کو بروئے کار لانے کے وجوب پر دلالت موجود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں پیش آمدہ واقعات کو حضور کی زندگی اور صحابہ کرام کی موجودگی میں آپ کی طرف لوٹانے کا اور آپ کی وفات کے بعد یا صحابہ کرام کی آپ سے دوری کی صورت میں علماء کی طرف لوٹانے کا حکم دیا۔ لوٹانے کا یہ حکم لامحالہ ان امور سے تعلق رکھتا ہے جو منصوص نہیں ہیں کیونکہ منصوص احکامات اور امور میں کسی استنباط کی ضرورت اور حاجت پیش نہیں آتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے احکامات میں سے کچھ تو وہ ہیں جو منصوص طریقے سے بیان ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نصوص کے اندر موجود ہیں اور ہمیں اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ ہم استدلال واستنباط کے ذریعے ان احکامات کے علم تک رسائی حاصل کریں۔ اس طرح اس آیت میں کئی معانی اور احکامات موجود ہیں ، ایک یہ کہ پیش امدہ مسائل میں سے بہت سے ایسے ہوت ہیں جن کے احکام منصوص صورتوں میں موجود ہوتے ہیں اور بہت سے مسائل کے احکامات مدلول یعنی دلالت کی صورتوں میں ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس مسئلے کا حکم منصوص نہ ہوا سے اس کے نظائر کی طرف لوٹا کر جومنصوص ہوں حکم کا استنباط کریں اور اس کی معرفت تک رسائی حاصل کریں۔ سوم یہ کہ عوام الناس پر یہ لازم ہے کہ پیش آمدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں علماء کی تقلید کریں۔ چہارم یہ کہ حضور احکام کے استنباط اور ان کے دلائل سے استدلال کے مکلف تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے معاملات کو آپ کی طرف نیز اولوالامر کی طرف لوٹانے کا حکم دیا، پھر فرمایا (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) اس میں استنباط واستدلال کے حکم کے ساتھ صرف اولوالامر کو مخصوص نہیں کیا بلکہ حضور کی ذات اقدس بھی اس حکم میں شامل تھی ، اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ استنباط کرنے اور استدلال کے ذریعے احکام کی معرفت تک رسائی حاصل کرنے کا کام سب کے ذمے لگایا گیا تھا۔ اگریہ کہاجائے کہ آیت میں استنباط کے سلسلے میں دیا گیا حکم پیش آمدہ مسائل کے احکام کے استنباط سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق صرف دشمن سے خوف اور امن کے معاملے تک محدود ہے کیونکہ قول باری ہے۔ واذاجاء ھم امر من الامن اوالخوف۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ منھم۔ اس کا تعلق صرف ان افواہوں سے ہے جو منافقین پھیلایا کرتے تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں اور انہیں حضور اور سمجھدار لوگوں تک پہنچادیں تاکہ خوف وہراس کی افواہوں کی صورت میں یہ افواہیں مسلمانوں کے اعصاب پر سوار ہوجائیں اور امن وسکون کی افواہوں کی صورت میں مسلمان مطمئن ہوکربیٹھ نہ رہیں اور جہاد کی تیاری نیز کافروں سے ہوشیار رہنے کے عمل کو ترک نہ کردیں۔ اس لیے آیت میں احکام حوادث کے استنباط کے جواز کے سلسلے میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس اعتراض کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ قول باری (واذاجاء ھم امر من الامن اوالخوف) صرف دشمنوں کے معاملے تک محدود نہیں ہے۔ کیونکہ امن اور خوف کا تعلق ان احکامات سے بھی ہوسکتا ہے جن پر مسلمان عمل پیرا ہوتے ہیں کہ ان میں مباحات کیا ہیں اور ممانعت کیا ہیں اور ان میں جائز کون کون سے احکامات ہیں اور ناجائز کون سے ہیں۔ ان تمام باتوں کا امن اور خوف سے تعلق ہے اور آیت مٰں امن اور خوف کے ذکر سے یہ دلالت حاصل نہیں ہوتی کہ ان کا دائرہ صرف ان افواہوں تک محدود ہے جو دشمن کی طرف سے امن اور خوف کے سلسلے میں اڑائی جاتی تھیں، بلکہ ان کا تمام معاملات سے تعلق ہونا درست ہے ، اس حکم کے ذریعے عوام الناس پر پابندی لگادی گئی کہ وہ پیش آمدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں اپنی طرف سے اباحت یا ممانعت یا ایجاب یانفی وغیرہ کی کوئی بات نہ کریں ، بلکہ ان پر ان امور کو اللہ کے رسول اور اولوالامر کی طرف لوٹا دینالازم کردیا گیا ہے تاکہ وہ منصوص احکام کے نظائر کے ذریعے استدلال کرکے ان امور کے احکامات مستنبط کرلیں۔ ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں اگر ہم معترض کی یہ بات تسلیم کرلیں کہ آیت کا نزول دشمن سے تعلق رکھنے والے امن اور خوف کے معاملے تک محدود ہے پھر بھی ہماری ذکر کردہ بات پر اس کی دلالت قائم رہے گی۔ وہ اس طرح جب جہاد کے لیے نیز دشمن کی چالوں کی توڑ کے لیے حکمت عملی استنباط کرنے کا جواز ہے کہ حالات کے مطابق کبھی صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں کبھی حملہ کرنے میں پہل کرلی جائے اور کبھی پیچھے ہٹ کردفاعی مورچوں کو مضبوط بنالیاجائے اور یہ ساری کاروائیاں اس بناپر کی جائیں کہ اللہ نے ہمیں ان کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں سوچ بچار کا معاملہ اولوالامر کی آراء سے اور اجتہاد کے حوالے کردیا ہے ۔ تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان معاملات کے احکام ومعلوم کرنے کے لیے اجتہاد سے کام لیاجانا بھی واجب ہے جو جنگی تدبیروں ، کافروں کے خلاف جنگی کاروائیوں اور دشمن کی چالوں کے توڑ کے سلسلے میں پیش آسکتی ہیں۔ ان احکامات کے سلسلے میں اجتہاد اور عبادات نیز فروعی مسائل کے سلسلے میں پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد اور نظائر سے استدلال میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ان تمام کا اللہ کے احکام سے تعلق ہے۔ البتہ اجتہاد واستنباط کی ممانعت اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ مثلا ایک شخص صرف بیع وشراء کے مسائل میں اجتہاد واستنباط سے کام لینے کو تومباح سمجھتا ہو لیکن نکاح وطلاق کے مسائل میں اس کے جواز کا قئل نہ ہو نماز کے مسائل میں اس کا قائل ہو اورحج ومناسک کے مسائل میں اس سے کام لینادرست نہ سمجھتاہو اصطلاح میں اسے خلف القول کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور کوئی یہ کہے کہ استنباط کا دائرہ صرف قیاس اور اجتہاد رائے تک محدود نہیں بلکہ اس میں اس دلیل سے استدلال بھی داخل ہے جس میں لغت کے لحاظ سے صرف ایک معنی کا احتمال ہو، اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ جو دلیل ایسی ہو جس میں لغت کے لحاظ سے صرف ایک معنی کا احتمال ہو، اس کے بارے میں اہل لغت کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ صرف لفظ کے ذریعے اس کا مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے اس لیے یہ استنباط کے ذیل میں نہیں آتی بلکہ یہ شریعت کے خطاب سے سمجھ میں آجانے والی بات اور مفہوم کے ضمن میں آتی ہے۔ ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ، مثلا قول باری (ولاتقل لھمااف، ماں باپ کو اف تک بھی نہ کہو) اس میں ماں باپ کو مار پیٹ کرنے، برابھلا کہنے اور ان کی جان لینے ، وغیرہ کی نہی پر دلالت موجود ہے ، یہ صورت ایسی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگرمعترض کے نزدیک صرف ایک معنی کی عامل دلیل سے مراد اس قسم کے دلائل کطاب مراد ہیں تو ایسی دلیل میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اسمیں استنباط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگر دلیل سے معترض کی مراد یہ ہو کہ ایک چیز کا خصوصیت کے ساتھ جب ذکر ہوجائے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ اس چیز کے ماسوا دوسری تمام چیزوں کا حکم مذکورہ حکم ہے مختلف ہوگاتوا سے ہم دلیل تسلیم نہیں ہم نے اصول فقہ میں اس بحث پر پوری روشنی ڈالی ہے۔ اگر مذکورہ بالاصورت میں دلیل نام کی کوئی چیز ہوتی تو صحابہ کرام کی نظروں سے یہ پوشیدہ نہ رہتی اور پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے سلسلے میں اس سے ضرور استدلال کیا جاتا اگر صحابہ کرام ، یہ طریق کار اختیار کرتے تو ان سے یہ چیز بکثرت منقول ہوتی اور اس میں کوئی خفا باقی نہ رہتا۔ لیکن چونکہ صحابہ کرام سے اس سلسلے میں کوئی بات منقول نہیں ہے اس لیے یہ چیز معترض کے قول کے بطلان اور سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے اگر معترض کی ذکر کردہ صورت استدلال کی کوئی صورت ہوتی تو بھی یہ ان احکامات میں استنباط کے ایجاب سے مانع نہ ہوتی جن تک رسائی کا ذریعہ صرف رائے اور قیاس ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ اور پیش آمدہ مسئلہ کے اندرمعترض کی بیان کردہ دلالت کا جود نہیں ہوتا جبکہ ہمیں ایسے تمام واقعات اور مسائل کے احکامات معلوم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کے بارے میں نص موجود نہیں ہوتی اس لیے جن حوادث یعنی پیش آمدہ واقعات میں ہم معترض کی بیان کردہ دلیل کی صورت نہیں پائیں گے ہم پر قیاس اور اجتہاد کے ذریعے ان کے احکامات معلوم کرنا لازم ہوگا کیونکہ ہمیں ان احکامات تک رسائی کا قیاس اور اجتہاد کے سوا اور کوئی ذریعہ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اگریہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) اور دوسری دلیل قیاس اپنے مدلول کے علم تک ہمیں نہیں پہنچاسکتی کیونکہ قیاس کرنے والااپنے بارے میں غلطی اور خطا کے جواز کو تسلیم کرتا ہے اور قطعی علم کے حصول کا قائل نہیں ہوتا کہ جو حکم اس نے اپنے قیاس اور اجتہاد کے ذریعے اخذ کیا ہے اللہ کے نزدیک بھی وہی حق ہے۔ تو اس پورے بیان سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آیت میں جس استنباط کا ذکر ہے وہ قیاس اور اجتہاد کے ذریعے کیا جانے والااستنباط نہیں ہے اس اعتراض کا یہ جواب دیاجائے گا کہ معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ قیاس کرنے والے کو اس بات کی قطعیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس کا قیا س عنداللہ حق ہے ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔ اس کی یہ وجہ کہ جس حکم تک رسائی کا ذریعہ اجتہاد ہو اس کے متعلق مجتہد کی قطعی رائے یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں جس حکم تک پہنچا ہے اللہ کے نزدیک بھی وہی حق ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مجتہد کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اجتہاد کے ذریعے حکم تک رسائی کا فرمان اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ اس لیے پیش آمدہ واقعات کے احکامات کے استنباط کا یہ طریق کار اس علم کا موجب ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کے ذریعے جس نیتجے پر پہنچتا ہے اور جو حکم لازم ہوا ہے وہ درست ہے۔ یہ آیت امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے مذہب کے بطلان پر بھی دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ دین کا ہر حکم منصوص ہوتا تو امام معصوم اس سے آگاہ ہوتا اور استنباط کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی اور معاملات کو اولوالامر کی طرف لوٹانے کی بات بھی ساقط ہوجاتی بلکہ ان معاملات کو امام کی طرف لوٹانا واجب ہوتا جو نص کی بنا پر ان کی صحت اور عدم صحت کی پرکھ کرلیتا۔
Top