Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔
نادانوں اور بیوقوفوں کو ان کا مال حوالے کرنا اسلام مال وجائد اد کی حفاظت کا حکم دیتا ہے قول باری ہے (ولاتؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما، اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ناوان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تاویل وتفسیر میں اہل کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنامال اپنی اولاد کے درمیان تقسیم نہ کرے اور پھر خودان کا دست نگربن جائے، جبکہ اس کی اولاد کو اس کا دست نگرہونا چاہیئے اور عورت بیوقوف ترین مخلوق ہے۔ اس طرح حضرت ابن عباس ؓ نے آیت کی اس کے ظاہر اور اس کی حقیقت کے مقتضیٰ کے مطابق تفسیر کی اس لیے کہ قول باری (اموالکم) اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنا مال نادانوں کے حوالے کرنے کی نہی کا خطاب ہر شخص کو ہے۔ اس لیے کہ حوالہ کردینے کی صورت میں گویا اپنا مال ضائع کردینا ہے کیونکہ نادان لوگ مال کی حفاظت اور اس میں اضافہ کرنے سے عاجزہوتے ہیں۔ نادان لوگوں سے آپ کی مراد بچے اور عورتیں ہیں جو مال کی حفاظت کے نااہل ہوتے ہیں نیز اس امرپر بھی دلالت ہورہی ہے کہ ایک شخص کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے مال کا کسی ایسے فرد کو وکیل اور کارپروازبنادے جس میں نادانی اور بیوقوفی کی صفت پائی جاتی ہو اور نہ ہی ان جیسے لوگوں کو اپنے مال کے متعلق وصیت کرے۔ نیز یہ دلالت بھی ہورہی ہے کہ ایک شخص کے ورثاء کم عمرہوں تو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے مال کے متعلق کسی ایسے شخص کو وصیت کرے جو امانت دارہو اور ان ورثاء کی خاطر اس مال کی دل وجان سے حفاظت کرسکتا ہو۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مال کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے اور اس کی حفاظت دیکھ بھال اور نگرانی واجب کردی گئی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (التی جعل اللہ لکم قیا ما) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا ہے۔ کہ اس نے ہمارے جسموں کی زندگی اور قیام کا ذریعہ مال کو بنادیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مال دنیامیں سے کوئی حصہ عطاکیا ہے۔ اس پر اس میں سے اللہ کا حق یعنی زکوۃ و صدقات اداکرنا لازم ہے پھر باقی ماندہ مال کی حفاظت اور اسے ضائع ہونے سے بچانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اصلاح معاش اور حسن تدبیر کی ترغیب دی ہے، یہ بات اللہ نے اپنی کتاب عزیز میں کئی مواقع پر بیان فرمائی ہے۔ چناچہ قول باری ہے۔ (ولاتبذرتبذیرا ان لمبذرین کانوا اخوان الشیطین، اور بلاضرورت خرچ نہ کرو بیشک بلاضرورت مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں) نیز قول باری ہے (ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعدملومامحسورا۔ اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر نہ رکھو، اور نہ ہی اسے پوری طرح پھیلا دو کہ پھر ملامت زدہ اور تھکاہاربن کر بیٹھ رہو) نیز قول باری ہے (والذین اذا انفقوالم یسرفواولم یقتروا، اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ ہی کنجوسی) اللہ تعالیٰ نے اموال کی حفاظت اور گواہوں، دستاویز اوررہن کے ذریعے قرض میں دی ہوئی رقموں کو محفوظ کرلینے کے جو احکامات دیئے ہیں جن کا ذکرہم پہلے کر آئے ہیں وہ بھی اصلاح معاش اور حسن تدبیر کے سلسلے میں دی جانے والی ترغیب کی ایک کڑی ہیں۔ قول باری (التی جعل اللہ لکم قیاما، کی اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان اموال کانگران ومحافظ بنا ہے۔ اس لیے انہیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جانے نہ دوجوان کے ضیاع کا سبب بن جائیں۔ اسلام میں مال ودولت کا ضائع کرنا منع ہے آیت زیر بحث کی ایک اور تاویل سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ آیت کا اصل مفہوم یہ ہے ، ناوانوں کو ان کے اموال حوالے نہ کرو۔ اموال کی اضافت دراصل سفہاء یعنی نادانوں کی طرف ہے۔ اب الفاظ میں اموال کی جو اضافت مخاطبین کی طرف ہے تو اس کی مثال یہ قول باری ہے (ولاتقتلوا انفسکم، تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) یہاں (انفسکم) سے مراد یہ ہے کہ ، تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ اسی طرح قول باری (فاقتلوا انفسکم، تم اپنے آپ کو قتل کرو) کا یہی مفہوم ہے۔ نیز قول باری (واذدختلم بیوتا فسلمواعلی انفسکم، اور جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کرو) کا مفہوم یہ ہے کہ گھروں میں رہنے والوں کو سلام کرو۔ اس تاویل کی بناپرنادانوں اور بیوقوفوں پر ان کے اموال کے سلسلے میں پابندی ہوگی اور انہیں نادانی اور بے وقوفی زائل ہونے تک ان کے اموال سے دوررکھاجائے گا۔ یہاں سفہاء کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، تمہاری اولاد اور اہل وعیال میں سے سفیہ اور بے وقوف، نیز فرمایا : عورت بیوقوف ترین مخلوق ہے۔ سعید بن جبیر، حسن اور سدی نیز ضحاک اور قتادہ کے نزدیک عورتیں اور بچے سفہاء گنے جاتے میں بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس میں مال کے متعلق سفاہت اور نادانی کی صفت پائی جاتی ہو خواہ اس پر پابندی لگی ہو یا نہ لگی ہو، شعبی نے ابوبردہ سے، انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت کی ہے۔ کہ آپ نے فرمایا : تین افرادای سے ہیں جو اللہ سے دعا مانگتے ہیں لیکن اللہ ان کی دعاقبول نہیں کرتا، ایک تو وہ شخص جس کی بیوی بداخلاق اور بدزبان ہو اور وہ طلاق دے کر اپنی جان نہ چھڑائے۔ دوسراوہ جو اپنا مال کسی بیوقوف کے حوالے کردے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولاتوتوالسفھاء اموالکم) اور تیسراوہ شخص جس نے کسی کو قرض میں اپنی رقم دی اور اس پر گواہی نہ قائم کی ہو۔ مجاہد سے مروی ہے کہ سفہاء سے مراد عورتیں ہیں کہ ایک قول ہے کہ سفابت کے اصل معنی حلم اور بردباری کے لحاظ سے ہلکاپن کے ہیں اسی بناء پر فاسق کو سفیہ کہا گیا ہے اس لیے کہ اہل دین اور اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی وزن اور مقام نہیں ہوتا۔ ناقص العقل کو بھی سفیہ کہاجاتا ہے اس لیے کہ اس میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ آیت زیربحث میں جسن سفہاء کا ذک رہے ان کی سفابت میں کوئی خدمت کا پہلو نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اللہ کی نافرنی کا مفہوم ظا ہوتا ہے بلکہ انہیں سفہاء صرف ان کی عقل کی کمی اور مال کی حفاظت میں ان کی سمجھ بوجھ کی قلت کی بناء پر کہاگیا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ اس بات کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہم بچوں اور عورتوں کو مال بطور ہبہ دے سکتے ہیں۔ ایک صحابی حضرت بشیر ؓ نے اپنے بیٹے نعمان ؓ کو بطورہبہ کچھ دینے کا ارادہ کیا تو حضور ﷺ نے انہیں اس سے صرف اس لیے روک دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو یکساں طریقے پر ہبہ نہیں کیا تھا۔ اس بیان کی روشنی میں سفہاء کو ہماری طرف سے اموال نہ دینے کے معنی پر آیت کے کیسے محمول کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں تملیک اور مال کسے ہبہ کے معنی نہیں ہیں۔ اس میں تو مفہوم یہ ہے کہ ہم اموال کو ان کے ہاتھوں میں دے دیں جبکہ انہیں ان کی حفاظت کی کوئی خاص پروانہ ہو۔ دوسری طرف ایک انسان کے لیے جائز ہے کہ نابالغ یا عورت کو بطورہبہ کوئی مال دے دے جس طرح کہ وہ بالغ عقلمند کو ہبہ کے طورپر کوئی چیزدے سکتا ہے۔ پہلی صورت میں صرف اتنی بات ہوئی کہ اس ہبہ کو بچے کا ولی اپنے قبضے میں لے کر اس کی حفاظت کرے گا اور اسے ضائع ہونے نہیں دے گا۔ آیت میں اللہ تعانے ہمیں اس سے روکا ہے کہ ہم اپنے اموال بچوں اور عورتوں کے ہاتھوں میں دے دیں جوان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے نااہل ہوتے ہیں۔ قول باری ہے (فارزقوھم فیھا واکسوھم، ان نادانوں کو ان اموال میں سے کھلاؤ اور پہناؤ) یعنی انہیں ان اموال میں سے کھلاؤ اس لیے کہ یہاں حرف، فی، حرف، من ، کے معنی میں ہے اس لیے کہ حروف پر آگے پیچھے صفات ک اورودہوتارہتا ہے جس کی بناپربعض حروف بعض دوسرے حروف کے قائمقام ہوکران کے معنی دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے (ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم) میں معنی ، مع اموالکم، کے ہیں، یعنی ان کے اموال اپنے اموال کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اموال کو سفہاء کے حوالے کردینے سے روک دیا ہے جوان اموال کی حفاظت کا کام سرانجام نہیں دے سکتے اور یہ حکم دیا کہ ہم انہیں ان اموال میں سے ان کی خوراک اور لباس کا بندوبست کریں۔ اگر آیت سے مراد ہمیں اپنے اموال انہیں حوالے کرنے سے روکنا ہے جیسا کہ آیت کا ظاہراس کا مقتضی ہے تو پھر اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اپنی بیوی اور نادان اولاد اور بیویوں کانان ونفقہ ہم پر واجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں حکم ہے کہ ہم ان پر اپنے اموال میں سے خرچ کریں۔ اگر آیت کی تاویل وہ ہے جسے ان لوگوں نے اختیارکیا ہے جن کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ بات ہے کہ ہم ان کے اموال اس وقت تک ان کے حوالے نہ کریں جب تک ان میں سفاہت کی صفت موجودہوتو پھر اس صورت میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے اموال میں سے ان پر خرچ کریں، یہ بات دوجوہ سے ایسے لوگوں پر پابندی پر دلالت کرتی ہے اول یہ کہ انہیں ان کے اموال سے دوررکھا گیا ہے دوم ان پر خرچ کرنے اور ان کی خوراک اور لباس کی خریداری کے سلسلے میں ہمیں ان کے اموال میں تصرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قول باری ہے (وقولوالھم قولا معروفا، ان سے بھلی بات کہو) مجاہد اورابن جریج کا قول ہے کہ (قولا معروفا) سے مراد نیکی اور صلہ رحمی کرنے کے لیے موزوں اور جائز طریقے پر ان سے مناسب الفاظ میں وعدہ کرلینا ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد بھلے الفاظ میں ان سے گفتگو کرنا اور اس کے لیے نرم لہجہ اختیارکرنا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (فاماالیتیم فلاتقھر، اور تم یتیم پر سختی نہ کرو) یا جس طرح یہ قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھافقل لھم قولا میسورا، اگر تمھیں ان سے پہلوتہی کرنا پڑے اس انتظار میں کہ تیرے پروردگار کی طرف سے وہ کشایش آئے جس کی تمہیں امیدہوتوان سے نرمی کی بات کہہ دو ۔ ) ایک قول یہ بھی ہے یہاں، قول معروف، سے تادیب و تنبیہ نیزراست روی اور نیکی کی بدایت اور اخلاق حسنہ کے حصول کی راہنمائی مراد لینا بھی جائز ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد ہمیں یہ نصیحت کرنا ہے کہ تم ان کے لیے اپنے اموال میں سے خوراک وپوشاک کے اخراجات اداکروتو اس موقعہ پر ان سے بھلے اور مناسب الفاظ میں گفتگوکرو اورا نہیں اپنی بیزاری کا اظہارکرکے نیز انہیں ذ (رح) لیل کرکے اور نظروں سے گراکر ان کی ایذارسانی نہ کروجیسا کہ ارشادباری ہے (واذاحضرالقسمۃ اولوالقربی والیتامی والمساکین فارزقوھم منہ وقولوالھم قولا معروفا، اور جب تقسیم ترکہ کے وقت رشتہ دار، یتیم اور مساکین آجائیں توا نہیں بھی اس میں سے کچھ حصہ دو اور ان سے عمدہ انداز میں گفتگوکرو) یعنی مناسب الفاظ میں گفتگو اوراظہار بیزاری اور احسان جتانے سے پرہیز نیز یہ قول باری بھی ہے (لاتبطلواصدقاتکم بالمن والاذی اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اورتکلیف پہنچاکربربادنہ کرو) یہ بھی درست ہے کہ مذکورہ بالاتمام معانی آیت (وقولوالھم قولا معروفا) میں مراد ہوں ۔ واللہ اعلم۔
Top