Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقْرَبُوا : نہ نزدیک جاؤ الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْتُمْ : جبکہ تم سُكٰرٰى : نشہ حَتّٰى : یہاں تک کہ تَعْلَمُوْا : سمجھنے لگو مَا : جو تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو وَلَا : اور نہ جُنُبًا : غسل کی حالت میں اِلَّا : سوائے عَابِرِيْ سَبِيْلٍ : حالتِ سفر حَتّٰى : یہاں تک کہ تَغْتَسِلُوْا : تم غسل کرلو وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : مریض اَوْ : یا عَلٰي : پر۔ میں سَفَرٍ : سفر اَوْ جَآءَ : یا آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں مِّنَ : سے الْغَآئِطِ : جائے حاجت اَوْ : یا لٰمَسْتُمُ : تم پاس گئے النِّسَآءَ : عورتیں فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر تم نے نہ پایا مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : مسح کرلو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
مومنو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ یہ آیت حرمت شراب کی آیت سے منسوخ ہے اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر راستے چلے جا رہے ہو (اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عوتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح (کر کے) تیمم کرلو بیشک خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
کسی شخص کا حالت جنابت میں مسجد کے اندر سے گزرجانا قول باری ہے (یا ایھا الذین امنوالاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا، اے ایمان والو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو الایہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں سکر یعنی نشہ کے مفہوم ومراد میں اختلاف رائے ہے حضرت ابن عباس ، مجاہد، ابراہیم اور قتادہ کا قول ہے کہ شراب کی وجہ سے پیدا ہونے والانشہ مراد ہے مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ تحریم خمر کے حکم نے اسے منسوخ کردیا ہے ضحاک کا قول ہے کہ اس سے خاص کر نیند کی وجہ سے پیدا ہونے والی مدہوشی مراد ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ نشے میں مدہوش انسان کو روکنا کی سے درست ہوسکتا ہے جبکہ عقل پر پردہ پڑجانے کی بنا پر وہ ایک بچے کی طرح ناسمجھ بن جاتا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اس حد تک نہ ماری گئی ہو کہ وہ مکلفین کے دائرے سے باہر ہوگیا ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ انہیں نماز کے اوقات میں نشہ کرنے سے روکا گیا ہو یہ مراد لینا بھی درست ہے کہ نہی صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر انہوں نے نشے کی حالت میں نماز ادا کی ہوتوعقل وحواس درست ہوجانے کے بعد ان پر اس کا اعادہ ضروری ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آیت کے نزول کے وقت اس سے درج بالا تمام معانی مراد ہوں۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب آیت میں اس تاویل کی گنجائش ہے کہ اس سے مراد وہ نشہ باز ہوسکتا ہے جس کی عقل اس حد تک نہ ماری گئی ہو کہ وہ مکلف ہی نہ رہا ہو تو اس صورت میں اسے نماز سے روکنا کیسے درست ہوسکتا ہے جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم اس پر عائد ہوتا ہے ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اگر نسخ تسلیم نہ کیا جائے تو اس میں یہ احتمال ہوگا کہ اسے حضور کے ہمراہ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکا گیا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی درست تاویل یہ ہے کہ سکر سے شراب کانشہ مراد ہے اس لیے کہ سوئے ہوئے انسان نیز اس شخص کو جس کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہو سکران نہیں کہاجاتا۔ لیکن جس پر شراب کانشہ طاری ہودرحقیقت اسے سکران کہاجاتا ہے اس لیے لفظ کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کرنا واجب ہے اور مجازی معنوں پر صرف اس وقت محمول کیا جاسکتا ہے جب اس کے لیے کوئی دلالت موجود ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سفیان نے عطاء بن ابی سائب سے انہوں نے ابوعبدالرحمن سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ ایک انصاری نے کچھ لوگوں کو پینے پلانے کی دعوت دی مجلس میں دورجام چلنے کے بعد جب مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف امامت کے لیے آگے بڑھے نماز میں انہوں نے سورة الکافرون کی قرات کی اور پوری طرح ہوش میں نہ ہونے کی وجہ سے آیات کو باہم گڈ مڈ کردیا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ، لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان المودب نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے انہوں نے عطاء خراسانی سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، (یسئلونک عن الخمر والمیسر، قل فیھما اثم کبیر، و منافع للناس۔ اورسورہ نساء میں ارشاد ہے ، لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری، پھرا سے اس آیت نے منسوخ کردیا، (یا ایھا الذین امنوانماالخمر والمیسر والانصاب ، ،، اے ایمان والو یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو) ۔ ابوعبید نے کہا ہمیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ درج بالا آیت کے ساتھ یہ قول باری بھی ہے (لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون) جسکے نتیجے میں صحابہ کرام کا طریق کار تھا کہ نماز کے اوقات میں شراب نوشی نہیں کرتے تھے جب عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتے توپھرپی لیتے ۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں عبدالرحمن بن سفیان سے انہوں نے ابواسحاق سے انہوں نے ابومیسرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے یہ دعا کی، اے اللہ ہمارے لیے شراب کا حکم بیان کردے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ۔ الخ۔ آگے روایت کے الفاظ وہی ہیں جو درج بالا روایت کے ہیں ، ابوعبید نے کہا ہمیں ہشیم نے روایت بیان کی ہے انہیں مغیرہ نے ابورزین سے کہ سورة بقرہ اور سو رہ نساء کی آیات کے نزول کے بعد بھی شراب کا استعمال جاری رہا، لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ نماز کا وقت آنے تک پیتے پلاتے اور نماز کے اوقات شراب نوشی ترک کردیتے پھر سو رہ مائدہ کی آیت کے ذریعے شراب حرام کردی گئی ، ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرات نے یہ بتایا کہ آیت زیر بحث میں شراب کی وجہ سے پیدا ہونے والانشہ مراد ہے ۔ حضرت ابن عباس اور ابورزین نے یہ بتایا کہ اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے نماز کے اوقات میں شراب نوشی ترک کردی اور دوسرے اوقات میں اسے استعمال کرتے رہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ لوگوں نے قول باری (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) سے یہ بات اخذ کی تھی کہ انہیں اس حالت میں شراب نوشی سے روکا گیا ہے جبکہ شراب کی وجہ سے ان پر نشہ طاری ہوا اورادھر نماز کا وقت آجائے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) صرف اوقات نماز میں شراب نوشی کی ممانعت کی خبر دے رہا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی شراب نوشی نہ کروجس سے نماز کے وقت تک تم پر نشہ طاری رہے ، اور اسی حالت میں تم نماز ادا کرلو۔ کیونکہ مسلمانوں پر اوقات صلوہ میں نمازوں کی ادائیگی فرض تھی، اور ترک صلوہ سے انہیں روک دیا گیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھیج دیا کہ (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ہمیں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آیت سے نماز کی فرضیت منسوخ ہوئی، آیت کے الفاظ کے ضمن میں اس شراب نوشی کی ممانعت تھی جو نماز کے اوقات میں موجب سکر ہو جس طرح ہمیں جب حدث کی حالت میں نماز کی ادائیگی سے منع کردیا گیا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے (واذاقمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھھکم ، جب تم نما کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو) تاآخر آیت ، نیز حضور کا ارشاد ہے (لایقبل اللہ صلاۃ بغیر طھور) اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) اور جس طرح ارشاد باری ہے (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا ) ان آیات وحدیث میں نہی کو ترک طہارت پر محمول کیا جائے گا نماز کی ادائیگی سے ممانعت پر محمول نہیں ہوگی۔ نیز کسی شخص کا جنابت یاحدث کی حالت میں ہونا نماز کی فرضیت کے سقوط کا موجب نیہں ہے بلکہ اسے صرف اس حالت میں نماز کی ادائیگی سے روکا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے نماز ادا کرنے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس طرح سکر کی حالت میں نماز کی ممانعت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی شراب نوشی کی نہی ہے جو نماز سے قبل سکر کی موجب بن جائے لیکن نماز کی فرضیت اس پر قائم ہے اس حکم سے فرضیت نماز کا حکم بالکل متاثر نہیں ہوگا۔ آیت کی یہ تاویل اس مفہوم پر دلالت کرتی ہے کہ جو حضرت ابن عباس اور ابورزین سے مروی ہے ظاہر آیت اور مضمون آیت بھی اسی مفہوم کا جو ہم نے بیان کیا ہے مقتضی ہے یہ تاویل نشے کی حالت میں نماز کی ممانعت کی منافی نہیں ہے جس کی روایت ہم نے سلف سے کی ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انہیں ایسی شراب نوشی سے روک دیا گیا ہو جو نماز کے وقت شراب پینے والے کے نشہ کی حالت میں ہونے کا مقتضی ہو۔ اس صورت میں یہ ممانعت قائم رہے گی، اگر ایسا اتفاق پیش آجائے کہ کوئی شخص شراب نوشی کرتا رہے حتی کہ نماز کے وقت بھی نشہ کی حالت میں رہے توا سے نماز کی ادائیگی سے ممانعت ہوگی اور نشہ اترنے کے بعد نماز کا اعادہ اس پر فرض ہوگایا ایک صورت یہ بھی ہے کہ آیت میں نہی حضور ﷺ کے ہمراہ یا جماعت سے نماز پڑھنے تک محدود ہے۔ اس لیے یہ تمام معانی درست ہیں اور آیت کے الفاظ میں ان تمام کا احتمال موجود ہے، قبل باری (حتی تعلموا ماتقولون) اس پر دلالت کرتا ہے جس سکران کی نماز پر ھنے سے روک دیا گیا ہے اس سے مراد وہ سکران ہے جس کی نشہ کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اسے پتہ نہ چل رہا ہو کہ وہ کیا کہہ رہ ا ہے لیکن جس سکران کو اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا پتہ ہو اسے نماز ادا کرنے کی نہی شامل نہیں ہے۔ یہ بات ہماری اس تاویل کے حق میں گواہی دے رہی ہے جو ہم نے گزشتہ سطور میں بیان کی تھی کہ نہی کا رخ صرف شراب نوشی کی طرف ہے نماز کے افعال بجالانے کی طرف نہیں ہے ، اس لیے کہ جس سکران کو اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا ہوش نہ ہو اسے اس حالت میں نماز کا مکلف بنانا ہی درست نہیں ہے اس کی حالت دیوانے ، سوئے ہوئے انسان اور اس بچے کی حالت کی طرح ہے جسے کسی کی سمجھ نہیں ہوتی۔ لیکن جسے اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کی سمجھ ہو اس کی طرف نہی کا رخ ہے کیونکہ آیت میں اس صورت کے اندر نماز کی اباحت موجود ہے جب اسے اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا علم ہو اوریہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت نے اسے شراب کی نوشی کی ممانعت کردی ہے جبکہ نشہ کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو کہ اسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا علم نہ ہو رہا ہو نماز کے افعال کی آیت نے ممانعت نہیں کی ہے کیونکہ ایسے سکران کو نماز کا مکلف بنانادرست ہی نہیں ہے جس کی سمجھ اور عقل ماری جاچکی ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نشہ کے ساتھ ممانعت کے حکم کا تعلق ہے اس سے مراد وہ نشہ ہے جس کے تحت نشہ میں مبتلا شخص کو اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی سمجھ نہ آرہی ہو یہ بات امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ حد شرب کو واجب کرنے والانشہ وہ نشہ ہے جس کے تحت نشے والاشخص ایک مرد اور عورت کے درمیان امتیاز کرنے سے عاجز ہو نیز وہ شخص جسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کی بھی سمجھ نہ ہو اور عورت اور مرد کی پہچان نہ ہو۔ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون) نماز میں قرات کی فرضیت پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ نشہ میں مبتلا انسان کو نماز پڑھنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ وہ درست طریقے سے قرات نہیں کرسکتا اگر قرات نماز کے ارکان و فرائض میں داخل نہ ہوتی تو اس کی وجہ سے نشہ میں مبتلا انسان کو نماز پڑھنے سے روکانہ جاتا۔ اگریہ کہاجائے کہ اس میں نماز کے اندر قرات کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے کہ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ نشے والے انسان کوا س حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے کہ جب وہ اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو سمجھنے سے عاجز ہے قرات کا اس میں ذکر نہیں ہے صرف یہ مذکور ہے کہ اسے اپنے الفاظ کا علم نہیں ہوتا اور یہ چیز تمام اقوال اور کلام کو شامل ہے۔ سکرکی وجہ سے جس شخص کی یہ حالت ہوا سے کے لیے نماز کی نیت کا احضار درست نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی ارکان صلوۃ کی ادائیگی درست ہوتی ہے اس لیے نماز سے ایسے شخص کو روک دیا گیا ہے جس کی نشہ کی وجہ سے یہ حالت ہوکیون کہ اس حالت میں نہ اس کی نماز کی نیت درست ہوتی ہے نہ ارکان صلوۃ کی ادائیگی درست ہوتی ہے اور اس کے ساتھ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا وہ باوضو ہے یا بےوضو۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا معترض نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ سب بجا ہیں کہ جس شخص کی حالت نشہ کے عالم میں اس درجے کو پہنچ گئی ہو اس کی نماز کی ادائیگی نماز کی شرطوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درست نہیں ہوتی لیکن چونکہ آیت میں نماز کی دوسرے افعال و احوال کی بجائے صرف منہ سے نکلنے والے الفاظ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول سے مراد وہ قول ہے جو نماز کے اندر سرانجام پاتا ہے یعنی قرات اور یہ کہ جب نشہ کے عالم میں اس کی ایسی حالت ہو جس کے تحت قرات کا بجالانا ممکن نہ ہوتوپھرعدم قرات کی بنا پر اس کی نماز کی ادائیگی درست نہیں ہوگی نیزیہ کہ نماز میں قرات کا وجود نماز کے فرائض وارکان میں سے ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (اقیموالصلوۃ ، نماز قائم کرو) اس سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ نماز میں قیام بھی ہوتا ہے جو فرض ہے یا یہ قول باری (وارکعوا مع الراکعین، اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو) نماز میں رکوع کی فرضیت پر یہ قول دلالت کررہا ہے۔ قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) کی تاویل میں اس علم کے درمیان اختلاف رائے ہے منہال بن عمر نے زر سے ، انہوں نے حضرت علی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے مگر یہ کہ تم سفر کی حالت میں ہو اور تمہیں پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ لو۔ قتادہ نے ابومجلز سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اسی قسم کی روایت کی ہے ، مجاہد سے اسی قسم کی روایت منقول ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ اس سے مسجد کے اندر سے گزرنا مراد ہے ، آیت کی تاویل میں عطاء بن یسار نے حضرت ابن عباس سے اسی قسم کی روایت کی ہے ۔ سعید بن المسیب ، عطاء بن ابی رباح ، اور عمرو بن دینار نیز دیگر تابعین بھی اسی قسم کی روایت کی گئی ہے۔ جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرجانے کے مسئلے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں مسجد سے ہوکرگزرجاتا تھا، عطاء بن یسار کا قول ہے کہ صحابہ کرام میں سے بہت سے ایسے تھے جو جنابت کی حالت میں ہوتے اور پھر وضو کرکے مسجد میں آکربیٹھ جاتے اور باتیں کرتے رہتے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ جنبی شخص مسجد میں بیٹھ نہیں سکتا، البتہ مسجد میں سے ہوکرگزر سکتا ہے ، حسن سے اسی قسم کی روایت ہے ، اس بارے میں حضرت عبداللہ سے جو قول مروی ہے تو اس کا درست مفہوم وہ ہے جو شریک نے عبدالکریم الجزری سے اور انہوں نے ابوعبیدہ سے قول باری (ولاجنبا الی عابری سبیل حتی تغتسلوا) کے سلسلے میں بیان کیا ہے یعنی جنبی مسجد سے ہوکر گزرے جائے گا لیکن اسے وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے معمر نے عبدالکریم سے ، انہوں نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے ایک قول یہ ہے کہ معمر کے سوا کسی راوی نے حضرت عبداللہ سے ان کا یہ قول متصلا نقل نہیں کیا بل کہ سب نے اسے موقوفا بیان کیا ہے۔ فقہاء امصار کا بھی اسی مسئلے میں اختلاف رائے ہے ، امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیادہ کا قول ہے کہ مسجد میں صرف وہی شخص داخل ہوگاجوطاہر ہو یعنی اسے غسل کی ضرورت لاحق نہ ہو، پھر چاہے وہ وہاں بیٹھا رہے اور چاہے وہاں سے گزر جائے۔ امام مالک اور سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے لیث بن سعد کا قول ہے کہ کوئی شخص مسجد میں سے ہوکر نہیں گزرے گا الایہ کہ اسکے گھر کا دروازہ مسجد کی طرف ہو، امام شافعی کا قول ہے کہ مسجد سے ہوکرگزرجائے گا لیکن وہاں بیٹھے گا نہیں۔ اس بات کی دلیل جنبی کے لیے مسجد سے ہوکرگزرجانا جائز نہیں ہے وہ روایت ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبدالواحد بن زیاد نے انہیں افلت بن حنیفہ نے انہیں حسرت بنت دجاجہ نے وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو ہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور تشریف لائے تو آپ کے بہت سے اصحاب کے گھروں کا رخ مسجد کی طرف تھا اور دروازے مسجد میں کھلتے تھے آپ نے ان دروازوں کا رخ موڑلینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد آپ مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا لوگوں کو توقع تھی کہ شاید اس سلسلے میں رخصت نازل ہوجائے ۔ حضور نے باہرنکل کر لوگوں کو مسجد سے دروازوں کے رخ موڑنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا، (وجھوا ھذہ البیوت فانی لااحل المسجد لحائض ولاجنب) ، ان گھروں کے رخ موڑ لو کیونکہ مسجد کونہ کسی حائضہ عورت کے لیے اور نہ ہی کسی جنبی کے لیے حلال قرار دے سکتا ہوں) ۔ یہ روایت ہماری مذکورہ بات پر دوطریقوں سے دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا (لااحل المسجد لحائض ولاجنب) اپ نے اس میں سے مسجد میں سے ہوکرگزرجانے اور مسجد کے اندر جاکربیٹھ جانے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا بل کہ اسمیں دونوں کا حکم یکساں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ جن گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے ہیں ان کے دروازوں کا رخ موڑ لیے جائیں، تاکہ کوئی جنابت والاان گھروں سے نکل کر مسجد میں سے ہوتا ہوا باہر کی طرف گزرنے نہ پائے کیونکہ اگر آپ کی مراد قعود فی المسجد ہو تو اس صورتمین آپ کے قول (وجھوا ھذہ البیوت فانی لااحل المسجد لحائض ولاجنب) کے کوئی معنی نہ ہوتے اس لیے کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہاں بیٹھ جانے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ گھر کا دروازہ مسجد کی طرف کھلتا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے گھروں کا رخ موڑ لینے کا صرف اس لیے حکم دیا تھا کہ لوگ جنابت کے حالت میں مسجد سے ہوکر گزرنے پر مجبور نہ ہوجائیں کیونکہ ان کے گھروں کے ان دروازوں کے سواجومسجد میں کھلتے تھے کوئی اور دروازے نہیں تھے۔ سفیان بن حمزہ نے کثیر بن زید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عبدالمطلب سے کہ حضور نے حضڑت علی کے سوا کسی کو بھی جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرنے اور وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی تھی، حضرت علی جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہوکر وہاں سے گزرجاتے تھے کیونکہ ان کا گھر مسجد کے اندر تھا۔ اس روایت میں یہ بتایا گیا کہ حضور نے جنابت کی حالت میں مسجد میں سے ہوکر گزرنے کی لوگوں کو ممانعت کردی تھی ، جس طرح اس حالت میں وہاں بیٹھنے پر پابندی لگادی تھی ، حضرت علی کی جو خصوصیت بیان کی گئی ہے وہ درست ہے۔ تاہم راوی کا یہ قول ہے کہ حضرت علی کا مکان مسجد کے اندر تھا، اس کا اپناخیال ہے اس لیے کہ حضور نے پہلی حدیث میں لوگوں کو اپنے گھروں کے دروازوں کا رخ موڑ لینے کا حکم دیا تھا اور انہیں اس بنا پر کہ ان کے گھر مسجد میں ہیں، مسجد سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس لیے جنابت کی حالت میں مسجد سے گزر جانے کی بات صرف حضرت علی کی خصوصیت تھی۔ جس طرح حضرت جعفر طیار کی یہ خصوصیت تھی کہ جنت میں آپ کودوپرلگادیے گئے تھے کسی اور شہید کی یہ خصوصیت نہیں تھی یا جس طرح حضرت حنظلہ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ جنابت کی حالت میں شہید ہوگئے توملائ کہ نے آپ کو غسل دیا تھا۔ اسی طرح حضرت دحیہ کلبی کی خصوصیت تھی کہ حضرت جبرائیل ان کی شکل میں حضور کے پاس آتے تھے یا حضرت زبیر کی خصوصیت یہ تھی کہ جب اپ نے کھٹملوں کے کاٹنے کی شکایت کی تو حضور نے آپ کو ریشم پہننے کی اجازت دے دی تھی، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمام لوگوں کو جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت ہے خواہ وہ وہاں سے گزرنے والے ہوں یا نہ گزرنے والے ۔ حضرت جابر کی یہ روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں مسجد سے ہوکرگزرجایا کرتا تھا تویہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضور کو اسکاعلم ہوجانے کے بعد بھی آپ نے اسے برقرار رہنے دیا تھا۔ اسی طرح عطاء بن یسار کی روایت کی صورت ہے کہ بہت سے صحابہ کرام جنابت کی حالت میں وضو کرکے مسجد میں آجاتے تھے اور وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے تھے اور اس روایت میں بھی فریق مخالف کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ حضور کو اس کا علم ہوگیا تھا اور آپ نے اسے برقرار رہنے دیا تھا، اس میں یہ بھی توگنجائش ہے کہ حضور کے زمانے میں ممانعت کا حکم ملنے سے پہلے ایسا ہوتا تھا۔ اگرحضور سے ان کا ثبوت ہو بھی جائے اور پھر اس کے بعد ان روایات پر ظاہراعمل ہو بھی جائے جو ہم نے استدلال کے طور پر بیان کی ہیں تو اس صورت میں ممانعت کی روایات اباحت کی روایت سے اولی قرار پائیں گی کیونکہ ممانعت لامحالہ اباحت پر طاری ہوئی ہے اس لیے ممانعت اباحت سے متاخر ہوئی۔ نیز جب فقہاء سے متفقہ طور پر جنابت کی حالت میں مسجد کی عظمت کے پیش نظر وہاں بیٹھنے کی ممانعت ثابت ہے تو ضروری ہے کہ مسجد کی عظمت کے پیش نظر جنابت کی حالت میں وہاں سے گزرنے کا بھی یہی حکم ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسجد میں بیٹھنے کی ممانعت کی علت اس شخص کا جنابت کی حالت میں مسجد میں ہونا ہے یہی علت گزرنے والے انسان کے اندر بھی پائی جاتی ہے اس لیے اس کے اندر بھی اس حکم کا پایاجانا ضروری ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں اس لحاظ سے مشابہت بھی ہے کہ ایک انسان کے لیے کسی شخص کی مملوکہ جگہ میں اس کی اجازت کے بغیر بیٹھنا ممنوع ہے اور اس جگہ سے ہوکر گزرنے کا بھی وہی حکم ہے جو وہاں بیٹھنے کا ہے، اس طرح گزرجانے کی وہی حیثیت ہوئی جو بیٹھنے کی ہے اس بنا پر جب مسجد میں بیٹھنے کی ممانعت ہے تو وہاں سے گزرنے کی ممانعت بھی واجب ہے اور ان سب صورتوں میں مشترک علت جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر ہونا ہے۔ قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) میں ایک تاویل تو یہ ہے کہ اس سے مراد جنابت کی حالت میں مسجد میں سے گزرجانے کی اباحت ہے ایک اور تاویل حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے اس سے مراد مسافر ہے جسے جنابت کی صورت پیش آجائے اور غسل کرنے کے لیے پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ یہ دوسری تاویل پہلی تاویل کی یہ نسبت اولی ہے کیونکہ قول باری (ولاتقربوا الصلوۃ فانھم سکاری) میں حالت سکر میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے مسجد سے ممانعت نہیں ہے ، اس لیے کہ لفظ کے حقیقی معنی اور خطاب کا مفہوم یہی ہے اگر ا سے مسجد سے ممانعت پر محمول کیا جائے گا تو اس صورت میں کلام کو اس کے حقیقی معنوں سے نکال کرمجازی معنوں کی طرف پھیر دینا لازم آئے گا اور وہ اس طرح کہ اس صورت میں لفظ صلوۃ کو موضع صلوۃ یعنی مسجد کی تعبیر کا ذریعہ بنایاجائے گا جس کا مجازی طور پر ایک چیز کو اس کے غیر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ تو ان دونوں چیزو کے درمیان مجاورت یاپڑوس کا تعلق ہوتا ہے یا ایک سبب ہوتی ہے اور دوسری مسبب ۔ مثلا قول باری پر غور کیجئے (ولولادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوت ، اور اگر اللہ لوگوں کا زور ایک دوسرے کے ذریعے نہ گھٹاتا رہتا تو ان کی خانقاہیں اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے منہدم ہوگئے ہوتے) ۔ یہاں صلوات سے مراد موضع صلوۃ ہے جب ہمارے لیے ایک لفظ کوا سکے حقیقی پر محمول کرنا ممکن ہوتوا سے کسی دلالت کے بغیر مجازی معنوں کی طرف پھیر دینا درست نہیں ہوتا، اس میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جو لفظ صلوۃ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹا کرمجازی معنوں یعنی موضع الصلوۃ مسجد کی طرف پھیرنے کی موجب ہو۔ بلکہ نسق تلاوت میں ایسی بات موجود ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صلوۃ سے حقیقت صلوۃ ہے، اور یہ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون ) ہے کیونکہ مسجد کے لیے کوئی قول مشروط نہیں ہے جو اس وقت مسجد میں داخل ہونے سے مانع بن جائے جب نشہ کی وجہ سے اس پر یہ قول متعذر ہوجائے جبکہ نماز کے ا اندر قرات کی شرط ہے جسے درست طریقے سے بجانہ لانے کی بناپرا سے نماز ادا کرنے سے منع کردیا گیا ہے ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ لفظ صلوۃ سے حقیقت صلوۃ مراد ہے اس بنا پر جن حضرات نے اس کی یہ تاویل کی ہے ان کی بات لفظ صلوۃ کی حقیقت اور ظاہر دونوں کے موافق ہے ، قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) میں عابر سبیل سے مراد مسافر ہے کیونکہ مسافر کو عابر سبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اگرمسافر پر اس لفظ کا اطلاق نہ ہوتاتوحضر ت علی اور حضرت ابن عباس کبھی اس کی یہ تاویل نہ کرتے کیونکہ یہ بات کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوتی کہ وہ کسی آیت کی ان معنوں میں تاویل کرے جن پر آیت کے اندر واقع اسم کا اطلاق نہ ہوتا ہو، مسافر کو عابر سبیل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ راستے پر ہوتا ہے اور راستہ طے کررہا ہوتا ہے جس طرح مسافر کو ابن سبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے سفر کی حالت میں جنابت لاحق ہوجانے کی صورت میں پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کرکے نماز پڑھ لینے کی اباحت کردی ۔ اس طرح آیت کی دو باتوں پر دلالت ہوگئی اول یہ کہ جنبی کے لیے حالت سفر میں پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ لیناجائز ہے۔ دوم یہ کہ تیمم جنابت کی حالت کو دور نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کرلینے کے باوجود اسے جنبی کے نام سے موسوم کیا ہے ، اس لیے یہ تاویل اس تاویل سے بہتر اور اولی ہے جس کے مطابق آیت کو مسجد سے گزرجانے کے معنوں پر محمول کیا گیا ہے۔ قول باری (حتی تغتسلوا) نماز کی اباحت کی غایت ہے یعنی غسل کے ساتھ نماز کی اباحت ہوجاتی ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس مقام میں غایت ممانعت میں داخل ہے یہاں تک کہ جنبی غسل کے وجود کے ساتھ اس غایت کی تکمیل کرے نیز یہ کہ اس صورت میں اس کی نماز جائز نہیں ہوگی جبکہ ابھی نماز کا کچھ حصہ باقی ہو اورا سے پانی مل جائے اور اس کا استعمال بھی ممکن ہو نیز اس کے استعمال سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ بعض دفعہ غایت اپنے ماقبل کے جملے میں داخل سمجھی جاتی ہے ، قول باری (ثم اتموالصیام الی اللیل) اس میں غایت اپنے ماقبل کے جملے سے خارج ہے کیونکہ رات آتے ہی روزہ دار روز سے باہر ہوجاتا ہے ، حرف، الی ، حرف ، حتی کی طرح غایت کے معنی ادا کرتا ہے۔ یہ بات اس قاعدے کی بنیاد اور اصل ہے کہ غایت کا کبھی کلام میں داخل مانا جانا درست ہوتا ہے اور کبھی خارج ماناجانا، اور پھر ان دونوں صورتوں کا حکم اس دلالت موقوف ہوتا ہے جس سے غایت کے دخول فی الکلام یاخروج عن الکلام کا پتہ چلتا ہے ہم جنابت کے احکام اس کے معنی اور مریض ومسافر کے حکم پر سو رہ مائدہ میں پہنچ کر روشنی ڈالیں گے ، انشاء اللہ۔ قول باری ہے (امنوا بمانزلنا مصدقا لمامعکم من قبل ان نطمس وجوھا، مان لواس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی ، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں) یہ قول باری ہے جو ہمارے اصحاب کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ فلاں شخص کی آمد سے قبل تجھے طلاق ہے توا سے فوری طلاق ہوجائے گی خواہ فلاں شخص کی آمد ہوجائے یا آمدنہ ہو۔ بعض فقہاء سے مروی ہے کہ اس صورت میں جب تک فلاں شخص کی آمد نہ ہوجائے اسے طلاق نہیں ہوگی کیونکہ جب ابھی فلاں شخص کی آمد نہ ہوئی تو اس صورت میں قبل قدوم فلان (فلاں شخص کی آمد سے پہلے) کے الفاظ نہیں کہے جاسکتے لیکن درست بات وہی ہے جو ہمارے اصحاب نے کہی ہے اور یہ آیت اس کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یا ایھا الذین اوتوالکتاب امنوابمانزلنا مصدقا لمامعکم من قبل ان نطمس وجوھا، اب یہاں نطمس وجوہ سے پہلے ایمان لانے کا حکم دینا درست ہوگیا، طمس وجوہ کا کبھی وجود نہیں ہوتا، اس طرح ی ہایمان طمس وجوہ سے پہلے ہوگیا جبکہ ابھی وہ وجود میں بھی نہیں آیا تھا، یہ آیت اس قول باری (فتحریر رقبۃ من قبل ان یتماسا، تو ان کے ذمہ قبل اس کے دونوں باہم اختلاط کریں ایک مملوکہ کو آزاد کرنا ہے ) مملوک کو آزاد کرنے کا حکم ایک درست حکم ہے اگرچہ باہم اختلاط کا وجود نہ بھی ہو۔ اگر یہ کہاجائے کہ آیت زیر بحث میں یہود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعید سنائی گئی تھی ، یہود ایمان نہیں لائے اور جو وعید انہیں سنائی گئی تھی ، وہ بھی وقوع پذیر نہیں ہوئی، اس کے جواب کہاجائے گا کہ یہود کا ایک گروہ مسلمان ہوگیا تھا جس میں حضر ت عبداللہ بن سلام ، ثعلبہ بن سعید ، زید بن سعنہ، اسد بن عبید، اور مخریق اور چنددوسرے لوگ شامل تھے جس فوری وعید کی انہیں خبر دی گئی تھی وہ اس امر کے ساتھ معلق تھی کہ اگر تمام کے تمام یہود ترک اسلام کے مرتکب ہوتے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وعید آخرت ہے کیونکہ آیت میں دنیا کے اندر مسلمان نہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر سزا کا ذکر نہیں ہے۔
Top