Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقْرَبُوا
: نہ نزدیک جاؤ
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
سُكٰرٰى
: نشہ
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَعْلَمُوْا
: سمجھنے لگو
مَا
: جو
تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے ہو
وَلَا
: اور نہ
جُنُبًا
: غسل کی حالت میں
اِلَّا
: سوائے
عَابِرِيْ سَبِيْلٍ
: حالتِ سفر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَغْتَسِلُوْا
: تم غسل کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: مریض
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر۔ میں
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ جَآءَ
: یا آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں
مِّنَ
: سے
الْغَآئِطِ
: جائے حاجت
اَوْ
: یا
لٰمَسْتُمُ
: تم پاس گئے
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر تم نے نہ پایا
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: مسح کرلو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَفُوًّا
: معاف کرنیوالا
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
مومنو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ یہ آیت حرمت شراب کی آیت سے منسوخ ہے اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر راستے چلے جا رہے ہو (اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عوتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح (کر کے) تیمم کرلو بیشک خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
کسی شخص کا حالت جنابت میں مسجد کے اندر سے گزرجانا قول باری ہے (یا ایھا الذین امنوالاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا، اے ایمان والو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو الایہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں سکر یعنی نشہ کے مفہوم ومراد میں اختلاف رائے ہے حضرت ابن عباس ، مجاہد، ابراہیم اور قتادہ کا قول ہے کہ شراب کی وجہ سے پیدا ہونے والانشہ مراد ہے مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ تحریم خمر کے حکم نے اسے منسوخ کردیا ہے ضحاک کا قول ہے کہ اس سے خاص کر نیند کی وجہ سے پیدا ہونے والی مدہوشی مراد ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ نشے میں مدہوش انسان کو روکنا کی سے درست ہوسکتا ہے جبکہ عقل پر پردہ پڑجانے کی بنا پر وہ ایک بچے کی طرح ناسمجھ بن جاتا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اس حد تک نہ ماری گئی ہو کہ وہ مکلفین کے دائرے سے باہر ہوگیا ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ انہیں نماز کے اوقات میں نشہ کرنے سے روکا گیا ہو یہ مراد لینا بھی درست ہے کہ نہی صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر انہوں نے نشے کی حالت میں نماز ادا کی ہوتوعقل وحواس درست ہوجانے کے بعد ان پر اس کا اعادہ ضروری ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آیت کے نزول کے وقت اس سے درج بالا تمام معانی مراد ہوں۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب آیت میں اس تاویل کی گنجائش ہے کہ اس سے مراد وہ نشہ باز ہوسکتا ہے جس کی عقل اس حد تک نہ ماری گئی ہو کہ وہ مکلف ہی نہ رہا ہو تو اس صورت میں اسے نماز سے روکنا کیسے درست ہوسکتا ہے جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم اس پر عائد ہوتا ہے ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اگر نسخ تسلیم نہ کیا جائے تو اس میں یہ احتمال ہوگا کہ اسے حضور کے ہمراہ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکا گیا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی درست تاویل یہ ہے کہ سکر سے شراب کانشہ مراد ہے اس لیے کہ سوئے ہوئے انسان نیز اس شخص کو جس کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہو سکران نہیں کہاجاتا۔ لیکن جس پر شراب کانشہ طاری ہودرحقیقت اسے سکران کہاجاتا ہے اس لیے لفظ کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کرنا واجب ہے اور مجازی معنوں پر صرف اس وقت محمول کیا جاسکتا ہے جب اس کے لیے کوئی دلالت موجود ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سفیان نے عطاء بن ابی سائب سے انہوں نے ابوعبدالرحمن سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ ایک انصاری نے کچھ لوگوں کو پینے پلانے کی دعوت دی مجلس میں دورجام چلنے کے بعد جب مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف امامت کے لیے آگے بڑھے نماز میں انہوں نے سورة الکافرون کی قرات کی اور پوری طرح ہوش میں نہ ہونے کی وجہ سے آیات کو باہم گڈ مڈ کردیا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ، لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان المودب نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے انہوں نے عطاء خراسانی سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، (یسئلونک عن الخمر والمیسر، قل فیھما اثم کبیر، و منافع للناس۔ اورسورہ نساء میں ارشاد ہے ، لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری، پھرا سے اس آیت نے منسوخ کردیا، (یا ایھا الذین امنوانماالخمر والمیسر والانصاب ، ،، اے ایمان والو یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو) ۔ ابوعبید نے کہا ہمیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ درج بالا آیت کے ساتھ یہ قول باری بھی ہے (لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون) جسکے نتیجے میں صحابہ کرام کا طریق کار تھا کہ نماز کے اوقات میں شراب نوشی نہیں کرتے تھے جب عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتے توپھرپی لیتے ۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں عبدالرحمن بن سفیان سے انہوں نے ابواسحاق سے انہوں نے ابومیسرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے یہ دعا کی، اے اللہ ہمارے لیے شراب کا حکم بیان کردے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ۔ الخ۔ آگے روایت کے الفاظ وہی ہیں جو درج بالا روایت کے ہیں ، ابوعبید نے کہا ہمیں ہشیم نے روایت بیان کی ہے انہیں مغیرہ نے ابورزین سے کہ سورة بقرہ اور سو رہ نساء کی آیات کے نزول کے بعد بھی شراب کا استعمال جاری رہا، لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ نماز کا وقت آنے تک پیتے پلاتے اور نماز کے اوقات شراب نوشی ترک کردیتے پھر سو رہ مائدہ کی آیت کے ذریعے شراب حرام کردی گئی ، ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرات نے یہ بتایا کہ آیت زیر بحث میں شراب کی وجہ سے پیدا ہونے والانشہ مراد ہے ۔ حضرت ابن عباس اور ابورزین نے یہ بتایا کہ اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے نماز کے اوقات میں شراب نوشی ترک کردی اور دوسرے اوقات میں اسے استعمال کرتے رہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ لوگوں نے قول باری (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) سے یہ بات اخذ کی تھی کہ انہیں اس حالت میں شراب نوشی سے روکا گیا ہے جبکہ شراب کی وجہ سے ان پر نشہ طاری ہوا اورادھر نماز کا وقت آجائے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) صرف اوقات نماز میں شراب نوشی کی ممانعت کی خبر دے رہا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی شراب نوشی نہ کروجس سے نماز کے وقت تک تم پر نشہ طاری رہے ، اور اسی حالت میں تم نماز ادا کرلو۔ کیونکہ مسلمانوں پر اوقات صلوہ میں نمازوں کی ادائیگی فرض تھی، اور ترک صلوہ سے انہیں روک دیا گیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھیج دیا کہ (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ہمیں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آیت سے نماز کی فرضیت منسوخ ہوئی، آیت کے الفاظ کے ضمن میں اس شراب نوشی کی ممانعت تھی جو نماز کے اوقات میں موجب سکر ہو جس طرح ہمیں جب حدث کی حالت میں نماز کی ادائیگی سے منع کردیا گیا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے (واذاقمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھھکم ، جب تم نما کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو) تاآخر آیت ، نیز حضور کا ارشاد ہے (لایقبل اللہ صلاۃ بغیر طھور) اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) اور جس طرح ارشاد باری ہے (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا ) ان آیات وحدیث میں نہی کو ترک طہارت پر محمول کیا جائے گا نماز کی ادائیگی سے ممانعت پر محمول نہیں ہوگی۔ نیز کسی شخص کا جنابت یاحدث کی حالت میں ہونا نماز کی فرضیت کے سقوط کا موجب نیہں ہے بلکہ اسے صرف اس حالت میں نماز کی ادائیگی سے روکا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے نماز ادا کرنے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس طرح سکر کی حالت میں نماز کی ممانعت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی شراب نوشی کی نہی ہے جو نماز سے قبل سکر کی موجب بن جائے لیکن نماز کی فرضیت اس پر قائم ہے اس حکم سے فرضیت نماز کا حکم بالکل متاثر نہیں ہوگا۔ آیت کی یہ تاویل اس مفہوم پر دلالت کرتی ہے کہ جو حضرت ابن عباس اور ابورزین سے مروی ہے ظاہر آیت اور مضمون آیت بھی اسی مفہوم کا جو ہم نے بیان کیا ہے مقتضی ہے یہ تاویل نشے کی حالت میں نماز کی ممانعت کی منافی نہیں ہے جس کی روایت ہم نے سلف سے کی ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انہیں ایسی شراب نوشی سے روک دیا گیا ہو جو نماز کے وقت شراب پینے والے کے نشہ کی حالت میں ہونے کا مقتضی ہو۔ اس صورت میں یہ ممانعت قائم رہے گی، اگر ایسا اتفاق پیش آجائے کہ کوئی شخص شراب نوشی کرتا رہے حتی کہ نماز کے وقت بھی نشہ کی حالت میں رہے توا سے نماز کی ادائیگی سے ممانعت ہوگی اور نشہ اترنے کے بعد نماز کا اعادہ اس پر فرض ہوگایا ایک صورت یہ بھی ہے کہ آیت میں نہی حضور ﷺ کے ہمراہ یا جماعت سے نماز پڑھنے تک محدود ہے۔ اس لیے یہ تمام معانی درست ہیں اور آیت کے الفاظ میں ان تمام کا احتمال موجود ہے، قبل باری (حتی تعلموا ماتقولون) اس پر دلالت کرتا ہے جس سکران کی نماز پر ھنے سے روک دیا گیا ہے اس سے مراد وہ سکران ہے جس کی نشہ کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اسے پتہ نہ چل رہا ہو کہ وہ کیا کہہ رہ ا ہے لیکن جس سکران کو اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا پتہ ہو اسے نماز ادا کرنے کی نہی شامل نہیں ہے۔ یہ بات ہماری اس تاویل کے حق میں گواہی دے رہی ہے جو ہم نے گزشتہ سطور میں بیان کی تھی کہ نہی کا رخ صرف شراب نوشی کی طرف ہے نماز کے افعال بجالانے کی طرف نہیں ہے ، اس لیے کہ جس سکران کو اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا ہوش نہ ہو اسے اس حالت میں نماز کا مکلف بنانا ہی درست نہیں ہے اس کی حالت دیوانے ، سوئے ہوئے انسان اور اس بچے کی حالت کی طرح ہے جسے کسی کی سمجھ نہیں ہوتی۔ لیکن جسے اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کی سمجھ ہو اس کی طرف نہی کا رخ ہے کیونکہ آیت میں اس صورت کے اندر نماز کی اباحت موجود ہے جب اسے اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا علم ہو اوریہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت نے اسے شراب کی نوشی کی ممانعت کردی ہے جبکہ نشہ کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو کہ اسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا علم نہ ہو رہا ہو نماز کے افعال کی آیت نے ممانعت نہیں کی ہے کیونکہ ایسے سکران کو نماز کا مکلف بنانادرست ہی نہیں ہے جس کی سمجھ اور عقل ماری جاچکی ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نشہ کے ساتھ ممانعت کے حکم کا تعلق ہے اس سے مراد وہ نشہ ہے جس کے تحت نشہ میں مبتلا شخص کو اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی سمجھ نہ آرہی ہو یہ بات امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ حد شرب کو واجب کرنے والانشہ وہ نشہ ہے جس کے تحت نشے والاشخص ایک مرد اور عورت کے درمیان امتیاز کرنے سے عاجز ہو نیز وہ شخص جسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کی بھی سمجھ نہ ہو اور عورت اور مرد کی پہچان نہ ہو۔ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون) نماز میں قرات کی فرضیت پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ نشہ میں مبتلا انسان کو نماز پڑھنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ وہ درست طریقے سے قرات نہیں کرسکتا اگر قرات نماز کے ارکان و فرائض میں داخل نہ ہوتی تو اس کی وجہ سے نشہ میں مبتلا انسان کو نماز پڑھنے سے روکانہ جاتا۔ اگریہ کہاجائے کہ اس میں نماز کے اندر قرات کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے کہ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ نشے والے انسان کوا س حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے کہ جب وہ اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو سمجھنے سے عاجز ہے قرات کا اس میں ذکر نہیں ہے صرف یہ مذکور ہے کہ اسے اپنے الفاظ کا علم نہیں ہوتا اور یہ چیز تمام اقوال اور کلام کو شامل ہے۔ سکرکی وجہ سے جس شخص کی یہ حالت ہوا سے کے لیے نماز کی نیت کا احضار درست نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی ارکان صلوۃ کی ادائیگی درست ہوتی ہے اس لیے نماز سے ایسے شخص کو روک دیا گیا ہے جس کی نشہ کی وجہ سے یہ حالت ہوکیون کہ اس حالت میں نہ اس کی نماز کی نیت درست ہوتی ہے نہ ارکان صلوۃ کی ادائیگی درست ہوتی ہے اور اس کے ساتھ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا وہ باوضو ہے یا بےوضو۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا معترض نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ سب بجا ہیں کہ جس شخص کی حالت نشہ کے عالم میں اس درجے کو پہنچ گئی ہو اس کی نماز کی ادائیگی نماز کی شرطوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درست نہیں ہوتی لیکن چونکہ آیت میں نماز کی دوسرے افعال و احوال کی بجائے صرف منہ سے نکلنے والے الفاظ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول سے مراد وہ قول ہے جو نماز کے اندر سرانجام پاتا ہے یعنی قرات اور یہ کہ جب نشہ کے عالم میں اس کی ایسی حالت ہو جس کے تحت قرات کا بجالانا ممکن نہ ہوتوپھرعدم قرات کی بنا پر اس کی نماز کی ادائیگی درست نہیں ہوگی نیزیہ کہ نماز میں قرات کا وجود نماز کے فرائض وارکان میں سے ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (اقیموالصلوۃ ، نماز قائم کرو) اس سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ نماز میں قیام بھی ہوتا ہے جو فرض ہے یا یہ قول باری (وارکعوا مع الراکعین، اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو) نماز میں رکوع کی فرضیت پر یہ قول دلالت کررہا ہے۔ قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) کی تاویل میں اس علم کے درمیان اختلاف رائے ہے منہال بن عمر نے زر سے ، انہوں نے حضرت علی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے مگر یہ کہ تم سفر کی حالت میں ہو اور تمہیں پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ لو۔ قتادہ نے ابومجلز سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اسی قسم کی روایت کی ہے ، مجاہد سے اسی قسم کی روایت منقول ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ اس سے مسجد کے اندر سے گزرنا مراد ہے ، آیت کی تاویل میں عطاء بن یسار نے حضرت ابن عباس سے اسی قسم کی روایت کی ہے ۔ سعید بن المسیب ، عطاء بن ابی رباح ، اور عمرو بن دینار نیز دیگر تابعین بھی اسی قسم کی روایت کی گئی ہے۔ جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرجانے کے مسئلے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں مسجد سے ہوکرگزرجاتا تھا، عطاء بن یسار کا قول ہے کہ صحابہ کرام میں سے بہت سے ایسے تھے جو جنابت کی حالت میں ہوتے اور پھر وضو کرکے مسجد میں آکربیٹھ جاتے اور باتیں کرتے رہتے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ جنبی شخص مسجد میں بیٹھ نہیں سکتا، البتہ مسجد میں سے ہوکرگزر سکتا ہے ، حسن سے اسی قسم کی روایت ہے ، اس بارے میں حضرت عبداللہ سے جو قول مروی ہے تو اس کا درست مفہوم وہ ہے جو شریک نے عبدالکریم الجزری سے اور انہوں نے ابوعبیدہ سے قول باری (ولاجنبا الی عابری سبیل حتی تغتسلوا) کے سلسلے میں بیان کیا ہے یعنی جنبی مسجد سے ہوکر گزرے جائے گا لیکن اسے وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے معمر نے عبدالکریم سے ، انہوں نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے ایک قول یہ ہے کہ معمر کے سوا کسی راوی نے حضرت عبداللہ سے ان کا یہ قول متصلا نقل نہیں کیا بل کہ سب نے اسے موقوفا بیان کیا ہے۔ فقہاء امصار کا بھی اسی مسئلے میں اختلاف رائے ہے ، امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیادہ کا قول ہے کہ مسجد میں صرف وہی شخص داخل ہوگاجوطاہر ہو یعنی اسے غسل کی ضرورت لاحق نہ ہو، پھر چاہے وہ وہاں بیٹھا رہے اور چاہے وہاں سے گزر جائے۔ امام مالک اور سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے لیث بن سعد کا قول ہے کہ کوئی شخص مسجد میں سے ہوکر نہیں گزرے گا الایہ کہ اسکے گھر کا دروازہ مسجد کی طرف ہو، امام شافعی کا قول ہے کہ مسجد سے ہوکرگزرجائے گا لیکن وہاں بیٹھے گا نہیں۔ اس بات کی دلیل جنبی کے لیے مسجد سے ہوکرگزرجانا جائز نہیں ہے وہ روایت ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبدالواحد بن زیاد نے انہیں افلت بن حنیفہ نے انہیں حسرت بنت دجاجہ نے وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو ہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور تشریف لائے تو آپ کے بہت سے اصحاب کے گھروں کا رخ مسجد کی طرف تھا اور دروازے مسجد میں کھلتے تھے آپ نے ان دروازوں کا رخ موڑلینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد آپ مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا لوگوں کو توقع تھی کہ شاید اس سلسلے میں رخصت نازل ہوجائے ۔ حضور نے باہرنکل کر لوگوں کو مسجد سے دروازوں کے رخ موڑنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا، (وجھوا ھذہ البیوت فانی لااحل المسجد لحائض ولاجنب) ، ان گھروں کے رخ موڑ لو کیونکہ مسجد کونہ کسی حائضہ عورت کے لیے اور نہ ہی کسی جنبی کے لیے حلال قرار دے سکتا ہوں) ۔ یہ روایت ہماری مذکورہ بات پر دوطریقوں سے دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا (لااحل المسجد لحائض ولاجنب) اپ نے اس میں سے مسجد میں سے ہوکرگزرجانے اور مسجد کے اندر جاکربیٹھ جانے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا بل کہ اسمیں دونوں کا حکم یکساں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ جن گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے ہیں ان کے دروازوں کا رخ موڑ لیے جائیں، تاکہ کوئی جنابت والاان گھروں سے نکل کر مسجد میں سے ہوتا ہوا باہر کی طرف گزرنے نہ پائے کیونکہ اگر آپ کی مراد قعود فی المسجد ہو تو اس صورتمین آپ کے قول (وجھوا ھذہ البیوت فانی لااحل المسجد لحائض ولاجنب) کے کوئی معنی نہ ہوتے اس لیے کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہاں بیٹھ جانے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ گھر کا دروازہ مسجد کی طرف کھلتا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے گھروں کا رخ موڑ لینے کا صرف اس لیے حکم دیا تھا کہ لوگ جنابت کے حالت میں مسجد سے ہوکر گزرنے پر مجبور نہ ہوجائیں کیونکہ ان کے گھروں کے ان دروازوں کے سواجومسجد میں کھلتے تھے کوئی اور دروازے نہیں تھے۔ سفیان بن حمزہ نے کثیر بن زید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عبدالمطلب سے کہ حضور نے حضڑت علی کے سوا کسی کو بھی جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرنے اور وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی تھی، حضرت علی جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہوکر وہاں سے گزرجاتے تھے کیونکہ ان کا گھر مسجد کے اندر تھا۔ اس روایت میں یہ بتایا گیا کہ حضور نے جنابت کی حالت میں مسجد میں سے ہوکر گزرنے کی لوگوں کو ممانعت کردی تھی ، جس طرح اس حالت میں وہاں بیٹھنے پر پابندی لگادی تھی ، حضرت علی کی جو خصوصیت بیان کی گئی ہے وہ درست ہے۔ تاہم راوی کا یہ قول ہے کہ حضرت علی کا مکان مسجد کے اندر تھا، اس کا اپناخیال ہے اس لیے کہ حضور نے پہلی حدیث میں لوگوں کو اپنے گھروں کے دروازوں کا رخ موڑ لینے کا حکم دیا تھا اور انہیں اس بنا پر کہ ان کے گھر مسجد میں ہیں، مسجد سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس لیے جنابت کی حالت میں مسجد سے گزر جانے کی بات صرف حضرت علی کی خصوصیت تھی۔ جس طرح حضرت جعفر طیار کی یہ خصوصیت تھی کہ جنت میں آپ کودوپرلگادیے گئے تھے کسی اور شہید کی یہ خصوصیت نہیں تھی یا جس طرح حضرت حنظلہ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ جنابت کی حالت میں شہید ہوگئے توملائ کہ نے آپ کو غسل دیا تھا۔ اسی طرح حضرت دحیہ کلبی کی خصوصیت تھی کہ حضرت جبرائیل ان کی شکل میں حضور کے پاس آتے تھے یا حضرت زبیر کی خصوصیت یہ تھی کہ جب اپ نے کھٹملوں کے کاٹنے کی شکایت کی تو حضور نے آپ کو ریشم پہننے کی اجازت دے دی تھی، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمام لوگوں کو جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت ہے خواہ وہ وہاں سے گزرنے والے ہوں یا نہ گزرنے والے ۔ حضرت جابر کی یہ روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں مسجد سے ہوکرگزرجایا کرتا تھا تویہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضور کو اسکاعلم ہوجانے کے بعد بھی آپ نے اسے برقرار رہنے دیا تھا۔ اسی طرح عطاء بن یسار کی روایت کی صورت ہے کہ بہت سے صحابہ کرام جنابت کی حالت میں وضو کرکے مسجد میں آجاتے تھے اور وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے تھے اور اس روایت میں بھی فریق مخالف کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ حضور کو اس کا علم ہوگیا تھا اور آپ نے اسے برقرار رہنے دیا تھا، اس میں یہ بھی توگنجائش ہے کہ حضور کے زمانے میں ممانعت کا حکم ملنے سے پہلے ایسا ہوتا تھا۔ اگرحضور سے ان کا ثبوت ہو بھی جائے اور پھر اس کے بعد ان روایات پر ظاہراعمل ہو بھی جائے جو ہم نے استدلال کے طور پر بیان کی ہیں تو اس صورت میں ممانعت کی روایات اباحت کی روایت سے اولی قرار پائیں گی کیونکہ ممانعت لامحالہ اباحت پر طاری ہوئی ہے اس لیے ممانعت اباحت سے متاخر ہوئی۔ نیز جب فقہاء سے متفقہ طور پر جنابت کی حالت میں مسجد کی عظمت کے پیش نظر وہاں بیٹھنے کی ممانعت ثابت ہے تو ضروری ہے کہ مسجد کی عظمت کے پیش نظر جنابت کی حالت میں وہاں سے گزرنے کا بھی یہی حکم ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسجد میں بیٹھنے کی ممانعت کی علت اس شخص کا جنابت کی حالت میں مسجد میں ہونا ہے یہی علت گزرنے والے انسان کے اندر بھی پائی جاتی ہے اس لیے اس کے اندر بھی اس حکم کا پایاجانا ضروری ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں اس لحاظ سے مشابہت بھی ہے کہ ایک انسان کے لیے کسی شخص کی مملوکہ جگہ میں اس کی اجازت کے بغیر بیٹھنا ممنوع ہے اور اس جگہ سے ہوکر گزرنے کا بھی وہی حکم ہے جو وہاں بیٹھنے کا ہے، اس طرح گزرجانے کی وہی حیثیت ہوئی جو بیٹھنے کی ہے اس بنا پر جب مسجد میں بیٹھنے کی ممانعت ہے تو وہاں سے گزرنے کی ممانعت بھی واجب ہے اور ان سب صورتوں میں مشترک علت جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر ہونا ہے۔ قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) میں ایک تاویل تو یہ ہے کہ اس سے مراد جنابت کی حالت میں مسجد میں سے گزرجانے کی اباحت ہے ایک اور تاویل حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے اس سے مراد مسافر ہے جسے جنابت کی صورت پیش آجائے اور غسل کرنے کے لیے پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ یہ دوسری تاویل پہلی تاویل کی یہ نسبت اولی ہے کیونکہ قول باری (ولاتقربوا الصلوۃ فانھم سکاری) میں حالت سکر میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے مسجد سے ممانعت نہیں ہے ، اس لیے کہ لفظ کے حقیقی معنی اور خطاب کا مفہوم یہی ہے اگر ا سے مسجد سے ممانعت پر محمول کیا جائے گا تو اس صورت میں کلام کو اس کے حقیقی معنوں سے نکال کرمجازی معنوں کی طرف پھیر دینا لازم آئے گا اور وہ اس طرح کہ اس صورت میں لفظ صلوۃ کو موضع صلوۃ یعنی مسجد کی تعبیر کا ذریعہ بنایاجائے گا جس کا مجازی طور پر ایک چیز کو اس کے غیر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ تو ان دونوں چیزو کے درمیان مجاورت یاپڑوس کا تعلق ہوتا ہے یا ایک سبب ہوتی ہے اور دوسری مسبب ۔ مثلا قول باری پر غور کیجئے (ولولادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوت ، اور اگر اللہ لوگوں کا زور ایک دوسرے کے ذریعے نہ گھٹاتا رہتا تو ان کی خانقاہیں اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے منہدم ہوگئے ہوتے) ۔ یہاں صلوات سے مراد موضع صلوۃ ہے جب ہمارے لیے ایک لفظ کوا سکے حقیقی پر محمول کرنا ممکن ہوتوا سے کسی دلالت کے بغیر مجازی معنوں کی طرف پھیر دینا درست نہیں ہوتا، اس میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جو لفظ صلوۃ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹا کرمجازی معنوں یعنی موضع الصلوۃ مسجد کی طرف پھیرنے کی موجب ہو۔ بلکہ نسق تلاوت میں ایسی بات موجود ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صلوۃ سے حقیقت صلوۃ ہے، اور یہ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون ) ہے کیونکہ مسجد کے لیے کوئی قول مشروط نہیں ہے جو اس وقت مسجد میں داخل ہونے سے مانع بن جائے جب نشہ کی وجہ سے اس پر یہ قول متعذر ہوجائے جبکہ نماز کے ا اندر قرات کی شرط ہے جسے درست طریقے سے بجانہ لانے کی بناپرا سے نماز ادا کرنے سے منع کردیا گیا ہے ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ لفظ صلوۃ سے حقیقت صلوۃ مراد ہے اس بنا پر جن حضرات نے اس کی یہ تاویل کی ہے ان کی بات لفظ صلوۃ کی حقیقت اور ظاہر دونوں کے موافق ہے ، قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) میں عابر سبیل سے مراد مسافر ہے کیونکہ مسافر کو عابر سبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اگرمسافر پر اس لفظ کا اطلاق نہ ہوتاتوحضر ت علی اور حضرت ابن عباس کبھی اس کی یہ تاویل نہ کرتے کیونکہ یہ بات کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوتی کہ وہ کسی آیت کی ان معنوں میں تاویل کرے جن پر آیت کے اندر واقع اسم کا اطلاق نہ ہوتا ہو، مسافر کو عابر سبیل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ راستے پر ہوتا ہے اور راستہ طے کررہا ہوتا ہے جس طرح مسافر کو ابن سبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے سفر کی حالت میں جنابت لاحق ہوجانے کی صورت میں پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کرکے نماز پڑھ لینے کی اباحت کردی ۔ اس طرح آیت کی دو باتوں پر دلالت ہوگئی اول یہ کہ جنبی کے لیے حالت سفر میں پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ لیناجائز ہے۔ دوم یہ کہ تیمم جنابت کی حالت کو دور نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کرلینے کے باوجود اسے جنبی کے نام سے موسوم کیا ہے ، اس لیے یہ تاویل اس تاویل سے بہتر اور اولی ہے جس کے مطابق آیت کو مسجد سے گزرجانے کے معنوں پر محمول کیا گیا ہے۔ قول باری (حتی تغتسلوا) نماز کی اباحت کی غایت ہے یعنی غسل کے ساتھ نماز کی اباحت ہوجاتی ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس مقام میں غایت ممانعت میں داخل ہے یہاں تک کہ جنبی غسل کے وجود کے ساتھ اس غایت کی تکمیل کرے نیز یہ کہ اس صورت میں اس کی نماز جائز نہیں ہوگی جبکہ ابھی نماز کا کچھ حصہ باقی ہو اورا سے پانی مل جائے اور اس کا استعمال بھی ممکن ہو نیز اس کے استعمال سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ بعض دفعہ غایت اپنے ماقبل کے جملے میں داخل سمجھی جاتی ہے ، قول باری (ثم اتموالصیام الی اللیل) اس میں غایت اپنے ماقبل کے جملے سے خارج ہے کیونکہ رات آتے ہی روزہ دار روز سے باہر ہوجاتا ہے ، حرف، الی ، حرف ، حتی کی طرح غایت کے معنی ادا کرتا ہے۔ یہ بات اس قاعدے کی بنیاد اور اصل ہے کہ غایت کا کبھی کلام میں داخل مانا جانا درست ہوتا ہے اور کبھی خارج ماناجانا، اور پھر ان دونوں صورتوں کا حکم اس دلالت موقوف ہوتا ہے جس سے غایت کے دخول فی الکلام یاخروج عن الکلام کا پتہ چلتا ہے ہم جنابت کے احکام اس کے معنی اور مریض ومسافر کے حکم پر سو رہ مائدہ میں پہنچ کر روشنی ڈالیں گے ، انشاء اللہ۔ قول باری ہے (امنوا بمانزلنا مصدقا لمامعکم من قبل ان نطمس وجوھا، مان لواس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی ، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں) یہ قول باری ہے جو ہمارے اصحاب کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ فلاں شخص کی آمد سے قبل تجھے طلاق ہے توا سے فوری طلاق ہوجائے گی خواہ فلاں شخص کی آمد ہوجائے یا آمدنہ ہو۔ بعض فقہاء سے مروی ہے کہ اس صورت میں جب تک فلاں شخص کی آمد نہ ہوجائے اسے طلاق نہیں ہوگی کیونکہ جب ابھی فلاں شخص کی آمد نہ ہوئی تو اس صورت میں قبل قدوم فلان (فلاں شخص کی آمد سے پہلے) کے الفاظ نہیں کہے جاسکتے لیکن درست بات وہی ہے جو ہمارے اصحاب نے کہی ہے اور یہ آیت اس کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یا ایھا الذین اوتوالکتاب امنوابمانزلنا مصدقا لمامعکم من قبل ان نطمس وجوھا، اب یہاں نطمس وجوہ سے پہلے ایمان لانے کا حکم دینا درست ہوگیا، طمس وجوہ کا کبھی وجود نہیں ہوتا، اس طرح ی ہایمان طمس وجوہ سے پہلے ہوگیا جبکہ ابھی وہ وجود میں بھی نہیں آیا تھا، یہ آیت اس قول باری (فتحریر رقبۃ من قبل ان یتماسا، تو ان کے ذمہ قبل اس کے دونوں باہم اختلاط کریں ایک مملوکہ کو آزاد کرنا ہے ) مملوک کو آزاد کرنے کا حکم ایک درست حکم ہے اگرچہ باہم اختلاط کا وجود نہ بھی ہو۔ اگر یہ کہاجائے کہ آیت زیر بحث میں یہود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعید سنائی گئی تھی ، یہود ایمان نہیں لائے اور جو وعید انہیں سنائی گئی تھی ، وہ بھی وقوع پذیر نہیں ہوئی، اس کے جواب کہاجائے گا کہ یہود کا ایک گروہ مسلمان ہوگیا تھا جس میں حضر ت عبداللہ بن سلام ، ثعلبہ بن سعید ، زید بن سعنہ، اسد بن عبید، اور مخریق اور چنددوسرے لوگ شامل تھے جس فوری وعید کی انہیں خبر دی گئی تھی وہ اس امر کے ساتھ معلق تھی کہ اگر تمام کے تمام یہود ترک اسلام کے مرتکب ہوتے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وعید آخرت ہے کیونکہ آیت میں دنیا کے اندر مسلمان نہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر سزا کا ذکر نہیں ہے۔
Top