Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 20
وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ١ۙ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا١ؕ اَتَاْخُذُوْنَهٗ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمُ : تم چاہو اسْتِبْدَالَ : بدل لینا زَوْجٍ : ایک بی بی مَّكَانَ : جگہ (بدلے) زَوْجٍ : دوسری بی بی وَّاٰتَيْتُمْ : اور تم نے دیا ہے اِحْدٰىھُنَّ : ان میں سے ایک کو قِنْطَارًا : خزانہ فَلَا تَاْخُذُوْا : تو نہ (واپس) لو مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ اَتَاْخُذُوْنَهٗ : کیا تم وہ لیتے ہو بُھْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح (کھلا)
اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لو گے ؟
قول باری ہے (فان کرھتموھن فعسی ان تکرھواشیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیر، اگر تمہیں وہ بری لگیں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں بری لگے اور اللہ نے اس میں بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔ اس میں یہ دلالت ہے کہ شوہر کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ بیوی کو ناپسند کرنے کے باوجودا سے عقدزوجیت میں باقی رکھے۔ حضور ﷺ سے بھی اس معنی میں روایت ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرنے بیان کیا، انہیں ابوداؤدنے، انہیں کثیر بن عبدنے انہیں محمد بن خالد نے معروف بن واصل سے، انہوں نے محارب بن وثار سے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ (البغض الحلال الی اللہ تعالیٰ الطلاق، اللہ کے نزدیک تمام حلال اور جائز باتوں میں طلاق سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسند دید ہ ہے۔ ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں محمد بن خالدبن یزید النیلی نے، انہیں مہلب بن علاء نے انہیں شعیب بن بیان نے عمران القطان سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے ابوتمیمہ الھجیمی سے، انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ (تزوجواولاتطلقوافان اللہ لایحب الذواقین والزواقات، شادیاں کرو لیکن طلاقیں نہ دوکیون کہ اللہ تعالیٰ ذواقین اور ذواقات کو پسند نہیں کرتا) ۔ ایسے مرد اور ایسی عورتیں جو گھربسانے کی خاطررشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوتے بلکہ صرف چسکالینے کی خاطرنئی شادیاں کرنے اور طلاقیں دینے کو اپناوطیرہ بنالیتے ہیں۔ حدیث میں ان کا ذک رہے۔ ذواق، اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے مختلف چیزیں چکھنے کی بڑی عادت ہو۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد آیت زیربحث کے مدلول کے عین مطابق ہے۔ یعنی طلاق ناپسندیدہ چیز ہے اور بیوی کو ناپسند کرنے کے باوجود اسے عقدزوجیت میں معروف طریقے سے باقی رکھناپسندیدہ ام رہے اور اس کی نزغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیاہی کہ بعض دفعہ ایک ناپسندیدہ اور ناگوارچیز کے اندر بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوا (وعسیٰ ان تکرھو اشیئاوھوخیرلکم وعسیٰ ان تحبواشیئا وھوشرلکم ، عین ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو اور اس میں تمہارے لیے بھلائی پوشیدہ ہو اور عین ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور اس میں تمہارے لیے برائی پوشیدہ ہو۔ قول باری ہے (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احداھن قنطارافلاخذوامنہ شیئا، اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لاناچاہو اور تم نے ان میں سے ایک کو ڈھیرسامال دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو) ۔ اس آیت کا مقتضیٰ ہے کہ مہر میں عورت کو جو کچھ دیاجائے اسے پوری طرح اس کی ملکیت میں دے دیاجاناواجب ہے اور شوہر کے لیے اس بات کی ممانعت ہے کہ دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز اس سے واپس لے لے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ چیزیں اب اسکی ملکیت ہیں خواہ وہ اسے عقدزوجیت میں باقی رکھے یا اس کی جگہ کوئی اور کرلے۔ اور اب اس کے لیے اس میں سے کوئی چیز لینا ممنوع ہے۔ اب یہ غیر کا مال ہے اور اللہ تعالیٰ نے غیر کا مال حاصل کرنے کا جو طریقہ جائز کردیا ہے اس کے ذریعے ہی وہ اس مال میں سے کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ جائز طریقے کے متعلق ارشاد باری ہے (الاان تکون تجارۃ عن تراض منکم، بجز اس کے کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی کوئی صورت ہو) ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ بیوی کے ساتھ خلوت میسر آجانے کے بعد مہر میں سے کوئی حصہ واپس لینا ممنوع ہے۔ اس لیے آیت سے اس مسئلے پر استدلال ہوسکتا ہے کہ خلوت میسرآجانے کے بعد اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو اسے مہر کی پوری رقم اداکرنا ہوگی۔ اس لیے کہ لفظ کا عموم ہر صورت میں مہر میں سے کسی حصے کو واپس لینے کی ممانعت میں دلالت کرتا ہے صرف وہ صورت اس سے مستثنیٰ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے تخصیص کردی ہے (وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف مافرضتم، اور جب تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ۔ رانحالی کہ تم نے ان کے لیے مہر کی رقم مقررکردی ہو تو اس مقررہ شدہ رقم کا نصف انہیں اداکرو) یہ آیت خلوت سے قبل طلاق دے دینے پر نصف مہر کے سقوط کو واجب کرتی ہے۔ اس لیے کہ اس پر سب کا تفاق ہے۔ کہ یہاں آیت میں مراد وہ صورت ہے جب شوہر اپنی منکو حہ کو خلوت میسر آنے سے پہلے ہی طلاق دے دے۔ البتہ خلوت کے مفہوم کے تعین میں اختلاف رائے ہے آیا آیت میں اس سے مراد ہاتھ لگانا ہے یاہمبستری کرنا ہے۔ لفظ میں دونوں معافی کا احتمال ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام میں سے حضرت علی ؓ اور حضرت عمر ؓ وغیرھمانے اس سیمراد ہاتھ لگانالیا ہے۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د نے اس کے معنی جماع کے کیئے ہیں اس لیے قول باری (فلاتاخذوامنہ شیئا) کے عموم کی تخصیص احتمال کی بناپر نہیں کی جاسکتی۔ قول باری (واتیتم احداھن قنطارا فلاتاخذوامنہ شیئا) کی اس پر دلالت ہورہی ہے۔ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کوئی چیزہبہ کردے تواب اس کے لیئے اس سے رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ چیزاب اس کی دی ہوئی چیزوں کے ضمن میں آگئی اور لفظ کا عموم دی ہوئی اشیاء میں سے کسی بھی چیز کی واپسی کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں مہر اورغیر مہر میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح آیت سے اس پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی سے کسی رقم پر خلع کرلے اور وہ مہر کی رقم اسے پہلے دے چکاہو تو اب اس رقم کے کسی حصے کو وہ واپس نہیں لے سکتا خواہ مہرنقدی کی شکل میں ہو یا جنس کی صورت میں جیسا کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اسی طرح آیت سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ کہ ایک شخص اپنی بیوی کو ایک مدت کے لیے نان ونفقہ کے اخراجات پیشگی دے دیتا ہے لیکن مدت کے اختتام سے قبل ہی بیوی فوت ہوجاتی ہے تو اس کے لیے بیوی کی میراث میں سے کسی ایسی چیز کو واپس لینے کی اجازت نہیں ہوگی جو اس نے اسے دے رکھی ہو۔ کیونکہ لفظ ک عموم کا یہی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ بالامسئلے میں اس بات کی گنجائش تھی کہ شوہر نے اس بیوی کی موت کے بعدا س کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے کا ارادہ کررکھا تھا اس بناپرظاہر لفظ اس صورت کو بھی شامل ہوجائے گا۔ اگریہ کہاجائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت کے فورا بعد فرمایا (وکیف تاخذونہ وقد افضیٰ بعضکم الی بعض، اور آخرتم اسے کس طرح لے لوگے جبکہ تم اپنی بیویوں سے لطف اندوز ہوچکے ہو) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ خطاب کی ابتداء میں بیوی کی دیئے گئے جس مال کا ذکر ہے اس سے مراد مہ رہے کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ مفہوم صرف مہر کے ساتھ خاص ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس بات میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ خطاب کا ابتدائی حصہ اسم کے تمام مدلول کو عام ہو اور پھر اس پر معطوف ہونے والے فقرے میں ایک حکم خاص ہو اس کی وجہ سے پہلے لفظ کی تخصیص لازم نہیں آتی اس کی نظائر کی ہم نے کئی مقامات پر نشاندہی کی ہے۔ یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جب شوہر کو بیوی کے ساتھ ہمبستری میسر آجائے اور پھر کسی معصیت یاعدم معصیت کی بناء پر عورت کی جانب سے علیحد گی ہوجائے تو اس صورت میں شوہر پر اس کے مہر کی ادائیگی واجب ہوجائے گی اور عورت کی جانب سے علیحد گی اس وجوب کو باطل نہیں کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیوی کی جگہ دوسری عورت کو بیوی بنانے کی حالت میں پہلی کو دیئے ہوئے مال میں سے کسی چیز کو واپس لینے کی نہی فرمادی ہے۔ جبکہ واپس لینے کی نہی تمام صورتوں کے لیے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس خیال کا ازالہ مقصود ہے کہ شاید دیئے ہوئے مال کی واپسی اس صورت میں جائز ہو جب کہ عورت اپنے جسم یعنی بضع کی خودمالک ہوجائے اور طلاق کی وجہ سے اس کے بضع پر شوہر کا حق ختم ہوجائے۔ اور اس طرح آنے والی دوسری عورت پہلی کی جگہ لے کر اس مہر کی زیادہ حق داربن جائے جو شوہر نے پہلی کو دیا تھا۔ اس خیال کے ازالے کی خاطر منصوص طریقے پر یہ فرمادیا گیا کہ اس صورت میں بھی واپس لینے کی ممانعت ہے۔ اور پھر ضمنی طورپرتمام صورتوں میں واپس لینے کی ممانعت کے عموم پر بھی دلالت ہوگئی اس لیے کہ جب اس صورت میں واپس لینے کی اجازت نہیں دی گئی جس میں اس کے بضع پر شوہر کا حق ختم ہوچکا ہے تو ان تمام صورتوں میں دیئے مال میں سے کوئی چیزواپس لینے کی ممانعت بطریق اولی ہوگی جبکہ ابھی بضع پر شوہر کا حق باقی ہو اور بیوی پر اس کا حق اس حق سیفالق ہوجوبیوی کو اپنی ذات پر حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کی واپسی کی ممانعت کو اور موکد بنانے کے لیے اس عمل کو بہتان کی طرح ظلم قراردیا۔ بہتان اس جھوٹ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مخاطب کو متجبر کرکے خاموش کردیاجاتا ہے۔ اور اس طرح اس پر غلبہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ کی بدترین اور بھیانک ترین صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیوی کو دیئے ہوئے مال کی ناھق واپسی کے عمل کو برائی اور قباحت میں بہتان کے مشابہ قرار دے کر اس پر اثم اور بہتان کے لفظ کا اطلاق کیا۔
Top