Ahkam-ul-Quran - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بےہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
زور سے مراد آلات موسیقی قول باری ہے : (والذین لا یشھدون الزور۔ ) اور جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے۔ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ زور ، غنا یعنی موسیقی اور گانے بجانے کو کہتے ہیں۔ قول باری : (ومن یشتری لھو الحدیث) اور جو شخص لہو ولعب کی باتیں خریدتا ہے کہ تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو گانے والی عورت خریدتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں کا ہے کہ اس غنا اور ہر لہو ولعب مراد ہے۔ ابن ابی لیلیٰ نے عطا سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے حضور ﷺ نے فرمایا : ” مجھے دو بیہودہ قسم کی احمقانہ آوازوں سے روکا گیا ہے ، مصیبت کے وقت رونے کی آواز سے جس کے ساتھ چہرہ نوچنا ، گریبان پھاڑنا اور شیطان کی طرح آواز بلند کرنا ہوتا ہے ، نیز گانے کی آواز سے جس کے ساتھ لہو ولعب اور شیطانی آلات موسیقی ہوتے ہیں۔ “ عبیداللہ بن زحر نے بکربن سوادہ سے ، انہوں نے قیس بن سعد ؓ بن عبادہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (ان اللہ حرم علی الخمروالکویۃ والعناء) اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب ، شطرنج اور غنا یعنی گانا بجانا حرام کردیا ہے ۔ محمد ابن الحنیفہ نے قول باری (لا یشھدون الزور) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اس چیز کے پیچھے مت پڑو جس کے متعلق کچھ علم نہ ہو۔ کان، آنکھ اور دل سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ ابوبکر حبصاص اس تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ احتمال ہے کہ محمد بن الحنیفہ نے اس سے غنا یعنی گانا بجانا مراد لیا ہو جیسا کہ سلف سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ ان کے نزدیک اس سے ایسی بات کہنا مراد ہو جس کا کہنے والے کو کوئی علم نہ ہو آیت کے لفظ کے عموم کی بنا پر اسے ان دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ قول باری ہے : (واذا امروا باللغو مرواکراما) اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزرجاتے ہیں۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا قول ہے کہ جب ان کی ایذارسانی کی جاتی ہے تو درگزر کرتے ہوئے شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ ابومحزوم نے سنان سے روایت کی ہے کہ جب ان کا گزر فحش گوئی اور گندی گفتگو کی مجلس پر ہوتا ہے تو وہ اس میں شرکت سے باز رہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ لغو سارے کا سارا معاصی ہے۔ سدی کا قول ہے کہ یہ سورت مکی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سدی کی مراد یہ ہے کہ یہ آیتیں مشرکین کے ساتھ قتال کے حکم سے پہلے نازل ہوئی تھیں۔
Top