Ahkam-ul-Quran - Al-Furqaan : 48
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَرْسَلَ الرِّيٰحَ : بھیجیں ہوائیں اس نے بُشْرًۢا : خوشخبری بَيْنَ يَدَيْ : آگے رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً طَهُوْرًا : پانی پاک
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے (مینہ کے) آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں
پانی کے مسائل قول باری ہے : (وانزلنا من السمآء ماء طھوراً ) اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی نازل کیا، طھور مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے ذریعے یہ بیان کیا گیا ہے کہ پانی خود پاک ہے اور اس میں دوسری چیز کو پاک کرنے کی صفت بھی موجود ہے۔ اس صفت کو طھور کے لفظ سے مبالغہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح پانی خود پاک ہے اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے والا بھی ہے۔ جس طرح یہ کہا جاتا ہے ” رجل ضروب وقتول “ یعنی وہ ضرب اور قتل کا فعل کرتا ہے اور ان لفظوں کے ذریعے اس کے ان دونوں افعال کو مبالغہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ وضو کو طہور کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ بننے والے حدث سے وضو کرنے والے کو پاک کردیتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : (لا یقبل اللہ صلوۃ بغیر طھور) اللہ تعالیٰ طہور کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا، یعنی پاک کرنے چیز کے استعمال کے بغیر ۔ آپ کا یہ بھی ارشاد ہے : (جعت لی الارض مسجدا اطھور) آپ ﷺ نے مٹی کو طہور کا نام دیا اس لئے کہ یہ مٹی پانی قائم مقام بن جاتی ہے اور اس کے تیمم کرکے نماز کی ادائیگی مباح ہوجاتی ہے۔ پانی کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے کی تین صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ پانی کے ساتھ پاک چیزیں مل گئی ہوں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پانی کے ساتھ نجاست مل گئی ہو اور اس کے ساتھ ملی ہوئی چیز اس پر غالب آکر اس کا نام زائل نہ کرچکی ہو اور اسے جسم کی طہارت کے لئے استعمال نہ کیا گیا ہو تو ایسے پانی سے وضو جائز ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ دوسری چیز اس طرح مل گئی ہو کہ اسے اب پانی نہ کہا جاسکتا ہو مثلا شوربہ، سرکہ یا باقلاء یعنی لوبیا کا پانی تو اس صورت میں اس کے ساتھ وضوکرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر پانی کو صاف کرنے کے لئے اس میں کوئی چیز ڈال کر اسے پکایا گیا ہو مثلاً اشتان (ایک گھاس کا نام) یا صابون وغیرہ تو اس سے وضو جائز ہوگا لیکن ستو کی طرح کوئی چیز پانی میں ملادی گئی ہو تو اس سے وضو جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر پانی میں زعفران مل گیا ہو یا کوئی ایسی رنگدار چیز جس کے رنگ میں پانی رنگین ہوگیا ہو اور اس کا اپنا رنگ غائب ہوگیا ہو تو اس سے بھی وضو جائز ہے کیونکہ اس صورت میں پانی ہی غالب رہتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسے پانی سے وضو جائز نہیں جس میں روٹی ترکی گئی ہو۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس نے گاجر کے پانی یا نشاستہ کے پانی یا سرکہ کے ساتھ وضو کیا تو اس کا وضو جائز ہوجائے گا اسی طرح ہر اس چیز کا حکم ہے جو پانی کا رنگ بدل ڈالے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر پانی میں روٹی ترکی گی ہو یا کوئی ایسی چیز جس کے ملنے کے بعد اس پر مطلق پانی کے اسم کا اطلاق نہ ہوتا ہو بلکہ اس کی نسبت ملنے والی چیز کی طرف ہوجاتی ہو اور وہ مطلق پانی کے دائرے سے نکل گیا ہو تو ایسی صورت میں اس پانی کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس پانی کا بھی یہی حکم ہے جس پر اشنان یا زعفران غالب آگیا ہو۔ امام شافعی کے بہت سے اصحاب اس حکم کے لئے یہ شرط لگاتے ہیں کہ اعضائے وضو کو دھونے کے عمل کا بعض حصہ پانی کے سوا کسی اور چیز کے ساتھ سرانجام پایا ہو۔ مسائل وضو ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی بنیاد یہ قول باری ہے : (فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق) اپنے چہرے اور کہنیوں تک ہاتھ دھوئو۔ تاقول باری (فلم تجدوا ماء اور تمہیں پانی نہ ملے) اس میں ہمارے اصحاب کے قول پر دو وجوہ سے دلالت ہورہی ہے۔ اول قاری باری (فاغسلوا) تمام مائعات یعنی بہنے والی چیزوں کے بارے عموم ہے جس کے تحت غسل یعنی دھونے کے اسم کا اطلاق ان پر جائز ہے۔ دوم قول باری (فلم تجدوا ماء) ہے۔ اگر پانی کے ساتھ کوئی دوسری چیز مل گئی ہو تو اس کے متعلق کسی کے لئے یہ کہنے میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ ” اس چیز کے اندر پانی ہے۔ “ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اباحت صرف اس صورت میں کی ہے جب پانی کا ہر جز معدوم ہو۔ اس لئے کہ قول باری (ماء) اسم نکرہ ہے جو پانی کے ہر جز کو شامل ہے۔ سمندر کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے (ھوا الطھور ماء ہ العل میتۃ اس کا پانی پاک کرنے والا اور اس کا مردار حلال ہے) ظاہر حدیث اس پانی کے ساتھ طہارت کے جوا ز کا مقتضی ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ دوسری چیزیں بھی ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ کیونکہ حضور ﷺ نے اس کے پانی کے متعلق اپنے ارشاد کو مطلق رکھا ہے۔ پھر آپ نے بلی اور حائضہ کے جو ٹھے پانی سے وضو کی اباحت کردی ہے اگر چہ پانی کے ساتھ بلی اور حائضہ کا لعاب دہن کیوں نہ مل گیا ہو۔ نیز سیلاب کے پانی سے وضو کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے حالانکہ مٹی وغیرہ کی ملاوٹ کی وجہ سے سیلاب کے پانی کا رنگ بدلا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ریگستانوں کی جڑی بوٹیاں اور پودے بھی ملے ہوتے ہیں۔ اس ملاوٹ کی وجہ سے اس پانی کا رنگ کبھی سیاہی مائل، کبھی سرخی مائل اور کبھی زردی مائل ہوتا ہے۔ یہی بات پانی کے ساتھ تمام ملاوٹوں کے لئے بنیادکا کام دیتی ہے بشرطیکہ یہ ملاوٹیں پانی پر اس قدر غالب نہ آگئی ہوں کہ اس مرکب سے پانی کا نام سلب ہوچکا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ پانی جب خالص ہو اور اس میں کوئی چیز ملی ہوئی نہ ہو ، تو اگر کوئی شخص اسے وضو میں استعمال کرلے لیکن وضو کے لئے کافی نہ ہو پھر اس کے ساتھ دوسری کوئی چیز ملا کر وضو مکمل کرلے مثلاً گلاب یا زغفران وغیرہ کا پانی ملالے تو اس صورت میں وضو کا ایک حصہ ایسی چیز کے ساتھ مکمل ہوگا جسے اگر تنہا استعمال کرتا تو طہارت حاصل نہ ہوتی۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس چیز کو پانی کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے اور تنہا اسے استعمال کرنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ استدلال کئی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ پانی کے ساتھ مل جانے والی۔ یہ پاک چیزیں جنہیں طہارت کے سوا دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہوتا ہے اگر یہ قلیل مقدار میں ہوں تو اس کا حکم ساقط ہوجاتا ہے اور ایسے مرکب پر اس چیز کا حکم عائد ہوتا ہے جو غالب ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر دودھ کے ساتھ تھوڑا سا پانی مل جائے تو اس مرکب سے دودھ کا نام زائل نہیں ہوتا، اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے کنویں کا پانی پی لیتا ہے جس میں شراب کا ایک قطرہ مل گیا ہو تو اس شخص کو شراب پینے والا نہیں کہا جاتا اور نہ ہی اس پر حدواجب ہوتی ہے۔ اس لئے کہ شراب کا یہ قطرہ کنویں کے پانی میں مل کر اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے اس لئے اس کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی مرکب میں پانی غالب ہو اور اس کے ساتھ مل جانے والی چیز قلیل مقدار میں ہو تو اس چیز کا حکم ساقط ہوجائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے اگر معترض کے استدلال کی علت وہی ہے جس کا اس نے ذکر کیا ہے تو پھر اس سے یہ جواز پیدا ہونا چاہیے تھا کہ جس مخلوط پانی کو اس نے استعمال کیا ہے اگر وہ اس ملاوٹ سے خالی ہوتا جو اس میں ہوچکی ہے تو وہ پانی اس کی طہارت کے لئے کافی ہوجاتا کیونکہ خالص پانی کے استعمال اور اس پانی کو نجس نہ بتانے والی ملاوٹ کے ساتھ اس کے استعمال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ جب پانی کے ساتھ دودھ یا گلاب کے پانی وغیرہ کو ملاوٹ نہ ہو اور پھر اس صورت میں اس کے استعمال سے طہارت حاصل ہوجاتی ہو تو اس کے ساتھ پاک چیز کی ملاوٹ کی صورت میں بھی اس کے استعمال کا یہی حکم ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ پاک چیز کی ملاوٹ کی بنا پر مخلوط پانی اس حکم سے خارج نہیں ہوتا کہ اسے استعمال کرنے والا پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنے والا نہ کہلائے۔ اس لئے معترض نے جو علت بیان کی ہے وہ خود معترض کے قول کے بطلان اور اس کے استدلال کی بنیاد کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ نیز یہ بھی چاہیے تھا کہ معترض اس صورت کو جائز قرار دیتا جب وضو کرنے والا اس پانی کو اعضاء وضو دھونے میں بہت زیادہ استعمال کرچکا ہوتا کیونکہ اس صورت میں وہ اعضاء وضو دھونے میں اتنا پانی استعمال کرلیتا کہ اگر یہی پانی خالص ہوتا تو یہ وضو کے لئے کافی ہوجاتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وانزلنا من السماء ماء طھورا) اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی نازل کیا، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل ہونے والے پانی کو ماء طہور قرار دیا لیکن جب اس کے ساتھ دوسری چیزوں کی ملاوٹ ہوجائے گی تو یہ بعینہٖ آسمان سے نازل ہونے والا پانی نہیں رہے گا اس لئے یہ پاک کرنے والابھی نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پانی کے ساتھ دوسری چیزوں کی ملاوٹ اسے اس دائرے سے خارج نہیں کرتی کہ وہ بعینہٖ آسمان سے نازل ہونے والا پانی نہ ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سیلاب کے پانی میں مٹی کی ملاوٹ اسے اس دائرے سے خارج نہیں کرتی کہ اس کو آسمان سے نازل ہونے والے پانی کا نام نہ دیا جائے۔ اگرچہ آسمان سے نازل ہوتے وقت اس کے ساتھ مٹی کی ملاوٹ نہیں ہوئی تھی۔ سمندر کے پانی کی بھی یہی کیفیت ہے۔ آسمان سے برسنے کے وقت اس کی یہ حالت نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کے ساتھ وضو جائز قرار دیا گیا۔ کیونکہ اس مرکب میں وہ پانی غالب تھا جو آسمان سے نازل ہوا تھا۔ اس لئے دوسری چیزوں کے مل جانے کے باوجود یہ مرکب پانی آسمان سے نازل ہونے والے پانی کی بنا پر پاک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ماء طہور کا نام دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت کی بنا پر یہ واجب ہوگیا کہ ایسے پانی کے ساتھ بھی وضو جائز قرار دیا جائے جس میں تھوڑی سی نجاست کی ملاوٹ ہوگئی ہو کیونکہ یہ تھوڑی سی ملاوٹ اس پانی کو آسمان سے نازل ہونے والے پانی کے دائرے سے خارج نہیں کرتی اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس پانی کے ساتھ نجاست مل گئی ہو وہ اپنی حالت پر باقی رہتا ہے اور نجس العین نہیں بنتا۔ اگر اس پانی میں صرف کسی اور چیز کی ملاوٹ ہوجاتی تو ہم اس کے ساتھ وضو کرنے سے نہ روکتے لیکن ہم نے نجاست ملے ہوئے پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے سے روک دیا ہے حالانکہ یہ پانی بھی آسمان سے نازل شدہ ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم یہ پانی استعمال کریں گے تو اس کے ساتھ ہی نجاست کے ایک جز کو استعمال میں لے آئیں گے۔ جبکہ نجاست کا استعمال ممنوع ہے۔ اس طرح ہم نے ایسے پانی کو استعمال میں لانے سے رو ک کر گویا نجاست کے استعمال سے رو ک دیا ہے۔ اس کے بالمقابل ہمارے لئے پاک چیزوں کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے خواہ وہ پانی میں ملی ہوئی کیوں نہ ہوں۔ اس لئے اگر طہارت حاصل کرنے کی غرض سے پانی کے ساتھ یہ پاک چیزیں بھی استعمال میں آجائیں تو اس کا جواز ہوگا۔ جس طرح کوئی شخص خالص پانی سے وضو کرلے اور پھر گلاب کا پانی اپنے چہرے پر مل لے تو اس کی طہارت باطل نہیں ہوتی۔ امام شافعی نے تو اس پانی سے وضو کو جائز قرار دیا ہے جس میں کافور یا عنبر ڈالا گیا ہو اور وضو کرنے والا اس خوشبو کو محسوس کررہا ہو۔ اسی طرح انہوں نے اس پانی سے بھی وضو کو جائز قرار دیا ہے جس میں تھوڑا سا گلاب مل گیا ہو۔ اگر پانی میں یہی تھوڑی سی مقدار نجاست کی مل جاتی اور پانی قلتین سے کم ہوتا تو اس صورت میں ان کے نزدیک اس کا استعمال جائز نہ ہوتا (چھوٹے کوزے کو قلہ کہتے ہیں) اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ نجاست کی ملاوٹ کو پانی کے ساتھ مل جانے والی پاک چیزوں کو ملاوٹ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ کہا جائے درج بالا وضاحت سے آپ پر پہ لازم آتا ہے کہ اگر پانی کے ساتھ کوئی پاک چیز مل کر اس پر غالب آجائے تو آپ ایسے مخلوط پانی سے وضو کرلینا جائز قراردیں جبکہ اس مخلوط پانی میں پانی کی مقدار اتنی ہو کہ اگر یہ خالص ہوتا تو وضو کے لئے کافی ہوجاتا ، کیونکہ خالص ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ وضو جائز ہوتا ہے نیز یہ کہ مخلوط ہونے کی صورت میں بھی اسے آسمان سے نازل ہونے والا پانی کہا جاسکتا ہے اگرچہ اس پر ملاوٹ اتنی غالب آچکی ہے کہ اس پر اب پانی کے نام کا طلاق نہیں ہوسکتا۔ اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ہم پر لازم نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے پانی پر ملاوٹ کا غالب آجانا اسے مل جانے والی چیز کے حکم میں داخل کردیتا ہے یعنی وہ اب پانی نہیں رہتا البتہ اگر ملاوٹ کی مقدار قلیل ہو تو اس ملاوٹ کا حکم ساقط ہوجاتا ہے اور وہ پانی ، پانی رہتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک قطرہ شراب کنویں میں گرجائے اور کوئی شخص اس کنویں کا پانی پی لے تو وہ شراب پینے والا نہیں کہلاتا ہے اور نہ ہی اس پر حد واجب ہوتی ہے اس کے بالمقابل اگر شراب میں تھوڑا سا پانی ملا دیاجائے تو شراب ہی غالب رہے گی کیونکہ ایسے مخلوط مشروب کو پینے والے پر لوگ شرابی کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں اور وجوب حد کے لحاظ سے اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو اس شرابی کا ہے جس نے پانی ملائے بغیر خالص شراب پی لی ہو۔ جہاں تک گلاب اور زعفران کے پانی نیز ریحان (ایک خوشبودار پودا) اور درخت کے رس کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ وضو کی ممانعت اس وجہ سے نہیں ہے کہ کسی اور چیز کی ملاوٹ ہوگئی ہے بلکہ اس وجہ سےے کہ دراصل یہ وہ پانی ہی نہیں ہے جس کے ساتھ طہارت حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے نیز یہ وجہ بھی ہے کہ اس پانی کو ماء کا اسم کسی قید کے بغیر شامل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مادہ منویہ کو پانی کہا ہے چناچہ ارشاد ہے (الم نخلقکم من ماء مھین) کیا ہم نے تمہیں ایک ذلیل پانی سے پیدا نہیں کیا، نیز فرمایا (واللہ خلق کل دابۃ من ماء ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا) حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ وہ پانی نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے طہارت حاصل کرنا فرض کیا ہے ۔ حسن بن صالح نے سرکہ اور اس جیسی چیزوں کے ساتھ وضو جائز قرار دیا ہے جس سے ان پر یہ لازم آتا ہے کہ شوربے اور انگور کے رس کے ساتھ تھوڑا سا پانی ملانے کے بعد وضو کرنے کی اجازت دے دیں اور اگر اس کا جواز ہوجائے تو ہر قسم کی مائع چیز مثلاً تیل وغیرہ کے ساتھ بھی وضو کرنے کا جواز ہوجائے گا جبکہ یہ بات خلاف اجماع ہے۔ اگر یہ چیز جائز ہوجائے تو مٹی پر قیاس کرتے ہوئے آٹے اور اشنان (ایک قسم کی گھاس جو ہاتھ دھونے کے کام آتی ہے) کے ساتھ تیمم کرنا بھی جائز ہوجائے گا۔ فصل نجاست کے مسائل جس پانی کے ساتھ نجاست مل گئی ہو تو اس کے متعلق ہمارے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ یہ ایسا پانی جس میں نجاست کے کسی جز کا ہمیں یقین ہوجائے یا کم از کم ظن غالب ہو تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں سمندر ، کنویں، تالاب کے پانی، نیز بہتے اور کھڑے پانی سب کا حکم یکساں ہے کیونکہ سمندر کے پانی میں بھی اگر نجاست گرجائے تو اس نجاست کی بنا پر اتنے حصے کا پانی کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ یہی حکم بہتے پانی کا بھی ہے۔ ہمارے اصحاب نے اس تالاب کے متعلق جس کے ایک کنارے کے پانی کو حرکت دینے پر دوسرے کنارے کا پانی متحرک نہ ہوتا ہو ، جو یہ کہا ہے کہ اگر اس کے ایک کنارے کے پانی میں نجاست موجود ہو تو دوسرے کنارے کے پانی کا استعمال جائز ہے، ان کا یہ قول اس ظن غالب کی بنا پر ہے کہ ایسی صورت میں ایک کنارے پر واقع نجاست کا اثر دوسرے کنارے تک نہیں پہنچے گا، ان کا یہ قول اس پر محمول نہیں ہے کہ پانی کے اندر اگر نجاست گرجائے تو ایک حصے کا استعمال جائز ہوتا ہے اور ایک حصے کا استعمال جائز نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا یہ قول بھی ہے کہ ایسی صورت میں اس کنارے کے پانی کا استعمال جائز نہیں ہے جس کنارے پر نجاست پڑی ہوئی ہو۔ جس پانی میں نجاست حلول کرگئی ہو اس کے استعمال کے بارے میں سلف اور فقہاء امصار کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ ان سے ایسے تالاب کے پانی کے متعلق سوال کیا گیا تھا جس میں مردار اور حیض کے کپڑے پھینکے جاتے ہوں۔ آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ اس پانی سے وضو کرلو کیونکہ پانی گندہ نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ جنبی اگر حمام میں داخل ہوکر غسل کرلے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا ایک روایت کے مطابق قول ہے کہ جس پانی پر درندے اور کتے آتے ہوں وہ پانی نجس نہیں ہوتا۔ ابن المسیب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو طہور بنا کر نازل کیا ہے اس سے کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔ حسن اور زہری کا قول ہے کہ جس پانی میں پیشاب کردیا جائے تو جب تک اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہیں بدلتا وہ پانی نجس نہیں ہوتا۔ عطاء ، سعید بن جبیر اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی، یہی بات قاسم ، سالم اور ابوالعالیہ سے بھی مروی ہے۔ ربیعہ کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک روایت کے مطابق فرمایا ہے کہ چالیس ڈول پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی۔ ایک روایت کے مطابق سعید بن جبیر کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ پانی جب چالیس قلہ (چھوٹا کوزہ) ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حوض میں جنبی نہیں نہائے گا البتہ اگر اس میں چالیس بڑے ڈول کی مقدار پانی ہو تو جنبی کے نہانے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔ محمد بن کعب القرظی کا بھی یہی قول ہے ۔ مسروق ، ابراہیم نخعی، اور ابن سیرین کا قول ہے کہ پانی اگر ایک کنویں کی مقدار ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کرتی ۔ سعید بن جبیر سے ایک روایت ہے کہ کھڑا پانی اگر تین قلوں کی مقدار ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی۔ مجاہد کا قول ہے کہ پانی اگر دو قلوں کی مقدار ہو تو کوئی چیز اسے ناپاک نہیں کرسکتی۔ عبید بن عمیر نے کہا ہے کہ اگر نشہ آور چیز کا ایک قطرہ بھی ایک مشک پانی میں گرجائے تو اس کا استعمال حرام ہوجاتا ہے۔ امام مالک اور اوزاعی کا قول ہے کہ نجاست کی وجہ سے پانی گندہ نہیں ہوتا الایہ کہ اس کا مزہ بابو بدل جائے ، امام مالک سے منقول ہے کہ اگر مرغی کنویں میں گر کر مرجائے تو کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا الایہ کہ کنواں لوگوں پر غالب آجائے یعنی لوگ اس کا سارا پانی نکال نہ سکتے ہوں۔ جس شخص نے اس پانی سے وضو کرکے نماز پڑھی ہو وہ اپنی نماز لوٹائے گا بشرطیکہ نماز کا وقت ابھی باقی ہو۔ نماز کا اعادہ ان کے نزدیک مستحب ہوگا۔ امام مالک کے اصحاب کا کہنا ہے کہ جن صورتوں میں وہ وقت کے اندر نماز کے اعادے کی بات کہتے ہیں وہ استحباب مراد ہوتا ہے ایجاب مراد نہیں ہوتا۔ امام مالک نے کہا ہے کہ اگر جنبی حوض کے اندر داخل ہوکر غسل کرلے تو اس پانی گندہ ہوجائے گا ایسے پانی کا استعمال نہ کرنا ان کے نزدیک استحباب پر مبنی ہوگا اگر کسی نے اس پانی سے وضو کرلیا تو اس کا وضو درست ہوگا۔ لیث بن سعد کے نزدیک جنبی کا کنویں میں داخل ہوکر غسل کرنا مکروہ ہے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر دریا کے اندر یا سیم زدہ زمین میں بڑی مقدار میں پانی کھڑا ہو تو اس پانی میں جنبی کے غسل کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے بیابان کے اندر کھڑے پانی سے وضو کرنا مکروہ سمجھا ہے بشرطیکہ اس پانی کی مقدار ایک کنویں کے پانی سے کم ہو۔ علقمہ اور ابن سیرین سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ کرّ یعنی کنویں کے پانی کی مقدار ان حضرات کے نزدیک تین ہزار دو سورطل کے مساوی ہے۔ ایک رطل چالیس تولے کا ہوتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے : ” پانی اگر ہجر (ایک مقام کا نام) کے بنے ہوئے چھوٹے کو زوں میں سے دو کو زوں کی مقدار ہوجائے تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی البتہ اگر اس کا مزہ یا رنگ بدل جائے تو وہ ناپاک ہوجاتا ہے۔ اگر دو قلوں سے کم پانی میں تھوڑی سی نجاست گرجائے تو پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ ہمارے اصحاب کے قول کے حق میں درج ذیل آیات سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے : ویحرم علیھم الخبائث ، اور وہ ان پر خبیث چیزیں حرام کرتا ہے، جتنی نجاستیں ہیں وہ لامحالہ خبائث میں داخل ہوتی ہیں۔ نیز ارشاد ہے (انما حرم علیکم المیتۃ والدم) اللہ تعالیٰ نے تم پر مردار اور خون حرام کردیا ہے۔ شراب کے متعلق ارشاد ہے (رجس میں عمل الشیطان فاجتنبوہ) یہ شیطانی عمل کی گندگی ہے اس سے پرہیز کرو، حضور ﷺ کا گز ر دو قبروں پر سے ہوا۔ آپ نے فرمایا :” ان قبروں کے مردوں کو عذاب دیا جارہا ہے۔ انہیں یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی بنا پر نہیں دیاجارہا ہے ۔ ان میں سے ایک پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دسورا مردہ چغلیاں کیا کرتا تھا۔ “ اللہ تعالیٰ نے درج بالا اشیاء کو مبہم طور پر حرام کردیا ہے۔ خواہ یہ چیزیں علیحدہ پڑی ہوں یا پانی کے ساتھ مل گئی ہوں دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا گیا اس بنا پر ہر اس چیز کے استعمال کی تحریم واجب ہوگئی جس میں ہمیں نجاست کا کوئی جز نظر آجائے۔ نجاست کی راہ سے ممانعت کی جہت اباحت کی جہت سے اولیٰ ہوگی یعنی اس لونڈی کے ساتھ نہ سو حصے والے شخص کی ہم بستری درست ہوگی اور نہ ہی ایک حصے والے شخص کی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے نجاست میں ممانعت کی جہت کو اس پانی کے استعمال کے ایجاب کی جہت پر کیوں غالب کردیا جس میں نجاست حلول کرگئی ہو اور صورت حال یہ ہو، اس پانی کے سوا اور کوئی پانی دستیاب نہ ہو جب کہ یہ بات واضح ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لئے ایسے پانی کا استعمال واجب ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں ممانعت اور ایجاب کی جہتیں یکجا ہوگئیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا۔ کہ معترض کا یہ کہنا کہ اس صورت میں ممانعت اور ایجاب کی جہتیں یکجا ہوگئیں بالکل غلط ہے کیونکہ صرف ایسے پانی کا استعمال واجب ہوتا ہے جس میں نجاست نہیں ہوتی لیکن جس پانی میں نجاست ہوتی ہے اس کا استعمال سرے سے اس پر لازم ہی نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نجاست سے اجتناب اس وقت لازم ہوتا ہے جب وہ الگ تھلگ ہو لیکن اگر پانی میں مل گئی ہو تو اس سے اجتناب لازم نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تحریم نجاست کے سلسلے میں جن آیات وروایات کا ہم نے حوالہ دیا ہے ان کا عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ نجاست سے اجتناب لازم ہے خواہ وہ الگ الگ پڑی ہو یا پانی میں مل گئی ہو۔ اگر کوئی شخص اس عموم میں کسی قسم کی تخصیص کا دعویٰ کرتا ہے تو دلالت کے بغیر اس کا یہ دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے اگر وضو کرنے والے کو نجاست ملے ہوئے پانی کے سوا دوسرا پانی مل جائے تو اس پر اس پانی کا استعمال واجب نہیں ہوتا جس کے ساتھ نجاست ملی ہوتی ہے اس صورت میں ہمارے مخالف زیادہ سے زیادہ جو بات کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ اباحت کی جہت سے ایسے پانی کا استعمال جائز ہوتا ہے اس کے بالمقابل ہم نے نجاست سے اجتناب کے لزوم کی جو بات کی ہے وہ ممانعت کی موجب ہے۔ اور جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کرچکے ہیں اگر کسی چیز میں ممانعت اور راباحت دونوں کی جہتیں موجود ہوں تو اس صورت میں ممانعت کی جہت کو ترجیح دی جائے گی۔ جب یہ بات درست تسلیم ہوگئی تو زیر بحث صورت میں وضو کرنے والے کو نجاست ملے ہوئے پانی کے سوا خالص پانی دستیاب ہونے کی بنا پر اسے اس پانی کے استعمال کی ممانعت ہوجائے گی۔ اگر صرف نجاست ملا ہوا پانی دستیاب ہو تو اس صورت میں بھی اس پانی کا یہی حکم ہوگا یعنی اس کا استعمال ممنوع ہوگا…… اس کی دو وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ ان آیات پر عمل پیرا ہونے کا لزوم جن میں نجاستوں کے استعمال کی ممانعت کی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ممانعت کا حکم نجاست کو اس حالت میں بھی اپنے دائرے میں لیتا ہے جب وہ پانی وغیرہ کے ساتھ مخلوط ہوتی ہے اور اس حالت میں بھی اس کا حکم وہی ہوتا ہے جو الگ تھلگ پڑے ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی اہل علم نے درج بالا دونوں صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ یعنی جب ایک شخص کو نجاست ملے ہوئے پانی کے سوا خالص پانی دستیاب ہورہا ہو اور جب اسے نجاست ملے ہوئے پانی کے سوا اور کوئی پانی دستیاب نہ ہو۔ جب نجاست والے پانی کی موجودگی میں خالص پانی دستیاب ہونے کی بنا پر اس پانی کے استعمال کی ممانعت کی بات درست اور ثابت ہوگئی تو خالص پانی دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا کیونکہ کسی اہل علم نے ان دونوں صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے اور اس طرح ان دونوں صورتوں کے درمیان فرق کے امتناع پر گویا سب کا اتفاق ہوگیا۔ ایک اور وجہ سے بھی قول باری (فاغسلوا) کے عموم کی بنا پر نجاست سے اجتناب کا لزوم نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کے وجوب سے اولیٰ ہے۔ جب اسے نجاست والے پانی کے سوا اور کوئی پانی دستیاب نہ ہو۔ وہ وجہ یہ ہے کہ نجاست کے استعمال کی تحریم کا تعلق عین نجاست کے ساتھ ہوتا ہے آپ نہیں دیکھتے کہ نجاست جس قسم کی بھی ہو اگر الگ تھلگ پڑی ہو تو اس صورت میں اس سے اجتناب اور اس کا ترک استعمال ہم پر لازم ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کا لزوم جبکہ خالص پانی دستیاب نہ ہو متعین نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایسے شخص کو کوئی انسان اپنے پاس سے خالص پانی دے دے یا یہ خود اس سے پانی چھین کر اس کے ساتھ وضو کرلے تو اس کا وضو درست ہوجائے گا جب خالص پانی کی عدم موجودگی میں نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کا لزوم متعین نہیں ہوا اور دوسری طرف نجاست کے استعمال کی ممانعت متعین ہوگئی تو یہی بات خالص پانی دستیاب نہ ہونے کی صورت میں نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کے وجوب کے مقابلے میں نجاست کے استعمال سے اجتناب کے لزوم کے لئے وجہ ترجیح بن گئی۔ اس سے ضروری ہوگیا کہ نجاست سے اجتناب کو واجب کرنے والا عموم اولیٰ تسلیم کرلیا جائے۔ نیز تمام مائعات مثلاً دودھ اور تیل وغیرہ کے متعلق فقہاء کے مابین اس مسئلے میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر ان میں تھوڑی سی نجاست بھی پڑجائے تو اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو زیادہ مقدار میں گر جانے والی نجاست کا ہے۔ یعنی دونوں صورتوں میں اس مائع کا کھایا پی لینا ممنوع ہوجائے گا۔ ہماری بیان کردہ بات یعنی خالص پانی کی عدم موجودگی میں نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کی ممانعت پر اس اصل کی دو طرح سے دلالت ہورہی ہے۔ اول آیات میں مذکورہ عموم کی بنا پر دونوں حالتوں میں نجاست سے اجتناب کا لزوم ۔ پہلی حالت وہ ہے جب نجاست پانی وغیرہ کے ساتھ مخلوط نہ ہو بلکہ الگ تھلگ پڑی ہو اور دوسری حالت وہ ہے جب یہ پانی وغیرہ کے ساتھ مخلوط ہو۔ دوم ممانعت کے حکم کا اباحت کے حکم کی بہ نسبت اغلب ہونا ۔ ممانعت کے حکم کی وہ صورت ہے جب نجاست مخلوط نہ ہو اور اباحت کے حکم کی وہ صورت ہے جب نجاست پانی وغیرہ پاک اشیاء کے ساتھ مخلوط ہو۔ اس کیفیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نجاست پانی کے ساتھ مخلوط ہو یا کسی اور پاک چیز کے ساتھ۔ کیونکہ آیات کا عموم ان سب کو شامل ہے۔ ان کے ساتھ نجاست کے وجود کی بنا پر ان کے استعمال کی ممانعت ہے۔ سنت کی جہت سے بھی ہمارے مسلک پر دلالت ہورہی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لایبولن احد کم فی الماء الدائم ثم یغتسل فیہ من جنابۃ۔ تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں پیشاب کرکے پھر اس میں غسل جنابت نہ کرے) بعض طرق میں یہ الفاظ آئے ہیں (ولا یغتسل فیہ من الجنابۃ اور اس میں غسل جنابت نہ کرے) یہ بات تو واضح ہے کہ پیشاب کی قلیل مقدار پانی کی کثیر مقدار کے مزہ، رنگ اور بو میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرتی لیکن اس کے باوجود حضور ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پیشاب کی قلیل مقدار سے صرف اس لئے روکا گیا ہے کہ اگر ہر ایک کے لئے اس کی اباحت ہوجاتی تو پیشاب کی مقدار بہت زیادہ ہوجاتی جس کی وجہ سے پانی کا مزہ ، اس کی رنگت اور اس کی بو بدل جاتی اور وہ گندہ ہوجاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کی نہی ظاہری طور پر اس امر کی مقتضی ہے کہ پیشاب کی قلیل مقدار کی ممانعت اس کی اپنی ذات کے لحاظ سے ہے کسی اور چیز کی بنا پر نہیں ہے۔ اگر اس نہی کو اس محمول کیا جائے کہ قلیل مقدار کی ممانعت اس کی اپنی ذات کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ کسی اور چیز کی بنا پر پانی گندہ نہ ہوجائے تو اس سے ایک ایسے مفہوم کا اثبات لازم آئے گا جو حدیث کے الفاظ میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس مفہوم پر یہ الفاظ دلالت ہی کرتے ہیں۔ دوسری صرف پیشاب کی قلیل مقدار کی ذات کے لحاظ سے ممانعت کے حکم کا اسقاط لازم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں نہی کو معترض کے ذکر کردہ معنی پر محمول کرنے کی بنا پر اس کا فائدہ زائل اور اس کا حکم ساقط ہوجائے گا کیونکہ اس حدیث کے سوا دوسرے نصوص اور اجماع کی بنا پر ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ نجاست کے گرنے کی وجہ سے جس پانی کا مزہ یا اس کی بویارنگت بدل جائے اس کا استعمال ممنوع ہے یہ بات سرے سے نہیں کے حکم کو ساقط کرنے کا سبب بن جائے گی۔ جبکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لا یبولن احد کم فی الماء الدائم ثم یغتسل فیہ من جنابۃ) آپ نے اس کھڑے پانی میں پیشاب کرنے والے کو پیشاب کرنے کے بعد پانی کی حالت بدل جانے سے پہلے ہی اس میں غسل کرنے سے منع فرمادیا ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (اذا استیقظ احدکم من مانمہ فلیغسل یدیہ ثلاثا قبل ان یدخلھا الاناء فانہ یایدری این باتت یدہ۔ تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدا ہو تو برتن میں اپنے ہاتھ داخل کرنے سے پہلے انہیں تین مرتبہ دھو لے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے) آپ نے اس احتیاط کے پیش نظر اسے ہاتھ دھونے کا حکم دیا کہ کہیں اس کا ہاتھ استنجاء کی جگہ کو نہ چھو گیا ہو اور اس طرح اس کے ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگ گئی ہو۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ ہاتھ میں لگی ہوئی یہ تھوڑی سی نجاست اگر پانی میں حل ہوجائے تو اس سے پانی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، اگر اس تھوڑی سے نجاست سے پانی گندذہ نہ ہوتا تو اس سے احتیاط کرنے کے حکم کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ کتا اگر برتن میں منہ ڈال دے تو حضور ﷺ کے ارشاد کی بنا پر وہ برتن نجس ہوجاتا ہے حالانکہ اس سے برتن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ آپ کا ارشاد ہے (طھور اناء احدکم اذا ولغ فیا، الکلب ان یغسل سبعا۔ جب کتا تمہارے کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس برتن کو سات بار دھولیا جائے) ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری : (فاغسلوا وجوھکم تا قول باری فلم تجدواماء نیز قول باری : ولا جنبا الا عابری سبیل حتیٰ تغتسلو) ۔ نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کے جو ازپردو وجوہ سے دلالت کرتا ہے۔ اول قول باری (حتی تغتسلوا) کا عموم، یہ عموم اس امر کا مقتضی ہے کہ پانی میں خواہ نجاست مل گئی ہو یا نہ ملی ہو دونوں صورتوں میں اس کا استعمال جائز ہے۔ دوم یہ قول باری : (فلم تجدوا ماء) اگر کسی پانی میں تھوڑی سی نجاست مل گئی ہو اور (اس کی وجہ سے) اس میں کوئی تبدیلی نہ پیدا ہوئی ہو تو ایسے پانی پر (ھذا ماء۔ یہ پانی ہے) کے اطلاق سے کسی کے لئے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ یہ چیز آپ کے اس استدلال کی معارض ہے جو آپ نے آیات کے عموم اور روایات کی بنیاد پر کی ہے کہ جب پانی میں نجاست گرجائے تو اس کا استعمال ممنوع ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ہمارے بیان کردہ عموم اور معترض کے بیان کردہ عموم کے درمیان تعارض بھی ہوجائے تو بھی ہماری ذکر کردہ بات اولیٰ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا بیان کردہ عموم ممانعت کی مقتضی ہے اور معترض کا بیان کردہ عموم اباحت کا۔ ممانعت واباحت کا اگر اجتماع ہوجائے تو ممانعت کی بنیاد پر حکم لگایا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہم نے نجاست کے استعمال کی ممانعت کی جو بات کی ہے وہ معترض کے بیان کردہ عموم کو ختم کردیتی ہے۔ اس لئے یہ بات واجب ہوگئی کہ صرف ایسے پانی سے وضو کرنے کا حکم ہے جس میں نجاست نہ ملی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر نجاست اس پانی میں تبدیلی پیدا کردیتی تو اس کا استعمال ممنوع ہوتا اور اس میں ممانعت کے ایجاب کے عموم پر عمل ہوتا غسل کی صورت میں پورے جسم کو دھونے کے امر کے عموم پر عمل نہ ہوتا۔ اور جس طرح نجاسات کے استعمال کی ممانعت کے عموم نے قول باری : (لبنا سائغا للشاربین) دودھ جو پینے والوں کے لئے بہت خوشگوار سے اباحت کے عموم کو ختم کردیا ہے جبکہ دودھ میں تھوڑی سے بھی نجاست گرگئی ہو۔ اسی طرح ضروری ہے کہ یہ عموم قول باری (فاغسلوا نیز : فلم تجدوا ماء کی اباحت کے عموم کو بھی ختم کردے) جو حضرات نجاست ملے ہوئے پانی کے استعمال کی اباحت کے قاء ہیں وہ قول باری : (وانزلنا من السمآء ماء طھورا) ہم نے آسمان سے ماء طہور نازل کیا۔ نیز (وینزل علیکم من السمآء ماء لیطھرکم بہ) اور اللہ تعالیٰ تم پر آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کردے۔ سے استدلال کرتے ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ کی اس ارشاد سے بھی کہ (ھوالطھور ماء ہ والحل میتتہ) سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے : پانی کو تطہیر کی صفت سے موصوف کیا گیا ہے جو اس بات کا مقتضی ہے کہ جو چیز بھی اس میں گرے گی اس کی تطہیر ہوجائے گی۔ اس استدلال کے جواب میں کہاجائے گا کہ قول باری (طھورا) پر دو معنوں کا اطلاق ہوتا ہے ایک رفع حدث اور اس کے ذریعے نماز کی اباحت کا ۔ دوسرے نجاستوں کے ازالے کا۔ لیکن اگر نجاست خود اس کے اندر موجود ہو تو اس صورت میں پانی پانی ذات سے نجاست دور نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ اس نجات کی تطہیر کا بھی سبب بنا جائے۔ اس قول کی بنیاد پر قول باری (طھورا) کے معنی یہ ہونے چاہئیں کہ پانی نجاست کو غیر نجاست کی صورت میں تبدیل کردیتا ہے۔ حالانکہ یہ بات محال ہے۔ اس لئے کہ پانی میں خون، شراب اور گندی چیزوں کے حل ہوجانے والے اجزاء نجاستوں کے دائرے سے خارج نہیں ہوتے جس طرح پانی میں ان اجزاء کا ظہور ان کے اعیان کو نجاستوں کے دائرے سے خارج نہیں کرتا اور پانی کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق ان کی تطہیر میں کوئی اثر نہیں دکھاتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پانی کے ساتھ کسی چیز کے مل جانے کی صورت میں اگر پانی غالب ہو اور اس چیز کا اس میں ظہور نہ ہوسکے تو ایسی صورت میں اس پر پانی ہونے کا ہی حکم لگے گا۔ جس طرح پانی میں اگر ایک قطرہ دودھ یا کوئی اور مائع چیز گرجائے تو ایسے پانی سے پانی ہونے کا حکم زائل نہیں ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں پانی ہی غالب رہتا ہے نیز گرنے والے یہ اجزاء پانی کے اندر چھپ جاتے اور اس میں غائب ہوجاتے ہیں اس لئے نجاست کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے جو حکم دوسری تمام مائعات کا ہوتا ہے جب وہ پانی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے دوسری تمام مائعات کے ساتھ پاک اشیاء کے مل جانے کی صورت میں ان مائعات کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور ایسی مخلوط اشیاء میں غالب چیز کا حکم عائد ہوتا ہے۔ ان کے اندر غائب ہوجانے والی چیز کا حکم عائد نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ پانی کے سوا تمام دوسری مائعات میں اگر تھوڑی سی نجاست بھی گرجائے تو وہ مائع چیز گندی اور فاسد ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس پر مخلوط چیز پر غالب رہنے والی چیز کا حکم عائد نہیں ہوتا بلکہ اس پر نجاست کا حکم عائد ہوتا ہے۔ یہی کیفیت پانی کی بھی ہے۔ اگر پانی اس بنا پر نجاست کو پاک کرسکتا ہے کہ وہ نجاست سے ہمکنار ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اسی مجاورت کی بنا پر وہ نجاست کو پاک کردے خواہ وہ اس نجاست کو اپنے اندر سمو نہ بھی لے۔ اگر پانی نجاست کو اپنے اندر سمو لینے اور اس پر غالب آجانے کی بنا پر اسے پاک کردیتا ہے تو دیگر تمام مائعات کی یہی کیفیت ہے کہ جب ان میں نجاست گرجاتی ہے تو و ہ اسے اپنے اندر سمولیتی اور اس پر غالب آجاتی ہیں۔ لیکن اس کیفیت کے باوجود ایسی مائعات پر نجاست کا حکم عائد ہوتا ہے غالب رہنے والی چیز کا حکم عائد نہیں ہوتا ہمارے قول کی صحت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ پانی میں ظاہر ہوجانے کی صورت میں اس کے استعمال کی تحریم پر سب کا اتفاق ہے اور اس تحریم کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم جب ایسے پانی کو استعمال کرتے ہیں تو اس کے اندر لازمی طور پر نجاست کے کسی نہ کسی جز کو بھی استعمال کو لیتے ہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی موجود ہے وہ یہ کہ پانی میں نجاست کے وجود کا علم اس میں نجاست کے مشاہدہ کی طرح ہوتا ہے جس طرح دوسری تمام مائعات میں نجاست کے وجودکا علم ان میں نجاست ظاہر ہونے کی صورت میں چشم دید کی طرح ہوتا ہے یا جس طرح اپنے جسم یا کپڑوں پر نجاست کے وجود کا علم اس کے مشاہدہ کی مانند ہوتا ہے۔ جن حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے انہوں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضور ﷺ بےبضاعہ کے کنوئیں کے متعلق دریافت کیا گیا تھا، اس میں گندی چیزیں مثلاً عورتوں کے حیض کے کپڑے ، انسانی براز اور مردہ کتے پھینک دیے جاتے تھے۔ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا : ان الماء طھور لا ینجسہ شیء۔ پانی ظاہر ومطہر ہوتا ہے اور کوئی چیز اسے نجس نہیں کرتی۔ اسی طرح ابوبصرہ کی حدیث سے بھی وہ حضرات استد لال کرتے ہیں جو انہوں نے حضر جابر ؓ اور حضرت ابوسعید ؓ خدری سے روایت کی ہے، ان دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ ہم ایک سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھے، ہم ایک تالاب پر پہنچے جس میں مردار پڑا ہوا تھا۔ ہم اور دوسرے تمام لوگ اس تالاب کے پانی کو استعمال کرنے سے باز رہے یہاں تک کہ حضور ﷺ بھی تشریف لے آئے۔ ہم نے جب آپ کو تالاب کی کیفیت بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا (استقوا فان الماء لا ینجسہ شیء۔ پانی پی لو کیونکہ پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی) چناچہ ہم نے اس تالاب سے سیر ہوکر پانی پیا۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : الماء طھور لا ینجسہ شیء پانی طہور ہوتا ہے اسے کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ واقدی سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ بئر بضاعہ سے باغات کو پانی جاتا تھا یعنی اس کی صورت ایک چشمے جیسی تھی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کا پانی بہتارہتا تھا اور اس میں پڑنے والی نجاستوں کو اپنے بہائو کے ساتھ لے جاتا تھا۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سے اس کنویں کے متعلق اس وقت پوچھا گیا ہو جب اسے تمام گندی اشیاء سے پاک کردیا گیا تھا۔ آپ نے انہیں بتادیا کہ کنویں کو صاف کردینے اور اس سے تمام پانی نکال دینے کے بعد وہ پاک ہوجاتا ہے۔ جہاں تک تالاب کے سلسلے میں روایت کا تعلق ہے تو عین ممکن ہے کہ مردار تالاب کے ایک کنارے پر پڑا ہو جس کی بنا پر حضور ﷺ نے دوسرے کنارے پر وضو کرنے کی اجازت دے دی ہو۔ یہ چیز تالاب کے بارے میں ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی روایت کی اصل وہ روایت ہے جسے مسماک نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ نے ایک بڑے پیالے میں رکھے ہوئے پانی سے غسل کیا۔ حضور ﷺ تشریف لائے اور اس پیالے کے پانی سے وضو یا غسل کرنے کا ارادہ فرمایا۔ زوجہ مطہرہ نے عرض کیا کہ میں نے اس سے غسل جنابت کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا (ان الماء لا یجنب۔ پانی کو جنابت لاحق نہیں ہوتی) آپ ﷺ کی اس سے مراد یہ تھی کہ پانی میں جنبی کا ہاتھ پڑنے کی وجہ سے وہ نجس نہیں ہوتا۔ عینممکن ہے کہ راوی نے یہ الفاظ سن کر اس کے اس مفہوم کی روایت کردی ہو جو اسے سمجھ میں آیا تھا، الفاظ کی روایت نہ کی ہو۔ اس روایت کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ خود حضرات ابن عباس ؓ پانی میں نجاست گرنے کی صورت میں اس کے نجس ہونے کا حکم عائد کرتے ہیں خواہ اس نجاست کی وجہ سے پانی میں کوئی تبدیلی واقع نہ بھی ہوئی ہو۔ عطاء اور ابن سیرین نے روایت کی ہے کہ ایک حبشی زمزم کے کنویں میں گر کر مرگیا۔ حضر ت ابن عباس ؓ نے کنویں سے سارا پانی نکال دینے کا حکم دیا۔ حماد نے ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا حوض صرف اس صورت میں ناپاک ہوجاتا ہے جب جنابت کی حالت میں تم اس میں اتر جائو اور غسل کرلو، لیکن اگر اپنے ہاتھوں سے حوض کا پانی نکال نکال کر نہالو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کے وہ الفاظ درست بھی ہوں جو ہمارے مخالفین نے اپنے استدلال میں بیان کیے ہیں تو اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ اس کا تعلق شاید بئر بضاعہ سے ہوا اور پھر سبب کے ذکر کو حذف کرکے صرف حضور ﷺ کے الفاظ کی روایت کردی گئی ہو۔ پھر آپ کے ارشاد (الماء طھور لا ینجسہ شیء) میں ایسے پانی کے استعمال کے جواز پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ ہماری گفتگو تو اس پر ہورہی ہے کہ آیا پانی میں نجاست کے حلول کے بعد اس کے استعمال کا جواز ہے اس لئے اس اختلافی نکتے پر اس حدیث سے استدلال درست نہیں ہے۔ کیونکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ پانی طاہرہ مطہر ہوتا ہے اور کوئی چیز اسے نجس نہیں کرتی۔ لیکن اس کے باوجود اس میں نجاست حلول کر جانے کی صورت میں اس کا استعمال نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ پانی میں جب نجاست گرجائے تو بھی اسے استعمال کرلو، اگر آپ یہ فرماتے تو پھر معترض اپنے قول کے حق میں اس سے استدلال کرسکتا تھا۔ اگر کہا جائے کہ آپ نے درج بالا سطور میں جو کچھ کہا ہے اس سے حضور ﷺ کے ارشاد کا فائدہ باطل ہوجاتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ظاہری طور پر معترض کا استدلال بھی ساقط ہوگیا اور اب اسے اپنے استدلال کے لئے کسی اور بنیاد کی ضرورت پیش آگی اور وہ بنیاد یہ ہے کہ ارشاد کو معترض کے مسلک کے سوا کسی اور مفہوم پر محمول کرنا گویا اسے فائدے سے خالی قرار دینے کے مترادف ہے۔ معترض نے تو اس ارشاد کا یہ فائدہ بیان کرنے کا دعویٰ کیا ہے کہ پانی میں نجاست کے حلول کے بعد بھی اس کا استعمال جائز ہے اور اس کے نزدیک اس کے سوا اس ارشاد کا اور کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد میں کئی اور فوائد موجود ہیں۔ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد سے یہ بتادیا کہ پانی نجاست سے قرب اور مجاورت کی بنا پر نجس نہیں ہوتا اور نہ ہی عین نجاست کے حکم میں ہوتا ہے۔ اس سے ہم نے یہ بات معلوم کرلی کہ کپڑے اور جسم پر اگر نجاست لگ جائے اور اس پر مسلسل پانی بہا کر اسے دور کردیا جائے تو کپڑے میں باقی رہ جانے والاپانی اس پانی کے حکم میں نہیں ہوتا جو عین نجاست کے آس پاس ہوتا ہے اور اسے نجاست کا حکم لاحق نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ دوسرا پانی ایسے پانی کی آس پاس ہوتا ہے جو فی نفسہ نجس نہیں ہوتا بلکہ اسے نجاست کا حکم نجاست کی مجاورت کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ اگر حضور ﷺ کا ارشاد موجود نہ ہوتا تو یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ نجاست کے آس پاس پایا جانے والا پانی بھی عین نجاست کے حکم میں ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اس پانی کے ساتھ پایا جانے والا پانی بھی نجس ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسری مرتبہ، تیسری مرتبہ بلکہ دسویں مرتیہ اور اس سے اگلے مرتبوں میں ڈالا جانے والا سب کا سب پانی نجس ہونے میں یکساں ہوجاتا ہے حضور ﷺ نے اپنے ارشاد سے اس گمان کو باطل کردیا اور یہ واضح کردیا کہ نجاست کی مجاورت کب بنا پر جس پانی کی نجاست کا حکم لاحق ہوگیا وہ عین نجاست کے معنوں میں نہیں آتا۔ آپ نے ہمیں یہ بھی بتادیا کہ کنویں میں اگر چوہا گر کر مرجائے اور پھر اسے نکال لیا جائے تو نجاست کا حکم صرف اس چوہے کے آس پاس پائے جانے والے پانی کو لاحق ہوگا۔ اس پانی کو لاحق نہیں ہوگا جو اس پہلے پانی کے آس پاس ہے۔ نیز یہ کہ مردہ چوہے نے اس پانی کو عین نجاست کے حکم میں داخل نہیں کیا۔ اس بنا پر ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ کنویں سے کچھ پانی نکال کر اسے پاک کرلیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بات اگر اس طرح ہوتی جس طرح آپ نے بیان کیا ہے تو اس صورت میں حضور ﷺ کے اریاد (الماء طھور لا ینجسہ شیء الا ما غیر طعمہ اولونہ۔ پانی طاہرہ و مطہر ہوتا ہے سوائے اس چیز کے جو اس کا مزہ یا رنگت بدل ڈالے کوئی چیز اسے نجس نہیں کرتی) کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ اس لئے کہ نجاست کے آس پاس پایا جانے والا پانی اس میں نجاست کے طہور کے باوجود فی نفسہ نجس نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بھی ایک درست بات ہے جو اس بات کے علاوہ ہے جس کا معترض نے دعویٰ کیا تھا نیز ہمیں بھی اس سے ایک اور فائدہ حاصل ہوا ہے جو ان فوائد کے علاوہ ہے جو ہم نے حضور ﷺ کے ارشاد (الماء طھور لا ینجسہ شیء) سے حاصل کیا ہے اور جس میں استثناء کا ذکر نہیں ہے۔ وہ فائدہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے زیر بحث ارشاد کے ذریعے نجاست کے غالب آنے کی حالت اور اس کی وجہ سے پانی کے حکم کے سقوط کی خبر دی ہے اس صورت میں سارا پانی عین نجاست کے حکم میں ہوجاتا ہے۔ نیز یہ بتادیا کہ ایسے مخلوط پانی پر غالب عنصر کا حکم لاحق ہوتا ہے ۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ پانی کے ساتھ اگر دودھ یا سر کہ مل جائے تو اس پر غالب عنصر کا حکم لاحق ہوگا۔ ہم نے اس مسئلے پر نیز قلتین کے مسئلے پر کئی مقامات میں بحث کی ہے اس لئے یہاں اس بحث کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ فصل ماء مستعمل سے وضو جائز ہے یا ناجائز ہمارے اصحاب اور امام شافعی ماء مستعمل کے ساتھ وضو کو جائز قرار نہیں دیتے۔ اگرچہ ان کے درمیان ماء مستعمل کی تعریف میں اختلاف رائے ہے۔ امام مالک اور سفیان ثوری اس کے ساتھ وضو کے جواز کے قائل ہیں تاہم امام مالک اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ پہلے قول کی صحت پر دلیل وہ روایت ہے جسے ابوعواز نے دائود بن عبداللہ اودی سے نقل کی ہے۔ انہوں نے حمید بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضور ﷺ کے ایک صحابی سے وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ مرد عورت کے وضو کے باقی ماندہ پانی سے غسل کرے یا عورت مرد کے وضو کے باقی ماندہ پانی سے نہائے ان دونوں کو الگ الگ یہ عمل کرنا چاہیے۔ ” فضل طہور “ دو قسم کے پانی کو شامل ہے ایک تو اس پانی کو جو نہانے والے کے جسم سے نیچے کی طرف بہہ نکلتا ہے اور دوسرے اس پانی کو جو اعضاء دھونے کے بعد برتن، میں بچ رہتا ہے۔ فضل طہور کا عموم ان دونوں قسموں کے پانی کو شامل ہے۔ یہ چیز استعمال شدہ پانی کے ساتھ وضو کی نہی کی مقتضی ہے کیونہ یہ استعمال شدہ باقی فضل طہور ہوتا ہے۔ نیز حضور ﷺ کا یہ قول بھی ہے کہ (لا یبولن احدکم فی الماء الدائم ولا یغتسل فیہ من جنابۃ۔ تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور اس میں غسل جنابت بھی نہ کرے) بکیرین عبداللہ بن الاشج نے ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابو السائب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : (لا یغتسل احد کم فی الماء الدائم وھو جنب ) تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں غسل جنابت نہ کرے ۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو حضور ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا۔ یا بنی عبدالمطلب ان اللہ کرہ لکم غسالۃ ایدی الناس۔ اے بنو المطلب ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لوگوں کے ہاتھ کا دھو ون ناپسند کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے یہ مروی ہے کہ انہوں نے اسلم سے صدقے کی کھجور کھا لینے پر فرمایا۔” تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر ایک شخص پانی کے ساتھ وضو کرلے تو کیا تم اس پانی کو پی لو گے۔ “ حضور ﷺ نے بنو عبدالمطلب پر صدقہ حرام کرتے ہوئے اس لوگوں کے ہاتھ کے دھون کے ساتھ تشبیہ دی۔ یہ تشبیہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ لوگوں کے ہاتھ کا دھون استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے وہ یہ کہ پانی کے استعمال نے اس کے اندر ایسی صفت پیدا کردی جس کی بنا پر اسم ماء کا اطلاق اس سے سلب ہوگیا اور اس کی حیثیت اس پانی جیسی ہوگئی جس کے ساتھ کسی دوسری چیز کی ملاوٹ کی وجہ سے اس پر اسم ماء کا اطلاق ممتنع ہوگیا۔ استعمال شدہ پانی اس کیفیت کا بایں معنی زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ زوال حدث یا حصول قربت کے حکم کا تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے اگر پانی استعمال کرتا ہے تو یہ چیز اس پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے میں مانع نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص طہارت حاصل کرنے کے لئے پانی استعمال کرلیتا ہے تو اس پانی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے پانی کا استعمال اس پانی پر اسم ماء کے اطلاق سے مانع نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس پانی کے ساتھ کسی حکم کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ پانی اس پانی کی طرح ہوتا ہے جسے کوئی شخص اپنا پاک کپڑا دھونے میں استعمال کرلیتا ہے۔ جو حضرات استعمال شدہ پانی کو وضو وغیرہ کے لئے دوبارہ استعمال کی اجازت دیتے ہیں وہ قول باری : (وانزلنا من السماء ماء طھورا) اور (وینزل علیکم من السمآء ماء لیطھرکم بہ) سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ قول باری ماء مستعمل کے ساتھ دو وجوہ کی بنا پر وضو کے جواز کا مقتضی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب یہ پانی نجس نہیں ہوا اور نہ ہی نجاست کے ساتھ کی مجاورت پائی گئی تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ ایسے پانی کو اس کی پہلی حالت پر باقی سمجھا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری (طھورا) پانی سے بار بار طہارت حاصل کا مقتضی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طہارت حاصل کرنے کے بعد استعمال شدہ پانی کا اپنی پہلی حالت پر باقی رہنا ہی دراصل اختلافی نکتہ ہے۔ اس سلسلے میں عموم کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق اس پانی سے ہے جو ابھی استعمال میں نہ آیا ہو۔ ایسا پانی مطلق پانی کے حکم میں داخل رہے گا۔ لیکن جس پانی کو ماء کا اسم کسی قید کے ساتھ شامل ہوتا ہوا سے عموم اپنے دائرے میں نہیں لیتا۔ رہ گئی یہ بات کہ پانی کا طہور ہونا اسے بار بار استعمال میں لانے کا مقتضی ہے، تو یہ بات دراصل اس طرح نہیں ہے ۔ کیونکہ پانی کو وصف طہارت یا تطہیر میں مبالغہ کے طور پر طہور کیا گیا ہے۔ اس میں تکرار طہارت پر کوئی دلالات موجود نہیں ہے مثلاً ایک شخص کے متعلق کہا جاتا ہے۔ ” رجل ضروب بالسیف “ (یہ آدمی تلوار کا دھنی ہے) یہاں شمشیر زنی کی صفت میں مبالغہ مقصود ہوتا ہے، بار بار شمشیر زنی مراد نہیں ہوتی۔ اسی طرح ” رجل اکول “ (پیٹو آدمی) کہہ کر اس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو پر خور ہو خواہ وہ ایک ہی نشست میں پر خوری کا مظاہرہ کیوں نہ کرلے۔ اس سے بار بار کھانا مراد نہیں ہوتا۔ ہم نے متعدد مقامات پر اس بات کی وضاحت کردی ہے۔
Top