Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 283
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر وَّلَمْ : اور نہ تَجِدُوْا : تم پاؤ كَاتِبًا : کوئی لکھنے والا فَرِھٰنٌ : تو گرو رکھنا مَّقْبُوْضَةٌ : قبضہ میں فَاِنْ : پھر اگر اَمِنَ : اعتبار کرے بَعْضُكُمْ : تمہارا کوئی بَعْضًا : کسی کا فَلْيُؤَدِّ : تو چاہیے کہ لوٹا دے الَّذِي : جو شخص اؤْتُمِنَ : امین بنایا گیا اَمَانَتَهٗ : اس کی امانت وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا تَكْتُمُوا : اور تم نہ چھپاؤ الشَّهَادَةَ : گواہی وَمَنْ : اور جو يَّكْتُمْهَا : اسے چھپائے گا فَاِنَّهٗٓ : تو بیشک اٰثِمٌ : گنہگار قَلْبُهٗ : اس کا دل وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْم : جاننے والا
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن باقبضہ رکھ کر) قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) غلاموں کی گواہی کے مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ قتادہ نے حسن بصری سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ بچے پر بچے کی اور غلام پر غلام کی گواہی جائز ہے ۔ ہمیں عبدالرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن احمد نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں عبدالرحمن بن ہمام نے کہ میں نے قتادہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت علی ؓ گواہی کے سلسلے میں بچوں سے پوچھتے اور ان سے معلومات حاصل کرتے تھے ( یعنی ان سے گواہی نہیں لیتے تھے ) یہ روایت پہلی روایت کو کمزور کردیتی ہے۔ حسن بن غیاث نے مختار بن فلفل سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے غلام کی گواہی مسترد کردی ہو، “ عثمان البتی کا قول ہے کہ غلام کی اپنے آقا کے حق میں گواہی جائز نہیں البتہ دوسروں کے حق میں درست ہے۔ ابن شرمہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ ایسی گواہی جائز سمجھتے تھے اور قراضی شریح سے اس کا جواز نقل کرتے تھے ۔ ابن ابی لیلیٰ غلاموں کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے۔۔ جن دنوں یہ کوفہ کے قاضی تھے، وہاں خوارج کا تسلط ہوگیا، انہوں نے ان سے غلاموں کی گواہی قبول کرنے نیز بہت سے ایسے مسائل تسلیم کرنے کا حکم دیا جن کے خوارج قائل تھے اور قاضی صاحب مخالف تھے، قاضی صاحب نے ان کے اس حکم کے سامنے سر جھکا دیا اور انہوں نے قاضی صاحب کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا لیکن جب رات ہوئی تو قاضی صاحب چپکے سے اپنی سواری پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے۔ جب عباسیوں کا دور آیا تو انہوں نے قاضی صاحب کو پھر سے کوفہ کا قاضی مقرر کردیا۔ زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے غلام کے آزاد ہوجانے پر اس کی گواہی کے جواز کا فیصلہ دیا تھا بشرطیکہ اس سے پہلے اس کی گواہی روز نہ کی گئی ہو۔ شعبہ نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ابراہیم نخعی معمولی معاملے میں غلام کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے، شعبہ نے یونس سے اور انہوں نے حسن بصری سے بھی اس طرح کی روایت کی ہے۔ حسن بصری سے یہ بھی روایت ہے کہ غلام کی گواہی جائز نہیں ہے۔ حفص نے حجاج سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ غلام کی گواہی جائز نہیں ہے امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، ابن شبرمہ ( ایک روایت کے مطابق) امام مالک، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ غلام کی گراہی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ ہم نے آیت میں پائی جانے والی دلالت کا ذکر کیا ہے کہ اس میں جس گواہی کا ذکر ہے وہ آزاد مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ غلاموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی گواہی کی نفی پر قول باری ( ولا یأب الشھداء اذا مادعوا۔ جب گواہوں کو گواہی دینے کے لیے بلایاجائے تو وہ انکار نہ کریں) دلالت کرتا ہے۔ بعض سے اس کی تفسیر یوں منقول ہے کہ جب گواہ کو بلایاجائے تو اسے گواہی دے دینی چاہیے، بعض کا قول ہے کہ جب کسی کو گواہ بنالیا گیا ہو اور پھر اسے گواہی کے لیے طلب کیا جائے تو وہ انکار نہ کرے۔ بعضوں نے یہ کہا ہے کہ دونوں صورتوں میں گواہ پر گواہی دینا واجب ہے اور ظاہر ہے کہ غلام پر اس کے آقا کا حق ہوتا ہے اور وہ اس کی خدمت میں مصروف رہتا ہے اس لیے اسے آقا کی خدمت چھوڑ کر گواہی کے لیے جانے کا حق نہیں ہے بلکہ اسے اس سے روک دیا گیا ہے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ گواہی دینے پر مامور نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس کے لیے اس بات کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ آقا کی خدمت چھوڑ کر خط پڑھنے یا خط لکھوانے یا گواہ بننے میں مصروف ہوجائے۔ اس پر اس کے آقا کا اتنا حق ہے کہ حج اور جمعہ کے متعلق خطاب الٰہی میں وہ شامل نہیں ہے اس لیے گواہی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ گواہی کا معاملہ حج اور جمعہ کے معاملہ سے بھی کم درجے کا ہے۔ گواہی فرض کفایہ ہے جس کی بنا پر گواہوں پر اس کا تعین نہیں ہے جبکہ جمعہ اور حج انفرادی طورپر ہر ایک کے لیے متعین فرض ہے جب آقا کے حق کی بنا پر حج اور جمعہ کی فرضیت اس پر لازم نہیں ہے تو آقا ہی کے حق کی بنا پر گواہی کا لزوم بطریق اولیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ غلام کی گواہی کے ناقابل قبول ہونے پر درج ذیل آیات دلالت کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے ( واقیمو الشھادۃ للہ اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو) نیز ( کو نو اقوامین بالقسط شھداء للہ تم انصاف کے علمبردار بن جائو اور اللہ کے لیے گواہی دو ) تاقول باری ( ولا تتبعو الھویٰ ان تعدلوا ۔ اور خواہشات کی پیروی میں انصاف کے راستے سے نہ ہٹ جائو) اللہ تعالیٰ نے حاکم وقت کو اللہ کے لیے گواہی دینے والا قرار دیا جس طرح کہ تمام لوگوں کو بھی یہی خطاب دیا گیا۔ اب جبکہ غلام حاکم نہیں بن سکتا تو اس کا گواہ بننا بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ حاکم اور گواہ کے ذریعے ہی حکم کا ثبوت اور اس کا نفاذ ہوتا ہے۔ غلام کی گواہی کے بطلان پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے۔ ارشاد ہوا ( ضرب اللہ مثلاً عبدا مملو کاً لا یقدر علی شئی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے اور جسے کسی چیز کی قدرت حاصل نہیں ہیض اب یہ بات تو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے قدرت کی نفی مراد نہیں لی ہے اس لیے کہ آزادی اور غلامی کے لحاظ سے طاقت اور قدرت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں اس کے اقوال، اس کے عقود، اس کے تصرفات اور اس کی ملکیت کی نفی مراد ہے۔ ذرا غور کرنے سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آیت میں غلام کو ان بتوں کے لیے مثال قرار دیا گیا ہے جن کی عرب کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ اس مثال کا مقصد زور دے کر یہ بیان کرنا ہے کہ غلام کسی چیز یا تصرف کا مالک نہیں اور حق العباد سے متعلق اس کے اقوال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احکام باطل ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ غلام اپنی بیوی کو طلاق دینے کا بھی مالک نہیں ہے۔ اگر آیت کے الفاظ میں اس معنی کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت ابن عباس ؓ اس سے یہ مفہوم اخذ نہ کرتے۔ اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ غلام کی گواہی، کسی گواہی کے نہ ہونے کی طرح ہے جس طرح کہ اس کا لین دین، اس کا اقرار اور اس کے تمام قولی تصرفات کا حکم ہے۔ اب چونکہ غلام کی گواہی اس کا ایک قولی تصرف ہے تو یہ ضروری ہے کہ ظاہر آیت سے اس کا حکم کا وجوب منتفی ہوجائے۔ غلام کی گواہی کے بطلان پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ گواہی جہاد کی طرح فرض کفایہ ہے جہاد کے لیے خطاب باری میں غلام شامل نہیں ہے اور اگر وہ جہاد میں شامل ہوکر جنگ بھی کرتے تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ گواہی کے لیے خطاب باری میں بھی اس کی شمولیت نہ ہو اور اگر وہ گواہی دے بھی دے تو وہ قبول نہ ہوگی اور جس طرح اس کے لیے جنگ میں شمولیت کا کوئی حکم ثابت نہیں ہے اسی طرح گواہی کا بھی کوئی حکم ثابت نہیں ہونا چاہیے اور جس طرح اگر وہ جنگ میں شامل بھی ہوجائے تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا اسی طرح اگر وہ گواہی دے بھی دے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس پر ایک اور پہلو سے بھی دلالت ہورہی ہے۔ وہ یہ کہ اگر غلام گواہی دینے کا اہل ہوتا اور اس کی گواہی کی بنا پر کسی مقدمے کا فیصلہ کردیاجاتا پھر وہ اپنی گواہی سے رجوع کرلیتا تو اس صورت میں اس کی گواہی کی روشنی میں دینے والے فیصلے کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کا اس پر تاوان لازم آتا اس لیے کہ یہ چیز گواہی کا اسی طرح لازمی حصہ ہے جس طرح حکم کا نفاذ جو حاکم کے ہاتھوں ہوتا ہے اس کا لازمی حصہ ہے۔ اب جب کہ گواہی سے پھرجانے کی بنا پر غلام کے ذمہ کوئی تاوان نہیں لگتا تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ گواہی کا اہل ہی نہیں ہے اور اس کی گواہی کی بنا پر جاری کی جانے والا حکم بھی ناجائز ہوتا ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے ہمیں معلوم ہے کہ مونث کی میراث مذکر کی میراث کے مقابلے میں نصف ہے اور دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے مماثل قراردیا گیا اس طرح عورت کی گواہی بھی مرد کی گواہی کے مقابلے میں نصف ہے اور اس کی میراث بھی مرد کی میراث کے مقابلے میں نصف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ غلام جو سرے سے میراث کا اہل نہیں ہے۔ گواہی کا بھی اہل نہ ہو اس لیے کہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ میراث میں کمی کا گواہی کی کمی پر اثر ہوتا ہے اس لیے یہ واجب ہے کہ میراث کی نفی گواہی کی نفی کی بھی موجب بن جائے۔ حضرت علی ؓ سے غلام کی گواہی کے جواز میں جو روایت ہے وہ روایت کے معیار کے مطابق درست نہیں۔ اگر یہ روایت درست مان بھی لی جائے تو اسے غلام کی اس گواہی پر محمول کریں گے جو وہ کسی غلام کے متعلق دے۔ ہمیں آزاد مردوں اور غلاموں کی گواہی کے جواز اور عدم جواز کی صورتوں کے متعلق فقہاء کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اگر اس استدلال پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر غلام حضور ﷺ سے کوئی حدیث روایت کرتا ہے تو اس کی یہ روایت قبول کرلی جاتی ہے اور اس کی غلامی قبولیت کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کی غلامی اس کی گواہی کی راہ میں بھی حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ روایت حدیث کو گواہی کے مسئلے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لیے گواہی کو اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ روایت حدیث کے سلسلے میں اگر راوی صرف ایک ہو تو اس کی روایت قبول کرلی جائے گی لیکن صرف ایک گواہی کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح روایت میں ” فلان عن فلان عن فلان ( فلاں نے فلاں سے روایت کی، اس نے فلاں سے روایت کی) کا طریقہ قابل قبول ہے اور اس عنعنہ کے تحت ہونے والی روایت کو قبول کرلیا جاتا ہے لیکن گواہی کے سلسلے میں یہ طریقہ قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ گواہی پر گواہی کے طورپر یہ قابل قبول ہوگا۔ اسی طرح راوی یہ کہہ دے کہ ” قال رسول اللہ ﷺ “ (حضور ﷺ نے فرمایا) تو اس کی روایت کردہ حدیث قبول کرلی جائے گی لیکن گواہ جب تک گواہی کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لائے گا نیز آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا اقرار نہیں کرے گا اس وقت تک واقعہ کے متعلق اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ عورت اور مرد کا حکم روایت حدیث کے سلسلے میں یکساں ہے اور گواہی کے معاملے میں مختلف اس لیے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے مقابلے میں رکھی گئی ہے جبکہ عورت اور مرد کی روایت کا درجہ یکساں ہے۔ اس بنا پر غلام کی روایت کی صحت اور قبولیت سے اس کی گواہی کی قبولیت پر استدلال کرنا درست نہیں ہوگا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی کا قول ہے کہ اگر کوئی حاکم غلام کی گواہی کی بنیاد پر کوئی فیصلہ صادر کردے اور پھرے میرے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل آئے تو میں اس کے فیصلے کو باطل اور کالعدم قرار دوں گا کیونکہ اس کے بطلان پر تمام فقہاء کا اجماع ہے۔ بچوں کی گواہی بچوں کی گواہی کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ بچوں کی گواہی کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ یہی ابن شبرمہ، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ بچوں کی بچوں پر گواہی جائز ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ زخموں کے سلسلے میں بچوں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے ( شاید صورت یہ ہو کہ بچے اکٹھے ہوں پھر وہ جھگڑ پڑیں اور مار پیٹ کی نوبت آ جائے جس کے نتیجے میں انہیں زخم آئیں) دوسرے بچوں پر جو اس جگہ موجود نہ ہوں ان کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ آپس میں ایک دوسرے پر ان کی یہ گواہی صرف زخموں کے متعلق جائز ہوگی بشرطیکہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے اور جوش میں آنے نیز سکھائے پڑھانے جانے سے پہلے پہلے وہ یہ گواہی دے دیں۔ اگر علیحدہ ہونے کے بعد گواہی دیں تو یہ گواہی معتبر نہیں ہوگی۔ ہاں اگر علیحدہ ہونے سے قبل انہوں نے اپنی دی ہوئی گواہی پر اور گواہ بنا لیے ہوں تو بعد میں بھی ان کی یہ گواہی معتبر ہوگی۔ صرف آزاد بچوں کی گواہی جائز ہوگی آزاد بچیوں کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ سے بچوں کی گواہی کا بطلان منقول ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ بچوں کی ایک دوسرے کے بارے میں گواہی باطل ہے۔ عطاء بن ابی رباح سے اسی قسمکا قول منقول ہے۔ عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت کا قول ہے کہ شعبی سے یہ کہا گیا کہ ایاس بن معاویہ بچوں کی گواہی میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ شعبی نے یہ سن کر کہا کہ مجھے مسروق نے بتایا ہے کہ وہ ایک دن حضرت علی ؓ کے پاس تھے آپ کے پاس پانچ لڑکے آئے اور کہنے لگے کہ ہم چھ لڑکے پانی میں غوطے لگا رہے تھے کہ ایک لڑکا ڈوب گیا۔ تین لڑکوں نے دو لڑکوں کے خلاف گواہی دی کہ ان دونوں نے اسے ڈبویا ہے اور ان دو نے ان تین کے خلاف گواہی دی کہ انہوں نے اسے ڈبویا ہے۔ حضرت علی ؓ نے ڈوب جانے والے لڑکے کی دیت کے پانچ حصے کرکے دو لڑکوں کے ذمے تین حصے اور تین لڑکوں کے ذمے دو حصے عائد کردئیے۔ یہ باتی یاد رہے کہ عبداللہ بن حبیب کی روایتیں اہل علم کے ہاں غیر مقبول ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس روایت کی تاویل و تشریح بہت مشکل ہے۔ حضرت علی ؓ سے اس قسم کے فیصلے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ غرق ہوجانے والے لڑکے کے رشتہ دار اگر لڑکوں کے ان دونوں گروہوں میں سے ایک پر دعویٰ کرتے تو اس صورت میں وہ دوسرے فریق کے خلاف ان کی دی ہوئی گواہی کو جھوٹ قرار دیتے اور اگر وہ تمام لڑکوں پر دعویٰ کرتے تو اس صورت میں وہ دونوںریقوں کو جھوٹا قرار دیتے۔ دونوں صورتوں میں حضرت علی ؓ کے فیصلے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے اس لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی ؓ سے یہ روایت ہی درست نہیں ہے۔ بچوں کی گواہی کے بطلان پر قول باری (یآیھا الذین اٰمنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً ) دلالت کرتا ہے وہ اس طرح کہ آیت میں بالغ مرد ون کو خطاب ہے اس لیے کہ بچے ادھار لین دین کے اہل نہیں ہوتے۔ اسی طرح قول باری (ولیملل الذی علیہ الحق) میں بچہ داخل نہیں اس لیے کہ اس کا اقرار جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح قول باری ( ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً ) کسی بچے کے لیے خطاب نہیں بن سکتا اس لیے کہ بچے کا شمار مکلفین میں نہیں ہوتا کہ جس کی بنا پر وہوعید کا مستحق ہوجائے۔ پھر قول باری ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) کی رو سے بچے کو خطاب نہیں ہوسکتا کیونکہ بچہ ہمارے مردوں میں سے نہیں ہے۔ جب خطاب کی ابتدا بالغوں کے ذکر کے ساتھ ہوئی تھی تو قول باری ( من رجالکم) بھی بالغوں کی طرف راجع ہوگا۔ پھر قول باری (ممن ترضون من الشھداء) بھی بچے کی گواہی کے جواز کو مانع ہے اسی طرح قول باری ( ولا یاب الشھداء اذا مادعوا) میں گواہی سے پہلو تہی کرنے کی نہی ہے جبکہ بچے کے لیے گواہی قائم کرنے سے انکار کی گنجائش ہے اور مدعی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بچے کو گواہی کے لیے حاضر کرے۔ پھر قول باری (ولا تکتمو ا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ) کا بچوں کے لیے خطاب بننا درست نہیں ہے اس لیے گواہی چھپانے پر انہیں گناہ لاحق نہیں ہوگا۔ اسی طرح بچہ اگر گواہی سے رجوع کرلے تو اس پر تاوان لازم نہیں ہوتا ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بچہ گواہی کا اہل ہی نہیں اس لیے کہ جو شخص گواہی کا اہل ہوتا ہے اگر وہ پھر جائے تو اس پر تاوان لازم ہوجاتا ہے۔ امام مالک کی طرف سے صرف زخموں کے متعلق بچوں کی گواہی کا جواز اور یہ شرط کہ وہ یہ گواہی علیحدہ ہونے اور جوش میں آنے سے پہلے دیں تو یہ دراصل دلیل کے بغیر حکم عائد کرنے کے مترادف ہے اور جن کے متعلق روایات میں اور نہ قیاس میں کوئی فرق روا رکھا گیا ہے ان میں فرق کرنے کی ایک کوشش ہے اس لیے کہ اصولی طورپر یہ بات مسلم ہے کہ جس شخص کی گواہی زخموں کے متعلق جائز ہوسکتی ہے اس کی گواہی دوسری باتوں کے متعلق بھی درست ہوسکتی ہے۔ پھر ان بچوں کی اس حالت کا اعتبار کرنا جو ان کی علیحدگی اور جوش میں آنے سے قبل کی ہو تو یہ ایک بےمعنی بات ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جو بچے گواہ بنے ہوں وہ خود مجرم ہوں اور پکڑے جانے کے خوف سے وہ گواہی دینے پر مجبور ہوگئے ہوں اس لیے کہ بچوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جو سب کو معلوم ہے کہ اگر ایک بچہ کوئی جرم کرتا ہے تو پکڑے جانے اور سزا پانے کے خوف سے وہ اس جرم کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیتا ہے تاکہ خود بچ رہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے اللہ تعالیٰ نے گواہی میں عدالت یعنی دیانتداری اور سیرت و کردار کی اچھائی کی شرط لگائی ہے اور جھوٹی گواہی دینے والے کو سخت انداز میں دھمکی دی ہے نیز فاسف و فاجر افراد اور جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والوں کی گواہی قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے تاکہ گواہی کے معاملے میں پوری احتیاط برتی جاسکے۔ دریں صورت ایسے شخص کی گواہی کیسے جائز ہوسکتی ہے جس پر جھوٹ کی وجہ سے کوئی گرفت نہ ہوسکتی ہو اور نہ ہی جس کی دروغ گواہی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہو اور نہ ہی باز رکھنے والی حیا ہو نہ مروت۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بچوں کے جھوٹ کو ضرب المثل کے طورپر بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” فلاں شخص تو بچے سے بھی بڑھ کر جھوٹا ہے “ اس لیے اس شخص کی گواہی کیسے قابل قبول ہوگی جس کی یہ حالت ہو۔ اگر امام مالک نے گوہی کے جواز کے لیے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے اور سکھائے پڑھائے جانے سے قبل کی حالت کا اعتبار کیا ہے کہ بچے کو جب تک کوئی دوسرا سکھائے پڑھائے گا نہیں اس وقت تک وہ جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں ہوگا، تو ان کا یہ خیال درست نہیں ہے اس لیے کہ بچے بھی جان بوجھ کر جھوٹ بول دیتے ہیں اور ان کے لیے اس میں رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ اگر وہ اس عمر کو پہنچ چکے ہیں ہوں جہاں وہ گواہی کا مفہوم سمجھنے کے قابل ہوچکے ہوں اور اپنی چشم دید کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکتے ہوں تو ایسی صورت میں وہ جھوٹ سے اسی طرح واقف ہوجاتے ہیں جس طرح سچ سے۔ پھر وہ مختلف اسباب کی بنا پر جان بوجھ کر بھی جھوٹ بول دیتے ہیں۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس جرم کی نسبت ان کی طرف نہ کردی جائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹی گواہی کے ذریعے اس بچے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں جس کے خلاف وہ گواہی دے رہے ہوں۔ اسی طرح کے اور اسباب ہوسکتے ہیں جو بچوں کی نفسیات اور ان کی عمر کے تقاضوں کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اس لیے کوئی شخص حتمی طورپر یہ حکم نہیں لگا سکتا کہ اگر وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے قبل گواہی دے دیں تو ان کی گواہی سچی ہوگی جس طرح یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانے کے بعد ان کی دی ہوئی گواہی درست ہوگی۔ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ بچے جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دیتے ہیں تو اس صورت میں پھر یہ چاہیے کہ بچوں کی گواہی کی طرح بچیوں کی گواہی بھی قبول کرلی جائے نیز ایک بچے یا بچی کی گواہی بھی اسی طرح قابل قبول ہو جس طرح بچوں یا بچیوں کے ایک گروہ کی۔ اب اگر اس کی گواہی میں بھی تعداد کا اعتبار کیا گیا ہے اور زخموں کی گواہی کو بچوں کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ بچیوں کا اعتبار نہیں کیا گیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ گواہی کی باقی تمام شرطوں کا بھی اعتبار کیا جائے مثلاً بلوغت اور عدالت وغیرہ۔ اور جس بنا پر امام مالک اور ان کے ہمنوائوں نے بچوں کی بچوں پر گواہی کو جائز قرار دیا ہے اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ مردوں پر بھی ان کی گواہی کو جائز قرار دیاجائے اس لیے کہ بچوں کی بچوں پر گواہی مردوں پر ان کی گواہی سے بڑھ کر موکر نہیں ہے کیونکہ اس قول کے قائلین کے نزدیک یہ سب مسلمان ہیں۔ نابینا کی گواہی نابینا کی گواہی کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ نابینا کی گواہی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ عمرو بن عبید نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ نابینا کی گواہی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے ، اشعث سے اسی قسم کی روایت منقول ہے تاہم اشعث نے اس کے متعلق یہ بھی کہا ہے کہ بینائی ختم ہونے سے پہلے دیکھی ہوئی چیز کے متعلق اگر گواہی دے تو وہ قابل قبول ہوگی۔ ابن الہیعہ نے ابو طعمہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ نابینا کی گواہی جائز نہیں ہے۔ ہمیں عبدالرحمن بن سیما نے روایت کی ہے، انہیں عبداللہ بن احمد نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں حجاج بن جبیر بن حازم نے قتادہ سے کہ ایک نابینا نے ایاس بن معاویہ کے سامنے گواہی پر گواہی دی۔ ایاس نے اس سے کہا کہ ہم تمہاری گواہی رد کردیتے اگر تمہارے اندر عدالت کی صفت نہ پائی جاتی لیکن تمہارے اندر ایک اور رکاوٹ ہے کہ تم نابینا ہو دیکھ نہیں سکتے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔ امام ابو یوسف، ابن ابی لیلیٰ اور امام شافعی کا قول ہے کہ بینائی جانے سے قبل جس بات کا اسے علم ہوا ہو اس کے متعلق اس کی گواہی درست ہوگی اور جس بات کا علم اندھے پن کے دوران ہوا ہو اس کے متعلق اس کی گواہی درست نہیں ہوگی۔ قای شریح اور شعبی کا قول ہے کہ نابینا کی گواہی جائز ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا ق ول ہے کہ نابینا کی گواہی جائز ہے خواہ اسے اس بات کا علم اندھے پن کے دوران ہوا ہو بشرطیکہ وہ طلاق اور اقرار وغیرہ کی صورت میں آواز کی شناخت کرسکتا ہو لیکن اگر زنا کاری یا حدقذف کے متعلق وہ گواہی دے تو اس کی یہ گواہی قبول نہیں ہوگی۔ اندھے کی گواہی کے بطلان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عبدالباقی بن قانع نے ہم سے بیان کی، انہیں عبداللہ بن محمد بن میمون بلخی حافظ نے، انہیں یحییٰ بن موسیٰ نے جو بخت کے لقب سے مشہور تھے۔ انہیں محمد بن سلیمان بن مسمول نے، انہیں عبداللہ بن سلمہ بن وہرام نے اپنے والد سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ سے گواہی کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ( تری ھذہ الشمس فاشھدوا ولا فدع تم اس سور ج کو دیکھ رہے ہو تو گواہی دو ورنہ چھوڑ دو ) آپ نے گواہی کی صحت کی شرط معائنہ یعنی چشم دید مقرر کردی یعنی گواہ جس چیز کی گواہی دے رہا ہے اسے اس نے بچشم خود دیکھا ہے۔ جبکہ نابینا اس چیز کو جس کی گواہی وہ دے رہا ہے دیکھنے سے معذور ہے اس لیے اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کے بطلان کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ نابینا استدلال کی بنا پر گواہی دے گا اس لیے اس کی گواہی درست نہیں ہوگی۔ آپ ن ہیں دیکھتے کہ ایک آواز دوسری آواز کے مشابہ ہوتی ہے اور بولنے والا کسی دوسرے کی آواز کی نقل بھی اتار سکتا ہے۔ اسی طرح وہ دوسرے کے سر اور لہجے کی بھی اسی طرح نقل کرسکتا ہے کہ نقل ہوبہو اصل ہوجاتی ہے اور سننے والے اور بولنے والے کے درمیان اگر حجاب ہو تو سننے والے کو شک بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کی آواز کی نقل اتاری جارہی ہے اس لیے آواز کی بنا پر اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سے یقین حاصل نہیں ہوسکتا۔ آواز کے معاملے کی بنیاد صرف ظن غالب پر ہوتی ہے۔ نیز گواہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ گواہی دیتے ہوئے شہادت یعنی گواہی کا لفظ استعمال کرے اور یوں کہے : اشھد ( میں گواہی دیتا ہوں) اگر وہ اپنی گواہی شہادت کے لفظ کے بغیر کسی اور لفظ سے دیتا ہے مثلاً یوں کہتا ہے :” اعلم یا ایقین “ ( مجھے علم ہے یا مجھے یقیں ہے) تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ گواہی اس لفظ شہادت کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ لفظ اس بات کا متقاضی ہے کہ جس چیز کے متعلق گواہی دی جارہی ہے اس کا مشاہدہ بھی ہوچکا ہو اور وہ گواہ کے لیے چشم دید ہو تو اس صورت میں ایسے شخص کی گواہی جائز نہیں ہوسکتی جو مشاہدہ کے دائرے سے خارج ہو اور آنکھوں دیکھے بغیر گواہی دے رہا ہو۔ گر کوئی یہ کہے کہ نابینا جب اپنی بیوی کی آواز پہچان لے تو اس کے ساتھ وطی کے لیے اس کا اقدام درست ہوتا ہے جس سے یہ ہمیں معلوم ہوا کہ آواز کی پہچان یقین کا فائدہ دیتی ہے ہے اور اس میں ش کی کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ شک کی بنا پر کسی کے لیے وطی کا اقدام جائز نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ نابینا کے لیے غالب ظن کی بنا پر وطی کا اقدام درست ہوتا ہے وہ اس طرح کہ اس کی بیوی کو اس کے پاس پہنچا دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ ” لو یہ تمہاری بیوی آگئی “ اس صورت میں اگر وہ اپنی بیوی کو جانتا نہ بھی ہو پھر بھی اس کے لیے وطی کرنا حلال ہوجائے گا۔ اسی طرح قاصد کے قول کی بنا پر اس کے لیے لونڈی کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے اور پھر اس لونڈی کے ساتھ وطی کا اقدام بھی جائز ہوگا۔ لیکن اگر کسی نے اسے کسی زید کی طرف سے اقرار یا بیع یا قذف کی اطلاع دی ہو تو اس کے لیے مخبر عنہ یعنی زید پر گواہی قائم کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ گواہی کا ذریعہ یقینی اور مشاہدہ ہوتا ہے جب کہ سوال میں مذکورہ باتوں میں ظن غالب کے استعمال اور ایک شخص کے قول کو قبول کرلینے کی گنجائش ہے۔ اس لیے یہ باتیں گواہی کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں۔ اگر اسے بینائی کی حالت میں کسی بات پر گواہ بنا لیا گیا ہو اور اس کے بعد ا س کی بینائی جاتی رہی ہو تو ہم اس کی گواہی اس بنا پر قبول نہیں کریں گے کہ ہمیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ تحمل شادت کی حالت کے مقابلے میں ادائے شہادت کی حالت زیادہ کمزور ہے۔ اس پر اس بات سے دلالت ہوتی ہے کہ ایک شخص کفر یا غلامی یا بچپن کی حالت میں تحمل شہادت کرلیتا یعنی کسی واقعہ کا چشم دید گواہ بن جاتا ہے اور پھر مسلمان ہوکر یا آزاد ہوکر یا بالغ ہوکر وہ یہ گواہی عدالت یا قاضی کے سامنے دے دیتا ہے تو اس کی یہ گواہی قابل قبول ہوگی لیکن اگر پہلی حالت میں وہ یہ گواہی دے گا تو اس کی یہ گواہی قابل قبول نہ ہوگی۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ گواہی دینے کی حالت گواہ بننے کی حالت سے لازمی طورپر بہتر ہونی چاہیے۔ اب جبکہ نابینا کا تحمل شہادت درست نہیں ہوتا اور اس میں اس کی بینائی کا نہ ہونا رکاوٹ بنتا ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کا گواہی دینا بھی درست نہ ہو۔ نیز اگر اسے ایسی حالت میں گواہ بنایاجاتا کہ اس کے اور اس منظر کے درمیان جس کا وہ گواہ بنایا جارہا ہے کوئی رکاوٹ حائل ہوتی تو اس کی گواہی درست نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر گواہی دیتے وقت کوئی رکاوٹ حائل ہو تو اس کی گواہی جائز نہیں ہونی چاہیے اور ظاہر ہے کہ اندھا پن اس کے اور اس بات کے درمیان حائل ہونے والی رکاوٹ ہے جس کا اسے گواہ بنایا جارہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسی گواہی جائز نہ ہو۔ امام ابو یوسف نے دونوں حالتوں کے درمیانف رق کیا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ بات جائز ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی واقعہ کا چشم دید گواہ ہوتا ہے پھر اس پر اس کی غیر حاضری یا موت کی صورت میں اور گواہی قائم کرلی جاتی ہے تو اس کی یہ گواہی قابل قبول ہے۔ بعینہٖ گواہ کی بصارت کا ختم ہوجانا مذکورہ بالا مثال میں اصل گواہ کی موت یا اس کی غیر حاضری کی طرح ہے۔ اس لیے ایسے نابینا کی گواہی کے جواز کی ممانعت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی گواہی قبول کرلینی چاہیے۔ اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ گواہ کا اعتبار اس کی اپنی ذاتی حیثیت میں کرنا واجب ہے اگر وہ گواہی دینے کا اہل ہوگا تو ہم اس کی گواہی قبول کرلیں گے اور اگر دوسری بات ہوگی تو اس کی گواہی قبول نہیں کریں گے۔ نابینا عدم بصارت کی بنا پر اس اہلیت کے دائرے سے ہی خارج ہے۔ اس بنا پر اسے کسی اور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ رہ گیا اصل گواہ جو موجود نہ ہو یا وفات پاچکا ہو تو اس کی گواہی پر کسی کا گواہ بن جانا درست ہے کیونکہ اصل گواہ کو کوئی ایسی صورت پیش نہیں آئی جو اسے گواہ بننے کی اہلیت کے دائرے سے خارج کردینے والی ہو۔ اس شخص کی غیر حاضری یا موت جس پر کسی اور کو گواہ بنایا گیا ہو اس کی گواہی پر اثر انداز نہیں ہوتی اس لیے اس کی گواہی جائز ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم میت یا غائب کی گواہی پر گواہی کو اس وقت جائز قرار دیتے ہیں جبکہ اس کی طرف سے کوئی شخص فریق بن کر عدالتم میں حاضر ہو، اس صورت میں اس پر یہ گواہی ہوگی اور اس طرح اس کی موجودگی میت یا غائب کی موجودگی کے قائم مقام ہوجائے گی جبکہ نابینا اس معنی میں حاضر ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص پر گواہی دے رہا ہے جو خصم یعنی فریق نہیں ہوتا۔ اس بنا پر اس کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ نابینا کی گواہی کی صحت کو تسلیم کرنے والے درج ذیل آیات سے استدلال کرتے ہیں جن کا ظاہر اس کی گواہی کی قبولیت کا متقضی ہے ، آیات یہ ہیں ( اذا تداینتم بدین ) تا قول باری ( فاستشھدوا شھدین من رجالکم) نیز آیت ( ممن ترضون من الشھداء) اور ظاہر ہے کہ بعض صورتوں میں نابینا شخص پسندیدہ ہوتا ہے اور اسکا شمار ہمارے آزاد مردوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے آیت کے ظاہر کے تقاضے کی روشنی میں اس کی گوہی قابل قبول ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر آیت نابینا کی گواہی کی عدم قبولیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے ( فاستشھدوا) جبکہ نابینا کی گواہی بنانا ہی درست نہیں ہے اس لیے کہ استشہاد کا معنی یہ ہے کہ جس چیز یا واقعہ یا شخص کے متعلق گواہ بنایاجارہا ہے اس کی موجودگی ہو اور گواہ بننے والا شخص اسے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اب ظاہر ہے کہ اندھے پن کی وجہ سے ایک نابینا نہ اس چیز کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اسکا مشاہدہ کرسکتا ہے جو اس کے سامنے موجود ہوتی ہے جس طرح کہ کوئی دیوار بیچ میں حائل ہوجائے اور گواہ کے لیے اپنی آنکھوں سے مشہود علیہ ( جس کے متعلق گواہ قائم کی جارہی ہو) کے مشاہدے میں مانع بن جائے۔ نیز شہادت یعنی گواہی کا مفہوم مشہود علیہ کے مشاہدے اور اسے اپنی آنکھوں سے اس حالت میں دیکھنے کے مفہوم سے ماخو ذ ہے جس میں گواہ کی گواہی اس پر اثبات حق کی متقاضی ہو اور یہ صورت ایک نابینا شخص کی ذات میں معدوم ہوتی ہے اس لیے اس کی گواہی کا بطلان واجب ہے۔ اس لیے زیر بحث آیات نابینا شخص کی گواہی کے جواز سے بڑھ کر اس کے بطلان پر دلالت کررہی ہے۔ امام زفر کا قول ہے کہ نابینا کی گواہی جائز نہیں ہے خواہ وہ بصارت کے زائل ہونے سے قبل اس کا گواہ بنا ہو یا بعد میں، البتہ صرف نسب کے معاملے میں اس کی اتنی گواہی درست ہے کہ فلاں فلاں کا بیٹا ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زفر نے یہ مسلک اس بنا پر اختیار کیا ہے کہ نسب پر گواہی خبر مستفیض ( ایسی خبر جسے نقل کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہو) کی صورت میں درست ہوتی ہے اگرچہ گواہ نے اس کا خود مشاہدہ نہ کیا ہو اس لیے ئہ جائز ہے کہنابینا کو تواتر کے ساتھ یہ خبر ملتی رہے کہ فلاں فلاں کا بیٹا ہے اور پھر حاکم کے ہاں جاکر اس کی گواہی دے دے ایسی صورت میں اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اس کی صحت پر یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ منقول ہونے والی باتوں میں نابینا اور بینا دونوں کا حکم یکساں ہے۔ اگرچہ خبر دینے والوں نے بچشم خود ان باتوں کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ صرف ان کے متعلق سنا تھا۔ اس طرح یہ جائز ہے کہ نابینا شخص کے نزدیک متواتر خبروں کی بنا پر کسی کے نسب کی صحت ثابت ہوجائے اگرچہ خبر دینے والوں نے خود اس کا مشاہدہ نہ کیا ہو اس صورت میں اس پر نابینا کی گواہی قائم کرنا درست ہوگا اور پھر اس سلسے میں اس کی گواہی قابل قبول ہوگی کیونکہ اس قسم کی گواہی کے لیے مشہود علیہ کو بچشم خود دیکھنا شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی بدوی یعنی دیہاتی کسی قروی یعنی شہری کے متعلق گواہی دے تو آیا اس کی گواہی درست ہوگی یا نہیں۔ اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد، زفر، لیث سعد، اوزاعی اور امام شافعی کے نزدیک ایسی گواہی جائز ہے بشرطیکہ گواہی دینے والا عادل ہو یعنی صفت عدالت سے متصف ہو۔ زہری سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ زخموں کے سوا اور کسی چیز کے متعلق اس قسم کی گواہی جائز نہیں ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ روایت کی ہے کہ حضر یعنی حالت اقامت میں اس قسم کی گواہی جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شہری سفر میں ہو اور وہ کوئی وصیت کرے تو دیہاتی اس کا گواہ بن سکتا ہے یا بیع کی کوئی صورت ہو تو بھی ایسی گواہی جائز ہوگی بشرطیکہ گواہ عادل ہوں۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ سابقہ سطور میں آزاد بالغ مردوں کی گواہی کی قبولیت پر آیات قرآنی کی دلالت کا ہم نے جو ذکر کیا ہے وہ شہری اور دیہاتی کی گواہی کی یکسانیت اور مساوت کو واجب کرتی ہے اس لیے کہ ایمان کے ذکر کے ساتھ جس خطاب کی ابتدا کی گئی ہے اس کا رخ ان سب کی طرف ہے۔ چنانچہ قول باری ہے ( یآیھا الذین اٰمنو ا اذا تداینتم بدین) ظاہر ہے کہ دیہاتی اور شہری سب کا شمار اہل ایمان میں ہوتا ہے۔ پھر ارشاد باری ہے ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) یعنی اہل ایمان کے آزاد مردوں میں سے اور یہ صفت ان تمام لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے پھر فرمایا ( ممن ترضون من الشھداء) جب ایسے لوگ صفت عدالت سے متصف ہوں گے تو وہ ” مرضیون “ یعنی پسندیدہ ہوں گے۔ اسی طرح شوہر کے بیوی سے رجوع کرنے اور علیحدگی اختیار کرنے کے سلسلے میں فرمایا ( و استشھدوا ذوی عدل منکم اپنوں میں سے دو عادل مردوں کو گواہ بنالو) یہ صفت تمام لوگوں کو شامل ہے بشرطیکہ وہ عادل ہوں ۔ اب اس صفت کے ساتھ شہری کو خاص کرلینا اور دیہاتی کو نظر انداز کردینا دراصل دلالت کے بغیر آیت کے عموم کو ترک کردینے کے مترادف ہے۔ جبکہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قول باری ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) اور قول باری ( ممن ترضون من الشھداء) میں دیہاتی بھی مراد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی بیان کردہ شرط کی بنیاد پر دیہاتی کی دیہاتی پر گواہی کے جاز کے سب قائل ہیں۔ جب آیت میں دیہاتی بھی مراد ہیں تو پھر آیت شہری پر دیہاتی کی گواہی کے جواز کی اس طرح متقضی ہے جس طرح دیہاتوں کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کی اور جس طرح دیہاتیوں کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کی اور جس طرح شہری کی دیہاتی پر گواہی کے جواز کی۔ اگر یہ لوگ اس حدیث سے استدلال کریں جس کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں حسین بن اسحاق تستری نے، انہیں حرملہ بن یحییٰ نے، انہیں ابن وہب نے، انہیں نافع بن یزید بن الہاد نے محمد بن عمرو سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ آپ نے ﷺ کو یہفرماتے ہوئے سنا تھا کہ ( لا تجوز شھادۃ بدی علی صاحب قریہ کسی بدو یعنی دیہاتی کی کسی صاحب قریہ یعنی شہری پر گواہی جائز نہیں ہے) تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس جیسی روایت کے ذریعہ ظاہر قرآن پر اعتراض کرنا بجا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس میں زخموں اور زخموں کے علاوہ دوسری باتوں کے سلسلے میں دی جانیوالی گواہیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز شہری کے سفر یا حضر کی حالت میں ہونے کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے جو شخص اس روایت سے اپنے مسلک کے حق میں استدلال کرے گا وہ خود اس کے عموم کی خلاف ورزی کا مرتکب قرارپائے گا۔ سماک بن حرب نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں آکر رویت ہلال کے متعلق گواہی دی۔ آپ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں میں کل کے روزے کے اعلان کردیں، اس طرح آپ نے اسی بدو کی گواہی قبول کرتے ہوئے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک بدو نے حضور ﷺ کے پاس آکر گواہی دی لیکن آپ کو اس کی گواہی کے خلاف حقیقت حال کا علم ہوگیا جس سے اس کی یہ گواہی باطل ہوگئی چناچہ آپ نے اس کی اطلاع دے دی۔ اس روایت سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ حضور ﷺ نے بدو کی گواہی کو مطلقاً باطل قرار دیا تھا بلکہ اس خاص واقعہ میں اسے رد کردینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو اس کے غلط ہونے کا علم ہوگیا تھا تاہم جب راوی نے یہ روایت نقل کی تو اس نے گواہی رد کرنے کے سبب کو بیان نہیں کیا۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس زمانے میں یہ گواہی ردکردی ہو جب بدووں پر شرک اور نفاق کا غلبہ تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے ( ومن الاعراب من یتخذما ینفق مغرماً و یتربص بکم الدوا ئر۔ ان بدوی عربوں میں ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں اور اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کررہے ہیں) حضور ﷺ نے ایسے بدوئوں کی گواہی قبول کرنے سے منع فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ نے بدوئوں کے ایک اور گروہ کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری (ومن الاعراب من یومن باللہ والیوم الاخرۃ ویتخذما ینفق قربات عند اللہ وصلوت الرسول اور انہیں بدوئوں میں سے ایسے بھی ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں) جس بدو کی یہ صفت ہو وہ اللہ اور مسلمان کے نزدیک پسندیدہ ہے اور اس کی گواہی بھی قابل قبول ہوگی۔ اگر ایک دیہاتی کی شہری پر گواہی قابل قبول نہیں ہوگی تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ اس کی دینداری مطعون و مشرک ہے یا وہ شہادات کے احکامات سے بہرہ اور درست اور غلط گواہیوں سے ناواقف ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس کی گواہی کے بطلان کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں بلکہ اس بارے میں شہری اور دیہاتی کے حکم میں کوئی فرق نہیں اور اگر دوسری صورت ہے تو پھر یہ واجب ہے کہ ایسے دیہاتی کی دیہاتی پر بھی گواہی قابل قبول نہ ہو۔ نیز زخموں کے متعلق اور سفر کی حالت میں شہری پر بھی اس کی گواہی قبول نہ کی جائے جس طرح کہ اس قسم کے شہری کی گواہی بھی ناقابل ہوتی ہے۔ نیز اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دیہاتی جب عادل اور گواہی کے احکام سے واقف ہو شہری اور غیر شہری پر اس کی گواہی قبول کرلی جائے اس لیے کہ اس صورت میں اس سے وہ خرابی زائل ہوچکی ہوتی ہے جس کی بنا پر اس کی گواہی کی قبولیت ممتنع ہوگئی تھی۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کی بدویت اور بددیت کی طرف اس کی نسبت کو اس کی گواہی کے رد کرنے کی علت قرار نہ دی جائے جس طرح شہریت کی طرف نسبت کسی شہری کی گواہی کے جواز کی علت قرار نہیں دی جاتی جبکہ اس میں وہ صفات نہ پائی جاتی ہوں جو گواہی کے جواز کے لیے شرط ہیں۔ قول یاری ہے ( فان یکونا رجلین فرجل وامراتان اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوجائیں) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر دو گواہوں کے گواہ بنائے جانے کو واجب کردیا۔ یاد رہے کہ آیت میں وارد لفظ ( شھیدین) کے معنی ” الشا ھدان “ یعنی دو گواہ ہیں۔ اس لیے کہ لفظ شہید اور شاہد دونوں ہم معنی ہیں۔ جس طرح عالم اور علیم نیز قادر اور قدیر ہم معنی ہیں۔ پھر اس پر ( فان لم یکونا رجلین فرجل وامر اتان) کو عطف کردیا یعنی اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن جائیں۔ یہاں قول باری ( فان لم یکونا رجلین) سے یا تو یہ مراد ہے کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوجائیں جیسا کہ اس قول باری ( فان لو تجدوا ماء فتیمموا صعیداً اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پھر مٹی کا قصد کرو یعنی تیمم کرو) کا مفہوم ہے یا جس طرح یہ قول باری ہے۔ (تحریر رقبۃ من قبل ان یتماسا۔ ایک غلام آزاد کریں قبل اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مس کریں) پھر فرمایا (فمن لم یجد فصیام شھرین جسے یہ میسر نہ ہتو اس پر دو ماہ کے روزے ہیں) تا قول باری ( فمن لم یستطیع فاطعام ستین مسکیناً جسے اس کی استطاعت نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ) یا اسی طرح کی اور آیتیں جن میں بدل کو اصل فرض کے قائم مقام بنادیا گیا ہے جبکہ اصل فرض معدوم یا میسر نہ ہو۔ یا قول باری ( فان لم یکونا رجلین) سے یہ مراد ہے کہ اگر دونوں گواہ مرد نہ ہوں تو پھر یہ دونوں ایک مرد اور دو عورتیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے ہمیں ایک مرد اور دو عورتوں پر شاہدین کے اسم کے اطلاق واثبات کے متعلق آگاہ کردیا تاکہ تمام حقوق کے سلسلے میں اس اسم کے موم کے تحت ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کے جواز کا اعتبار کیا جائے۔ البتہ ایسے حقوق میں ان کی گواہی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جن کے متعلق دوسرے شرعی دلائل موجود ہوں جو عورتوں کی گواہی کے لیے مانع ہوں۔ جب تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ دو مردوں کی عدم موجودگی کی صورت میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا دو مردوں کی گواہی کے قائم مقام ہوناجائز ہے تو اس سے دوسری صورت کا ثبوت ہوگیا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ایک مرد اور دو عورتوں کو دو گواہوں کے نام سے موسوم کیا جائے۔ اس طرح یہ ایک شرعی نام بن گیا جس کا ان تمام صورتوں میں اعتبار کرنا واجب ہے جہاں ہمیں دو گواہوں کی گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں وہ صورت شامل نہیں ہوگی جہاں اس کے خلاف دلیل قائم ہوچکی ہو۔ اس لیے حضور ﷺ کے قول ( لا نکاح الا بولی وشاھدین کوئی نکاح ولی اور دو گواہوں کے بغیر منعقد نہیں ہوتا) میں اس کے عموم سے استدلال کرنا صحیح ہوگا اور ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بنا پر نکاح اور اس کا حکم ثابت کرنا درست ہوگا کیونکہ ایک مرد اور دو عورتوں کو دو گواہوں کا اسم لاحق ہوچکا ہے اور حضور ﷺ نے دو گواہوں کی گواہی کی بنیادپر نکاح کو جائز کردیا ہے۔ مالی معاملات کے علاو ہ عورتوں کی گواہی مالی معاملات کے علاوہ دوسرے معاملات کے سلسلے میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد ، زفر اور عثمان البتی کا قول ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی نہ تو حدود میں قبول کی جائے گی اور نہ ہی قصاص میں ۔ ان کے علاوہ بقیہ تمام حقوق میں قبول کی جائے گی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں یحییٰ بن عباد نے، انہیں شعبہ نے حجاج ارطاۃ سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک نکاح کے سلسلے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے عبد الاعلیٰ سے، انہوں نے محمد بن الحقیقہ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : عقد میں عورتوں کی گواہی جائز ہے۔ جریر بن حازم نے زبیر بن الحریث سے، انہوں نے ابو لبید سے روایت کی کہ حضرت عمر ؓ نے ایک طلاق کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیا ۔ حجاج نے عطاء سے روایت کی کہ حضرت ابن عمر ؓ نکاح کے انعقاد کے سلسلے میں ایک مرد کے ساتھ عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے۔ عطاء سے مروی ہے کہ وہ طلاق کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی کو جائز سمجھتے تھے۔ عون سے مروی ہے کہ انہوں نے شعبی سے اور شعبی نے قاضی شریح سے روایت کی ہے کہ قاضی صاحب عتیق یعنی غلام آزاد کرنے کے سلسلے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو قابل قبول سمجھتے تھے۔ طلاق کے سلسلے میں شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ حسن بصری اور ضحاک سے مروی ہے کہ دین اور ولد کے علاوہ کسی چیز میں بھی عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی نہ تو حدود میں قابل قبول ہے نہ قصاص میں، نہ نکاح میں، نہ طلاق میں، نہ نسب میں نہ ولاء میں اور نہ ہی احصان میں۔ البتہ وکالت اور وصیت کے سلسلے میں ان کی گواہی قابل قبول ہے بشرطیکہ وصیت میں غلام آزاد کرنے کی کوئی بات نہ ہو۔ سفیان ثوری سے مروی ہے کہ حدود کے سوا بقیہ تمام معاملات میں ان کی گواہی جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ قصاص میں بھی جائز نہیں ہے۔ حسن بن حی کا قول ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ نکاح کے انعقاد میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ وصیت اور عتق میں عورتوں کی گواہی درست ہے لیکن نکاح، طلاق، حدود اور قتل عمد میں جس کے اندر بدلہ لیا جاتا ہو اس کی گواہی درست نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مالی معاملات کے سوا مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ وصیت میں صرف مرد کی گواہی جائز ہیالبتہ مال کی وصیت کی صورت میں عورتوں کی گواہی بھی درست ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ادھار لین دین کے تمام عقود میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی کے جواز کا متقاضی ہے عقد مدانیت یعنی ادھار لین دین ہر اس عقد کو کہتے ہیں جس کا انعقاد ادھار پر ہو خواہ اس کا بدل مال ہو یا سامان یا منفعت یا دم عمد کیونکہ دم عقد بھی ایسا عقد ہے جس میں دین یا ادھار ہوتا ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ قول باری ( اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً ) میں آیت کی مراد یہ نہیں ہے کہ جن دو بدل ( مبیع اور ثمن) پر سودا کیا گیا ہے وہ دونوں کے دونوں دین یعنی ادھار ہوں۔ اس لیے کہ ایک متعین مدت تک اس قسم کے سودے کا جواز ممتنع ہے۔ اس بنا پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک بدل یعنی مبیع یا ثمن دین کی صورت میں ہو۔ خواہ وہ دین کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو۔ یہ چیز مہر موجل والے عقد نکاح میں ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ یہ عقد مدانیت کی ایک صورت ہے اسی طرح قتل عمد میں صلح، مال پر خلع اور اجارہ کی صورتوں کی کیفیت ہے کہ یہ سب عقد مدانیت کی مختلف شکلیں ہیں ۔ اس لیے جو شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ ان عقود میں سے کوئی سا بھی عقد ظاہر آیت کے دائرے سے باہر ہے اس کا یہ دعویٰ دلیل کے بغیر تسلیم نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ آیت کا عموم ان تمام صورتوں میں اس کے جواز کا متقضی ہے۔ مالی معاملات کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی عورتوں کی گواہی کے جواز پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی عبدالباقی بن قانع نے ہم سے روایت کی، انہیں احمد بن القاسم جوہری نے، انہیں محمد بن ابراہیم نے جو ابو معمر کے بھائی تھے، انہیں محمد بن الحسن بن ابی یزید نے اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے حضرت حذیفہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے دائی کی گواہی کو جائز قرار دیا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ولادت مال نہیں ہے اور حضور ﷺ نے اس معاملے میں عورت کی گواہی کو جائز قرار دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کی گواہی صرف مالی معاملات تک محدود نہیں ہے۔ ولادت یعنی بچے کی پیدائش اور ا س سے متعلقہ امور میں عورتوں کی گواہی کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف صرف تعداد میں ہے۔ نیز جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ” شھدین “ ( دوگواہ) کے اسم کا شرعی لحاظ سے ایک مرد اور دو عورتوں پر اطلاق ہوتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ البینۃ ( ثبوت، گواہی وغیرہ) کا اسم بھی دوگواہوں کو شامل ہے تو حضور ﷺ کے قول ( البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعیٰ علیہ ثبوت اور گواہی پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے اور قسم کھانے کی ذمہ داری مدعی علیہ پر ہے) کے عموم سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ قسم کے دعوے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بنیاد پر مقدمے کا فیصلہ کردیاجائے کیونکہ البینۃ کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مالی معاملات میں یہ گواہی بینۃ یعنی ثبوت کا درجہ رکھتی ہے جب اس قسم کی گواہی پر البینۃ کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے تو اس کے موم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مدعی کے لیے اسے قبول کرلینا واجب ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو بعض صورتوں کی تخصیص کا تقاضا کرے تو اور بات ہے۔ ہم نے حدود اور قصاص کی تخصیص زہری کی اس روایت کی بنا پر کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ : حضور ﷺ اور آپ کے بعد پہلے دوخلفاء راشدین کی یہی سنت اور یہی طریق کا رہا ہے کہ حدود اور قصا ص میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ نیز جب دیون میں ایک مرد کے ساتھ عورتوں کی گواہی قبول کرلینے پر سب کا اتفاق ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس قسم کی گواہی پر اس حق کے بارے میں قبول کرلی جائے جو شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتا کیونکہ دین ایسا حق ہے جو شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتا۔ غیر مالی معاملات میں عورتوں کی گواہی کے جواز پر آیت قرآنی کی بھی دلالت ہورہی ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مدت کے معاملے میں اس گواہی کو جائز قرار دیا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً فاکتبوہ) پھر ارشاد ہوا ( فان یکونا رجلین فرجل وامراتان) اس طرح مدت کے معاملے میں ایک مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو جائز قرار دیا حالانکہ مدت مال نہیں ہے لیکن مال کے معاملے کی طرح مدت کے معاملے میں بھی عورت کی گواہی جائز قرار دی گئی۔ اگر یہ کہاجائے کہ مدت تو مال میں ہی واجب ہوتی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ مدت بھی جان کی کفالت اور آزاد مردوں سے منافع حاصل کرنے کے اندر بھی واقع ہوتی ہے جواز قسم مال نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ قتل کے مقدمے میں حاکم مدعی کو قتل کا نیز اولیاء مقتول کی طرف سے قاتل کو معاف کردینے کے دعوعے کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اتنی مدت کی مہلت دے دیتا ہے جس میں پیش قدمی ممکن ہوسکے۔ اس لیے معترض کا یہ کہنا کہ مدت صرف مال کے اندر ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک بضع یعنی عورت کے ساتھ نکاح کی بنیاد پر جنسی تعلق قائم کرنے اور اسکی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال کرنے کا عمل بھی مال کے بدلے میں ہوتا ہے اور نکاح کا انعقاد بھی مال کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے ان میں عورتوں کی گواہی کا جواز ہونا چاہیے۔ قول باری ( ممن ترضون من الشھداء ان گواہوں میں سے جن سے تم راضی ہو) اس پر وال ہے کہ گواہوں کی تعدیل کا کام یعنی چھان بین کے ذریعے ان کی امانت و دیانت معلوم کرنا اور انہیں عادل قرار دینا ہماری رائے کے اجتہاد کے سپرد کردیا گیا ہے۔ نیز ان کی عدالت اور سلامت روی کا معاملہ بھی ہمارے ظن غالب کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے کہ ایک گواہ کی عدالت اور دیانت بعض لوگوں کے ہاں ان کے ظن غالب کی بنا پر پسندیدہ نہ ہو اور وہ ان کے نزدیک پسندیدہ ہو جبکہ بعض دوسروں کے نزدیک ان کے ظن غالب کی بنا پر پسندیدہ نہ ہو اس لیے قول باری ( ممن ترضون من الشھداء) ظن غالب اور رائے کے جھکائو پر مبنی ہے تاہم گواہی کا معاملہ جن امور پر مبنی ہے وہ تین ہیں اول عدالت دوم نفی تہمت خواہ عادل ہی کیوں نہ ہو اور سوم بیدار مغزی، قوت حافظہ اور قلت غفلت۔ عدالت کی بنیاد ایمان، کبائر سے اجتناب، واجبات و مسنونات ہیں اللہ کے حقوق کی نگہداشت، صدق لسان، امانت و دیانت ہے نیز اسے کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے کی بنا پر حد قذف نہ لگی ہو۔ نفی تہمت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جس کے متعلق گواہی دے رہا ہے وہ نہ اس کا باپ ہو، نہ بیٹا، نہ شوہر اور نہ بیوی، نیز یہ کہ اس نے کبھی اس قسم کی گواہی نہ دی ہو کہ اس کی یہ گواہی کسی تہمت کی بنا پر رد کردی گئی ہو۔ ان مذکورہ بالا لوگوں کے حق میں گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ خواہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ تیسری چیز یعنی بیدار مغزی، قوت حافظہ اور قلت غفلت تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ غفلت کا مارا نہ ہو کہ صورت حال کا پتہ ہی نہ رکھتا ہو اور اسے معاملات کی نا تجربہ کاری کی بنا پر آسانی سے پٹی پڑھائی جاسکتی ہو اس لیے کہ ایسے لوگوں کو بعض دفعہ ایک گھڑی گھڑائی رٹا دی جاتی ہے اور پھر وہ اسے عدالت کے سامنے دہرا دیتے ہیں۔ ابن رستم نے امام محمد بن الحسن سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک عجمی شخص کے متعلق جو بڑا ہی نمازی اور بہت زیادہ روزے رکھتا تھا لیکن بنیادی طور پر بڑا ہی بیخبر اور سادہ لوح تھا اور خطرہ یہ رہتا کہ اسے آسانی سے پٹی پڑھائی جاسکتی ہے، نیز فرمایا کہ گواہی کے معاملے میں یہ فاسق سے بھی بدتر ہے۔ ہمیں بعدالرحمن بن سیما المبحر نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں اسود بن عامرنے، انہیں ابن ہلال نے اشعث حدانی سے کہ ایک شخص نے حسن بصری سے شکایت کی کہ قاضی شہر ایاس نے میری گواہی رد کردی۔ حسن بصری اس شخص کے ساتھ اٹھ کر قاضی صاحب کے پاس چلے گئے اور ان سے گواہی قبول نہ کرنے کی وجہ پوچھی اور ساتھ ہی یہ حدیث سنائی کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( من استقبل قبلتنا واکل من ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ فدمۃ رسولہ جس نے ہمارے قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور ہمارے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھالیا تو وہ مسلمان ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی ذمہ داری لی گئی ہے۔ یہ سن کر ایاس نے کہا، بزرگو، آپ نے یہ آیت نہیں سنی ( ممن ترضون من الشھداء) اور آپ کا رفیق ہماری نظروں میں پسندیدہ نہیں ہے “ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں ابوبکر محمد بن عبدالوہاب نے اور انہیں السری بن عاصم نے اپنی سند سے کہ انہوں نے ایاس بن معاویہ کے پاس حسن بصری کے شناسائوں میں سے ایک شخص کو دیکھا تھا جس کی گواہی ایاس نے رد کردی۔ یہ خبر حسن کو پہنچی تو انہیں بڑا غصہ آیا اور اپنے رفقاء کو لے کر ایاس کے پاس پہنچ گئے اور غضبناک ہو کر ان سے گویا ہوئے کہ تم نے ایک مسلمان کی گواہی رد کردی انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے ان کی توج آیت ( ممن ترضون من الشھداء) کی طرف دلائی اور کہا کہ میری نظروں میں یہ پسندیدگی کی ایک شرط یہ ہے کہ گواہ بیدار مغز ہو، جو کچھ سنے اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کرلے اور پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ گوہی دے۔ بشرین الولید نے امام ابو یوسف سے عدل کی توضیح میں بہت سے باتیں نقل کی ہیں۔ ایک یہ کہ عدالت کی صفت اس شخص میں پائی جائے گی جوان گناہوں سے بچتا ہو جن میں حدود لازم ہوجاتی ہیں اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے بھی پرہیز کرتا ہو جو کبائر کہلاتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کرتا ہو اور اس کی ذات میں نیکی کی باتیں چھوٹے چھوٹے معاصی سے بڑھ کر ہوں۔ امام ابو یوسف نے فرمایا کہ ایسے شخص کی گواہی ہم قبول کرلیں گے۔ اس لیے کہ کوئی شخص گناہوں سے بچ نہیں سکتا، اگر اس کے اندر گناہ کی باتیں نیکی کی باتوں سے بڑھ کر ہوں گی تو اس کی گواہی رد کردیں گے۔ ہم اس شخص کی گواہی قبول نہیں کریں جو شطرنج کھیلتا اور اس پر جوئے کی بازی لگاتا ہو، نہ ہی اس شخص کی جو کبوتر باز ی کا شوقین ہو اور کبوتر بازی کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہو نہ اس شخص کی جو بہت زیادہ جھوٹی قسمیں کھاتا ہو۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے نماز با جماعت ترک کردی اور اس کی وجہ جماعت کی اہمیت کو نظرانداز کرنا یا فسق و فجور یا ٹھٹھا مخمول ہو تو ایسے شخص کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ اگر وہ کسی تاویل کی بنا پر نماز با جماعت کا تارک ہوگیا اور بقیہ باتوں میں وہ صفت عدل سے متصف ہو تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اگر وہ مسلسل صبح کی نماز با جماعت ترک کرے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی دروغ گوئی معروف و مشہور ہو تو ہم اس کی گواہی رد کردیں گے اگر وہ اس میں مشہور نہ ہو بلکہ کبھی کبھار وہ اس کا ارتکاب کرتا ہو لیکن اس کی ذات میں خیر کا پہلو شر کے پہلو سے بڑھ کر ہو تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ اس لیے کوئی شخص گناہوں سے بچ نہیں سکتا بشرین الولید نے مزید کہا کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف اور ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اہل ہوا و ہوس یعنی بندگان نفس اگر صفت عدل سے متصف ہوں تو ان کی گوہی قابل قبول نہ ہوگی۔ البتہ راففیوں یعنی شعیوں کا ایک گروہ جو خطابیہ کے نام سے مشہور ہے۔ مجھے ان کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلف اٹھا لیتے ہیں، گواہی دے دیتے ہیں نیز ایک دوسرے کی تصدیق بھی کردیتے ہیں۔ اسی بنا پر میں نے ان کی گواہی کو باطل قرار دے دیا ہے۔ امام ابو یوسف نے مزید فرمایا کہ جو شخص اصحاب رسول ﷺ کے خلاف بد زبانی کرے گا اس کی گواہی بھی ناقابل قبول ہوگی اس لیے کہ اگر کوئی شخص عام لوگوں اور پڑوسیوں سے بدکلامی اور بد زبانی کرتا ہے تو میں اس کی گواہی رد کردیتا ہوں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو بہر حال عام لوگوں سے درجے میں بلند اور مرتبے میں بڑھ کر ہیں۔ امام ابو یوسف نے مزید فرمایا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اگرچہ آپس میں لڑائیاں بھی ہوتی رہیں، گردنیں بھی اترتی رہیں لیکن دونوں فریقوں کی گواہی قابل قبول رہی اس لیے کہ یہ جنگ وجدل تاویل (یعنی وجہ شرعی جیسے ہر فریق نے اپنے خیال کے مطابق درست سمجھ رکھا تھا) کی بنا پر ہوئی تھی۔ یہی مسئلہ ان بندگان نفس کا ہے جو اپنے لیے کوئی نہ کوئی وجہ نکال لیتے ہیں جس شخص کے متعلق لوگوں سے دریافت کرنے پر یہ جواب ملے کہ ہم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سب و شتم میں ملوث پاتے ہیں تو میں ان کی یہ بات اس وقت تک تسلیم نہیں کروں گا جب تک کہ وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے اب سب وشتم کرتے ہوئے سنا ہے اگر لوگ کسی کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر فسق و فجور کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے اگرچہ ہم نے اس کا فسق و فجور دیکھا نہیں ہے تو میں ان کی بات قبول کرتے ہوئے اس شخص کی گواہی کو جائز قرار نہیں دوں گا۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر لوگ کسی شخص کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر سب وشتم کا الزام عائد نہیں کرتے تو وہ کہہ کر اس کے لیے صلاح اور نیکی کا اثبات کرتے ہیں اور جس کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر سب وشتم کا الزام عائد کرتے ہیں تو ان کی یہ بات سماع کے بغیر قبول نہیں کی جائے گی اور جس کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر فسق و فجور کا الزام دھرتے ہیں اور اس کے بارے میں ہمارا یہ خیال ہے اگرچہ ہم نے اس میں فسق و فجور کی کوئی بات نہیں دیکھی ہے تو میں ان کی یہ بات قبول کرلوں گا اور اس کی گواہی کو جائز قرار نہیں دوں گا ۔ اگرچہ لوگ اس کی عدالت اور نیکی کا ثبوت بھی پیش کردیں۔ ابن رستم نے امام محمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں خوراج کی گواہی قبول نہیں کروں گا کیونکہ انہوں نے بغاوت کر کے مسلمانوں سے قتال کیا تھا۔ ابن رستم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے دریافت کیا کہ آپ ان کے ایک حووریہ کی گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں ان کی گواہی کیوں جائز قرار نہیں دیتے ۔ جواب میں اما م محمد نے فرمایا ۔ جب تک انہوں نے خروج نہیں کیا اس وقت تک یہ ہمارے اموال کو اپنے لیے حلال نہیں سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے خروج کیا تو ہمارے اموال کو اپنے لیے جائز سمجھنے لگے ۔ اسی لیے جب تک انہوں نے خروج نہیں کیا تھا ان کی گواہی جائز تھی۔ ہمیں ابوبکر مکروم بن احمد نے روایت بیان کی اور انہیں احمد بن عطیہ الکوفی نے کہ میں نے محمد بن سماعہ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے امام ابو یوسف سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے یہ سنا ہے کہ حاکم وقت پر بخیل کی گواہی قبول کرلینا واجب نہیں ہے اس لیے کہ اس کے بخل کی شدت اسے بال کی کھال نکالنے پر مجبور کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ نقصان اٹھانے کے خوف سے اپنے حق سے زیادہ لے لیتا ہے ، اس لیے جس شخص کی یہ کیفیت ہوگی وہ عادل نہیں ہوسکتا۔ میں نے حماد بن ابی سلیمان سے سنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابراہیم نخعی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضر ت علی ؓ نے فرمایا : لوگو ! میانہ روی اختیار کرو نہ تو بخیل بنو اور نہ ہی کمینے ، بخیل اور کمینے لوگوں پر جب کسی کا حق ہوتا ہے وہ اسے ادا نہیں کرتے اور اگر کسی سے حق لینا ہو تو پورا پورا وصولی کرتے ہیں ۔ مومن کی فطرت میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ شریف اور اعلیٰ اخلاق کا مالک انسان کبھی سر چڑھ کر اپناحق وصول نہیں کرتا ۔ قول باری ہے عرف بعضہ و اعرض عن بعض اس کا کچھ حصہ بتلا دیا اور کچھ کو ٹال گئے ہمیں مکرم بن احمد نے روایت بیان کی ، انہیں احمد بن حمد بن المغلس نے ، انہوں نے الجمانی سے سنا، انہوں نے عبد اللہ بن المبارک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو سنا کہ انہوں نے فرمایا جس شخص کے اندر بخل ہوا س کی گواہی جائز نہیں ۔ اس کا بخل اسے تقصی یعنی چھان بین کرنے اور بال کی کھال اتارنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اس عادت کی بنا پر ڈرتا رہتا ہے کہ نقصان نہ ہوجائے جس کے تحت وہ اپنے حق سے زیادہ لے لیتا ہے ۔ ایسا آدمی عادل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کی ایک روایت یا اس بن معاویہ سے بھی منقول ہ۔ ابن لہینہ نے ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن سے یہ نقل کیا ہے کہ میں نے ایا س بن معاویہ سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ عراق کے اشراف کی گواہی کو جائز قرار نہیں دینے ، نیز بخیلوں اور سمندر کے راستے تجارت کرنے والوں کی گواہی کو بھی قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے جواب میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ہندوستان کی طرف بغرض تجارت بحری سفر کرتے ہیں وہ دنیا کی لالچ اور طمع میں آ کر اپنے دین کو خطرے میں ڈالتے اور اپنے دشمنوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔ مجھے اس چیز کا علم ہے کہ ان لوگوں کی نفسیات یہ بن چکی ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کو دو درہم دے کر گواہی دینے کے لیے کہا جائے تو وہ اس کے لیے تیار ہوجائے گا اور اسے گناہ تصور نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے اپنے دین کو خطرے میں ڈالنے کی بات خیال کرے گا جو لوگ فارس کے دیہاتوں میں چل پھر کر تجارت کرتے ہیں وہ وہاں کے لوگوں کو سود کھلاتے ہیں جبکہ انہیں اس کا علم بھی ہ۔ اس لیے میں نے سود خو وروں کی گواہی کو جائز قرار دینے سے انکار کردیا۔ عراق کے اشراف کا یہ حال ہے کہ جب ان میں سے کسی پر یہ مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی قوم کے سردار کے پاس آ جاتا ہے۔ وہاں اس کے حق میں گواہیاں دی جاتی ہیں اور اس کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس لیے میں نے عید الاعلیٰ بن عبد اللہ بن عامر کو یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ میرے پاس کوئی گواہی لے کر نہ آئے۔ سلف سے ایسے لوگوں کی گواہی رد کردینے کی روایت منقول ہے جن سے ایسی حرکات کا ظہور ہو جن کے مرتکب لوگوں کے متعلق قطعی طور پر فاسق و فاجر ہونے کا حکم تو نہ لگایا جاسکتا ہو لیکن ان کی یہ حرکتیں کم عقلی یا بےحیائی پر دلالت کرتی ہوں ۔ سلف نے ایسے کی گواہی رد کردینے کا مسلک اختیار کیا ۔ ڈاڑھی کے بال اکھاڑ دینے والے کی گواہی اس سلسلے میں ایک روایت عبد الرحمن بن سیما نے بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں محمود بن خداش نے ، انہیں زید بن الحباب نے ، انہیں دائود بن حاتم البصری نے بتایا کہ حاکم بصرہ بلال بن ابی بردہ ایسے شخص کی گواہی کو جائز قرار نہیں دیتے تھے جو مٹی کھاتا ہو یا اپنی ڈاڑھی کے بال اکھیڑتا ہو۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حماد بن محمد نے ، انہیں شریح نے ، انہیں یحییٰ بن سلیمان نے ابن جریج سے کہ مکہ مکرمہ کے ایک شخص نے حضرت عمرو بن عبد العزیز کے پاس کسی بات کی گواہی دی ۔ یہ شخص اپنی ڈاڑھی کے بال اکھیڑ دیتا اور اپنی ڈاڑھی اور مونچھوں کے ارد گرد کے حصوں کو مونڈ دیتا تھا۔ حضرت عمربن عبدالعزیز نے اس سے اس کا نام پوچھا جب اس نے اپنا نام بتایا تو آپ نے فرمایا کہ تیرا نام یہ نہیں ہے بلکہ یہ نہیں ہے بلکہ تیرا نام ناتف بال اکھیڑنے والا ہے یہ کہہ کر آپ نے اس کی گواہی رد کردی ۔ ہمیں عبد الباقی نے یہ روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد سعد نے ، انہیں اسحاق بن ابراہیم نے ، انہیں عبد الرحمن بن محمد نے جعد بن ذاکوان سے کہ ایک شخص نے قاضی شریح کی عدالت میں اپنے ایک گواہ کا نام لے کر پکارا ، گواہ کا نام ربیعہ تھا لیکن گواہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس نے اسے اے کا قرریعیہ کہہ کر آواز دی تو وہ بول پڑا ۔ اس پر قاضی شریح نے اس سے کہا کہ جب تمہارا نام لے کر تمہیں پکارا گیا تو تم نے جواب نہیں دیا ۔ جب کفر کے نام سے تمہیں پکارا گیا تو تم بول اٹھے۔ یہ سن کر اس شخص نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ اللہ آپ کا بھلاکرے یہ تو میرا لقب ہے، قاضی صاحب نے یہ سن کر اسے وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا اور اس شخص سے کوئی اور گواہ لانے کے لیے کہا ۔ ہمیں عبد الباقی نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے انہیں ان کے والدنے ، انہیں اسماعیل بن ابراہیم نے ، انہیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے ، انہوں نے جابر بن زید سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ اقلف جس کا غتنہ نہ ہوا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ۔ حماد بن ابی سلمہ نے ابو المہزم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ نخاسین یعنی گدھوں کی تجارت کرنے والوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ غلاموں اور جانوروں کے تاجروں کو نخا سین کہا جاتا ہے۔ کبوتر باز کی گواہی قاضی شریح سے منقول ہے کہ وہ کبوتر باز اور کبوتروں کی گواہی کو جائز قرار نہیں دیتے تھے مسعر کی روایت ہے کہ ایک شخص نے قای شریح کی عدالت میں گواہی دی ۔ اس کی قبا کی آستین تنگ تھی ۔ انہوں نے یہ کہہ کر اس کی گواہی رد کردی کہ یہ اس حالت میں وضو کیسے کرتا ہوگا۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں معاذ بن المنتنیٰ نے ، انہیں سلیمان بن حرب نے ، انہیں جریر بن حازم نے اعمش سے ، انہوں نے تمیم بن سلمہ سے کہ ایک شخص نے قاضی شریح کے پاس ان الفاظ میں گواہی دی کہ میں اللہ کی گواہی کے ذریعے گواہی دیتا ہوں ۔ یہ سن کر قاضی صاحب نے فرمایا تو نے اللہ کی گواہی کے ذریعے گواہی دی اس لیے آج میں تیری کسی گواہی کو جائز قرار نہیں دوں گا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب قاضی شریح نے یہ دیکھا کہ یہ شخص گواہی دینے میں خواہ مخواہ ایسا انداز اختیار کررہا ہے جو اس پر لازم نہیں تو انہوں نے اسے اس کا اہل ہی نہیں سمجھا کہ اس کی گواہی قبول کرلی جائے۔ مذکورہ بالا امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے سلف نے لوگوں کی گواہیاں رد کردی تھیں لیکن یہ امور ایسے نہیں ہیں کہ ان کے مرتکبین کے متعلق قطعیت کے ساتھ فسق و فجور اور صفت عدالت کے سقوط کا حکم لگا دیا جائے ۔ البتہ ان امور کا ظاہر ان کے مرتکبین کی بےحیائی اور کم عقلی پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے سلف نے ان کی گواہیاں ردکر دیں ۔ در حقیقت سلف میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور سمجھ کی روشنی میں قول باری ممن ترضون من الشھد کے ظاہر کی موافقت کی کوشش کی ۔ اس لیے جس کا ظن غالب یہ ہوا کہ فلاں گواہ کے اندر بےحیائی یا کم عقلی یا دین کے معاملے میں استہزاء اور تضحیک کا رویہ ہے اس کی گواہی ساقط کردی ۔ امام محمد کتاب ادب القاضی میں بیان کیا ہے کہ جس شخص کے رویے سے بےحیائی ظاہر ہو میں اس کی گواہی قبول نہیں کروں گا یہ بھی لکھا ہے کہ مخنث کی گواہی جائز نہیں اور نہ ہی کبوتر باز کی ، سفیان بن عینیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے قاضی ابن ابی لیلیٰ کی عدالت میں گواہی دی ۔ انہوں نے اس کی گواہی رد کردی ۔ میں نے ان سے کہا کہ اس جیسے شخص کی گواہی آپ نے رد کردی جبکہ یہ خود بھی اچھا ہے اور اس کے بیٹے کا حال بھی اچھا ہے ، قاضی صاحب کہنے لگے تمہارے ذہن سے یہ بات کیوں نکل گئی کہ یہ فقیر ہے اور مفلس ہے۔ اس طرح ان کے نزدیک افلاس اور فقر گواہی کے مانع تھا کیونکہ ایسے شخص کے متعلق یہ اطمینان نہیں ہوتا کہ کہیں فقر و تنگدستی اسے مال کی طرف راغب کر کے غلط قسم کی گواہی پر آمادہ نہ کردے۔ اما م مالک کا قول ہے کہ بہت زیادہ چیزیں مانگنے والوں کی گواہی جائز نہیں ۔ البتہ چھوٹی موٹی چیزیں مانگ لینے والوں کی گواہی جائز ہوگی بشرطیکہ وہ عادل ہیں ۔ اس طرح امام مالک نے فقر کے ساتھ سوال کرنے اور مانگنے کی شرط بھی لگا دی اور بہت زیادہ چیزیں مانگنے والوں کی گواہی تہمت کی بنا پر قبول نہیں کی ۔ چھوٹی موٹی چیزیں مانگنے والوں کی گواہی قبول کرلی کیونکہ اس صورت میں تہمت کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ مزنی اور ربیع نے امام شافعی سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر کسی شخص کی سیرت و کردار میں طاعت اور مروت کا غلبہ ہوا ور یہ دونوں باتیں اس کی ذات میں واضح ہوں تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی لیکن اگر اس پر معصیت اور عد م مروت کا غلبہ ہوگا تو اس کی گواہی رد کردی جائے گی۔ محمد بن عبد اللہ عبد الحکم نے امام شافعی سے یہ نقل کی ہے کہ جب کسی شخص کی شب و روز کی زندگی میں طاعت غالب ہوگی اور وہ کبیرہ گناہوں کی طرف نہ بڑھاتا ہوگا تو ایسا شخص صف عدالت سے متصف ہوگا ۔ جہاں تک مروت کی شرط کا تعلق ہے تو اگر اس سے مراد اپنے آپ کو عیب کی باتوں سے بچانا ، سنجیدہ خاموشی ، عزت نفس کی حفاظت اور بے حیائی اور کم عقلی سے پرہیز ہے تو امام شافعی کا قول درست ہے لیکن اگر اس سے ان کی مراد لباس کی نظامت ، اچھی سواری ، عمدہ سازو سامان اور خوب صورت ہیئت کذائی ہے تو ان کی بات درست نہیں بلکہ یہ ایک ناحق بات ہے کیونکہ کسی کے ہاں بھی یہ باتیں گواہی کی شرائط میں داخل نہیں ہیں۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ پچھلی سطور میں ہم نے گواہی کے متعلق سلف اور فقہاء امصار کے جن اقوال کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلے میں ہر ایک کے نقطہ نظر کی جو نز جمانی کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے قبول شہادت کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے جو اس معاملے میں اس کے اجتہاد پر غالب اور اس کی سوچ و مستولی رہی کہ فلاں گواہی پسندیدہ اور قابل اعتماد ہے۔ البتہ سلف اور فقہاء امصار کا اس بارے میں اختلاف ہے اگر ایک شخص کی سیرتو کردار میں شک و شبہ کی کوئی بات نہیں پائی جاتی تو آیا گواہی دیتے وقت حاکم اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کرے گا یا نہیں ۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ (علیہ السلام) کو قضا یعنی مقدمات کے فیصلوں کے متعلق تحریر ی ہدایات کے طور پر جو سرکاری خط لکھا تھا اس میں تحریر تھا۔ تمام مسلما ن ایک دوسرے کے معاملات کے لحاظ سے عادل ہیں یعنی صفت عدالت سے متصف ہیں۔ البتہ وہ شخص ان میں شامل نہیں جسے کسی حد میں کوڑے لگے ہوں ، یا جھوٹی گواہی دینے میں آزمودہ ہو یا ولاء اور رشتہ داری کے لحاظ سے مشکوک ہو ۔ منصور کا قول ہے کہ میں نے ابراہیم سے پوچھا کہ مسلمانوں میں صفت عدالت کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جس شخص کی سیرت و کردار میں شک و شبہ میں ڈالنے والی کوئی بات نہ ہو وہ صفت عدالت سے متصف ہوتا ہے ۔ حسن بصری اور شعبی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ معمر نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب حسن منصب قضا پر فائز ہوئے تو وہ مسلمانوں کی گواہیوں کو جائز قراردیتے تھے۔ البتہ اگر فریق مخالف گواہ پر اعتراضات کرتا تو پھر اس کی گواہی قبول نہ کرتے۔ ہشیم نے ذکر کیا ہے کہ ابن شبرمہ کو میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ تین کام ایسے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں کیے اور میرے بعد کوئی بھی انہیں ترک نہیں کرے گا ۔ اول گواہوں کے متعلق چھان بین ، دوم فریقین کے دلائل کا اثبات یعنی ثبوت طلب کرنا ، سوم گواہوں سے سوال کرنے میں شریں زبانی۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا میں گواہوں کے متعلق پوچھ گچھ نہیں کرتا ، البتہ اگر وہ فریق جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہو گواہوں پر اعتراضات کرے تو پھر میں کھلے بندوں اور خفیہ طور پر گواہوں کے متعلق چھان بین کروں گا اور کھلے بندوں ان کا تزکیہ کروں گا ۔ یعنی ان کی سلامت روزی اور پاکبازی کی توثیق کر ائوں گا ۔ البتہ اگر حدود اور قصاص کے گوا ہ ہوں گے تو خفیہ طور پر ان کے متعلق لوگوں سے پوچھوں گا اور علانیہ ان کا تزکیہ کروں گا۔ گواہ معیاری ہوں امام محمد کا قول ہے کہ گواہوں کے متعلق چھان بین کی جائے گی خواہ کسی نے ان پر اعتراضات نہ بھی کیے ہوں ۔ یوسف بن موسیٰ قطان نے علی بن عاصم سے ، انہوں نے ابن شبرمہ سے نقل کیا ہے کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے خفیہ طور پر گواہوں کے متعلق چھان بین کی ہوتا یہ ہے کہ جب کسی گواہ سے کہا جاتا کہ ایسے آدمی لے آئو جو تمہاری سلامت روی اور نیکی و پاکبازی کی توثیق کردیں تو وہ شخص اپنے لوگوں کو لے آتا اور کہتا کہ یہ میری قوم میری متعلق توثیق کرے گی۔ اس کے آدمی یہ سن کر شرما جاتے اور اس کی توثیق کردیتے ۔ جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو میں نے خفیہ طور پر چھان بین شروع کی ۔ جب وہ گواہی کے معیار پر پورا اترتا تو میں اس سے کہتا کہ ایسے آدمی لائو جو علانیہ تمہاری توثیق کردیں۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ گواہوں کے متعلق علانیہ اور خفیہ طور پر چھان بین کی جائے گی اور علانیہ طور پر ان کے متعلق توثیق کرائی جائے گی ۔ خواہ فریق مخالف نے ان پر اعتراضات نہ بھی کیے ہوں ۔ امام مالک کا قول ہے کہ گواہوں کی گواہی پر اس مدت تک فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک خفیہ طور پر ان کے متعلق معلومات حاصل نہیں کرلی جائیں گی۔ لیث بن سعد کا قول ہے ۔ میں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ کسی مقدمے میں دونوں گواہوں سے تزکیہ یعنی اپنے بارے میں نیک چلتی اور پاکبازی کی توثیق کرانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ والی یا حاکم وقت فریق مخالف سے صرف اتنا کہتا کہ اگر کسی کو ان کی گواہی پر کوئی اعتراض ہے تو اسے پیش کرو ورنہ تمہارے خلاف ان کی گواہی کو میں جائز قرار دے دوں گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ گواہوں کے متعلق خفیہ طور پر لوگوں سے پوچھا جائے گا۔ جب اس کی عدالت کی توثیق ہوجائے گی تو علانیہ طور پر اس کی صفت عدالت سے متصف ہونے کے متعلق پوچھا جائے گا تا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ خفیہ طور پر جس شخص کی تعدیل کی گئی تھی یہ وہی شخص ہے تا کہ نام نام کے ساتھ اور شجرۂ نسب شجرۂ نسب کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں سلف میں جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ جس شخص کا اسلام ظاہر ہوجائے وہ عادل ہے یعنی صفت عدالت سے متصف ہے تو ان حضرات کے اس قول کی بنیادیہ ہے کہ اس زمانے میں عامۃ الناس کے اندر عدالت کا وصف پایا جاتا تھا اور فسق و فجور کے مرتکبین کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے قرن اول ، قرن ثانی اور قرن ثالث کو متعلق خیر و صلاح کی خود گواہی دی تھی ۔ ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے انہیں ان کے والد نے ، انہیں عبد الرحمن بن مہدی نے ، انہیں سفیان نے منصور سے ، انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے عبید ہ سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ؐ نے فرمایا خیر الناس قولی ثم الذین یلونھم ثلاث اواریع ثم یجی قوم تسبق شھادۃ احدھم یمینہ ویمینہ شھادتہ میرے زمانے کے لوگ سب سے بہتر ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں یہ فقرہ آپ نے تین یا چار بار فرمایا پھر ایسے لوگ آئیں گے جن میں کوئی ایسا بھی ہوگا جس کی گواہی اس کے قسم سے سبقت کر جائے گی اور اس کی قسم اس کی گواہی سے سبق لے جائے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے تو اس وقت گواہی اور عہد کے معاملے میں ہمارے بڑے ہماری پٹائی کردیا کرتے تھے ۔ سلف اور فقہا امصار نے گواہ کی عدالت اور گواہی کے جواز کے متعلق جو رائے قائم کی تو اس کی وجہ وہی ہے جو اس زمانے کے مسلمانوں کے احوال کے بارے میں ہم بیان کر آئے ہیں یعنی سلف اور فقہاء امصار کے زمانے کے مسلمان عام طور پر صفت عدالت سے متصف ہوتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی بےراہر اور فسق و فجور کا دلدادہ ہوتا تو اس پر تنقید ہوتی اور نا پسندیدگی کا اظہار کیا جاتا اس طرح اس کے متعلق صورت حال سے ہر شخص واقف ہوجاتا ۔ امام ابوحنیفہ قرن ثالث میں گزرے ہیں جس کے متعلق حضور ﷺ نے خیر و صلاح کی گواہی دی ہے جس کا ذکر ما قبل کی حدیث میں گزر چکا ہے ۔ اس لیے امام صاحب نے اس زمانے کے لوگوں کے عام دینی اور اخلاقی حالات کو دیکھتے ہوئے گواہوں کے متعلق اپنا موقف اختیار کیا ۔ جس کا تذکرہ پہلے گزر گیا ہے۔ اگر امام صاحب بعد کے پیدا شدہ حالات کو دیکھ لیتے تو یقینا گواہوں کے متعلق وہی موقف اختیار کرتے جو اس بارے میں دوسرے اہل علم کا ہے اور پھر چھان بین سے قبل کسی گواہ کی عدالت کا حکم نہ لگاتے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے اس بدو سے جس نے رویت ہلال رمضان کی گواہی دی تھی یہ پوچھا تھا کہ تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں بدو نے اثبات میں جواب دیا ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا اور اس بدو کے ظہور اسلام کے بعد اس کی عدالت کے متعلق کسی سے کچھ نہیں پوچھا۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ابھی بیان کر آئے ہیں۔ ہمارے اس پورے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی ۔ تعدیل کا معاملہ اور گواہوں کا تزکیہ نیز ان کا پسندیدہ ہونا ان تمام باتوں کی بنا اجتہاد رائے اور ظن غالب پر رکھ دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ بات خارج ازامکان ہے کہ ہمارا محدود علم لوگوں کے تمام پوشیدہ احوال کا احاطہ کرلے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انسان کی ظاہری حالت سے دھوکہ کھا جانے اور نیکی اور دیانت داری کے متعلق اس کے زبانی دعوے کے پھندے میں آ کر اس کی طرف جھک جانے سے ہمیں خبردار کردیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیوۃ الدنیا اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں کہ دنیاوی زندگی میں جن کی باتیں تمہیں بہت بھلی لگیں گئی پھر آگے چل کر ایسے شخص کی حقیقت حال اور پوشیدہ صورت کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل ۔ اور جب اسے اقتدا ر مل جاتا ہے تو زمین میں فسادمچانے اور کھیتی باڑی اور نسل انسانی کو ہلاک کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ ان دونوں آیتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے انسان کا پول کھول دیا جس کی ظاہری باتیں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہیں ۔ اسی طرح ایک اور گروہ کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا واذا رایتھم تعجبک اجسامھم اور جب تم انہیں دیکھو گے تو تمہیں ان کے جسم بڑے بھلے لگیں گے تا آخر آیت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو انسان کی ظاہری حالت سے دھوکہ کھا جانے سے خبردار کیا اور ہمیں حضور ﷺ کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا واتبعوہ اور ان کی پیروی کرو نیز فرمایا لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات میں اچھا نمونہ موجود ہے۔ جب لوگوں کی دینی اور اخلاقی حالت گری ہوئی ہو جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں تو پھر یہ بات جائز نہیں ہے کہ کسی انسان کی گواہی کے متعلق چھان بین اور اس کی اصلی حالت کے بارے میں پوچھ گچھ کے بغیر اس کی ظاہری حالت کی بنا پر اس کی طرف جھکائو ظاہر کردیا جائے ۔ جھکائو یا میلان کا اظہار اس وقت کرنا چاہتے جب چھان بین کے نتیجے گواہی سے قبل ہی اس کی عدالت اور دیانت کا معاملہ واضح ہوجائے گا ۔ (آیت 282 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top