Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو ایمان لائے (ایمان والو)
اَنْفِقُوْا
: تم خرچ کرو
مِنْ
: سے
طَيِّبٰتِ
: پاکیزہ
مَا
: جو
كَسَبْتُمْ
: تم کماؤ
وَمِمَّآ
: اور سے۔ جو
اَخْرَجْنَا
: ہم نے نکالا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مِّنَ
: سے
الْاَرْضِ
: زمین
وَلَا
: اور نہ
تَيَمَّمُوا
: ارادہ کرو
الْخَبِيْثَ
: گندی چیز
مِنْهُ
: سے۔ جو
تُنْفِقُوْنَ
: تم خرچ کرتے ہو
وَلَسْتُمْ
: جبکہ تم نہیں ہو
بِاٰخِذِيْهِ
: اس کو لینے والے
اِلَّآ
: مگر
اَنْ
: یہ کہ
تُغْمِضُوْا
: تم چشم پوشی کرو
فِيْهِ
: اس میں
وَاعْلَمُوْٓا
: اور تم جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
غَنِىٌّ
: بےنیاز
حَمِيْدٌ
: خوبیوں والا
مومنو ! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور وہ چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ خدا بےپرواہ (اور) قابل ستائش ہے
کمائی کرنے کا بیان قول باری ہے (یآ ایھا الذین امنوا انفقوا من طیبات ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ۔ (a) اے ایمان والو ! جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ تم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو) ۔ اس آیت میں کمائی کی صورتوں کی اباحت کا ذکر ہے اور یہ بیان ہے کہ کمائیوں میں پاکیزہ صورتیں بھی موجود ہیں۔ کمائی دو طرح سے ہوتی ہے۔ اموال اور ان کے منافع کی ادلا بدلی کے ذریعے اور چیزوں سے حاصل شدہ فوائد کی ادلا بدلی کے ذریعے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی اباحت کا کئی مواقع پر صراحتہً ذکر فرمادیا ہے۔ ارشاد ہے (واحل اللہ البیع، (a) اللہ نے بیع یعنی خریدو فروخت کو حلال کردیا) اسی طرح ارشاد ہے (واٰخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ واٰخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، (a) کچھ لوگ ہیں جو زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل تلاش کررہے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑ رہے ہیں) ۔ اسی طرح ارشاد ہے (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم، (a) تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) یعنی ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ جو شخص تجارت کرے یا اپنی چی کرایہ پردے دے اور اس کے ساتھ حج بھی کرلے تو اس کے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ چیزوں سے حاصل ہونے والے فوائد کی ادلا بدلی کے متعلق قول باری ہے (فان ارضعنا لکم فآتوھن اجورھن ، (a) اگر وہ تمہارے لئے تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دے دو ) ۔ اسی طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قول قرآن کے الفاظ میں ہے (انی ارید ان انکحک احدبنتی ھا تین علی ان تاجرنی ثمانی حجج، (a) میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں سے ایک بیٹی تم سے اس شرط پر بیاہ دوں کہ تم آٹھ برسوں تک میرا کام کروگے) ۔ مزدور کی مزدوری پہلے طے کرلی جائے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من استاجرا جیرا فلیعلمہ اجرہ، (a) جو شخص کسی کو مزدوری پر رکھے اسے اس کی مزدوری بتادے۔ آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (لان یاخذ احدکم جلاً فیحتطب خیرلہ من ان یسال الناس اعطوہ اومنعوہ۔ (a) تم میں سے کوئی شخص ایک رسی لے کر جنگل میں چلا جائے اور وہاں سے لکڑیاں سمیٹ کرلے آئے یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرے پھر لوگ چاہیں تو اس کی جھولی میں کچھ ڈال دیں اور چاہیں تو اسے کچھ نہ دیں) ۔ اعمش نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے ، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اطیب ما اکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ، (a) انسان کے لئے پاکیزہ ترین غذا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی ہو اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے) سلف کی ایک جماعت سے قول باری (انفقوا من طیبات ما کسبتم) (a) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد تجارت کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ان حضرات میں حسن بصری اور مجاہد بھی شامل ہیں۔ اس آیت کا عمول تمام اموال میں صدقہ واجب کرتا ہے۔ اس لئے کہ قول باری (ماکسبتم) (a) تمام اموال پر مشتمل ہے اگرچہ یہ بیان اموال میں واجب صدقہ کی مقدار کی وضاحت کے لئے کافی نہیں ہے تاہم یہ اموال کے جملہ اصناف کو شامل ہے اور مقدار واجب کے بیان میں مجمل ہے۔ جسے بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی۔ پھر جب حضور ﷺ کی جانب سے اس اجمال کی تفصیل اموات میں صدقات کی واجب مقادیر کی شکل میں آگئی تو اب آیت کے علوم سے ہر اس مال میں صدقہ کے وجوب پر استدلال کرنا درست ہوگیا جس میں ایجاب صدقہ کے متعلق اختلاف رائے ہے مثلاً اموال تجارت وغیرہ۔ جو لوگ عروض یعنی مال اسباب پر زکوٰۃ کی نفی کرتے ہیں۔ ظاہر آیت سے ان کے خلاف استدلال کیا جاسکتا ہے نیز گھوڑوں پر زکوٰۃ کے وجوب کے سلسلے میں بھی آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ مال جس میں وجوب زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہو آیت سے وجوب کے حق میں استدلال ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (انفقوا) (a) سے مراد صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ اس کی دلیل قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون، (a) اور ایسا نہ ہو کہ تم اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو) یعنی یہ بری سے بری چیز اللہ کی راہ میں صدقہ کرو۔ سلف اور خلف میں اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد صدقہ ہے یعنی زکوٰۃ ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے ک اس سے مراد نفلی صدقہ ہے کیونکہ جب زکوٰۃ یعنی فرض صدقہ میں ردی مال ادا کیا جائے گا تو زائد حصہ ادا کرنے والے کے ذمے باقی رہے گا۔ ہمارے نزدیک اس تاویل سے لفظ کو وجوب سے نفل کی طرف کئی وجوہ سے منتقل کرنا لازم آئے گا۔ اول یہ کہ لفظ (انفقوا) (a) امر کا صیغہ ہے۔ اور ہمارے نزدیک امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے تو ندب یعنی استحباب وغیرہ کی نشاندہی کرتی ہو تو اس صورت میں امر وجوب کے لئے نہیں ہوگا۔ قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں جو ندب یعنی غیر وجوب اور استحباب کی نشاندہی کرتی ہو۔ کیونکہ یہ بات نہیں ہے کہ راہ خدا میں ردی مال دینے کی نہی صرف نفلی صدقے کے ساتھ خاص فرض کے ساتھ نہیں ہے اور یہ کہ ردی یعنی گھٹیا اور عمدہ مال کے درمیان فرق کی بنا پر جو زائد مال ہوگا اس کا ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اس لئے کہ آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ بات کسی اور دلالت سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس لئے یہ بات ایجاب صدقہ میں آیت کے مقتضیٰ کی راہ میں یہ حائل نہیں ہوسکتی۔ تاہم اگر آیت کی اس پر دلالت بھی ہوتی کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے ذمے اس گھٹیا مال کے سوا جس کی وہ ادائیگی کرچکا ہے اور کو یء ادائیگی نہیں ہے پھر بھی یہ بات آیت کے حکم کو وجوب سے ندب یعنی استحباب کی طرف موڑ دینا لازم قرار نہیں دیتی کیونکہ یہ صورت جائز ہے کہ خطاب کی ابتداء ایجاب کے ساتھ ہو پھر اس پر ایسے حکم کو عطف کیا جائے جو ایجاب کے عموم کے بعض مقتضیات کے ساتھ خاص ہو لیکن اس بات سے یہ چیز لازم نہیں آتی کہ ابتدائے خطاب کے حکم کو عموم کے مفہوم سے ہٹاکر خصوص کے مفہوم میں منحصر کردیا جائے۔ اس کے بہت سے نظائر ہے جن کا ہم نے متعدد مواقع پر ذکر کیا ہے۔ قول باری (ومما اخرجنا لکم من الارض) (a) میں زمین کی قلیل اور کثیر ہر صنف اور ہر قسم کی پیداوار میں ایجاب حق یعنی وجوب زکوٰۃ کے لئے عموم ہے۔ اس آیت سے امام ابوحنیفہ نے اس پر استدلال کیا ہے کہ زمین میں جن فصلوں اور چیزوں کی بالارادہ کاشت لی جاتی ہے ان کی قلیل اور کثیر ہر صنف اور ہر قسم کی پیداوار میں عشر یعنی دسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ سلسلہ تلاوت میں آیت کا اگلہ حصہ (ولستم باخذیہ الا ان نغمضوا فیہ، (a) اور تم خود بھی اسے لینے والے ہیں ہو الا یہ کہ چشم پوشی کرجائو) پوری ایت کے مفہوم کے تناظر میں اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدقات سے مراد صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہیں۔ کیونکہ اغماض کی صورت دیون میں ہوتی ہے کہ جب صاحب دین اپنے دین کی ادائیگی کا مطالبہ کرے گا تو اسے عمدہ مال کی بجائے گھٹیا مال نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ وہ خود چشم پوشی کرلے اور تساہل برت جائے۔ یہ اس پر دال ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد صدقہ واجبہ ہے کیونکہ ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ دیون کی ادائیگی کا جب تقاضا کیا جائے گا تو اس صورت میں اغماض کی شکل پیدا ہوگی اگر اس سے مراد نفلی صدقہ ہوتا تو اس میں اغماض کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ نفلی صدقہ کرنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ قلیل یا کثیر مال کا صدقہ کرے اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ سرے سے صدقہ ہی نہ کرے۔ اسی بیان میں یہ دلیل پوشیدہ ہے کہ اس سے مراد صدقہ واجبہ ہے۔ قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) کے سلسلے میں زہری نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے صدقہ میں دو قسم کے کھجور دینے سے منع فرمادیا ہے ۔ ایک جعرور اور دوسرا لون جیق زہری کہتے ہیں کہ لوگ بدترین قسم کے کھجور صدقہ میں نکالتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ولا تیممو الخبیث منہ تنفقون) (a) حضرت براہ بن عازب ؓ سے اسی طرح کی روایت ہے۔ آپ نے قول باری (ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ) (a) کی تفسیر میں فرمایا : ” اگر تم میں سے کسی کی طرف وہی چیز بطور ہدیہ بھیج دی جائے جو اس نے خود صدقے کے سلسلے میں کسی کو دیا ہو تو وہ اسے ہرگز قبول نہ کرے۔ البتہ چشم پوسی اور شرما شرمی میں وہ اسے قبول کرے گا۔ “ عبیدہ کا قول ہے کہ یہ بات زکوٰۃ میں ہوتی ہے۔ لیکن ایک کھوٹا درہم مجھے کھجور سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ابن معقل سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں مروی ہے کہ لوگوں کے مال مویشیوں میں خبیث یعنی گھٹیا مال نہیں ہوتا، خبیث کا تعلق سکوں یعنی کھوٹے سکوں اور ردی دراہم ودنانیر سے ہے۔ آپ نے (ولستم بخذیہ) (a) کے سلسلے میں کہا ہے کہ اگر کسی شخص پر قرض وغیرہ کی صورت میں تمہارا حق ہو تو تم کھوٹے اور ردی درہم نہیں لوگے اور اگر کھجور لینے کی صورت ہو تو صرف عمدہ کھجور قبول کروگے۔ الا (a) یہ کہ تم اغماض برتو یعنی اسے برداشت کرجائو۔ حضور ﷺ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ آپ نے مویشیوں کی زکوٰۃ کے متعلق تحریری طور پر جو ہدایت دی تھی اس میں یہ الفاظ تھے (ولا توخذ ھرمۃ ولا ذات عوار، (a) اور نہ ہی صدقہ میں بوڑھا جانور لیا جائے گا اور نہ ہی عیب دار جانور) ۔ یہاں جانور سے مراد بھیڑ بکریاں ہیں۔ اس کی روایت زہری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے۔ قول باری (الا ان تغمضوا فیہ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ الا (a) یہ کہ تم اس کی قیمت میں کمی کردو۔ “ حسن بصری اور قتادہ سے بھی اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایا : ” الا (a) یہ کہ تم تساہل برتو۔ “ ایک قول ہے کہ تم خود اسے لینے والے نہیں مگر کم قیمت پر تو پھر اسے قدصہ میں کس طرح دے سکتے ہو۔ اس میں درج بالا تمام معانی کا احتمال موجود ہے اور یہ جائز ہے کہ یہ تمام احتمالات اللہ کی مراد بھی ہوں اور اس کا مفہوم یہ ہوجائے کہ لوگ اللہ کے راستے میں جو گھٹیا مال دیتے ہیں اور اگر وہی مال ہدیہ کے طور پر دیا جائے تو اسے شرما شرمی قبول کریں گے۔ اگر خود وصول کرنا ہو تو عمدہ مال کے مقابلے میں اسے چشم پوشی اور نیم دلی سے وصول کریں گے اور اگر اس مال کے بدلے کوئی چیز فروخت کریں گے تو قیمت گھٹا کر اور تھوڑی قیمت پر ایسا کریں گے۔ اگر کسی شخص پر مکیل یا موزون کی جنس سے کوئی چیز واجب ہو اور وہ واجب شدہ عمدہ جنس سے کم تر ردی اور گھٹیا جن ادا کردے تو فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس پر زائد کی ادائیگی ضروری ہوگی یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام یوسف کا قول ہے کہ واجب نہیں ہوگی اور امام محمد کا قول ہے کہ گھٹیا اور بڑھیا کے درمیان فرق کی بنا پر جو زائد جنس لازم ہوگی اس پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی۔ تاہم بھیڑ بکریوں، گایوں، بیلوں اور مکیل و موزون کے تحت نہ آنے والی تمام اجناس کی زکوٰۃ کے متعلق تینوں حضرات کا یہ قول ہے کہ بڑھیا اور گھٹیا مال کے درمیان فرق کی وجہ سے جو زائد مال نکلے گا۔ اس پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی۔ اس بنا پر امام محمد کے قول کے لئے اس آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ قول باری (ولاتیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) میں خبیث سے مراد روی اور گھٹیا چیز ہے۔ اور قول باری (ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ) (a) سے اس بات کا جواز ثابت ہوتا ہے کہ حق والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا حق وصول کرنے میں چشم پوشی نہ کرے اور نہ ہی تساہل کرے بلکہ عمدہ مال میں سے اپنا حق مانگے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حق ادا کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ بڑھیا اور گھٹیا کے فرق کی بنا پر پیدا ہونے والے زائد مال کی ادائیگی کردے تاکہ چشم پوشی کا وقوع نہ ہو۔ کیونکہ اس سلسلے میں اصل حق تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور اللہ نے صدقہ میں اغماض کی یوں نفی کردی ہے کہ ردی مال دینے سے روک دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام یوسف کا استدلال یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جس میں تفاضل یعنی کمی بیشی جائز نہیں تو تفاضل کی ممانعت کے لحاظ سے اس میں بڑھیا اور گھٹیا دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے اور اس کے جنس میں سے اس کی قیمت اس کے مثل کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے قرض کی وصولی کرلی اور یہ سمجھتا رہا کہ واپس لی ہوئی رقم بڑھیا سکون میں لوٹائی گئی ہے پھر اس نے یہ صرف کرلی اور اس کے بعد پتہ چلا کہ سکے گھٹیا تھے تو اب وہ زائد رقم کی ادائیگی اس پر لازم نہیں ہوگی۔ امام ابو یوسف یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس صورت میں قرض خواہ وصول کردہ رقم کی مثل اپنے قرض دار کو واپس کرکے پھر اس سے اپنے قرض کی وصول کے لئے رجوع کرے گا۔ لیکن یہ بات صدقہ کی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ فقیر کے ذمے کسی رقم کی واپسی لازم نہیں ہوتی اور اگر فقیر اس رقم کا تاوان بھر بھی دے گا۔ یعنی صدقہ کرنے والے کو وہ رقم واپس بھی کردے گا پھر بھی اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ صدقہ کرنے والے سے یہ مطالبہ کرے کہ اسے عمدہ سکوں میں یہ رقم لوٹا دے گا۔ اس بنا پر اس پر زائد رقم دینا واجب نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو صدقہ کرنے والے کو گھٹیا مال صدقہ یعنی زکوٰۃ میں دینے سے روک دیا اور اس پر عمدہ مال واجب تھا۔ یہ حضرات بھی اسی کے قائل ہیں کہ اسے گھٹیا مال صدقہ میں دینے سے روک دیا گیا ہے۔ یلکن درج بالا سطور میں ہماری وضاحت کی روشنی میں اس نے صدقہ میں جو دیا ہے اس کا حکم وہی ہوجائے گا جو عمدہ مال کا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا دیا ہوا مال ہی کافی ہوجائے گا اور زائد مال دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا مال جس میں تفاضل جائز ہے۔ اس مال میں زکوٰۃ کے اندر گھٹیا مال ادا کرنے کی صورت میں اس پر واجب ہوگا کہ وہ گھٹیا اور بڑھیا کے فرق کی وجہ سے لازم ہونے والا زائد مال ادا کرے۔ کیونکہ اس میں امکان ہے کہ اس کے مال کی جنس میں سے اس کی قیمت اداکئے ہوئے مال سے زائد ہو اور دوسری طرف اس مال میں تفاصل یعنی کمی بیشی کی صورت میں بیع بھی جائز ہے۔ امام محمد عمدہ مال میں سے گھٹیا مال بطور صدقہ نکالنا جائز قرار نہیں دیتے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کی ادائیگی عمدہ مال کی قیمت کے حساب سے ہوگی اور اس طرح ادائیگی میں جو کمی رہ جائے گی اس پر اس کی ادائیگی لازم ہوگی۔ اس لئے کہ غلام اور اس کے آقا کے درمیان کوئی ربوا نہیں ہوتا۔ آیت زیر بحث میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ دیون کی تمام صورتوں میں عمدہ سکوں کی جگہ گھٹیا سکے وصول کرلینا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (الا ان تغمضوا فیہ) (a) میں دیون کی وصولی کے سلسلے میں اغماض کی اجازت دے دی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اس لئے اس کی معانی پر دلالت ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ بیع سلم کے راس المال اور سونے چاندی کی بیع کے ثمن جن میں ان کی جگہ کوئی اور چیز لینا درست نہیں ہے۔ ان دونوں میں عمدہ سکوں کی جگہ گھٹیا سکے، جن کا ادنیٰ درجہ کھوٹے سکے اور اعلیٰ درجہ چاندی کے سکے ہیں۔ طلب کرنا اور وصول کرلینا جائز ہے۔ اور یہ اس پر دال ہے کہ اس معاملے میں ردی سکے کا حکم وہی ہے جو عمدہ سکے کا ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کررہی ہے کہ ردی چاندی کے بدلے عمدہ چاندی کی بیع جائز ہے بشرطیکہ دونوں کا وزن یکساں ہو۔ کیونکہ جس مال میں اس کے عمدہ صفت کے حامل حصے کی بجائے گھٹیا صفت کے حامل حصے کی وصولی درست ہو تو اس میں گھٹیا صفت والے حصے کے بدلے اعلیٰ صفت والے حصے کی بیع بھی درست ہوگی۔ اس کی اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حضور ﷺ کے قول (الذھب الذھب مثلا بمثل، (a) سونے کے بدلے سونا برابر برابر) میں مماثلت سے مراد وزن میں مماثلث ہے نہ کہ صفت میں، یہی حکم ان تمام چیزوں کا ہے جو حضور ﷺ کی حدیث میں سونے کے ساتھ مذکور ہیں نیز اس پر دلالت ہورہی ہے کہ ردی کے بدلے جید یعنی عمدہ سکے یا مال وصول کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ قرض دار اس پر رضامند ہو۔ جس طرح کہ عمدہ سکے یا مال کے بدلے ردی اور گھٹیا سکے یا مال وصول کرلینا درست ہے۔ کیونکہ ان دونوں سکوں یا مال کا صفت کے اندر اختلاف کوئی حکم نہیں رکھتا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ (خیرکم احسنکم قضلو، (a) تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے اچھا ہے) حضرت جابر بن عبد ؓ اللہ کا قول ہے کہ حضور ﷺ نے میرا قرض ادا کیا اور ساتھ کچھ زائد بھی دے دیا۔ حضرت ابن عمر ؓ ، حسن بصری، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی اور شعبی سے مروی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک شخص کسی کو سیاہ دراہم بطور قرض دے اور اپنا قرض سعید دراہم کی شکل میں واپس لے لے بشرطیکہ وہ قرض دیتے وقت اس کی شرط عائد نہ کرے۔ سلیمان التمیمی نے ابو عثمان النہدی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی شخص کسی کو دراہم کی صورت میں قرض دے کر اس سے بہتر دراہم کی شکل میں اپنا قرض واپس لے لے ۔ لیکن حضرت ابن مسعود ؓ سے اس روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی جبکہ قرض لینے والا اس پر رضامند ہو۔ عدم جواز کی صورت تو صرف وہ ہے جبکہ قرض خواہ قرضدار کی رضامندی کے بغیر دراہم وصول کرے۔
Top