Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 267
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والو) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا : جو كَسَبْتُمْ : تم کماؤ وَمِمَّآ : اور سے۔ جو اَخْرَجْنَا : ہم نے نکالا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین وَلَا : اور نہ تَيَمَّمُوا : ارادہ کرو الْخَبِيْثَ : گندی چیز مِنْهُ : سے۔ جو تُنْفِقُوْنَ : تم خرچ کرتے ہو وَلَسْتُمْ : جبکہ تم نہیں ہو بِاٰخِذِيْهِ : اس کو لینے والے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ تُغْمِضُوْا : تم چشم پوشی کرو فِيْهِ : اس میں وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَمِيْدٌ : خوبیوں والا
مومنو ! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور وہ چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ خدا بےپرواہ (اور) قابل ستائش ہے
کمائی کرنے کا بیان قول باری ہے (یآ ایھا الذین امنوا انفقوا من طیبات ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ۔ (a) اے ایمان والو ! جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ تم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو) ۔ اس آیت میں کمائی کی صورتوں کی اباحت کا ذکر ہے اور یہ بیان ہے کہ کمائیوں میں پاکیزہ صورتیں بھی موجود ہیں۔ کمائی دو طرح سے ہوتی ہے۔ اموال اور ان کے منافع کی ادلا بدلی کے ذریعے اور چیزوں سے حاصل شدہ فوائد کی ادلا بدلی کے ذریعے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی اباحت کا کئی مواقع پر صراحتہً ذکر فرمادیا ہے۔ ارشاد ہے (واحل اللہ البیع، (a) اللہ نے بیع یعنی خریدو فروخت کو حلال کردیا) اسی طرح ارشاد ہے (واٰخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ واٰخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، (a) کچھ لوگ ہیں جو زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل تلاش کررہے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑ رہے ہیں) ۔ اسی طرح ارشاد ہے (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم، (a) تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) یعنی ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ جو شخص تجارت کرے یا اپنی چی کرایہ پردے دے اور اس کے ساتھ حج بھی کرلے تو اس کے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ چیزوں سے حاصل ہونے والے فوائد کی ادلا بدلی کے متعلق قول باری ہے (فان ارضعنا لکم فآتوھن اجورھن ، (a) اگر وہ تمہارے لئے تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دے دو ) ۔ اسی طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قول قرآن کے الفاظ میں ہے (انی ارید ان انکحک احدبنتی ھا تین علی ان تاجرنی ثمانی حجج، (a) میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں سے ایک بیٹی تم سے اس شرط پر بیاہ دوں کہ تم آٹھ برسوں تک میرا کام کروگے) ۔ مزدور کی مزدوری پہلے طے کرلی جائے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من استاجرا جیرا فلیعلمہ اجرہ، (a) جو شخص کسی کو مزدوری پر رکھے اسے اس کی مزدوری بتادے۔ آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (لان یاخذ احدکم جلاً فیحتطب خیرلہ من ان یسال الناس اعطوہ اومنعوہ۔ (a) تم میں سے کوئی شخص ایک رسی لے کر جنگل میں چلا جائے اور وہاں سے لکڑیاں سمیٹ کرلے آئے یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرے پھر لوگ چاہیں تو اس کی جھولی میں کچھ ڈال دیں اور چاہیں تو اسے کچھ نہ دیں) ۔ اعمش نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے ، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اطیب ما اکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ، (a) انسان کے لئے پاکیزہ ترین غذا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی ہو اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے) سلف کی ایک جماعت سے قول باری (انفقوا من طیبات ما کسبتم) (a) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد تجارت کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ان حضرات میں حسن بصری اور مجاہد بھی شامل ہیں۔ اس آیت کا عمول تمام اموال میں صدقہ واجب کرتا ہے۔ اس لئے کہ قول باری (ماکسبتم) (a) تمام اموال پر مشتمل ہے اگرچہ یہ بیان اموال میں واجب صدقہ کی مقدار کی وضاحت کے لئے کافی نہیں ہے تاہم یہ اموال کے جملہ اصناف کو شامل ہے اور مقدار واجب کے بیان میں مجمل ہے۔ جسے بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی۔ پھر جب حضور ﷺ کی جانب سے اس اجمال کی تفصیل اموات میں صدقات کی واجب مقادیر کی شکل میں آگئی تو اب آیت کے علوم سے ہر اس مال میں صدقہ کے وجوب پر استدلال کرنا درست ہوگیا جس میں ایجاب صدقہ کے متعلق اختلاف رائے ہے مثلاً اموال تجارت وغیرہ۔ جو لوگ عروض یعنی مال اسباب پر زکوٰۃ کی نفی کرتے ہیں۔ ظاہر آیت سے ان کے خلاف استدلال کیا جاسکتا ہے نیز گھوڑوں پر زکوٰۃ کے وجوب کے سلسلے میں بھی آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ مال جس میں وجوب زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہو آیت سے وجوب کے حق میں استدلال ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (انفقوا) (a) سے مراد صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ اس کی دلیل قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون، (a) اور ایسا نہ ہو کہ تم اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو) یعنی یہ بری سے بری چیز اللہ کی راہ میں صدقہ کرو۔ سلف اور خلف میں اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد صدقہ ہے یعنی زکوٰۃ ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے ک اس سے مراد نفلی صدقہ ہے کیونکہ جب زکوٰۃ یعنی فرض صدقہ میں ردی مال ادا کیا جائے گا تو زائد حصہ ادا کرنے والے کے ذمے باقی رہے گا۔ ہمارے نزدیک اس تاویل سے لفظ کو وجوب سے نفل کی طرف کئی وجوہ سے منتقل کرنا لازم آئے گا۔ اول یہ کہ لفظ (انفقوا) (a) امر کا صیغہ ہے۔ اور ہمارے نزدیک امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے تو ندب یعنی استحباب وغیرہ کی نشاندہی کرتی ہو تو اس صورت میں امر وجوب کے لئے نہیں ہوگا۔ قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں جو ندب یعنی غیر وجوب اور استحباب کی نشاندہی کرتی ہو۔ کیونکہ یہ بات نہیں ہے کہ راہ خدا میں ردی مال دینے کی نہی صرف نفلی صدقے کے ساتھ خاص فرض کے ساتھ نہیں ہے اور یہ کہ ردی یعنی گھٹیا اور عمدہ مال کے درمیان فرق کی بنا پر جو زائد مال ہوگا اس کا ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اس لئے کہ آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ بات کسی اور دلالت سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس لئے یہ بات ایجاب صدقہ میں آیت کے مقتضیٰ کی راہ میں یہ حائل نہیں ہوسکتی۔ تاہم اگر آیت کی اس پر دلالت بھی ہوتی کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے ذمے اس گھٹیا مال کے سوا جس کی وہ ادائیگی کرچکا ہے اور کو یء ادائیگی نہیں ہے پھر بھی یہ بات آیت کے حکم کو وجوب سے ندب یعنی استحباب کی طرف موڑ دینا لازم قرار نہیں دیتی کیونکہ یہ صورت جائز ہے کہ خطاب کی ابتداء ایجاب کے ساتھ ہو پھر اس پر ایسے حکم کو عطف کیا جائے جو ایجاب کے عموم کے بعض مقتضیات کے ساتھ خاص ہو لیکن اس بات سے یہ چیز لازم نہیں آتی کہ ابتدائے خطاب کے حکم کو عموم کے مفہوم سے ہٹاکر خصوص کے مفہوم میں منحصر کردیا جائے۔ اس کے بہت سے نظائر ہے جن کا ہم نے متعدد مواقع پر ذکر کیا ہے۔ قول باری (ومما اخرجنا لکم من الارض) (a) میں زمین کی قلیل اور کثیر ہر صنف اور ہر قسم کی پیداوار میں ایجاب حق یعنی وجوب زکوٰۃ کے لئے عموم ہے۔ اس آیت سے امام ابوحنیفہ نے اس پر استدلال کیا ہے کہ زمین میں جن فصلوں اور چیزوں کی بالارادہ کاشت لی جاتی ہے ان کی قلیل اور کثیر ہر صنف اور ہر قسم کی پیداوار میں عشر یعنی دسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ سلسلہ تلاوت میں آیت کا اگلہ حصہ (ولستم باخذیہ الا ان نغمضوا فیہ، (a) اور تم خود بھی اسے لینے والے ہیں ہو الا یہ کہ چشم پوشی کرجائو) پوری ایت کے مفہوم کے تناظر میں اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدقات سے مراد صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہیں۔ کیونکہ اغماض کی صورت دیون میں ہوتی ہے کہ جب صاحب دین اپنے دین کی ادائیگی کا مطالبہ کرے گا تو اسے عمدہ مال کی بجائے گھٹیا مال نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ وہ خود چشم پوشی کرلے اور تساہل برت جائے۔ یہ اس پر دال ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد صدقہ واجبہ ہے کیونکہ ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ دیون کی ادائیگی کا جب تقاضا کیا جائے گا تو اس صورت میں اغماض کی شکل پیدا ہوگی اگر اس سے مراد نفلی صدقہ ہوتا تو اس میں اغماض کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ نفلی صدقہ کرنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ قلیل یا کثیر مال کا صدقہ کرے اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ سرے سے صدقہ ہی نہ کرے۔ اسی بیان میں یہ دلیل پوشیدہ ہے کہ اس سے مراد صدقہ واجبہ ہے۔ قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) کے سلسلے میں زہری نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے صدقہ میں دو قسم کے کھجور دینے سے منع فرمادیا ہے ۔ ایک جعرور اور دوسرا لون جیق زہری کہتے ہیں کہ لوگ بدترین قسم کے کھجور صدقہ میں نکالتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ولا تیممو الخبیث منہ تنفقون) (a) حضرت براہ بن عازب ؓ سے اسی طرح کی روایت ہے۔ آپ نے قول باری (ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ) (a) کی تفسیر میں فرمایا : ” اگر تم میں سے کسی کی طرف وہی چیز بطور ہدیہ بھیج دی جائے جو اس نے خود صدقے کے سلسلے میں کسی کو دیا ہو تو وہ اسے ہرگز قبول نہ کرے۔ البتہ چشم پوسی اور شرما شرمی میں وہ اسے قبول کرے گا۔ “ عبیدہ کا قول ہے کہ یہ بات زکوٰۃ میں ہوتی ہے۔ لیکن ایک کھوٹا درہم مجھے کھجور سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ابن معقل سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں مروی ہے کہ لوگوں کے مال مویشیوں میں خبیث یعنی گھٹیا مال نہیں ہوتا، خبیث کا تعلق سکوں یعنی کھوٹے سکوں اور ردی دراہم ودنانیر سے ہے۔ آپ نے (ولستم بخذیہ) (a) کے سلسلے میں کہا ہے کہ اگر کسی شخص پر قرض وغیرہ کی صورت میں تمہارا حق ہو تو تم کھوٹے اور ردی درہم نہیں لوگے اور اگر کھجور لینے کی صورت ہو تو صرف عمدہ کھجور قبول کروگے۔ الا (a) یہ کہ تم اغماض برتو یعنی اسے برداشت کرجائو۔ حضور ﷺ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ آپ نے مویشیوں کی زکوٰۃ کے متعلق تحریری طور پر جو ہدایت دی تھی اس میں یہ الفاظ تھے (ولا توخذ ھرمۃ ولا ذات عوار، (a) اور نہ ہی صدقہ میں بوڑھا جانور لیا جائے گا اور نہ ہی عیب دار جانور) ۔ یہاں جانور سے مراد بھیڑ بکریاں ہیں۔ اس کی روایت زہری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے۔ قول باری (الا ان تغمضوا فیہ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ الا (a) یہ کہ تم اس کی قیمت میں کمی کردو۔ “ حسن بصری اور قتادہ سے بھی اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایا : ” الا (a) یہ کہ تم تساہل برتو۔ “ ایک قول ہے کہ تم خود اسے لینے والے نہیں مگر کم قیمت پر تو پھر اسے قدصہ میں کس طرح دے سکتے ہو۔ اس میں درج بالا تمام معانی کا احتمال موجود ہے اور یہ جائز ہے کہ یہ تمام احتمالات اللہ کی مراد بھی ہوں اور اس کا مفہوم یہ ہوجائے کہ لوگ اللہ کے راستے میں جو گھٹیا مال دیتے ہیں اور اگر وہی مال ہدیہ کے طور پر دیا جائے تو اسے شرما شرمی قبول کریں گے۔ اگر خود وصول کرنا ہو تو عمدہ مال کے مقابلے میں اسے چشم پوشی اور نیم دلی سے وصول کریں گے اور اگر اس مال کے بدلے کوئی چیز فروخت کریں گے تو قیمت گھٹا کر اور تھوڑی قیمت پر ایسا کریں گے۔ اگر کسی شخص پر مکیل یا موزون کی جنس سے کوئی چیز واجب ہو اور وہ واجب شدہ عمدہ جنس سے کم تر ردی اور گھٹیا جن ادا کردے تو فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس پر زائد کی ادائیگی ضروری ہوگی یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام یوسف کا قول ہے کہ واجب نہیں ہوگی اور امام محمد کا قول ہے کہ گھٹیا اور بڑھیا کے درمیان فرق کی بنا پر جو زائد جنس لازم ہوگی اس پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی۔ تاہم بھیڑ بکریوں، گایوں، بیلوں اور مکیل و موزون کے تحت نہ آنے والی تمام اجناس کی زکوٰۃ کے متعلق تینوں حضرات کا یہ قول ہے کہ بڑھیا اور گھٹیا مال کے درمیان فرق کی وجہ سے جو زائد مال نکلے گا۔ اس پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی۔ اس بنا پر امام محمد کے قول کے لئے اس آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ قول باری (ولاتیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) میں خبیث سے مراد روی اور گھٹیا چیز ہے۔ اور قول باری (ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ) (a) سے اس بات کا جواز ثابت ہوتا ہے کہ حق والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا حق وصول کرنے میں چشم پوشی نہ کرے اور نہ ہی تساہل کرے بلکہ عمدہ مال میں سے اپنا حق مانگے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حق ادا کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ بڑھیا اور گھٹیا کے فرق کی بنا پر پیدا ہونے والے زائد مال کی ادائیگی کردے تاکہ چشم پوشی کا وقوع نہ ہو۔ کیونکہ اس سلسلے میں اصل حق تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور اللہ نے صدقہ میں اغماض کی یوں نفی کردی ہے کہ ردی مال دینے سے روک دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام یوسف کا استدلال یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جس میں تفاضل یعنی کمی بیشی جائز نہیں تو تفاضل کی ممانعت کے لحاظ سے اس میں بڑھیا اور گھٹیا دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے اور اس کے جنس میں سے اس کی قیمت اس کے مثل کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے قرض کی وصولی کرلی اور یہ سمجھتا رہا کہ واپس لی ہوئی رقم بڑھیا سکون میں لوٹائی گئی ہے پھر اس نے یہ صرف کرلی اور اس کے بعد پتہ چلا کہ سکے گھٹیا تھے تو اب وہ زائد رقم کی ادائیگی اس پر لازم نہیں ہوگی۔ امام ابو یوسف یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس صورت میں قرض خواہ وصول کردہ رقم کی مثل اپنے قرض دار کو واپس کرکے پھر اس سے اپنے قرض کی وصول کے لئے رجوع کرے گا۔ لیکن یہ بات صدقہ کی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ فقیر کے ذمے کسی رقم کی واپسی لازم نہیں ہوتی اور اگر فقیر اس رقم کا تاوان بھر بھی دے گا۔ یعنی صدقہ کرنے والے کو وہ رقم واپس بھی کردے گا پھر بھی اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ صدقہ کرنے والے سے یہ مطالبہ کرے کہ اسے عمدہ سکوں میں یہ رقم لوٹا دے گا۔ اس بنا پر اس پر زائد رقم دینا واجب نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو صدقہ کرنے والے کو گھٹیا مال صدقہ یعنی زکوٰۃ میں دینے سے روک دیا اور اس پر عمدہ مال واجب تھا۔ یہ حضرات بھی اسی کے قائل ہیں کہ اسے گھٹیا مال صدقہ میں دینے سے روک دیا گیا ہے۔ یلکن درج بالا سطور میں ہماری وضاحت کی روشنی میں اس نے صدقہ میں جو دیا ہے اس کا حکم وہی ہوجائے گا جو عمدہ مال کا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا دیا ہوا مال ہی کافی ہوجائے گا اور زائد مال دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا مال جس میں تفاضل جائز ہے۔ اس مال میں زکوٰۃ کے اندر گھٹیا مال ادا کرنے کی صورت میں اس پر واجب ہوگا کہ وہ گھٹیا اور بڑھیا کے فرق کی وجہ سے لازم ہونے والا زائد مال ادا کرے۔ کیونکہ اس میں امکان ہے کہ اس کے مال کی جنس میں سے اس کی قیمت اداکئے ہوئے مال سے زائد ہو اور دوسری طرف اس مال میں تفاصل یعنی کمی بیشی کی صورت میں بیع بھی جائز ہے۔ امام محمد عمدہ مال میں سے گھٹیا مال بطور صدقہ نکالنا جائز قرار نہیں دیتے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کی ادائیگی عمدہ مال کی قیمت کے حساب سے ہوگی اور اس طرح ادائیگی میں جو کمی رہ جائے گی اس پر اس کی ادائیگی لازم ہوگی۔ اس لئے کہ غلام اور اس کے آقا کے درمیان کوئی ربوا نہیں ہوتا۔ آیت زیر بحث میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ دیون کی تمام صورتوں میں عمدہ سکوں کی جگہ گھٹیا سکے وصول کرلینا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (الا ان تغمضوا فیہ) (a) میں دیون کی وصولی کے سلسلے میں اغماض کی اجازت دے دی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اس لئے اس کی معانی پر دلالت ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ بیع سلم کے راس المال اور سونے چاندی کی بیع کے ثمن جن میں ان کی جگہ کوئی اور چیز لینا درست نہیں ہے۔ ان دونوں میں عمدہ سکوں کی جگہ گھٹیا سکے، جن کا ادنیٰ درجہ کھوٹے سکے اور اعلیٰ درجہ چاندی کے سکے ہیں۔ طلب کرنا اور وصول کرلینا جائز ہے۔ اور یہ اس پر دال ہے کہ اس معاملے میں ردی سکے کا حکم وہی ہے جو عمدہ سکے کا ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کررہی ہے کہ ردی چاندی کے بدلے عمدہ چاندی کی بیع جائز ہے بشرطیکہ دونوں کا وزن یکساں ہو۔ کیونکہ جس مال میں اس کے عمدہ صفت کے حامل حصے کی بجائے گھٹیا صفت کے حامل حصے کی وصولی درست ہو تو اس میں گھٹیا صفت والے حصے کے بدلے اعلیٰ صفت والے حصے کی بیع بھی درست ہوگی۔ اس کی اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حضور ﷺ کے قول (الذھب الذھب مثلا بمثل، (a) سونے کے بدلے سونا برابر برابر) میں مماثلت سے مراد وزن میں مماثلث ہے نہ کہ صفت میں، یہی حکم ان تمام چیزوں کا ہے جو حضور ﷺ کی حدیث میں سونے کے ساتھ مذکور ہیں نیز اس پر دلالت ہورہی ہے کہ ردی کے بدلے جید یعنی عمدہ سکے یا مال وصول کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ قرض دار اس پر رضامند ہو۔ جس طرح کہ عمدہ سکے یا مال کے بدلے ردی اور گھٹیا سکے یا مال وصول کرلینا درست ہے۔ کیونکہ ان دونوں سکوں یا مال کا صفت کے اندر اختلاف کوئی حکم نہیں رکھتا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ (خیرکم احسنکم قضلو، (a) تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے اچھا ہے) حضرت جابر بن عبد ؓ اللہ کا قول ہے کہ حضور ﷺ نے میرا قرض ادا کیا اور ساتھ کچھ زائد بھی دے دیا۔ حضرت ابن عمر ؓ ، حسن بصری، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی اور شعبی سے مروی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک شخص کسی کو سیاہ دراہم بطور قرض دے اور اپنا قرض سعید دراہم کی شکل میں واپس لے لے بشرطیکہ وہ قرض دیتے وقت اس کی شرط عائد نہ کرے۔ سلیمان التمیمی نے ابو عثمان النہدی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی شخص کسی کو دراہم کی صورت میں قرض دے کر اس سے بہتر دراہم کی شکل میں اپنا قرض واپس لے لے ۔ لیکن حضرت ابن مسعود ؓ سے اس روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی جبکہ قرض لینے والا اس پر رضامند ہو۔ عدم جواز کی صورت تو صرف وہ ہے جبکہ قرض خواہ قرضدار کی رضامندی کے بغیر دراہم وصول کرے۔
Top