Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 235
وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِهٖ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَآءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ وَ لٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا١ؕ۬ وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى یَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْهُ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠   ۧ
وَلَا جُنَاحَ : اور نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : میں۔ جو عَرَّضْتُمْ : اشارہ میں بِهٖ : اس سے مِنْ خِطْبَةِ : پیغام نکاح النِّسَآءِ : عورتوں کو اَوْ : یا اَكْنَنْتُمْ : تم چھپاؤ فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اپنے دلوں میں عَلِمَ اللّٰهُ : جانتا ہے۔ اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ : جلد ذکر کروگے ان سے وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ : نہ وعدہ کرو ان سے سِرًّا : چھپ کر اِلَّآاَنْ : مگر یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : دستور کے مطابق وَلَا : اور نہ تَعْزِمُوْا : ارادہ کرو عُقْدَةَ : گرہ النِّكَاحِ : نکاح حَتّٰي : یہانتک يَبْلُغَ : پہنچ جائے الْكِتٰبُ : عدت اَجَلَهٗ : اس کی مدت وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِىْ : میں اَنْفُسِكُمْ : اپنے دل فَاحْذَرُوْهُ : سو ڈرو اس سے وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : تحمل والا
اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں، خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر کرو گے (مگر ایام عدت میں) اس کے سوا کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہہ دو پوشیدہ طور پر ان سے قول وقرار نہ کرنا اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا بخشنے والا اور حلم والا ہے
دوران عدت اشارہ کنایہ میں پیغام نکاح دینا قول باری ہے (ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النکاح او اکننتم فی انفسکم، اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اگر تم ان عورتوں کو پیغام نکاح دینے کے سلسلے میں کوئی بات اشارۃ کہو یا نکاح کا ارادہ تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو) خطبہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ گفتگو ہے جس کے ذریعہ عقد نکاح کی دعوت دی جائے، اگر خطبہ بضم الخاء ہو تو اس سے مراد نصیحت و موعظت کی وہ صورت ہے جس میں تسلسل اور تربیت و تنسیق ہو۔ خطبہ کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ جس کا اول و آخر موجود ہو۔ جس طرح کہ رسالہ یعنی خط، پیغام وغیرہ کی صورت ہوتی ہے اور خطبہ حال کے بیان کے لئے آتا ہے جیسے ” جلسۃ اور قعدۃ “ حال بیان کرتا ہے تو تعریض کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ کلام میں ایسی چیز پر دلالت موجود ہو جس کا ذکر کلام میں نہ کیا گیا ہو مثلاً کوئی شخص یہ کہے۔ ” ما انا بزان “ (میں زانی نہیں ہوں) اس میں اشارۃ مخاطب کے زانی ہونے کی بات کی گئی ہے۔ اسی بنئا پر حضرت عمر نے اس قول پر اسے تصریح قرار دے کر حد قذف جاری کی تھی۔ کنایہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کے صریح نام سے ذکر کئے بغیر اس پر دلالت کرنے والا لفظ ذکر کیا جائے جیسا کہ قول باری ہے (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر، ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا) یعنی قرآن مجید۔ یہاں ’ ہا ‘ اس سے کنایہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ پیغام نکاح کے سلسلے میں اشارۃً بات کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً یوں کہے ” انی اریدان اتزوج امراۃ من امرھا “ ص میں کسی عورت سے اس کی رضامندی کی بنیاد پر نکاح کرنا چاہتا ہوں) لفظ ’ امرھا ‘ کے ذریعے الفاظ میں اشارہ ہوگیا۔ حسن بصری کا قول ہے کوئی شخص اس سے یوں کہے ” ان بک لمعجب و انی فیک راغب ولا تفوتینا نفسک “ (میری نظروں میں تم جچ گئی ہو، تمہاری ذات میں مجھے دلچسپی ہے۔ اپنے آپ کو ہمارے دائرہ رغبت سے باہر نہ لے جانا) حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ بن قیس سے عدت کے دوران یہ فرمایا تھا (لا تفوتینا نفسک) پھر عدت گزرنے کے بعد آپ نے انہیں حضرت اسامہ بن زید یک طرف سے نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ عبدالرحمن بن القاسم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ مثلاًٰ اس سے یوں کہے جبکہ وہ عدت میں ہو : ” انک لکریمۃ و انی فیک لراغب “ تم بہت شرف والی ہو، مجھے تمہاری ذات میں دلچسپی ہے) یا اس قسم کا کوئی فقرہ ہو۔ عطاء بنذ ابی رباح کا قول ہے کہ مرد یوں کہے۔ ” ان لجمیلۃ و ان فیک الراغب و ان قضی اللہ شیئا کان۔ “ (تم بہت حسین ہو، مجھے تمہاری ذات سے دلچسپی ہے اور اگر اللہ چاہے تو کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا) غرض تعریض سے مراد ایسا کلام ہے جس کا مفہوم عدت گزارنے والی عورت می اس کی دلچسپی پر دلالت کرتا ہو۔ لیکن وہ اسے صریح الفاظ میں پیغام نکاح نہیں دے سکتا۔ قول باری ہے (الا ان تقولوا قولا معروفا۔ الا یہ کہ تم کوئی ڈھنگ کی بات کرو) اس کے متعلق سعید بن جبیر کا قول ہے کہ مثلاً وہ یوں کہے۔ ” انی فیک لراغب ان لا رجوا ان نجتمع “ مجھے تمہاری ذات میں دلچسپی ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم اکٹھے ہوجائیں گے) ۔ قول باری (او اکننتم فی انفسکم) کا معنی یہ ہے کہ تم نے عدت ختم ہوجانے کے بعد اس سے نکاح کرنے کا ارادہ اپنے دل میں چھپائے رکھا ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اشارۃ پیغام نکاح دینے اور نکاح کا ارادہ اپنے دل میں پوشیدہ رکھنے اور اسے ظاہر نہ کرنے کی صورتوں کو مباح کردیا۔ اسماعیل بن اسحاق نے کسی کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے اشارۃً کسی پر زنا کی تہمت لگانے کی بناء پر لازم ہونے والی حد کی نفی کے لئے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارۃً پیغام نکاح کو بمنزلہ صراحتہً ذکر نکاح قرار نہیں دیا۔ اس بناء پر اشارۃً تہمت زنا صراحتہً تہمت کی طرح نہیں ہوسکتی۔ اسماعیل بن اسحاق کا کہنا ہے کہ اس کا یہ استدلال خود اس کے خلاف دلیل ہے کیونکہ کسی چیز کے متعلق اشارۃً تذکرہ وہ ہوتا ہے جس کا معنی مراد ماطب کو سمجھ میں آ جائے، اس طرح اشارہ تہمت زنا جب مسجد میں آ جائے تو اس کا نام قذف ہے اور اس طرح اس پر وہی حکم عائد ہوگا جو قاذف پر ہوتا ہے۔ اسماعیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو شخص اشارۃً تہمت لگانے والے سے حد قذف کی نفی کرتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ دراصل یہ معلوم نہیں ہوتا کہ تعریض کرنے والے نے اس سے تہمت ہی مراد لی ہے۔ کیونکہ اشارۃً جو بات کی جائے اس میں دوسرا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں اسماعیل بن اسحاق نے یہ کہا ہے کہ پھر اس استدلال کی بناء پر اشارۃً تہمت لگنا اسی طرح مباح ہوجانا چاہیے جس طرح اشارۃً پیغام نکاح دینا مباح ہے۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ نکاح میں اشارہ اور کنایہ کو تصریح یک بجائے اس لئے اختیار کیا گیا کہ نکاح کا انعقاد طرفین کے ذریعے ہوتا ہے اور مرد کی طرف سے پیغام نکاح عورت کی طرف سے جواب کا مقتضی ہوتا ہے لیکن اکثر احوال میں اشارۃً پیغام نکاح کسی جواب کا مقتضی نہیں ہوتا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل بن اسحاق نے اپنے مدمقابل کو نفی حد کے استدلال کے سلسلے میں جو بات نقل کی ہے وہ درست ہے اور اس کے جواب میں جو کہا گیا ہے وہ واضح طور پر فاسد اور لچر ہے۔ اشارۃً تہمت لگانے پر حد کی نفی کے لئے اس استدلال کی وجہ یہ ہے کہ جب مرد پر عدت والی عورت کو صراحۃً پیغام نکاح دینے کی پابندی لگا دی گئی اور اس کی بجائے اشارۃً پیغام کی اجازت دی گئی تو اس وجہ سے اس معاملے میں تعریض اور تصریح کا حکم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوگیا۔ جبکہ اشارۃً تہمت لگانے کا حکم صراحۃً تہمت لگانے کے حکم کے بالکل خلاف ہے اور اس میں پیغام نکاح کے سلسلے میں تعریض و تصریح والی بات نہیں ہے۔ اس لئے ان دونوں کو یکساں قرار دینا جائز نہیں ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اشارۃً پیغام نکاح دینے کے حکم اور صراحۃً ایسا کرنے کے حکم کے درمیان یکسانیت نہیں رکھی۔ ایسا اس لئے ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ حدود شبہ کی بناء پر ساقط ہوجاتے ہیں۔ اس لئے وہ سقوط اور نفی کے حکم کے لحاظ سے نکاح سے زیادہ موکد ہیں۔ اب جبکہ نکاح کے سلسلے میں اشارہ تصریح کی طرح نہیں ہے اور یہ تصریح حد کے ثبوت کے باب میں زیادہ موکد ہے تو حد اس لحاظ سے اولیٰ ہوگی کہ وہ تعریض یعنی اشارہ اور کنایہ سے ثابت نہ ہو۔ کیونکہ اس میں دلالت کا یہ پہلو موجود ہے کہ اگر عدت گزرنے کے بعد مرد عورت کو اشارۃً پیغام نکاح دے تو اس سے دونوں کے درمیان عقد نکاح واقع نہیں ہوگا۔ اس طرح عقد نکاح کے متعلق اشارہ تصریح سے مختلف ہوگیا۔ اس لئے حد اس لحاظ سے اولیٰ ہوگئی کہ وہ اشارہ اور کنایہ سے ثابت نہ ہو۔ اسی طرح فقاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عقود کی تمام صورتوں میں اقرار اشارہ کنایہ کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا بلکہ تصریح سے ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نکاح کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ اور تصریح کے درمیان فرق رکھا ہے اس لئے حد اس لحاظ سے اولیٰ ہوگی کہ وہ اشارہ کنایہ سے ثابت نہ ہو اور ان تمام معاملات میں جن کے حکم کا تعلق قول سے ہوتا ہے اشارہ اور تصریح کے درمیان فرق کے لئے یہ دلالت واضح ہے۔ اور درج بالا سطور میں ہماری بیان کردہ بات کو ثابت کرنے کے لئے بھی یوہ دلالت کافی اور مقصد کو پورا کرنے والی ہے۔ اگر کسی جامع علت کی بنیاد پر قیاس کی جہت سے ہم تعریض کو تصریح کی طرف لوٹائیں تو اس طرح بھی استدلال میں ہمارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہوگا وہ اس طرح کہ قذف یعنی تہمت کی طرح نکاح کا حکم بھی قول سے تعلق رکھتا ہے جب اس لحاظ سے اشارۃً پیغام نکاح کے حکم اور تصریح کے حکم کے درمیان فرق واقع ہوگیا تو اشارۃً پیغام نکاح کا حکم ثابت ہوگیا۔ اگرچہ عام صورت حال میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نکاح یک بات تصریح سے بھی ثابت وہ جاتی ہے۔ اسماعیل بن اسحاق کی یہ بات اشارۃً تہمت زنا کا حکم بمنزلہ تصریح ہونا چاہیے کیونکہ اشارۃً تہمت سے قازف کی مراد اسی طرح معلوم ہوجاتی ہے جس طرح اگر وہ صراحۃً تہمت لگائے تو اس کے متعلق میرا (صاحب کتاب کا) خیال یہ ہے کہ اسماعیل یہ کہتے ہوئے اشارۃً پیغام نکاح اور تصریح کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کو نظرانداز کر گئے۔ اس لئے کہ تعریض اور تصریح دونوں کی صورت میں قائل کی مراد سمججھ میں آ جانے کے باوجود ان دونوں میں فرق رکھا گیا۔ اس لئے کہ اگر حکم کا تعلق قائل کی مراد کو سمجھ لینے کے ساتھ ہوتا تو بعینہ یہی بات پیغام نکاح کے اندر موجود ہے۔ جس کی بناء پر خطبہ کے سلسلے میں عریض اور تصریح دونوں کا حکم یکساں ہونا چاہیے تھا۔ اب جبکہ نص قرانی نے ان دونوں کے درمیان فرق کردیا ہے تو اس سے اسماعیل بن اسحاق کا استدلال ختم ہوگیا اور ہمارا بیان کردہ استدلال درست ہوگیا۔ اسماعیل کی یہ بات کہ جو شخص اشارۃً تہمت لگانے والے سے حد قذف کی نفی کرتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ دراصل یہ معلوم نہیں ہوتا کہ تعریص کرنے والے نے اس سے تہمت ہی مراد لی ہے کیونکہ اشارۃ جو بات کی جائے اس میں دوسرا احتمال بھی موجود ہوتا ہے تو یہ حد قذف کی نفی کرنے والے کے قول کی اسی وکالت و وضاحت ہے جو خود اس سے ثابت نہیں ہے اور یہ ایسا فیصلہ ہے جو کسی ثبوت کے بغیر غیرموجود چیز کے متعلق کردیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ حد قذف کا تعلق قائل کے ارادے کے ساتھ وہتا ہے۔ بلکہ نفی کے قائلین کے نزدیک اس کا تعلق صرف اس صورت کے ساتھ ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی پر کھلے الفاظ میں تہمت زناء لگائے۔ اس لئے نفی کے قائل کے ذمہ یہ بات لگانا کہ اس نے اشارۃً تہمت لگانے والے سے حد قذف کی نفی اس لئے کہ اس کی مراد کا علم نہیں ہوسکا۔ قائلین نفی کے لئے نہ تو قابل قبول ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار ہے۔ اسماعیل کا یہ کہنا کہ اشارۃ تہمت لگانے و اسے حد قذف کی نفی کے قائل کے استدلال سے اس پر یا بات لازم آتی ہے کہ وہ اشارۃ تہمت لگانے کو اسی طرح مباح کر دے جس طرح اس نے اشارۃ پیغام نکاح کو مباح قرار دیا ہے تو دراصل یہ ایسے شخص کا کلام ہے جو اپنے قول میں سنجیدہ نہیں ہے اور جو یہ بھی نہیں سوچتا کہ اپنے مخالف کے ذمہ اس غلط بات کو لازم کرنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ ہم (صاحب کتاب) یہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کے مخالف نے اپنے استدلال میں جو بات کہی ہے اسے اشارۃ پیغام نکاح کی اباحت کے لئے علت قرار نہیں دیا ہے کہ پھر اس پر اشارۃ تہمت زنا کی اباحت بھی لازم آ جائے بلکہ اس نے پیغام نکاح کے سلسلے میں تعریض اور تصریح کے درمیان فرق کے ایجاب پر آیت سے استدلال کیا ہے۔ رہ گئی ممانعت اور اباحت تو ان کی دلالت کسی اور وجہ پر موقوف ہے۔ رہ گئی اسماعیل بن اسحاق کی یہ بات کہ نکاح میں اشارہ اور کنایہ کو تصریح کی بجائے اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ نکاح کا انعقاد طرفین کے ذریعے ہوتا ہے اور مرد کی طرف سے پیغام نکاح عورت کی طرف سے جواب کا مقتضی ہوتا ہے لیکن اکثر احوال میں اشارۃ پیغام نکاح کسی جواب کا مقتضی نہیں ہوتا تو یہ ایک کھوکھلی سی بےمعنی بات ہے۔ اس کی خودبخود تردید ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ اشارۃ یا صراحۃً پیغام نکاح کسی جواب کا مقتضی نہیں ہوتا۔ کیونکہ قول باری (ولکن لا نواعد و ھن سرا الا ان تقولوا قولا معروفا) میں نہی کا رخ عدت کی مدت ختم ہوجانے کے بعد آنے والے وقت کے لئے پیغام نکاح دینے یکط فر ہے۔ اور یہ بات کسی جواب کی مقتضی نہیں جس طرح پیغام نکاح اشارۃ جواب کا مقتضی نہیں ہے۔ دوسری طرف جواب کے مقتضی عقد سے نہی پر خطاب باری کا کوئی جواز نہیں کہ ان دونوں صورتوں میں اسماعیل بن اسحاق کے بیان کردہ وجہ کی بناء پر فرق قائم کردیا جائے۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ جواب کے اقتضاء کی نفی میں اشارۃ ی صراحۃً پیغام نکاح کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آیت نے ان دونوں باتوں یعنی اشارۃ پیغام نکاح اور صراحۃً پیغام کے درمیان فرق کردیا ہے۔ رہ گیا وہ عقد جو جواب کا مقتضی ہو تو اس سے قول باری (ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ) میں منع کردیا گیا ہے۔ اگرچہ آیت میں نفس عقد سے روک دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ممانعت صراحۃً ایسے پیغام نکاح سے نہی کی مقتضی ہے جو عقد پر دلالت کرتا ہوں جس طرح کہ قول باری (ولا تقل لھما اف) کی گالی گلوچ اور مار پیٹ کی نہی پر دلالت ہو رہی ہے۔ جواب اور عدم جواب کے اقتضاء کے متعلق اسماعیل بن اسحاق کے استدلال کی تردید اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسے تمام عقود جو جواب کے مقتضی ہوتے ہیں ان کا انعقاد تعریض یعنی اشارہ کنایہ کے ذریعے درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح اقرار کی تمام صورتوں میں تعریض درست نہیں ہوتی اگر ان میں اس شخص کے جواب کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جس کے حق میں اقرار ہو رہا ہو۔ اس طرح خواہ جواب کا اقتضاء ہو یا اقتضاء نہ ہو۔ اس سے حکم میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جواب یا عدم جواب کا اختلاف ان کے درمیان فرق کو واجب نہیں کرتا۔ قول باری (ولکن لا تواعدو ھن سر، لیکن تم خفیہ طور پر ان عورتوں سے وعدے نہ لو) سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، سعید بن جبیر، شعبی اور مجاہد کا قول ہے کہ خفیہ وعدے سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت سے یہ عہد یا پکا وعدہ لے لے کہ وہ اپنی ذات کو اس کے لئے روکے رکھے گی اور اس کے سوا کسی اور سے نکاح نہیں کرے گی۔ حسن بصری، ابراہیم نحفی، ابومجلز، محمد بن سیرین اور جابر بن زید کا قول ہے کہ اس سے مراد زناء ہے۔ زید بن اسلم کا ق ول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت سے عدت کے دوران کوئی نکاح نہ کرے اور پھر یہ کہ دے کہ میں اسے پوشیدہ رکھوں گا یہاں تک کہ عدت کی مدت گزر جائے یا یہ کہ عورت کے پاس جائے اور کہے کہ عدت گزرنے تک کسی کو میرے یہاں آنے کا علم نہ ہو۔ ابوبکر جصامی کہتے ہیں کہ لفظ میں ان تمام معانی کا احتمال ہے اس لئے کہ زنا پر بھی بعض دفعہ لفظ سر کا اطلاق ہوتا ہے۔ حطیئہ کا شعر ہے۔ و یحرم سرجارتھم علیھم و یا کل جارھم انف القصاع ان کی پڑوسن کے ساتھ بدکاری ان پر حرام ہے اور ان کے پڑوسی ان کی فیاضی کی بدولت اونچے اونچے پیالوں میں کھاتے ہیں۔ یہاں سر سے مراد زنا ہے۔ شاعر اپنے ممدوحین کی اس صفت کو سراہتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کی عورتوں سے اپنا دامن پاک رکھتے ہیں۔ ایک اور شاعر روبہ جنگلی گدھے اور اس کی مادہ کا ذکر کرتا ہے کہ جب مادہ حاملہ ہوجاتی ہے تو وہ اس سے جفتی کرنے سے باز رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ قد احصنت مثل دعا میص الدنق اجنۃ فی مستکنات الحلق فعف عن اسرارھا بعدالعسق جنگلی گدھی اب اس طرح نر کی جفتی سے محفوظ ہوچکی ہے جس طرح گدلے پانی میں رہنے والے سیاہ کیڑے جو زمین دوز نالیوں کے پوشیدہ مقامات میں چھپے ہوتے ہیں۔ اب جنگلی گدھا اس سے چمٹے رہنے کے بعد جفتی کرنے سے باز آگیا ہے۔ یعنی لزوق (چپکے رہنے) کے بعد۔ محاورہ میں کا جاتا ہے۔ ” عسق بہ اذا الزق بہ “ یعنی وہ اس سے چمٹ گیا یا چپک گیا۔ یہاں سر سے مراد جفتی ہے۔ عقد نکاح کو بھی سر کہا جاتا ہے جس طرح کہ وطی کو سر کہا جاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ وطی اور عقد دونوں میں سے ہر ایک پر لفظ نکاح کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس بناء پر آیت سے وطی، عدت اور عقد ختم وہ جانے کے بعد کے وقت کے لئے کھلے الفاظ میں پیغام نکاح دینا مراد لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم ان تمام احتمالات کے باوجود آیت سے وہ معنی مراد لینا سب سے بہتر اور اولیٰ ہے جس کی روایت حضرت ابن عباس ؓ اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے کی گئی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ کھلے الفاظ میں پیغام نکاح دے کر عورت سے یہ عہد لے لینا کہ وہ اپنی ذات کو اس کے لئے روکے رکھے گی تاکہ عدت گزرنے کے بعد اس کے ساتھ نکاح ہو سکے۔ اس لئے کہ اشارۃ کا پیغام نکاح کی اباحت کا تعلق اس عقد کے ساتھ ہے جو عدت گزرنے کے بعد واقع ہونے والا ہے۔ اس لئے صراحۃً پیغام نکاح کی ممانعت کا تعلق بھی بعینہ اسی قسم کے عقد کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ حضرت ابن عباس سے مروی معنی کا ہمیں صرف آیت کے ذریعے پتہ چلتا ہے۔ اس بناء پر لامحالہ آیت سے مراد بھی یہی معنی ہوں گے۔ جہاں تک عدت کے دوران عقد نکاح واقع کرنے کا تعلق ہے تو اس کی ممانعت کا ذکر کردیا گیا اور اس میں کسی اشارے یا کنائے سے کام نہیں لیا گیا تو اس صورت میں یہ کہنا بڑی دور کی بات ہوگی کہ آیت زیر بحث میں مذکور لفظ (سرا) سے بطور کنایہ عقد نکاح مراد ہے جس کا ذکر پیغام نکاح کے سلسلے میں کھلے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اسی طرح جس نے (سرا) کی تاویل زناء کے معنی میں کی ہے۔ اس کی یہ تاویل بھی ایک دور کی بات کہی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ زنا کاری کے لئے کسی خفیہ وعدے کی ممانعت کا تعلق تو عدت اور غیرعدت دونوں حالتوں کے ساتھ ہے۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ تحریم زنا کا حکم کسی وقت یا شرط اور حالت کی قید سے پوری طرح آزاد ہے اور علی الاطلاق ہے۔ اس بناء پر اس تاویل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زناء کاری کے لئے خفیہ وعدے کی ممانعت کو عدت کے ساتھ خاص کرنا ایک مہمل اور بےفائدہ بات ہوگی۔ تاہم اس میں کوئی امتناع نہیں کہ مذکورہ بالا معانی سب کے سب مرادئے جائیں۔ اس لئے کہ لفظ میں ان تمام کا احتمال موجود ہے اور حضرت ابن عباس کی تاویل ان سے باہر نہیں ہے۔ قول باری ہے صعلم اللہ انکم تذکرونھن، اللہ کو علم تھا کہ تم اس کا ان سے جلد ذکر کرو گے) یعنی اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ تم اس بناء پر ان سے نکاح کے معاملے کا ان سے جلد ذکر کرو گے کہ تمہیں ان کی ذات میں دلچسپی ہے اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس معاملے میں کوئی اور تم سے بازی نہ لے جائے۔ اس لئے اس نے تمہارے لئے اشارۃ اظہار مدعا کو مباح کردیا لیکن کھلے الفاظ میں ایسا کرنے پر پابندی باقی رہی۔ اس سے ہمارے اصحاب کے اس قول کی صحت پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر ایک چیز کے حصول پر کچھ وجوہ سے پابندی ہو تو اسے کسی مباح طریقے سے حاصل کرنا جائز ہے۔ حضور ﷺ سے اسی قسم کی ایک روایت ہے کہ حضرت بلال ؓ آپ کے پاس عمدہ کھجور لے کر آئے تو آپ نے دریافت کیا کہ آیا خیبر کے تمام کھجور اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ حضرت بلال ؓ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع اور تین صاع (ایک پیمانہ جو تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) کے بدلے و صاع کے حساب سے لیتے ہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا (لاتفعلوا ولکن بیعوا تمرکم بعرض ثم الشتروا بہ ھذا التمو، ایسا نہ کرو لیکن تم اپنی کھجریں جنس کے بدلے فروخت کر کے پھر اس جنس کے بدلے یہ عمدہ کھجور خرید لو) ۔ اس طرح آپ نے جائز طریقے سے عمدہ کھجور خریدنے کی راہ بتادی۔ اس اصول کا ذکر ہم انشاء اللہ دوسرے مواقع پر بھی کریں گے۔ قول باری (علیم اللہ انکم تذکرونھن) قول باری (علم اللہ انکم کنتم تخالون انفسکم، اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے) کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کی راتوں میں ان کے لئے اکل و شرب اور جماع مباح کردیا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر یہ چیزیں مباح نہ کردی جاتیں تو عین ممکن تھا کہ بہت سے لوگ ان میں مبتلا ہو کر ممنوع افعال کے مرتکب ہوتے، اس لئے اللہ تعلایٰ نے اپنی رحمت سے کام لے کر ان کے لئے تخفیف کردی۔ ان ہی معانی پر قول باری (علم اللہ انکم ستذکرونھمن) کو بھی محمول کیا جائے گا۔ قول باری ہے (ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ بلغ الکتاب اجلہ، اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے) ایک قول ہے کہ لعنت میں ” عقدۃ “ کے معنی شد یعنی باندھنے کے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ” عقدت الحبل “ اور ” عقدت العقد “ ص میں نے رسی باندھی) اور میں نے گریں ڈالیں) ۔ یہ فقرے اس بناء پر کہے جاتے ہیں کہ مضبوطی میں ان کی مشابہت رسی کی گرہوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ قول باری (ولا تعزموا عقدۃ النکاحض کا معنی یہ ہے کہ عدت کے اندر تم عقد نکاح نہ کرو اور نہ ہی اس میں عقد نکاح کا پکا ارادہ کرو۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ تم دل میں عدت گزر جانے کے بعد عقد نکاح کا پکا ارادہ کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ مباح کردیا ہے کہ عدت گزرنے کے بعد عقد کا دل میں پہلے سے پکا ارادہ کرسکتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے (ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء او اکننتم فی انفسکم) اکنان فی النفس کا معنی اخمار یعنی دل میں ایک بات پوشیدہ رکھنا ہے اس سے ہمیں یہ معلو مہو گیا کہ قول باری (ولا تعزموا عقدۃ النکاح) میں عدت میں عقد نکاح اور اس دوران عقد نکاح کا پکا ارادہ کرنے کی ممانعت ہے اور قول باری صحتی یبلغ الکتاب اجلہ) سے مراد عدت کا گزر جانا ہے۔ یہ بات خطاب باری کے مفہوم میں موجود ہے اور اس کے بیان کی کوئی ضرورت نہیں ہے دیکھئے جب فریعہ ؓ بنت مالک نے حضور ﷺ سے سوال کیا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے تو آپ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ (حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ، جب تک عدت کی مدت پوری نہ ہوجائے) حضرت فریعہ ؓ نے حضور ﷺ کے اس فقرے کے مفہوم سے ہی انقضاء عدت کا معنی سمجھ لیا تھا اور کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ فقاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی شخص نے عدت کے دوران کسی عورت سے صرف عقد نکاح کرلیا تو اس کا یہ عقد فاسد ہوگا۔ تاہم سلف اور ان کے بعد آنے والے فقاء کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے عدت کے دوران نکاح کے تمام مراحل طے کر لئے تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ ابن المبارک نے کہا کہ ہمیں اشعتث نے شعبی سے، انہوں نے مسروق سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت عمر ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ ایک قریشی عورت سے قبیلہ تقیف کے ایک مرد نے عدت کے دوران شادی کرلی ہے۔ آپ نے دونوں کو بلوا کر انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کردیا اور سزا بھی دی پھر فرمایا کہ یہ مرد اب اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکے گا۔ پھر آپ نے اس کے مہر کی رقم بیت المال میں رکھوا دی لوگوں میں یہ طریق کار جب عام ہوگیا تو حضرت علی ﷺ نے فرمایا کہ ” اللہ امیر المومنین پر رحم فرمائے۔ مہر کی رقم کا بیت المال سے تعلق ! جہالت اور نادانی تو ان دونوں نے کی۔ اس لئے امام کو چاہیے تھا کہ اس دونوں کو سنت کی راہ کی طرف لوٹا دیتے۔ “ حضرت علی ؓ سے پوچھا گیا کہ اس مسئلے میں آپ کیا کہتے ہیں ! جواب میں فرمایا : ” عورت کو مہر کی رقم ملے گی کیونکہ مرد نے اس کے ساتھ ہمبستری کی ہے۔ ان دونوں کو علیحدہ کردیا ائے گا لیکن انہیں سزا نہیں دی جائے گی اور عورت پہلے شوہر کی عدت مکمل کرنے کے بعد دوسرے شوہر کی عدت بھی مکمل کرے گی۔ اس کے بعد یہ دوسرا شوہر اسے پیغام نکاح دے گا۔ “ جب حضرت عمر ؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا : ” لوگو، غلط باتوں کو سنت کی طرف لوٹا کر درست کرلو “۔ ابن ابی زائدہ نے اشعث سے اسی قسم کی روایت کی ہے اور کہا کہ اس مسئلے میں حضرت عمر ﷺ نے حضرت علی ؓ کے قول کی طرف رجوع کرلیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ متفق ہوگئے اس لئے کہ روایت یہی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت علی ؓ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ لیکن فقاء امصار کا اس مسئلے میں اختلاف رہا۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ عورت کو مہر مثل ملے گا۔ پھر جب پہلے شوہر کی عدت گزر جائے گی تو دوسرا شوہر اس سے نکاح کرسکے گا۔ یہی سفیان ثوری کا بھی قول ہے اور امام شافعی بھی اس کے قائل ہیں۔ امام مالک، اوزاعی اور لیث بن سعد کا ق ول ہے کہ وہ عورت اس دوسرے مرد کے لئے کبھی حلال نہیں ہوگی بلکہ امام مالک اور لیث بن سعد نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس عورت کو، م اگر وہ لونڈی ہو، یہ مرد خرید بھی نہیں سکے گا۔ یعین ملک یمین کی بنا پر بھی وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کرلیا تو اس کے لئے اس سے نکاح کرلینا جائز ہے حالانکہ زنا عدت میں نکاح کرنے سے بڑھ کر جرم ہے۔ اب جب زنا کی وجہ سے وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہوتی تو شبہ کی بناء پر ہمبستری کی وجہ سے اس پر حرام نہ ہونا زیادہ معقول بات ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے آزاد عورت سے نکاح کرنے کے بعد کسی لونڈی سے نکاح کرلیا یا دو بہنوں سے نکاح کر کے دونوں سے ہمبستری بھی کرلی تو ایسی صورت میں وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہوجائے گی۔ ٹھیک اسی طرح اگر کسی نے کسی عورت سے اس کی عدت کے دوران نکاح کر کے ہمبستری کرلی تیو یہ ہمبستری یا تو شبہ کی بناء پر وطی قرار دی جائے گی یا اسے زناء کا نام دیا جائے گا چاہے جو بھی صورت ہو اس سے ہمیشہ کے لئے تحریم لازم نہیں آئے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمہارے نزدیک بھی بعض صورتوں میں شبہ کی بناء پر وطی اور زنا کا ارتکاب ہمیشہ کے لئے تحریم کا موجب بن جاتا ہے مثلاً ایک شخص اپنی بیوی کی ماں یا بیٹی سے ہمبستری کرلے تو ایسی صورت میں اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہوجائے گی اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو مسئلہ ہمارے زیربحث ہے اس کی اس مثال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے زیربحث تو وہ ہمبستری ہے جس میں شریک عورت ہمبستری کرنے والے مرد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے ایسی ہمبستری زیربحث نہیں ہے جس میں شریک عورت کی وجہ سے کوئی دوسیر عورت ہمبستری کرنے والے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے۔ ہمارے نزدیک یہ حکم تو ہمبستری کےئے ہے خواہ وہ بصورت زنا ہو، یا بصورت شبہ یا بصورت مباح لیکن متعرض کو فقہ کے اصولی کتابوں میں کوئی ایسی مثال نہیں ملی جس میں ہمبستری کی بناء پر شریک عورت ہمیشہ کے لئے اس مرد پر حرام ہوگئی ہو۔ اس بنا پر معترض کا قول کتب اصول سے خارج ہے اور اقوال سلف سے بھی اس لئے کہ حضرت عمر ؓ نے اس مسئلے میں حضرت علی ؓ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ رہ گئی یہ بات کہ حضرت عمر ؓ نے اس کے مہر کی رقم کو بیت المال کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے اسے ناجائز ذریعے سے حاصل ہونے والا مہر قرار دیا تھا ایسی صورت میں اس رقم کا صدقہ کردینا ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے اسے بیت المال کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ پھر اس معاملے میں حضرت علی ؓ کے قول کی طرف رجوع کرلیا۔ مہر کی رقم کے متعلق حضرت عمر ؓ کے طریق کار کی مشابہت حضور ﷺ سے منقول اس روایت کے ساتھ ہے کہ آپ کے سامنے ایسی بکری کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا گیا جسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لے لیا گیا تھا۔ آپ نے جب اسے کھانا چاہا تو وہ حلق سے نیچے نہیں اترا، آپ نے فوراً فرمایا کہ بکری مجھے بتارہی ہے کہ اسے ناحق پکڑ لیا گیا تھا۔ لوگوں نے آپ کو جب بتایا کہ مالک کی اجازت کے بغیر اسے پکڑ لیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا اسے قیدیوں کو کھلا دو ۔ ہمارے نزدیک حضور ﷺ کے اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ یہ بکری اس شرط پر پکڑنے والوں کی ہوجاتی کہ وہ اس کی قیمت کا تاوان بھر دیتے، حضور ﷺ نے اسے صدقہ کردینے کا حکم دے دیا اس لئے کہ اسے ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا تھا اور ابھی تک انہوں نے اس کی قیمت مالک کو ادا نہیں کی تھی۔ سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ زیر بحث عورت کا مہر بیت المال میں رکھا جائے گا۔ سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی اور زہری کا قول ہے کہ حضرت علی ؓ سے منقول روایت کے مطابق مہر کی رقم عورت کو مل جائے گی۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ ان دونوں کو حد نہیں لگے گی۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے عدت کے دوران نکاح کرلیا تو ان پر حد واجب نہیں ہوگی خواہ انہیں تحریم نکاح کا علم بھی ہو۔ کیونکہ زیربحث مثال میں عورت کو اس کا علم تھا کہ وہ عدت میں ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسے کوڑوں کی سزا دی اس کا مہر بیت المال میں جمع کروا دیا، لیکن کسی پر حد جاری نہیں کی۔ پھر اس مسئلے میں کسی صحابی نے حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کی مخالفت نہیں کی۔ اس بنا پر یہ مثال اس قاعدے کی بنیاد بن گئی کہ ہر ایسی ہمبستری جو عقد فاسد کی بنا پر ہو اس میں حد واجب نہیں ہوتی خواہ اس میں ملوث فریقین کو اس کا علم وہ یا نہ ہو۔ یہ مثال امام ابوحنیفہ کے اس مسئلے کے لئے بطور شاہد کے کام دے رہی ہے کہ جس شخص نے اپنی کسی محرم سے نکاح کر کے اس کے ساتھ ہمبستری کرلی تو اس پر حد زنا جاری نہیں ہوگی۔ فقاء کا اس عدت کے متعلق اختلاف ہے جو کسی عورت پر دو مردوں کی وجہ سے واجب ہوئی ہو۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد۔ امام زفر، امام مالک بروایت ابن القاسم سفیان ثوری اور اوزاعی کچا قول ہے کہ ایسی صورت میں ایک عدت دونوں کے لئے کافی ہوگی۔ خواہ یہ عدت حمل کے ذریعے گزاری جائے یا حیض کے ذریعے یا مہینوں کے حساب سے۔ یہی ابراہیم نخعی کا قول ہے۔ حسن بن الصالح، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسی عورت ہر مرد کے لئے آنے والے دنوں میں علیحدہ علیحدہ عت گزارے گی پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (والمطلقات یتربصن بانفسمن ثلاثۃ قروم) اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب اس عورت کو شوہر نے طلاق دے دی اور کسی اور نے شبہ کی بناء پر اس سے ہمبستری کرلی تو اس کی عدت تین قروء یعنی حیض رہے کیونکہ وہ مطلقہ تھی اور اس پر عدت واجب ہوچکی تھی۔ اب اگر ہم اس عدت کی مدت میں اضافہ کرتے ہیں تو اس سے ہم آیت میں ایسے معنی کا اضافہ کردیں گے جو اس میں موجود نہیں۔ اس لئے کہ آیت نے شبہ کی بناء پر ہمبستری کی جانے والی مطلقہ اور دوسری مطلقہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس پر یہ قول باری (واللائی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبسم فعدتھن ثلثۃ اشھر واللائی لم یحضن، اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں، اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور وہ عورتیں بھی جنہیں حیض نہیں آیا) بھی دلالت کرتا ہے۔ یہاں بھی آیت نے اس مطلقہ کے درمیان جس سے کسی اجنبی مرد نے ہمبستری کی ہو اور ہمبستری نہ کی جانے والی مطلقہ کے درمیان فرق نہیں کیا۔ اس لئے آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں عدت کی مدت تین ماہ ہو۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (و اولات الاحمال جلھن ان یضعن حملھن، اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ ) یہاں اس میں فرق نہیں کیا گیا کہ یہ عدت ایک مرد کی وجہ سے لازم ہوئی ہے یا دو مردوں کی وجہ سے۔ اس پر اس آیت کی بھی دلالت ہو رہی ہے (یسئلونک عن الاہلۃ قلھی مواقیت للناس والحجچ) اس لئے کہ عدت اوقات مہینوں اور نئے چاندوں کے گزرنے کے حساب سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو سب لوگوں کے لئے وقت کا پیمانہ قرار دیا۔ اس لئے ضروری ہے کہ مہینے اور نئے چاند مذکورہ بالا دونوں کے لئے وقت کا پیمانہ ہوں اس لئے کہ آیت کا عموم اس کا متقاضی ہے۔ نیز اس امر پر سب کا اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ پہلے مرد کے لئے اس عورت سے عقد نکاح جائز نہیں جب تک اس کی وجہ سے عائد ہونے والی عدت ختم نہ ہوجائے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہ عورت پہلی عدت کے ساتھ ساتھ دوسرے مرد کی وجہ سے عائد ہونے والی عدت بھی گزار رہی تھی۔ اس لئے کہ دوسرے مرد کی وجہ سے عائد ہونے والی عدت اسے اس سے شادی کرنے سے روک نہیں رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسے اس لئے روک دیا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے عائد ہونے والی عدت کے پیچھے ایک اور شخص کی وجہ سے عائد ہونے والی عدت آرہی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ جائز ہے کہ پہلا شوہر اس سے نکاح کرلے اور پھر دوسرے شخص کے لئے عدت گزارنے کی جگہ پر عورت کے پہنچنے سے قبل اس کا انتقال ہوجائے۔ اس صورت میں دوسرے شخص کی عدت اس پر لازم نہیں ہوگی۔ اگر عورت اس حالت میں اس دوسرے کی بھی عدت نہ گزار رہی ہوتی تو عقد نکاح ممنوع نہ ہوتا۔ اس لئے کہ ایسی عدت جو مستقبل میں واجب ہونے والی ہو وہ گزرے ہوئے عقد کو رفع نہیں کرسکتی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کر رہی ہے کہ حیض، حمل سے رحم کے خالی ہونے کا نام ہے جب پہلے مرد نے اسے طلاق دے دی اور دوسرے نے حیض آنے سے قبل شبہ کی بنا پر اس سے وطی کرلی پھر اسے تین حیض آ گئے تو اس سے استبراء رحم ہوگیا اور یہ بات تو محال ہے کہ پہلے شخص کے حمل سے استبراء دوسرے شخص کے حمل سے استبراء سے مختلف ہو۔ اس لئے ضروری ہوگیا کہ تین حیض کے ساتھ ہی دونوں شخصوں کی وجہ سے لازم ہونے والی عدت گزر جائے۔ اس بات پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر اسے علیحدہ کردیا پھر عدت میں شبہ کی بنا پر اس سے وطی کرلی تو اس پر اب دو عدت واجب ہوگی ایک عدت تو وطی کی بنا پر اور دوسری عدت ان ایام پر مشتمل ہوگی جو پہلی عدت سے باقی رہ گئے ہوں اس میں کوئی فرق نہیں ہوگا کہ یہ عدت ایک مرد کی وجہ سے لازم ہوئی یا دو مردوں کی وجہ سے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمہاری بیان کردہ صورت میں یہ ایک مرد کا حق تھا جو واجب وہا جبکہ زیربحث صورت میں واجب ہونے والا حق دو مردوں کا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایک مرد یا دوسروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر ایک مرد کے دو حق واجب وہ جائیں تو ان دونوں کو اس ایک مرد کے سپرد کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح ان دونوں کو دو حقداروں کے سپرد کرنا واجب ہے۔ دیکھئے قرضوں کی ادائیگی کے اوقات، حج کے مواقیت، اجاروں کے اوقال اور ایلاء کی مدتوں کے لحاظ سے ایک شخص یا دو شخصوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک ہی وقت کے گزرنے کے ساتھ دونوں میں سے ہر شخص اپنا حق حاصل کرلیتا ہے اور اس طرح ایک کے جو مہینے ہوتے ہیں بعینہ دوسرے کے لئے بھی وہی ہوتے ہیں۔ ابوالزناد نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ جس عورت نے مدت میں نکاح کرلیا آپ نے اسے دونوں شخصوں کی عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ ان دونوں شخصوں کے لئے اس عورت نے ایک ہی عدت گزاری۔ زہری نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے حضرت عمر ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ وہ عورت پہلی عدت کے باقی ماندہ دن گزارے گی اور اس کے بعد دوسرے شخص کی وجہ سے لازم ہونے والی عدت گزارے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ دوسرے شخص کی وجہ سے لازم ہونے والی عدت مستقبل میں گزارے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس روایت کو باقی ماندہ عدت پر محمول کیا جائے تاکہ یہ روایت ابوالزناد کی روایت کے موافق ہوجائے۔ واللہ اعلم۔
Top