Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ
: اور تم ان سے لڑو
حَتّٰى
: یہانتک کہ
لَا تَكُوْنَ
: نہ رہے
فِتْنَةٌ
: کوئی فتنہ
وَّيَكُوْنَ
: اور ہوجائے
الدِّيْنُ
: دین
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
فَاِنِ
: پس اگر
انْتَهَوْا
: وہ باز آجائیں
فَلَا
: تو نہیں
عُدْوَانَ
: زیادتی
اِلَّا
: سوائے
عَلَي
: پر
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیے)
قول باری (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ) کافروں سے قتال کی فرضیت کو ضروری قرار دیتا ہے حتیٰ کہ وہ کفر سے باز آ جائیں ۔ حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہاں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ ایک قول ہے کہ کفر کو اس لئے فتنہ کہا گیا ہے کہ یہ انسان کو ہلاکت تک لے جاتا ہے جس طرح فتنہ انسان کو ہلاکت کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک قلو یہ بھی ہے کہ فتنہ سے مراد آزمائش ہے اور کفر سے مراد آزمائش کی گھڑی میں اظہار فساد ہے۔ دین کے معنی طاعات کے ذریعے اللہ کے سامنے جھک جانے اور فرماں برداری بجا لانے کے ہیں۔ لغت میں دین کا مفہوم دو معنوں میں منقسم ہے۔ اول انقیاد یعنی فرماں برداری۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔ ھودان الدباب اذکر ھوالدب ن درا کا بغروۃ وصیال ثم دانت بعد الرباب وکانت کعذاب عقوبۃ الاقوال جب لوگوں نے جنگوں اور حملوں کے لگاتار سلسلے کے سامنے خود سپردگی کو ناپسند کیا تو اس نے اپنی محبوبہ رباب کی فرماں برداری اختیار کرلی اس کے بعد رباب نے اس کی فرما برداری اختیار کی لیکن وہ منہ سے نکالے ہوئے الفاظ کے نتیجے میں ملنے والی سزائوں والی عذاب بن گئیے۔ دوم۔ عادت ۔ شاعر کا شعر ہے تقول و قدد رأت لھا وضینی اھذا دینہ ابداً و دینی میں نے اپنا بالوں سے بنا ہوا نمدہ یا بسترہٹا لیا تو وہ کہنے لگی کیا ہمیشہ اس کی یہی عادت رہی ہے اور میری بھی۔ شریعت میں دین کا مفہوم اللہ کی دائمی طور پر فرماں برداری اور اسکے لئے خود سپردگی کی عادت ہے یہ آیت خاص طور پر مشرکین کے بارے میں ہے۔ اہل کتاب اس میں داخل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ان مشرکین کے ذکر سے ہوئی ہے چناچہ فرمایا گیا (واقتلوھم حیث تقفتموھم واخرجوھم من حیث اخرجوکم) یہ کیفیت مشرکین مکہ کی تھی جنہوں نے حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ سے نکالا تھا اس لئے اہل کتاب اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مشرکین عرب سے اسلام یا تلوار کے سوا کوئی تیسری چیز قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ قول باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنہ) عینی کفر باقی نہ رہے۔ اور (ویکون الدین للہ) اللہ کا دین اسلام ہے۔ قول باری ہے (ان الدین عند اللہ الاسلام ) دین اللہ کے ہاں اسلام ہے۔ اور قول باری (فان انتھوا فلاعدوان الا علی الظالمین، اگر یہ باز آ جائیں تو ظالموں کے سوا کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی) معنی یہ ہے کہ ان کے باز آ جانے کی صورت میں ظالموں کے سوا اور کسی کو قتل کی سزا نہیں ملے گی۔ اس سے مراد … واللہ اعلم … وہ قتل ہے جس کی ابتداء کا ذکر صوقاتلوھم) کے قول سے ہوا تھا۔ کفر کی وجہ سے مشرکین جس قتل کے سزا وار ٹھہر ی تھے اسے عدوان کا نام دیا گیا کیونکہ یہ ان کے ظلم کی سزا تھی۔ سزا کے لئے اصل جرم کا نام تجویز کیا گیا جس طرح کہ قول باری (وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا، اور بدی کا بدلہ اس جیسی بدی ہے۔ ) اسی طرح (فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی سے پیش آئو جس طرح وہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہے) حالانکہ بدی اور زیادتی کا بدلہ نہ بدی ہے اور نہ زیادتی ۔ ارشاد باری ہے (الشھر الحرام باشھر الحرام و الحرمات قصاص، ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا) حسن سے مروی ہے کہ مشرکین عرب نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ آیا آپ کو ماہ حرام میں ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے اثبات میں جوا بدیا۔ مشرکین نے موقعہ غنیمت جان کر ماہ حرام میں مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان سے برسر پیکار ہونے کا ارادہ کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مشرکین نے ماہ حرام میں جنگ وجدل کا دروازہ کھول دیا تو تم بھی اسی طرح ان کے مقابلے میں جنگ وجدل کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ابن عباس، ربیع بن انس، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ قریش نے جب حضور ﷺ کو ذی قعدہ کے مہینے میں جو ماہ حرام تھا، حدیبیہ کے دن حالت احرام میں ہونے کے باوجود بلد حرام مکہ سے واپس کردیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اسی ماہ ذی القعدہ میں مکہ میں داخل ہونے کی راہ ہموار کردی۔ آپ نے عمرہ ادا کیا اور حدیبیہ کے دن آپ کے اور مکہ کے درمیان جو رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی اس کا بدلہ لے لیا۔ اب یہاں آیت سے دونوں معنی مراد لینا ممتنع ہے۔ اس صورت میں ایک معنی کے لحاظ سے اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ مشرکین نے ماہ حرام میں حضور ﷺ کو بلا حرام میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اگلے سال ماہ حرام میں حضور ﷺ کو بلا حرام میں لے جا کر اس کا بدلہ چکا دیا۔ اس کے ساتھ ہی آیت میں ماہ حرام کے اندر قتال کی اباحت کا مضمون بھی موجود ہے بشرطیکہ مشرکین مسلمانوں کے خلاف ایسا قدم اٹھا لیں۔ بیک وقت دونوں معنی مراد لینا اس لئے ممتنع ہے کہ ایک ہی لفظ بیک وقت امر اور خبر نہیں بن سکتا اور جب ایک معنی مراد ہ گا دوسرے معنی کی خود بخود نفی ہوجائے گی۔ البتہ اس کی گنجائش ہے کہ ماہ حرام میں کفار کی رکاوٹ کی وجہ سے فوت شدہ عمرے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اگلے سال ماہ حرام میں جو عمرہ کرا دیا تھا آیت میں اس کی خبر دی جا رہی ہے اور بدلے میں آنے والے ماہ حرام کی حرمت اسی طرح ہے جس طرح فوت شدہ ماہ حرام کی حرمت تھی۔ اسی واسطے فرمایا (والحرمات قصاص) اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ اور اس کے بعد ہی فرمایا (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو) اللہ نے یہ بتادیا کہ اگر مشرکین ماہ حرام میں جنگ کا دروازہ کھولیں تو مسلمان بھی ایسا ہی کریں اگرچہ مسلمانوں کو اس کی ابتداء کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آیت میں بدلے کا نام بھی اعتداء رکھا گیا اس لئے اعتداء کا بدلہ اپنے جنس اور اس مقدار کے لحاظ سے جس کا وہ سزا وار ہوتا ہے ، اعتداء کی طرح ہوتا ہے۔ اس بنا پر مجازی طور پر بدلہ کو اعتداء کا نام دے دیا گیا اس لئے کہ زیادتی کرنے والا حقیقت میں ظالم ہوتا ہے اس بنا پر یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں کو ظلم کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ آیت میں اس بارے میں عموم ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کا مال استعمال میں لا کر ختم کر دے تو اس پر اس کا مثل واجب ہوگا۔ پھر اس مثل کی دو صورتیں ہیں۔ جنس میں مثل ہونا اور یہ بات ان چیزوں میں ہوتی ہے جو ناپ، تول اور گنتی کے ضمن میں آتی ہوں اور قیمت میں مثل ہوں اس لئے کہ حضور ﷺ نے ایک غلام کے جھگڑے میں جو دو شخصوں کی ملکیت میں تھا پھر ایک نے جو خوشحال تھا اسے آزاد کردیا۔ “ یہ فیصلہ دیا کہ آزاد کرنے والا تاوان کے طور پر دوسرے کو غلام کی نصف قیمت ادا کرے۔ آپ نے اعتداء یعنی زیادتی کی وجہ سے لازم ہونے والے مثل کو قیمت کی شکل دی۔ اس لئے اس باب میں اس کی حیثیت اصل کی ہوگی۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مثل کا اطلاق قیمت پر بھی ہوتا ہے اور یہ اس کے لئے اسم بنتا ہے۔ نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ مثل کا اطلاق کبھی اس چیز کے لئے اسم کے طور پر بھی ہوتا ہے جو اس کے جنس سے نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ چیز اس مثل کا بدل اور مقدار میں اس کی نظیر بن سکتی ہو۔ اس کے لئے یہ صورت پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص نے دوسرے کے ساتھ اس پر زنا کی تہمت لگا کر زیادتی کی تو اس صورت میں اس کے مثل یہ سزا نہیں ہ گی کہ اس پر بھی اسی قسم کی تہمت لگا دی جائے۔ بلکہ وہ جس مثل ک امستحق ہوگا وہ اسی کوڑے ہوں گے جو اسے لگائے جائیں گے۔ اسی طرح وہ اگر کسی کو ایسی گالی دے جو تہمت سے کم ہو تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔ یہ تعزیری سزا اس کے جرم کا مثل ہوگی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مثل کے اسم کا اطلاق کبھی ایسی چیز پر بھی ہوتا ہے جو اس کے جنس میں سے نہیں ہوتی لیکن اس کا بدل اور عائد ہونے والی سزا کی مقدار میں اس کی نظیر بن سکتی ہو۔ اس سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں کوئی شخص کسی کی ساگوان کی لکڑی غصب کر کے اپنی عمارت میں لگا دے تو اس پر اس لکڑی کی قیمت عائد ہوگی اس لئے کہ قیمت پر مثل کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے چونکہ غاصب نے یہ لکڑی غصب کر کے زیادتی کی ہے اس لئے اس پر عموم حق کی وجہ سے اس کا مثل عائد ہوگا یعنی اسے لکڑی کی قیمت دینی پڑے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس شخص کا مکان گرا کر اگر غصب شدہ لکڑی نکال لیں تو ایسی صورت میں ہماری طر سے اس پر اتنی ہی زیادتی ہوگی جتنی اس نے ہم پر کی تھی اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ غاصب سے اپنی مملوکہ چیز بعینہ واپس لے لینا اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے جس طرح کہ ایک شخص کے پاس رکھی ہوئی امانت کی واپسی اس شخص کے ساتھ زیادتی نہیں کہلاتی۔ زیادتی تو اس صورت میں ہوگی جبکہ وہ چیز غاصب کی ملکیت سے اسی طرح نکال لی جائے جس طرح اس نے نکالی تھی یا اس چیز پر اس کا قبضہ اسی طرح ختم کر ا دیا جائے جس طرح اس نے اصل مالک کا قبضہ ختم کرا دیا تھا۔ لیکن اگر مالک اپنی مملوکہ چیز بعینہ واپس حاصل کرلیتا ہے تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں مثل واپس ہوتا ہے۔ اس سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ قصاص کی جن صورتوں میں مماثلت اور مساوات ممکن ہو ان میں پورا پورا قصاص واجب ہوتا ہے اور ان صورتوں میں نہیں ہوتا جہاں مماثلت ممکن نہیں ہوتی مثلاً نصف باز و قطع کردینے یا پیٹ اور سر پر زخم لگانے کے جرم میں قصاص ساقط ہوجاتا ہے اس لئے کہ ان صورتوں میں مماثلت متعذر ہوتی ہے اور ان کے مثل کی پوری وصول محال ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اسی اصول کی بنا پر یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر اسے قتل کر دے تو مقتول کے ولی کو یہ حق پہنچنا ہے کہ وہ قاتل کو بھی اسی طریقے سے قتل کر دے کیونکہ قول باری ہے (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) آیت کا مقتضی یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہیے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔ ارشاد باری ہے (وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلفوا بایدیکم الی التھلکۃ، اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال ہیں۔ ایک وہ ہے جس کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں احمد بن عمرو بن السرح نے ، انہیں ابن وہب نے حیوۃ بن شریح سے اور ابن لھیعہ نییزید بن ابی حبیب سے ان دونوں نے اسلم ابو عمران سے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا، عبدالرحمٰن بن ولید ہمارے سالار تھے ادھر رومی ہمارے مقابلے پر اس طرح آئے کہ انہوں نے اپنی پشت کو شہر کی دیوار سے چپکائے رکھا تھا ہمارے ایک آدمی نے دشمن پر حملہ کردیا، لوگوں نے اس سے رک جانے کے لئے کہا کہ یہ تو اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ لوگوں کا اشارہ آیت (ولا تلقوا بایدفکم الی التھلکۃ) کی طرف تھا، حضرت ابو ایوب انصاری نے یہ سن کر فوراً محسوس کیا کہ لوگوں نے آیت کو بےمحل استعمال کیا ہے۔ اس لئے آپ نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول ہم انصار مدینہ کے سلسلے میں ہوا تھا بات یہ ہوئی کہ جب اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی نصرت فرمائی اور اپنے دین اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے کہا کہ اب اسلام کے لئے زیادہ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے کیوں نہ ہم اپنے مال و اسباب میں مصروف ہو کر ان کی دیکھ بھال کریں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ) اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار اور مال و اسباب میں مصروف ہو کر ان کی فکر میں لگ جائیں اور جہاد چھوڑ بیٹھیں۔ ابو عمران کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری مسسلل جہاد کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کا وہیں انتقال ہوگیا اور قسطنطنیہ میں مدفون ہوئے حضرت ابو ایوب انصاری نے یہ بتایا کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب ترک جہاد ہے اور آیت کا نزول اسی سلسلے میں ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس، حضرت عذیفہ، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور ضحاک سے بھی سی طرح کی روایت ہے۔ حضرت براء بن عاذب اور عبیدہ سلمانی سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب معاصی کے ارتکاب پر بخشش سے مایوسی ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس کا مطلب خرچ میں اسراف ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز باقی نہ رہ جائے اور فاقہ کشی میں اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد دشمنوں کی صفوں میں اندھا دھند گھس پڑنا کہ جس سے دشمن کا کوئی نقصان تو نہ ہو لیکن اپنی جان چلی جائے۔ آیت کی یہ تاویل ان لوگوں نے کی تھی جنہیں حضرت ایوب انصاری نے ان کی غلطی سے آگاہ کر کے اصل شان نزول کی خبر دی تھی۔ اگر آیت سے درج بالا تمام معانی مراد لئے جائیں تو اس میں قباحت نہیں ہے کیونکہ آیت کے الفاظ میں ان سب کا احتمال موجود ہے اور چونکہ ان معانی کا آپس میں کوئی تضادیا منافاقت نہیں ہے اس لئے ان سب کا بیک وقت اجتماع جائز ہے۔ امام محمد بن الحسن شیبانی نے سیر کبیر میں بیان کیا ہے کہ اگر ایک مسلمان تن تنہا دشمن کے ایک ہزار افراد پر حملہ آور ہو جائیتو اس پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس مجاہد کے دل میں بذریعہ شہادت اپنی نجات یا بذریعہ شجاعت دشمن کو نقصان پہنچانے کا جذبہ موج زن ہو۔ اگر ان میں سے کوئی جذبہ بھی کار فرما نہ ہو تو میرے نزدیک اس کا یہ اقدام مکروہ ہوگا اس لئے کہ وہ اپنی جان ہلاکت میں ڈالے گا اور اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک انسان کو یہ قدم اسی وقت اٹھانا چاہیے جبکہ اسے اپنی نجات یا مسلمانوں کی منفعت مقصود ہو۔ اگر اسے نہ تو نجات کا طمع ہو نہ ہی دشمن کو نقصان پہنچانے کا جذبہ بلکہ وہ یہ قدم محض مسلمانوں میں حوصلہ اور جرأت پیدا کرنے کے لئے اٹھا رہا ہو تاکہ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بی ایسا ہی قدم اٹھائیں اور یا تو دشمنوں کو نقصان پہنچائیں یا خود جام شہادت نوش کرلیں، تو ایسی صورت میں انشاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اسے صرف دشمن کے ہاتھوں نقصان پہنچانے کا جذبہ یہ اس اقدام پر ابھارت ا اور اپنی نجات کا اسے کوئی خیال نہ ہوتا تو بھی اس کا دشمن پر حملہ کرنا میرے نزدیک کوئی غلط بات نہ ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح اگر وہ دشمن کی صفوں میں گھس کر دوسروں کو نقصان پہنچانے کا جذبہ لے کر حملہ آور ہوتا ہے تو میرے نزدیک اس کا بھی یہی حکم ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اجر کا مستحق ہوگا مگر وہ صورت وہ ہوگی جبکہ اس کے اس اقدام میں منفعت کی کوئی بھ صورت نہ پائی جائے۔ اگر سا کے دل میں صرف دشمنوں کو مرعوب کرنے کا جذبہ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ دشمن کو نقصان پہنچانے کی بہترین شکل ہے اور اس میں مسلمانوں کے لئے منفعت کا پہلو بھی موجود ہے۔ امام محمد نے فرد واحد کے حملے کی جتنی صورتیں بتائی ہیں وہی صورتیں درست ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی صورت درست نہیں ہے اور ان ہی صورتوں پر ا نلوگوں کی تاویل کو محمول کیا جائے گا جن ہوں نے حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث میں اس شخص پر اس آیت کے مفہوم کو چسپاں کیا تھا جو تن تنہا دشمنوں پر حملہ کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس شخص کے اس اقدام کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس لئے ایسی صورت میں اسے اپنی جان تلف نہیں کرنی چاہیے تھی اس سے نہ دین کو کوئی فائدہ پہنچتا نہ مسلمانوں کو۔ اگر اس کی جان جانے کی صورت میں دین کو کوئی نفع ہوتا تو یہ تو ایسا مرتبہ و مقام ہے جس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی متعدد بار تعریف فرمائی۔ ارشاد باری ہے (ان اللہ اشتری من المئومنین انفسھم واموالھم بان لھوا الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان و مال کی خرید داری کرلی ہے کہ انہیں اس کے بدلے میں جنت ملے گی وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور پھر دشمنوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوتے ہیں۔ ) اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے (ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربھم یرزقون اور تم ان لوگوں کو ہرگز مردہ مت سمجھو جو اللہ کے راستے میں قتل ہوئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کی طرف سے رزق مل رہا ہے۔ ) ایک اور جگہ ارشاد ہے (ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا کے حصول کی خواہش میں اپنی جان کا سودا کر لیت یہیں) ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ ام بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم بھ یہی ہونا چاہیے کہ اگر کسی کو اس کام سے دین کو فائدہ پہنچنے کی امید ہو اور پھر وہ اس کام پر اپنی جان لگائے یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی اس پر قربان کر دے تو وہ شہادت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوجائے گا۔ قول باری ہے (وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں اور اس س لسلے میں پہنچنے والی تکلیفوں کو صبر کے سات ھ برداشت کریں۔ بیشک یہ بڑے پختہ ارادے اور حوصلے کا کام ہے۔ عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے حضور ﷺ کی یہ حدیث مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الشھداء حمزۃ بن عبدالمطلب ورجل تکلم بکلمۃ حق عند سلطان جائز فقتلہ، تمام شہیدوں میں سب سے افضل حمزہ بن عبدالمطلب ہیں نیز وہ شخص بھی ہے جس نے کسی ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہہ دی اور اس وجہ سے سلطان نے اس کی گردن اڑا دی) حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائز، ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے) محمد بن بکر نے ہمیں روایت کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبداللہ بن الجراح نے عبداللہ بنیزید سے، انہوں نے موسیٰ بن علی بن رباح سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عبدالعزیز بن مروان سے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرمایت ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ (شوما فی الرجل شح ھالع و جین خالع، ایک انسان میں بدترین چیز غم اگنیز شدت بخل اور قدم اکھاڑ دینے الی بزدلی ہے۔ ) بزدل کی مذمت سے بہادری اور جان بازی کے اقدام کی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ ایسی بہادری اور جان بازی جس سے دین کو فائدہ پہنچنے اگرچہ خود اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
Top