Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور (اے پیغمبر ﷺ جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) امت کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہر ایسا روزہ جو واجب فی الذمہ ہو اس کی صحت کی شرط ہے کہ اس کے لیے نیت کی جائے۔ اس لیے رمضان کے روزوں کا بھی یہ حکم ہونا چاہیے کہ ان کی صحت کے لیے نیت شرط قرار دی جائے۔ امام زفر نے اسقاط نیت کے لحاظ سے رمضان کے روزوں کو طہارت کے مشابہ قرار دیا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ طہارت متعین اعضاء میں فرض کی گئی ہے ۔ اس لیے روزہ اس حیثیت سے اس کے مشابہ ہوجائے گا وہ بھی ایسے وقت میں فرض کیا گیا ہے جو صرف اسی کے لیے متعین و مخصوص ہے۔ لیکن دوسرے تمام فقہاء کے نزدیک امام زفر کا یہ طرز استدلال درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جس علت کا ذکر امام زفر نے طہارت میں کیا ہے وہ روزہ میں موجود نہیں ہے کیونکہ انہوں نے طہارت کی یہ علت قرار دی ہے کہ وہ خاص جگہ یعنی جسم کے خاص اعضاء میں فرض کی گئی ہے اور یہ مفہوم روزہ میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ روزہ خاص جگہ کے لیے موضوع نہیں ہے بلکہ وہ ایک وقت معین کے لیے موضوع ہے۔ نیز امام زفر کی بیان کردہ علت طواف کعبہ کی صورت میں ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ طواف ایک معین جگہ میں فرض کیا گیا ہے۔ اگر کوئی قرض خواہ اپنے مقروض کا پیچھا کرتے ہوئے یوم النحر یعنی قربانی کے دن بیت اللہ کا چکر لگالے تو اس کا یہ چکر طواف زیارت نہیں کہلائے گا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بیت اللہ کے گرد اور صفا و مرو ہ کے درمیان لوگوں کو پانی پلاتا پھرے تو اس کا یہ عمل اس پر فرض شدہ عمل کے قائم مقام نہیں ہوگا ۔ اب اگر یہ علت اپنے معلول یعنی طواف اور سعی میں متعلقہ حکم کی موجب نہیں بن سکتی تو پھر جہاں پر علت سرے سے موجود نہ ہو وہاں اس کا متعلقہ حکم کی موجب نہ بننا بطریق اولیٰ ہوگا ۔ نیز جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں طہارت اس حیثیت سے روزے سے جدا ہے کہ یہ مقروض بالذات نہیں ہے یہ تو دوسری عبادتوں کے لیے صرف شرط ہے جو کسی اور کا بدل نہیں ۔ اس لیے اس میں نیت کا شرط ہونا ضروری نہیں ٹھہرا ۔ گویا کہ یوں کہا گیا کہ تم نماز نہ پڑھو مگر اس وقت جب تم حدث اور نجاست سے پاک ہو ۔ یا تم نماز نہ پڑھو مگر اس وقت جب تمہارے اندر ستر عورت پائی جائے اب نجاست کو دھونے اور ستر عورت کے لیے نیت شرط نہیں ہے۔ اسی طرح پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنے کے لیے نیت شرط نہیں ہے ۔ رہا روزہ تو وہ مقصود بالذات فرض ہے جس طرح کہ وہ تمام فرائض جن کا ہم پہلے ذکر آئے ہیں اس بنا پر نیت کا دل میں پیدا کرنا اس کی صحبت کے لیے شرط ہے۔ ایک اور پہلو ملاحظہ کیجئے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ صوم کی دو قسمیں ہیں ۔ صوم لغوی اور صوم شرعی اور یہ دونوں ایک دوسرے سے صرف اس نیت کی بنا پر جدا ہوتے ہیں ۔ جس کی شرائط کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے ۔ روزہ میں جب نیت نہیں ہوگی تو یہ روزہ لغوی طور پر تو صوم کہلائے گا لیکن اس میں شریعت کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اسی بنا پر رمضان کے روزوں میں نیت کا اعتبار کیا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص غیر رمضان میں ان چیزوں سے امساک کرے جن سے ایک روزہ دار باز رہتا ہے لیکن روزے کی نیت نہ ہو تو اس کا یہ امساک صوم شرعی نہیں کہلائے گا ۔ نفلی روزہ اس حیثیت سے رمضان کے روزے کے مشابہ ہے کہ اس میں رات سے نیت نہ کرنے کی گنجائش ہے جس طرح کہ رمضان کے روزے میں ہے۔ اب جبکہ ایک شخص صرف امساک کے ذریعے نیت کے بغیر نفلی روزہ دار نہیں کہلا سکتا اسی طرح یہ ضروری ہے کہ رمضان کے روزے کی بھی یہی حیثیت ہو۔ امام زفر کے استدلال کی بنا پر ان پر یہ لازم آتا ہے کہ ہو ایسے شخص کو جو رمضان میں چند دن کھائے پئے بغیر بےہوشی کی حالت میں رہا ہو، روزہ دار قرار دیں اس لیے کہ امساک کا وجود پایا گیا ، اگر کوئی شخص اس صورت حال کا قائل ہوجائے تو یقینا وہ ایک بہت ہی ناپسندیدہ بات کا قائل ہوجائے گا ۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ روزہ دار کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ہر ورز یا تو رات سے یا زوال سے قبل تک روزے کی نیت کرے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ بیان کر آئے ہیں کہ رمضان کا روزہ نیت کے بغیر درست نہیں ہوتا اور جب اسے مہینے کی پہلی تاریخ میں نیت کی ضرورت ہے تو دوسری تاریخ یعنی دوسرے دن بھی ایسا ہونا واجب ہے اس لیے کہ روزہ داررات ہوتے ہی روزے سے نکل آتا ہے اور جب روزے سے نکل آئے تو دوبارہ داخل ہونے کے لیے نیت کی ضرورت ہوگی ۔ امام مالک کا یہ قول ہے کہ جس روزے کے وجوب معین نہ ہو تو ایسا روزہ اسی وقت درست ہوگا جب رات سے اس کی نیت کی جائے گی اور جس روزے کا وجوب ایک معین وقت میں ہو جس کے متعلق اسے علم ہو کہ وہ اس وقت روزے سے ہوگا تو اس بنا پر وہ نیت کرنے سے مستغنی ہوگا ۔ یعنی اسے نیت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ، مثلاً ایک شخص یہ کہے کہ میں اللہ کے لیے ایک مہینہ لگاتار روزے رکھوں گا ۔ پھر اس نے مہینے کے پہلے دن روزہ رکھ لیا تو نیت کے بغیر بقیہ امام کے روزے بھی درست ہوجائیں گے ۔ امام لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر نفلی روزہ میں روزہ دار نے دن کے آخری میں حصے میں بھی نیت کرلی تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ ثوری نے ابراہیم نخعی کا قول نقل کیا ہے کہ ایسے روزہ دار کو آئندہ کا اجر مل جائے گا ۔ یہی حسن بن صالح کا مسلک ہے ۔ رمضان کے روزے کے متعلق ثوری کا یہ مسلک ہے کہ اس کے لیے رات سے نیت کرنے کی ضرورت ہے ۔ امام اوزاعی نے کہا ہے کہ رمضان کے روزے میں اگر روزہ دار نے نصف النہار کے بعد بھی نیت کرلی تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر واجب روزے میں خواہ رمضان کا ہو یا غیر رمضان کا رات سے نیت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے بغیر روزہ درست نہیں ہوگا ۔ البتہ نفلی روزے میں اگر زوال سے پہلے نیت کرلے تو روزہ درست ہوجائے گا ۔ جو لوگ پورے رمضان کے روزوں کے لئے ایک دفعہ نیت کے قائل ہیں ان کے قول کے بطلان پر ہمارا وہ استدلال دلالت کرتا ہے جس کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے کہ دوسرے دن کے روزے میں نئے سرے سے دخول ہوتا ہے اس لیے کہ رات آتے ہی وہ پہلے دن کے روزے سے باہر نکل آتا ہے۔ اب دوسرے دن کے روزے میں دخول کے لیے اسے نئے سرے سے نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر دخول درست نہیں ہوتا ۔ اس بنا پر یہ واجب ہوگیا کہ پہلے دن کی طرح دوسرے دن کے روزے کی صحت کے لیے نئے سرے سے نیت کو شرط قرار دیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پہلی نیت ہی کافی ہے جو کہ پورے مہینے کے لیے ہوتی ہے جس طرح نماز کی ابتداء میں نیت کافی ہوتی ہے اور ہر رکعت کے لیے نئے سرے سے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ان دونوں صورتوں میں مشترک بات یہ ہے کہ جس طرح ایک نماز کی رکعتوں کے درمیان دوسری نماز کی خلل اندازی نہیں ہوتی اسی طرح رمضان کے روزوں میں دوسرے کسی روزے کی خلل اندازی نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر پورے مہینے کے روزوں کے لیے ایک نیت کی کفالت کا جواز ہوتا تو ساری عمر کے روزوں کے لیے بھی ایک ہی نیت جائز ہوتی ۔ مگر چونکہ یہ بات غلط اور باطل ہے اور اس کے لیے پہلے دن روزے کی نیت کرنا ضروری ہوتا ہے اسی لیے پورے مہینے کے روزوں کی نیت کرنا درست نہیں ہوگا ۔ جس طرح کہ ساری عمر کے روزوں کے لیے ایک دفعہ نیت کرلینا درست نہیں ہے رہ گئی نماز کے ساتھ اس کی مشابہت تو یہ ایک بےمعنی بات ہے کیونکہ نماز کے لیے ایک دفعہ نیت اس لیے کافی ہوتی ہے کہ ایک نماز کے تمام افعال ایک ہی تحریمہ کے ذریعے سر انجام پاتے ہیں ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تحریمہ کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ اس نماز کا کچھ حصہ درست ہوجائے اور کچھ باطل ہوجائے اس بنا پر اس نماز کی رکعتوں کی بنا پر تحریمہ پر ہوتی ہے ۔ اگر نمازی ایک رکعت چھوڑ کر نماز سے باہر نکل آئے تو اس کی پوری نماز باطل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر روزہ دار رمضان کے درمیان ایک روزہ چھوڑ دے تو اس وجہ سے اس کے پورے مہینے کے روزے باطل قرار نہیں دیے جاتے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ نمازی نماز کی ایک رکعت ادا کرنے کے بعد نماز سے باہر نہیں آ جاتا بلکہ نماز کے اندر ہی ہوتا ہے اسی لیے اسے نئی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ نیت کی ضرورت تو نماز میں داخل ہونے کے لیے پیش آتی ہے ، اس کے برعکس رات آتے ہی روزہ دار روزے سے باہر نکل آتا ہے۔ اسی بنا پر حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( اذا اقبل اللیل من ھھنا وغابت الشمس فقد افطر الصائم) جب رات اس جگہ یعنی افق سے ظاہر ہوجائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ کھل جاتا ہے) اس لیے پہلے دن کے روزے سے باہر نکل آنے کے بعد اسے دوسرے کے دن کے روزے میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دخول نئی نیت کے بغیر درست نہیں ہوتا ۔ ہمارے اصحاب یعنی احناف نے ہر ایسے روزے میں جو مستحق العین ہو یعنی وہ ایک وقت معین میں فرض ہو ، رات سے نیت نہ کرنے کی اجازت اس لیے دی ہے بشرطیکہ زوال سے پہلے پہلے نیت کرلے کہ اس کی وجہ یہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اب اس شخص کو شہود رمضان ہوگیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس کے روزے رکھنے پر مامور ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس فعل پر مامور ہوا ہے اگر اسے انجام دے دے تو اسکا یہ فعل درست ہوجائے۔ سنت سے اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے عاشورہ کے دن مدینہ کی بالائی آبادی کو یہ پیغام بھیجا کہ جس شخص نے صبح کچھ کھالیا ہے وہ باقی دن کچھ نہ کھائے ، اور جس نے کچھ نہیں کھایا وہ روزہ رکھ لے۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے کھا لینے والے کو قضا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ یہ روایت ہمیں عبد الباقی قانع نے کی ، انہیں احمد بن علی بن مسلم نے ، انہیں محمد بن منہال نے ، انہیں یزید بن ربیع نے انہیں شعبہ نے قتادہ سے ، قتادہ سے عبد الرحمن بن مسلمہ سے ، انہوں نے اپنے چچا سے ، چچا نے کہا کہ میں عاشورہ کے دن حضور ﷺ کی خدمت میں آیا ۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ آیا تم لوگوں نے آج روزہ رکھا ہے ، سب نے نفی میں جواب دیا اس پر آپ نے فرمایا ، آج کا دن پورا کرلو اور پھر روزہ قضا کرو ۔ اس حدیث کی دو باتوں پر دلالت ہوئی ۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ عاشورہ کا روزہ فرض تھا اسی لیے آپ نے ان لوگوں کو اس کی قضا کا حکم دیا جنہوں نے صبح سے کچھ کھالیا تھا۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ آپ نے کھا لینے والوں اور کچھ نہ کھانے والوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے پہلے گروہ کو شام تک کچھ نہ کھانے اور دوسرے گروہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایسا روزہ جس کے لیے دن معین ہو اس میں رات سے نیت نہ کرنا جائز ہے کیونکہ اگر ایسے روزے کی صحت کے لیے رات سے نیت کرنے کی شرط ہوتی تو آپ کچھ نہ کھانے والوں کو روزہ رکھ لینے کا حکم نہ دیتے اور ان لوگوں کی حیثیت کھا لینے والوں کی طرح ہوتی ۔ یعنی ان کا روزہ درست نہ ہوتا اور انہیں بھی قضا کرنے کا حکم ملتا ۔ اس سے ہماری یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسا روزہ جو مستحق العین ہو یعنی ایک وقت معین میں فر ض ہو اس کے لیے رات سے نیت کا وجود شرط نہیں ہے اور ایسے روزہ دار کے لیے دن کے بعض حصے میں نیت کرلینا جائز ہے۔ اگر درج بالا استدلال پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس صورت میں رات سے ترک نیت کی گنجائش اس لیے ہوئی کہ جس وقت لوگوں کو حضور ﷺ کا پیغام پہنچا روزے کی فرضیت اسی وقت سے شروع ہوئی ۔ اس وقت سے پہلے فرضیت نہیں شروع ہوئی تھی بلکہ اس کی فرضیت دنت کے بعض حصے میں جب حضور ﷺ کا پیغام گیا تھا شروع ہوئی تھی اس بنا پر رات سے نیت نہ کرنا ان کے لیے جائز ہوگیا لیکن روزے کی فرضیت کے ثبوت کے بعد اس کے سوا اور کسی بات کی گنجائش نہیں رہی کہ رات ہی سے اس کے لیے دل میں نیت پیدا ہو ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر رات سے دل میں نیت کا پیدا کرلینا روزے کی صحت کے لیے شرط ہے تو پھر نیت کا عدم وجود روزے کی صحت سے مانع ہوگا ، جس طرح کہ ترک اکل روزے کی صحت کی شرائط میں سے ہے اور وجود اکل روزے کی صحت سے مانع ہے۔ پھر اس میں اس صورت حال میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے کہ خواہ روزے کی فرضیت کی ابتدادن کے بعض حصے میں ہوئی یا یا خواہ اس کی فرضیت پہلے سے معلوم ہو دونوں کا حکم یکساں ہونا چاہیے۔ جب حضور ﷺ نے ان لوگوں کو جنہوں نے صبح سے کچھ کھالیا تھا بقیہ دن کچھ نہ کھانے اور اس کے ساتھ روزہ قضا کرنے کا حکم دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ترک اکل روزے کی صحت کے لیے شرط ہے لیکن آپ نے رات سے روزے کی نیت نہ کرنے والوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ان کے روزے کی صحت کا حکم لگا دیا جب کہ انہوں نے یہ روزہ دن کے بعض حصے میں شروع کیا تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسا روزہ جو ایک وقت معین میں فرض ہو اس کے لیے رات سے دل میں نیت پیدا کرنے کی شرط نہیں ہے۔ یہی مثال اس کے نظائر کے لئے اصل اور بنیاد بن گئی ۔ مثلاً ایک شخص اپنے اوپر کسی خاص دن میں روزہ واجب کرے تو اگر وہ رات سے نیت نہ بھی کرے بلکہ زوال سے پہلے پہلے دن کے کسی حصے میں نیت کرے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عاشورہ کے روزے کی فرضیت رمضان کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے اس لیے ایک منسوخ حکم سے اس روزے پر استدلال کیسے درست ہوگا جو فرض ہے اور جس کا حکم ثابت و متحقق ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگرچہ اس کی فرضیت منسوح ہوچکی ہے لیکن اپنے نظائر پر اس کی دلالت منسوخ نہیں ہوئی۔ آپ دیکھتے نہیں کہ نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا اگرچہ منسوخ ہوچکا ہے لیکن اس کی وجہ سے نماز کے دوسرے تمام احکام منسوخ نہیں ہوئے۔ اسی طرح صلوٰۃ اللیل یعنی تہجد کی فرضیت اگرچہ منسوخ ہوگئی لیکن نماز کے باقی ماندہ تمام احکام اسی طرح ثابت ہیں اور اس کی منسوخی اللہ تعالیٰ کے اس قول فاقروا ماتیسر من القرآن قرآن میں جہاں سے میسر ہو قرات کرو سے حسب منشاء قرأت کے وجواب میں اختیار کے ثبوت پر استدلال سے مانع نہیں ہوئی اگرچہ اس آیت کا نزول بنیادی طور پر صلاۃ اللیل کے سلسلے میں ہوا تھا۔ فقہاء کا یہ قول کہ اگر روزہ دار زوال سے پہلے پہلے روزے کی نیت کرلے گا تو روزہ درست ہوجائے گا ۔ زوال کے بعد نیت کرنے پر روزہ درست نہیں ہوگا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ سے ایک روایت کہ آپ نے مدینہ کے بالائی حصے میں رہنے والوں کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ ( عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے سلسلے میں) جس شخص نے غذا نہیں کیا یعنی کھانا نہیں کھایا وہ روزہ رکھنے اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ باقی ماندہ دن کھانے پینے سے باز رہے۔ غذا زوال سے پہلے پہلے ہوتا ہے ۔ پھر حدیث میں غذا کا ذکر دو میں سے ایک وجہ کی بنا پر ہوا ہے ۔ یا تو اس وجہ سے کہ آپ نے یہ بات دن کے اول حصے میں زوال سے پہلے پہلے فرمائی تھی یا اس وجہ سے کہ آپ نے لوگوں کے سامنے یہ واضح کردیا کہ نیت کے جواز کا تعلق اس صورت سے ہے کہ اس کا وجود زوال سے پہلے پہلے ایسے وقت میں ہوجائے جو دن کا پہلا حصہ کہلاتا ہے۔ اگر زوال سے ما قبل اور اس کے ما بعد کا حکم ایک جیسا ہوتا تو آپ صرف اکلی کے ذکر پر اکتفاء فرماتے اور دن کے اول حصے کا ذکر کرتے۔ جب حضور ﷺ نے اس لفظ سے حاصل ہونے والے فائدے اور معنی کا لحاظ رکا تو اب یہ بات واجب ہوگئی کہ زوال سے پہلے اور زوال کے بعد کے حکم میں فرق رکھا جائے تا کہ حضور ﷺ کے کلام کا کوئی لفظ بےفائدہ نہ رہے۔ نفلی روزے میں رات سے نیت نہ کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ حضور ﷺ سے یہ حدیث مروی ہے جس کی ہمیں عبد الباقی بن قانع نے ، انہیں اسماعیل بن فضل بن موسیٰ نے ، انہیں مسلم بن عبد الرحمن سلمی بلخی نے ، انہیں عمرو بن ہارونے یعقوب بن عطا سے روایت کی ہے ، یعقوب نے اس کی روایت اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کی ہے کہ حضور ﷺ بعض دفعہ صبح کے وقت اٹھتے اور روزے کا کوئی پکا ارادہ نہ ہوتا ۔ پھر دل میں کوئی بات آتی اور آپ روزہ رکھ لیتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ ہمارے گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کہ کھانے کے لیے کچھ ہے اگر ہوتا تو کھالیتے ورنہ فرماتے کہ چلو میں روزہ رکھے لیتا ہوں ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر روزہ دار نے رات سے روزے کا پکا ارادہ نہیں کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو وہ دن کے ایک حصے میں روزے کے بغیر پایا جائے گا ایسی صورت میں اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے کچھ کھالیا ہو اس لیے اس کا اس دن کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور ﷺ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ نے نفلی روزے کی ابتدا دن کے ایک حصے میں کی ، جیسا کہ درج بالا حدیث میں ذکر ہوچکا ہے اور فقہاء نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے اور انہوں نے دن کے اس حصے کو جو نیت صوم سے خالی گزر گیا اس دن کے روزے کی صحت کے لیے مانع قرار نہیں دیا اور جب یہ صورت حال نفلی روزے کی صحت سے مانع نہ ہونے کی حیثیت سے اس صورت حال کی طرح نہیں ہوئی جس میں کوئی شخص دن کے اول حصے میں کچھ کھالے کہ یہ دوسری صورت لا محالہ صحت صوم سے مانع ہے، تو اسی طرح صوم مستحق العین یعنی معین وقت میں فرض روزے میں روزے کی نیت کا نہ ہونا روزہ شروع کرنے سے مانع نہیں ہوگا اور روزے کی ابتدا میں نیت کا نہ ہونا دن کی ابتدا میں کچھ کھا لینے کے مترادف نہیں ہوگا جس طرح کہ نفلی روزے میں اس کا حکم گزر چکا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک شخص نے رات سے روزے کی نیت کرلی پھر اس کی نیت غائب ہوگئی تو اس کی نیت کا غائب ہوجانا اس کے روزے کی صحت کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گا ۔ نیز روزے کی بقا کے لیے نیت کا مسلسل ساتھ رہنا شرط نہیں ہے ( یعنی یہ ممکن ہے کہ روزہ دار کے ذہن سے روزے کی نیت پوشیدہ غائب ہوجائے یا اس کا دھیان روزے کی طرف نہ رہے ، ان تمام صورتوں میں اس کے روزے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا) اسی بنا پر بعض روزوں میں ان پر دلالت کی موجودگی کے مطابق دن کے اول حصے میں نیت نہ کرنے کو جائز کردیا گیا ہے اور یہ چیز اس کے روزے کی صحت کے لیے مانع نہیں قرار دی گئی ہے۔ اب اگر کسی نے دن کے اول حصے میں کچھ نہ کھایا اور آخری حصے میں کھالیا تو اس سے اس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اس طرح وجود اکل نیت کے غائب ہوجانے کے بمنزلہ قرار نہیں پایا اس لیے ابتدا میں یا آخری حصے میں کھا لینے کا حکم ایک جیسا ہوگا لیکن نیت کے سلسلے میں اس میں فرق ہوگا ۔ ا س لحاظ سے دن کے اول حصے میں نیت کا نہ ہونا اور کھانے کے فعل کا پا جانا دوالگ چیزیں ہوگئیں اور اس طرح ان دونوں حالتوں کا حکم بھی الگ الگ ہوگیا اور اس بات کی صحت میں کوئی امتناع نہیں کہ دن کے اول حصے میں وہ روزے کی نیت نہ کرے اور پھر اس کے بعض حصے میں نیت کرے تو بےنیت گزرے ہوئے حصے پر بھی اسی طرح روزے کا حکم لگا دیا جائے جس طرح نیت کے غائب ہوجانے کی صورت میں گزرنے والے حصوں پر روزے کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص کے لیے نماز میں داخل ہونا اسی وقت درست ہوتا ہے جب کہ اس کے ساتھ نیت بھی ہو، تو اسی طرح روزہ کا حکم بھی ہونا چاہیے ۔ اس سے کہا جائے گا کہ یہ قیاس غلط ہے اس لیے کہ مسلمانوں کے درمیان اس شخص کے روزے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس نے رات سے روزے کی نیت کرلی پھر سو گیا اور صبح ہونے تک سوتا رہا ۔ ایسے شخص کا روزہ مکمل اور درست قرار پائے گا اگرچہ روزے میں داخل ہونے کے وقت نیت صوم ساتھ نہیں تھی ۔ اس کے برعکس اگر کسی نے نماز کی نیت کی پھر کسی اور کام میں لگ گیا اور اس کے بعد تحریمہ باندھ لیا تو اس کی نماز اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک کہ وہ نماز میں داخل ہونے کے وقت نئے سرے سے نیت نہ کرے۔ اب جبکہ تمام اہل اسلام کے نزدیک نیت صوم کے ساتھ ہونا یعنی مقارنت روزے میں داخل ہونے کی شرط نہیں ٹھہر جبکہ نیت کی مقارنت نماز میں داخل ہونے کی شرط ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ روزے پر بھی وہی حکم لگایا جائے جو نماز پر لگایا جاتا ہے ۔ یعنی نیت کے سلسلے میں روزے کو نماز پر قیاس کرنا درست نہیں ۔ خاص کر جب کہ حضور ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نفلی روزہ دن کے بعض حصے میں شروع فرماتے تھے اور فقہاء نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوئے ہیں ۔ نیز ان کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نیت کی مقارنت کے بغیر نفل نماز میں داخل ہونا درست نہیں ہے اسی سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ روزے کی نیت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جس کی تفصیل درج بالا سطور میں گزری ۔ البتہ ایسا روزہ جو کسی کے ذمہ واجب ہو مگر یہ ایک معین دقت میں فرض نہ ہو تو اس میں رات سے نیت کا نہ کرنا درست نہیں ہے ۔ اس کی اصل حضرت حفصہ ؓ کی حدیث ہے جو حضور ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا الاصیام لمن لم یعزم علیہ من اللیل اس شخص کا روزہ نہیں ہوتا جو رات سے اس کا پکا ارادہ نہ کرے۔ اس حدیث کے عموم کا تقاضا یہ تھا کہ روزے کی تمام اقسام میں رات سے نیت کرنا ضروری ہے مگر جب معین وقت میں فرض روزے اور نفلی روزے کے متعلق شرعی دلیل قائم ہوگئی تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے ان روزوں کے حکم کو درج بالا حدیث کے عموم سے خاص کرلیا اور باقی ماندہ روزوں کو اس عموم کے تحت رہنے دیا ۔ کفارہ کے دو ماہ کے سلسلہ روزے اور قضا روزے بھی اس حکم کے تحت رہے کیونکہ یہ روزے ایک وقت معین میں فرض نہیں ہوتے بلکہ جس وقت یہ شروع کیے جاتے ہیں وہی ان کے فرض کا وقت ہوتا ہے اس لیے ان کی حیثیت بھی ان روزوں کی سی ہے جو کسی کے ذمے واجب ہوتے ہیں۔ ارشاد باری فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ سے نکلنے والے احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ جب شخص کو شہود رمضان حاصل ہوجائے گا اس پر روزہ لازم ہوجائے گا پھر شہود رمضان کے تین پہلو ہیں اول یہ کہ اس کا علم ہو ، عربی کا محاورہ ہے شاھدت کذاوکذا میں نے فلاں فلاں چیز کا مشاہدہ کیا یعنی اس کا علم ہوا ۔ دوم شہر یا آبادی کے مقام میں اقامت ، جس طرح تم محاورے میں کہتے ہو، مقیم و مسافر و شاھد و غائب یعنی شہر یا آبادی میں اقامت پذیر انسان کو مقیم اور شاہد کہا جاتا ہے جبکہ سفر پر گئے ہوئے انسان کو مسافر اور غائب کہا جاتا ہے۔ سوم یہ کہ وہ شخص اہل تکلیف یعنی مکلفین میں سے ہو ، اس کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ اس آیت سے ، ان لوگوں کے قول کے مطابق جو اس بات کے قائل ہیں کہ ابتدا میں ایام معدودات کے روزے فرض تھے پھر رمضان کی وجہ سے یہ منسوخ ہوگئے، ان ایام کی منسوخی مستفاد ہوتی ہے نیز اس آیت سے تندرست اقامت پذیر انسان کے لیے روزہ رکھنے اور فدیہ ادا کرنے کے درمیان اختیار کی بھی منسوخی ہوگئی ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص کو تنہا رمضان کا چاند نظر آ جائے اس پر روزہ رکھنا لازمی ہوجاتا ہے۔ ایک مسئلہ اور بھی نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو صبح کے وقت رمضان کی آمد کا علم ہوا یا وہ بیمار تھا اور پھر رمضان کی پہلی تاریخ کی صبح وہ تندرست ہوگیا یا وہ مسافر تھا اور صبح اپنے گھر پہنچ گیا تو ایسے تمام لوگوں پر اس دن کا روزہ لازمی ہے بشرطیکہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہ ہو ۔ اس لیے کہ ان سب کو شہود رمضان حاصل ہوگیا ہے۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ روزے کی فرضیت صرف ایسے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جنہیں اس مہینے کا شہود ہوگیا ہو ، نہ کہ ان لوگوں کے ساتھ جنہیں شہود نہیں ہوا ۔ اس لیے جو شخص اہل تکلیف میں سے نہ ہو ، یا مقیم نہ ہو یا جسے رمضان کی آمد کا علم ہی نہ ہوسکا ہو اس پر اس کا روزہ لازم نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان کے روزوں کے لیے یہی مہینہ متعین ہے اور شاید رمضان کے لیے اس میں تقدیم و تاخیر کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے یہ بھی مستفاد ہوا کہ لزوم صوم کی شرط کے طور پر شہود سے مراد رمضان کے بعض حصے کا شہود ہے نہ کہ پورے رمضان کا ۔ اس لیے جب کوئی کافر رمضان میں مسلمان ہوجائے یا خا بالغ بالغ ہوجائے تو ان دونوں پر مہینے کے باقی ماندہ دنوں کے روزے لازم ہوں گے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص نے رمضان میں نفل کی نیت سے روزے رکھے تو اس کی یہ نیت رمضان کے فرض کی نیت کے لیے کافی ہوگی ۔ اس لیے کہ روزے کے فعل کا حکم آیت میں مطلقا ً وارد ہوا ہے۔ کسی صفت کے ساتھ مخصوص یا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ اس بنا پر رمضان کے روزے کا جواز ہوگا چاہے وہ کسی طرح کی بھی نیت کرے۔ اس آیت سے ان لوگوں کا بھی استدلال ہے جو اس کے قائل ہیں کہ جس شخص کو رمضان کی آمد کا علم نہ ہو اور وہ روزے کھ لے تو اس کا روزہ جائز نہیں ہوگا ۔ اسی طرح ان لوگوں کا بھی استدلال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص پر حالت اقامت میں رمضان آ جائے اور پھر وہ مسافر ہوجائے تو اس کے لیے اب روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) یہ وہ چند فوائد ہیں جو ہم نے قول باری فمن شھد منکم الشھر سے استنباط کیے ہیں اور ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ آیت مذکورہ میں ان کے سوا اور فوائد نہیں ہیں جن کا احاطہ ہمارا علم نہیں کرسکا ۔ ہوسکتا ہے کہ ان فوائد کا علم ہمیں بعد میں ہوجائے یا ہمارے علاوہ کوئی اور اہل علم ان کا استنباط کرے۔ ارشاد باری ہے فلیصمہ اس ارشاد کی تشریح کرتے ہوئے ہم ان امور کا تذکرہ کر آئے ہیں جن سے روزے کی حالت میں امساک کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ تو متفق علیہ ہیں اور کچھ کے متعلق فقہاء میں مختلف آراء ہیں ۔ اسی طرح ہم نے روزے کی شرائط بھی بیان کردی ہیں اگرچہ یہ شرائط نفسہٖ روزہ نہیں ہیں ۔ اسی طرح مریض اور مسافر کا حکم بھی گزشتہ صفحات میں بیان ہوگیا ہے۔ شہود رمضان کی کیفیت ارشاد باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اسی طرح ارشاد ہے ( یسئلونک عن الاھلۃ قلھی ماقیت للناس والحج) لوگ آپ ﷺ سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں ۔ محمد بن بکر نے ہم سے حدیث بیان کی ، انہیں ابو دائود نے سنائی ۔ انہیں سلیمان بن دائود نے بیان کی ، انہیں حماد نے ایوب سے ، جنہوں نے نافع سے روایت کی ، نافع نے ابن عمر سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( الشھر تسع و عشرون ۔ ولا تصوموا حتی تروہ ولا تفطو وا حتی تروہ، فان غم علیکم فاقدروالہ) مہینے کے انتیس دن بھی ہوتے ہیں جب تک رمضان کا چاند نظر نہ آ جائے روزہ نہ رکھو اور جب تک شوال کا چاند نظر نہ آ جائے روزہ نہ چھوڑ و ، اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے تو اس کا حساب لگا لو۔ حضرت ابن عمر ؓ کا طریق کاریہ تھا کہ جب شعبان کی انتیسویں تاریخ ہوتی تو چاند دیکھنے کے لیے نکلتے ، اگر چاند نظر آ جاتا تو فبہا اور اگر چاند نظرنہ آتا جبکہ کسی بادل وغیرہ یا گرد و غبار کی رکاوٹ بھی نہ ہوتی تو پھر آپ روزہ نہ رکھتے۔ اسی طرح انتیسویں رمضان میں اگر بدلی یا گرد و غبار نہ ہونے کے باوجودچاند نظر نہ آتا تو اگلے دن روزہ رکھتے۔ نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ لوگوں کے ساتھ روزہ ختم کرتے تھے اور اس حساب یعنی نجومیوں کے قول پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں ۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ ( صوموا الرویتہ) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق ہے کہ (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) تمام مسلمانوں کا اس آیت اور حدیث رسول ﷺ کے اس معنی پر اتفاق ہے کہ رمضان کے روزوں کے وجوب کے لیے روایت ہلال کا اعتبار ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رویت ہلال ہی شہود رمضان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ( یسئلونک عن الاھلۃ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس رات چاند نظر آ جائے وہ رات آئندہ ماہ یعنی رمضان کا جز ہے نہ کہ گزشتہ ماہ یعنی شعبان کا البتہ حضور ﷺ کے اس قول ( فان غم علیکم فاقدروالہ) کے معنی میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ چاند کے منازل کا اعتبار کیا جائے ۔ اگر چاند اپنی منزل میں ہو اور کوئی بادل یا گرد و غبار حائل نہ ہو اور وہ نظر آ جائے تو اس پر روایت کا حکم لگایا جائے گا اور اس طرح روزہ شروع یا ختم کیا جائے گا ۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس پر رویت کا حکم نہیں لگایا جائے گا ۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ بادل یا گرد و غبار کی وجہ سے اگر چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دنوں کی گنتی پوری کی جائے۔ پہلی تاویل بلا شک و شبہ قابل اعتبار نہیں ہے ، کیونکہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں نجومیوں اور چاند کے منازل کے حساب دانوں کے قول کی طرف رجوع کیا جائے۔ جبکہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس قول کے خلاف ہے کہ ( یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم کو روایت ہلال پر معلق فرمایا ہے ۔ اب جب رویت ہلال ایسی عبادت قرار دی گئی ہے جو تمام لوگوں کے لیے لازم ہے ، تو اس میں یہ بات جائز نہیں ہوگی اس کا حکم کسی ایسے علم کے ساتھ متعلق کردیا جائے جو صرف خاص خاص لوگوں کو حاصل ہو اور جن کی حیثیت بھی نہ ہو کہ ان کی بات پر لوگوں کو اطمینان ہو ۔ اس لیے دوسری تاویل ہی درست ہو۔ یہی عام فقہاء اور اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے ۔ حدیث کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ اس حساب یعنی نجومیوں کے قول پر عمل نہیں کرتے تھے ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ کے اس ارشاد ( فاقدروالہ) کا مفہوم ایسے واضح الفاظ میں بیان ہوا ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں یہ حدیث عبد الباقی بن قانع نے سنائی ، انہیں محمد بن العباس مؤدب نے ، انہیں شریح بن النعمان نے ، انہیں فلح بن سلیمان نے نافع سے اور نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ کی مجلس میں رمضان کے مہینے کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا ( لا تصوموا حتی تروا الھلال فان غتم علیکم فاقدروا ثلاثین) جب تک چاند نظر نہ آئے روزہ رکھو ، اگر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس دنوں کا اندازہ لگائو) اس حدیث سے حضور ﷺ کے ارشاد ( فاقدروا) کے معنی کی ایسی وضاحت ہوگئی جس سے پہلے گروہ کی تاویل کا خاتمہ ہو گیا نیز اس تاویل کے بطلال پر حضور ﷺ کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جسے حماد بن سلمہ نے سماک بن حرب سے ، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( صوموا الرویتہ وافطروا الرویتہ فان حال بینکم و بین منظر ہ سحاب او قطرۃ فعدوا ثلاثین ) چاند دیکھ کر روہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو اگر تمہارے اور رویت ہلال کے درمیان کوئی بادل یا گرد و غبار حائل ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرلو) حضور ﷺ نے ہمارے اور ہلال کے درمیان بادل یا گرد و غبارحائل نہ ہونے کی صورت میں روایت ہلال کے جواز کے ساتھ ساتھ تیس کی گنتی کا بھی حکم دیا اور ان لوگوں کے قول کی طرف رجوع کرنا ضروری قرار نہیں دیا جو یہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے اور ہلال کے درمیان بادل وغیرہ حائل نہ ہوتا تو ہم اسے دیکھ لیتے۔ اس سلسلے میں اس سے بھی واضح حدیث مروی ہے کہ جس کی ہم سے عبد اللہ بن جعفر بن احمد بن فارس نے روایت کی ہے ، انہیں یونس بن حبیب نے ، انہیں ابو دائود طیالسی نے ، اور انہیں ابوعوانہ نے سماک سے روایت کی ہے۔ سماک نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ( صوموا رمضان لرویتہ فان حال بینکمغمامۃ او ضابۃ فاکملوا عدۃ شھر شعبان ثلاثین ولا تستقبلوا رمضان بصوم یوم من شعبان ) رمضان کے روزے چانددیکھ کر رکھو، اگر بادل یا کہر حائل ہوجائے تو اس صورت میں شعبان کے مہینے تیس دنوں کی گنتی پوری کرو اور شعبان کے مہینے کے ایک دن کے روزے کے ساتھ رمضان کا استقبال نہ کرو) حضور ﷺ نے ہمارے اور رویت ہلال کے درمیان بادل وغیرہ ک حائل ہونے کی صورت میں شعبان کے تیس دنوں کی گنتی واجب کردی ۔ اس لیے چاند کے منازل اور نجومیوں کے حساب کے اعتبار کا قول شریعت کے حکم سے خارج قرار پایا ، نیز اس قول میں اجتہاد کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ کتاب اللہ کی دلالت ، سنت رسول ﷺ کی نص اور فقہاء کا اجماع اس کے خلاف ہے۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ ( صوموا الرئویتہ وافطروا الرویتہ ، فانہ غم غلیکم فعدو اثلاثین) شعبان کے مہینے کے تیس دنوں کی گنتی کے اعتبار کی اصل ہے ۔ الایہ کہ اس سے پہلے پہلے چاند نظر آجائے ۔ اس لیے ہر ایسا قمری مہینہ جس میں انتیس کو چاند نظر آسکے اس کے تیس دنوں کی گنتی پوری کی جائے یہ حکم ان تمام قمری مہینوں کا ہے جن کا احکام کے ساتھ تعلق ہے اور صرف رویت ہلال کی بنیاد پر ہی تیس سے کم کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص نے کسی مہینے کے دوران اپنا گھر دس ماہ کے لیے کرائے پر چڑھایا تو اس صورت میں نو ماہ چاند کے حساب سے پورے کئے جائیں گے اور ایک مہینہ کے تیس دن پورے کئے جائیں گے وہ اس طرح کہ پہلے مہینے کے جتنے دن گزر چکے ہوں گے ان کو آخری مہینے کے دنوں سے پورا کیا جائے گا اس لیے کہ پہلے مہینے کی ابتدا چاند کے حساب سے نہیں ہوئی تھی اس لیے اس کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور باقی ماندہ نو مہینوں کے دن چاند کے حساب سے مکمل کی جائیں گے ان مہینوں میں چاند کے سوا اور کسی چیز کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ اگر اس شخص نے مہینے کی پہلی تاریخ کو امکان کرائے پر دیا ہو تو تمام مہینوں کا حساب چاند کی تاریخوں سے کیا جائے گا ۔ رویت ہلال کے متعلق مختلف آراء رویت ہلال کی گواہی کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے جملہ اصحاب یعنی احناف کا قول یہ ہے کہ اگر آسمان میں کوئی علت یا رکاوٹ ہو تو رمضان کے چاند کے متعلق ایک عادل انسان کی گواہی قبول کرلی جائے گی ( عادل سے مراد ایسا شخص ہے جس کی نیکی اور صداقت نیز اچھے چال چلن کے عام طور پر لوگ قائل ہوں مترجم) اور اگر آسمان صاف ہو تو صرف ایک ایسے بڑے گروہ کی گواہی قبول کی جائے گی کہ جس کی اطلاع سے یقینی طور پر علم کا حصول ہوجاتا ہے۔ امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ آپ نے اس کی حد پچاس افراد مقرر کی ہے ۔ یہی مسئلہ شوال اور ذوالحجہ کی رویت ہلال کا ہے بشرطیکہ آسمان صاف ہو ۔ اگر آسمان میں کوئی رکاوٹ ہو تو پھر کم ازکم دو ایسے عادل انسانوں کی گواہی قابل قبول ہوگی جن کی گواہی حقوق کے فیصلے میں قبول کرلی جاتی ہو ۔ امام مالک ، سفیان ثوری ، امام اوزاعی ، لیث ، حسن بن جی اور عبید اللہ کا قول ہے کہ رمضان اور شوال کی رویت ہلال میں دو عادل آدمیوں کی گواہی قبول کرلی جائے گی ۔ مزنی نے امام شافعی سے روایت کی ہے کہ اگر رمضان کے چاند کے متعلق ایک عادل آدمی بھی گواہی دے دے تو میرا خیال ہے کہ اس کی گواہی قبول کر لینی چاہیے اس لیے کہ اس بارے میں روایت موجود ہے اور احتیاط بھی اسی میں ہے، جبکہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دو گواہوں کی گواہی قابل قبول ہونی چاہیے ۔ البتہ شوال کے چاند کی رویت کے سلسلے میں دوعادل کی آدمیوں سے کم کی گواہی میں قبول نہیں کروں گا ۔ امام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے مطلع صاف ہونے کی صورت میں ایک ایسے بڑے گروہ کی گواہی کو قابل اعتبار قرار دیا ہے جس کی اطلاع سے یقین طور پر علم حاصل ہوجاتا ہو ۔ اس لیے یہ ایسا فرض ہے جس کی ادائیگی کی عمومی طور پر ضرورت ہے اور لوگوں کو چاند کی تلاش کا حکم بھی دیا گیا ہے، تو یہ ایک ناروا سی بات ہوگی کہ کثیر تعدا د میں لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں ، مطلع بھی صاف ہو اور لوگ بھر پور زور لگا رہے ہوں اور اس بارے میں ان پر ذوق و شوق کا غلبہ بھی ہو لیکن اس پورے پس منظر کے ہوتے ہوئے چاند صرف چندلوگوں کو نظر آئے اور باقی لوگ بینائی کی درستی اور رکاوٹیں کی عدم موجودگی کے باوجود اسے دیکھ نہ سکیں۔ اس لیے ایسی صورت حال میں اگر چند لوگ رویت ہلال کی خبریں دیں تو ہم یہی سمجھیں گے کہ انہیں غلطی لگ گئی ہے اور ان کی بات درست نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خیالی طور سے کوئی چیز دیکھ کر اسے چاند گمان کرلیا ہو یا انہوں نے کسی مصلحت کی خاطر جان بوجھ کر جھوٹ بولاہو کیونکہ ان سے اس کا صدور ممتنع نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی بات ہے جس کی صحت کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور اس پر شریعت کے معاملات کی بنیاد ہے۔ اس جیسے معاملہ میں غلطی کرنے کے نقصانات بڑے دور رس ہوتے ہیں ۔ بےدین اور ملحد لوگ عوام الناس کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کے لیے اس کا سہارا لیتے ہیں اور جن لوگوں کو ہمارے بیان کردہ اصول پر یقین نہیں ہے انہیں بھی اس سے موقع ملتا ہے۔ اس لیے ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ شریعت کے ایسے احکام جن کی معرفت کی عوام الناس کو ضرورت ہوتی ہے ان کے ثبوت کا ذریعہ استفاضہ یعنی تواتر کے ساتھ لوگوں کی طرف اس کی اطلاع اور ایسی خبر ہے جو یقینی طور پر علم کا موجب ہو ۔ ایسے احکام کا اثبات اخبارآحاد یعنی اکا دکا لوگوں کے اطلاعات پر جائز نہیں ہے، مثلاً مس ذکر یا عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو کا واجب ہونا یا آگ پر پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو کرنا یا وضو میں بسم اللہ پڑھنے پر نئے سرے سے وضو کرنا ۔ ہمارے فقہاء کا کہنا ہے کہ چونکہ عام طور پر تمام لوگ ان جیسی باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں یعنی ان امور میں عموم بلویٰ ہے اس لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ان امور میں اللہ کا حکم بطریق تو قیف ہو یعنی محدود افراد کو حکم کی اطلاع دے دی جائے اور بس ، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ حضور ﷺ اس حکم کو لوگوں تک پہنچا دیں اور تمام لوگوں کو اس سے آگاہ کردیں۔ جب تمام لوگ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ لوگ اسے آگے نقل نہ کریں اور صرف اکادکا لوگ ہی اس کی اطلاع دیں، جبکہ لوگوں پر اسے آگے نقل کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس نقل شدہ حکم کے لیے لوگ ہی حجت ہوتے ہیں ۔ اب موضع حجت یعنی لوگوں کی کثیر تعداد میں اس حکم کی نقل کرنے کی صورت کو ضائع کردینا اور اس کی بجائے اکا دکا روایت پر انحصار کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان امور میں حضور ﷺ کی جانب سے صرف محدود پیمانے پر چند افراد کو اطلاع نہیں دی جاتی رہی ۔ اس میں یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے ایک بات فرما دی ہو جس میں کئی معافی کا احتمال ہو ۔ اب اس حکم کے اکا دکا ناقلین اسے اس طرح بیان کریں جس طرح انہوں نے اسے سمجھا ہو کسی اور طرح اسے بیان نہ کریں ۔ مثلاً آلہ تناسل کو ہاتھ لگانے سے وضو کرنے کے حکم میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد ہاتھ دھونا ہو جس طرح کہ حضور ﷺ کا یہ قول ہے اذا استیقظ احد کم من منامہ فلیغسل یدہ ثلاثا قبل ان یدخلھا فی الاناء نافہ لا یدری این بانت یدہ ۔ جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے اسے تین دفعہ دھو لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ کی رات کہاں گزری ہے ہم نے اصولی فقہ میں اس اصل کی پوری وضاحت کردی ہے۔ ایک شبہ کے ازالہ اس اصل کی نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان لوگوں اہل تشیع کے متعلق شبہ پیدا ہوگیا جنہوں نے یہ بات گھڑلی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک متعین فرد ( حضرت علی ؓ) کو واضح الفاظ میں امت پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور امت نے اس بات پر پردہ ڈالے رکھا اور اسے چھپائے رکھا۔ ایسے لوگ خود بھی گمرا ہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور اپنے غلط عقیدے کی بنا پر اسلامی شرائع کے ایک بڑے حصے کو ٹھکرا دیا اور اسلام میں ایسی باتوں کا دعویٰ کیا جو بےبنیاد تھیں اور نہ تو گروہوں کی نقل کردہ روایات میں ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی آحاد یعنی اکا دکا لوگوں کی نقل کردہ اخبار میں ۔ ایسے لوگوں نے بےدین افراد کے لیے راہ ہموار کردی کہ وہ شریعت میں ایسی باتوں کا دعویٰ کریں جن کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ اور اسی طرح اسماعیلیوں یعنی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں اور زندیقوں کے لیے دروازہ کھل گیا کہ وہ ضعف الاعتقاد اور جاہل لوگوں کو امر مکتوم پوشیدہ بات کی طرف بلائیں اور جب لوگ ان کی طرف مائل ہوگئے تو انہوں نے کتمان امامت کا عقیدہ گھڑ لیا ۔ حالانکہ امت کی امامت کا معاملہ پوری امت کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور لوگوں کے دل و دماغ پر اس کے بڑے دور رس اثرات ہوتے ہیں ۔ جب جاہلوں نے ان لوگوں کے اس عقیدے کو تسلیم کرلیا تو پھر انہوں نے ان جاہل کے لیے شرعی احکام گھڑے اور دعویٰ یہ کیا کہ ان کا تعلق مکتوم یعنی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے علم سے ہے اور ان احکام کے ایسے معنی پہنائے جن کے متعلق یہ کہہ دیا کہ یہ سب کچھ اما م کی طرف سے ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے اپنے ان جاہل پیروئوں کو اسلام سے نکال کر بعض صورتوں میں مذہب خرمیہ ایک بےدین فرقہ جو ایران کے ایک ملحد بابک خرمی کا پیروکار تھا میں اور بعض صورتوں میں صائبین اہل کتاب یعنی ایک عیسائی فرقہ کے مذہب میں انہیں دھکیل دیا۔ انہوں نے یہ کارروائی اس حد تک کی جس حد تک ان کے ماننے والوں نے ان کے جھوٹے دعوئوں کو تسلیم کیا اور ان کے دل و دماغ انہیں قبول کرلینے پر آمادہ ہوئے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص امامت کے کتمان کو درست سمجھنے والا ہو اس کے لیے حضور ﷺ کی نبوت کو ثابت کرنا اور آپ کے معجزات کو درست مان لینا ممکن ہی نہیں ہے۔ تمام انبیاء کے بارے میں اسی کا یہی رویہ ہونا چاہیے اس لیے کہ ایسے لوگوں کی کثرت تعداد بلند ہمتی اور ان کے اوطان کی ایک دوسرے سے دور ی کے باوجود اگر ان لوگوں کے خیال میں کتمان امامت کی سازش ہوسکتی ہے تو جھوٹ پر اتفاق کرلینے کی بھی سازش ہوسکتی ہے ۔ اس لیے کہ کتمان امامت ، پر لوگوں کا اتفاق ہوسکتا ہے تو ایسی روایت گھڑنے پر بھی اتفاق ہوسکتا ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو ، پھر اس سے یہ خوفناک نتیجہ برآمد ہوگا کہ ہمارے دلوں میں یہ کھٹکا پیدا ہوجائے کہ کہیں (نعوذ باللہ ) حضور ﷺ کے معجزات کی خبر دینے والوں صحابہ کرام ؓ نے ایسا تو نہیں کیا کہ جھوٹ پر اسی طرح اتفاق کرلیا ہو جس طرح امام کے متعلق حضور ﷺ کے مخصوص حکم کو چھپا لینے پر اتفاق کرلیا گیا تھا ( نعوذ باللہ) اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ جن لوگوں یعنی صحابہ کرام نے حضور ﷺ کے معجزات کو دوسروں تک نقل کیا ہے۔ ان کے متعلق اس فرقہ باطلہ کا عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد یہ لوگ نعوذ باللہ کا فر اور مرتد ہوگئے تھے کیونکہ انہوں نے امام کے متعلق حضور ﷺ کے فرمان کو چھپا لینے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا اور صرف پانچ یاچھ افراد یا چھ افراد کفر و ارتداد سے بچ گئے تھے ۔ اب اتنی چھوٹی تعداد کی خبر موجب علم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس سے کسی معجزے کا ثبوت ہوسکتا ہے جب کہ دوسری طرف جم غفیر یعنی جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم کی خبران گمراہ لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک ان حضرات کا نعوذ باللہ جھوٹ پر اتفاق کرلینا ممکن ہے اس بنا پر نقل اخبار کی صحت کا دار و مدار اس چھوٹی سی تعداد پر ہوگیا جس سے ان پر یہ بات لازم ہوگئی کہ یہ لوگ حضور ﷺ کے معجزات کو بھی ٹھکرا دیں اور آپ کی نبوت کا بھی ابطلا ل کردیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اذا، اقامت ، رکوع تکبیر کہتے وقت رفع یدین ، تکبیرات عیدین اور تکبرات ایام تشریق ایسے امور میں جن میں عموم بلوی پایا جاتا ہے یعنی ان کا تعلق تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ، لیکن ان میں بھی اختلاف ہے ، ان امور کے متعلق جو شخص بھی حضور ﷺ سے کوئی روایت کرتا ہے تو وہ بطریق احاد روایت کرتا ہے اس لیے اس کی دو میں سے ایک وجہ ضرور ہوگی یا تو اس لیے کہ حضور ﷺ نے ان امور میں عموم حاجت کے باوجود تمام لوگوں کو ان سے واقف نہیں کرایا اور ان کو اطلاع نہیں دی ۔ اگر یہ صورت ہے تو اس سے آپ کا وہ اصول ٹوٹ جاتا ہے کہ ہر ایسا حکم جس کو عوام الناس کو ضرورت ہوتی ہے حضور ﷺ کی طرف سے پوری امت کو اس سے ضرور واقف کرایا جاتا ہے یا یہ کہ حضور ﷺ نے تو ساری امت کو اس کی اطلاع دے دی تھی لیکن تمام لوگوں نے انہیں آگے نقل نہیں کیا جس کی بنا پر یہ ہم تک آحاد کی صورت میں پہنچی ہیں ۔ اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کا وہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مسائل جن میں عموم بلویٰ ہو ان میں تمام لوگوں کی نقل روایت کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جائے گا کہ جو شخص ہمارے بیان کردہ اصل کو پوری طرح ضبط کرنے سے قاصر رہے گا وہ یہ سوال اٹھائے گا ۔ ہم نے اپنی پوری گفتگو کی جس اصول پر بنیاد رکھی تھی وہ یہ تھا کہ ایسا حکم جو تمام لوگوں کو لازم ہوا اور وہ اس کی اطاعت اس فرض کی بنا پر کریں جس کا ترک کردینا یا جس کی مخالفت کا کوئی جواز نہ ہو مثلاً مسئلہ امامت یا ایسے فرائض جو تمام لوگوں کے لیے لازم ہیں ایسے مسائل میں حضور ﷺ کی طرف سے تمام لوگوں کو ان کی خبر دینا ضروری ہے اور پھر ان کی آگے منتقلی جم غفیر کی روایت کے ذریعے ہونی چاہیے ، اکا دکا لوگوں کی روایت سے ان کا اثبات نہیں ہوسکتا ۔ مترجم۔ اگر وہ فرض نہ ہو تو پھر لوگوں کو اختیا ر ہے کہ جس طرح چاہیں کریں اس سلسلے میں فقہا میں صرف یہ اختلاف ہوتا ہے کہ افضل صورت کو ن سی ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کی طرف سے افضل صورت کی تمام لوگوں کو اطلاع نہیں دی جاتی جب آپ کی طرف سے لوگوں کو ایک مسئلے میں اختیار مل جاتا ہے تو پھر افضل صورت کے توقیف کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس تشریح کی روشنی میں اعتراض میں اٹھائے گئے امور مثلاً اذان ، اقامت ، تکبرات ، عیدین اور تکبرات تشریق وغیرہ ایسے ہیں جن میں شریعت کی طرف سے ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔ اور فقہاء کے درمیان صرف ان کی افضل صورتوں کے متعلق اختلاف ہے۔ اس لیے ان کے متعلق روایات اگر اخبار آحاد کی شکل میں اور وارد ہوں تو اس کی گنجائش اور اس کا جواز ہے اور انہیں اس معنی پر محمول کیا جائے گا کہ حضور ﷺ سے یہ تمام صورتیں صحیح ہیں اور امت کو تخیر کے طور پر ان کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ ان کی حیثیت ان مسائل کی طرح نہیں ہے جن کو حضور ﷺ کی طرف سے تمام امت کو اطلاع دی گئی ہو یا ان سے ممانعت کی خاطر ان کے قریب پھٹکنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہو جبکہ ان میں عموم بلوی کی صورت موجود ہو۔ روایت ہلال کے سلسلہ میں جب کہ آسمان پر کوئی رکاوٹ نہ ہو اور مطلع صاف ہوا س کی اطلاع کے لیے ہمارا بیان کردہ اصول یہ ہے کہ جس چیز میں عموم بلوی ہو تو اس کا در و اخبار متواترہ کے ذریعے ہونا چاہیے جو موجب علم ہوں ۔ البتہ اگر آسمان پر کوئی رکاوٹ بادل یا گرد و غبار کی شکل میں موجود ہو تو ایسی صورت میں اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ چاند اکثر لوگوں کی نظروں سے تو مخفی رہا اور بادلوں کے درمیان سے صرف ایک یا دو کو نظر آگیا اور قبل اس کے کہ دوسروں کو نظر آئے پھر اس پر بادل آ گئے ، اس بنا پر اس کے متعلق ایک یا دو کی اطلاع قبول کرلی جائے گی اور رجم غفیر کی اطلاع کی جو موجب علم ہوتی ہے شر ط نہیں لگائی جائے گی۔ ہمارے اصحاب نے رمضان کے چاند کے متعلق ایک شخص کی اطلاع کی اس حدیث کی بنا پر قابل قبول قرار دیا ہے جس کی محمد بن بکر نے ہمیں روایت کی ، انہیں ابو دائود نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد بن مسلمہ نے سماک سے اس کی روایت کی ۔ سماک نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے یہ روایت کی کہ ایک دفعہ لوگوں کو رمضان کے چاند کے متعلق شک ہوگیا اور انہوں نے تراویح نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے کا ارادہ کرلیا ۔ اسی دوران حرہ سے ایک بدو آیا جس نے چاند نظر آ جانے کی گواہی دی ، اسے حضور ﷺ کے پاس لایا گیا آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ﷺ ہوں ، اس نے اثبات میں اس کا جواب دیا نیز یہ گواہی بھی دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ یہ سن کر آپ نے حضر ت بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز تراویح ادا کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان کردیں ۔ اس روایت کے ایک لفظ وان یقوموا کے متعلق ابو دائود کا کہنا ہے کہ یہ لفظ صرف حماد بن سلمہ نے کہا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمود بن خالد اور عبد اللہ بن عبد الرحمن سمر قندی نے ابو دائود نے درمیان میں کہا کہ مجھے عبد اللہ بن عبد الرحمن کی حدیث کا زیادہ اتفاق ہے ان دونوں کو مروان بن محمد نے عبد اللہ بن وہب سے روایت کی انہوں نے یحییٰ بن عبد اللہ سے انہوں نے ابوبکر بن نافع سے، انہوں نے اپنے والد نافع سے اور انہوں نے حضر ت ابن عمر سے یہ روایت کی کہ ایک موقع پر لوگوں نے رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی ، چاند مجھے نظر آگیا ، میں نے حضور ﷺ کو اس کی اطلاع دی ، آپ ﷺ نے میری بات سن کر لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا ۔ اس کا ایک پہلو اور ہے وہ یہ کہ رمضان کا روزہ ایسا فرض ہے جو دینی طور پر لازم ہوتا ہے۔ اگر اس میں استفاضہ یعنی تواتر کے ساتھ لوگوں کی اطلاع نہ پائی جائے تو اخبار آحادہ کو قبول کرنا واجب ہوگا ۔ جیسا کہ ان اخبار آحاد میں ہوتا ہے جو احکام شرع کے سلسلے میں حضور ﷺ سے منقول ہوتی ہے اور جن میں استفاضہ شرط نہیں ہوتا ۔ اسی بناء پر فقہاء نے عورت ، غلام اور حد قذف میں سزا یافتہ کی خبر کو عادل ہونے کی صورت میں قابل قبول قرار دیا ہے جس طرح کہ حضور ﷺ سے ایسی مرویات کو قبول کرلیا گیا ہے جبکہ ان سے قیاس کی تائید بھی ہو رہی ہے۔ جہاں تک شوال و ذی الحجہ کے چاند کا تعلق ہے تو اس میں احناف نے کم از کم دو عادل مردوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا ہے ۔ یہ دونوں افراد ایسے ہوں جن کی گواہی احکام شرعیہ میں قابل قبول تسلیم کی جاتی ہو ۔ اس کی بنیاد وہ روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن عبد الرحیم ابو یحییٰ البزاز نے ، انہیں سعید بن سلیمان نے ، انہیں عبادنے ابو مالک اشجعی سے روایت کی ، ابو مالک نے کہا کہ انہیں حسین بن الحرث الجدلی نے ( جن کا تعلق قبیلہ جدید قیس سے ہے) خبر دی کہ امیر مکہ نے خطبہ دیا جس میں کہا کہ حضور ﷺ نے ہمیں یہ وصیت کی ہے اور ہمارے دمہ لگایا ہے کہ ہم چاند دیکھ کر نسک بجا لائیں ( یعنی عید الاضحی کے موقع پر نماز عید ادا کریں اور قربانی دیں) اگر ہمیں چاند نظر نہ آئے اور دو عال آدمی چاند دیکھنے کی گواہی دے دیں تو بھی ہم نسک بجا لائیں ( میں نے حسین بن الحرث سے امیر مکہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا بعد میں جب میری ملاقات حسین بن الحرث سے ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ امیر مکہ محمد بن حاطب کے بھائی الحرث بن حاطب ہیں) امیر مکہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تمہارے درمیان ایسے بزرگ بھی موجود ہیں جو مجھ سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کو جاننے والے ہیں اور جنہوں نے حضور ﷺ کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ امیر مکہ نے یہ کہہ کر ایک شخص کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ حسین بن الحرث کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے سے پوچھا کہ امیر نے جس شخص کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے جواب دیا وہ عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں اور امیر نے سچ کہا ہے یقینا ابن عمر امیر سے بڑھ کر اللہ کو پہچانتے ہیں ۔ پھر امیر نے کہا ہمیں حضور ﷺ نے اسی کا حکم دیا ہے۔ اب امیر کا یہ قول کہ ہمیں چاند دیکھ کر نسک بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا اطلاق عید کی نماز اور قربانی پر ہوگا اس لیے کہ نسک کا اطلاق ان ہی دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ رمضان کے روزے پر نہیں ہوتا اس لیے کہ لفظ نسک مطلقاً صوم کے معنی میں نہیں بولا جاتا ۔ البتہ نماز اور ذبح کے معنوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ارشاد باری ملاحظہ فرمایئے ( فقد یۃ من صیام او صدقۃ اونسک) فدیہ دو روزے کی صورت میں یا صدقہ کی شکل میں یا قربانی کی صورت میں اس آیت میں روزے کو نسک کے علاوہ کوئی اور چیز قرار دیا گیا ہے ۔ لفظ نسک کا اطلاق عید کی نماز پر ہوتا ہے اس کی دلیل حضرت براء بن عازب کی حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو فرمایا ( ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلاۃ ثم الذبح ) آج کے دن ہمارا پہلا نسک نماز ہے پھر قربانی آپ سے نمازکو نسک کا نام دیا اور اللہ تعالیٰ نے ذبح کو نسک قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے ( ان صلاتی و نسلک و محیاری ومماتی للہ رب العالمین) میری نماز ، تیری قربانی ، میرا جینا ، میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو پروردگار عالم ہے) اسی طرح قوم باری ہے ( او صدقۃ اونسک) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امیر مکہ کا یہ قول کہ حضور ﷺ نے ہمارے ذمے یہ لگایا ہے کہ ہم دو عادل گواہوں کی گواہی کی بنا پر نسلک بجا لائیں ۔ عید الفظر کی نماز اور دسویں ذی الحجہ میں قربانی کو شامل ہوگیا ہے۔ اس بنا پر واجب ہے کہ اس میں دو سے کم کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔ ایک اور جہت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ کسی فرض کی انجام دہی میں احتیاط کرنا اسے ترک کردینے میں احتیاط کرنے سے بہتر ہے ۔ اس بنا پر فقہا نے روزہ ختم کرنے کے لیے احتیاط کرتے ہوئے دو مردوں کی گواہی کو لازمی قرار دیا ہے اس لیے کہ جس دن روزہ نہ ہو اس دن کچھ نہ کھانا پینا روزے کے دن کھانے پینے سے بہتر ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے اس صورت میں ترک احتیاط ہے ۔ اس لیے کہ یہ جائز ہے کہ وہ دن یوم الفطر ہو ، جب کہ ایک گواہ نے اس کی گواہی بھی دے دی ہے۔ اب آپ جب اس کی گواہی قبول نہیں کرتے اور دو آدمیوں کی گواہی کو احتیاط کا نام دیتے ہیں تو آپ کو اس بات کی گواہی ضمانت حاصل نہیں ہوتی کہ آپ یوم الفطر میں روزہ دار ہوں ، اور ایسی صورت میں ممنوع چیز میں وقوع اور احتیاط کے خلاف اقدام لازم آئے گا ( عید الفطر کے دن روزہ رکھنے کی شرعا ً ممانعت ہے) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ روزے کی ممانعت پر ہم اس وقت لازم آئے گی جبکہ یہ معلوم ہوا کہ آج یوم الفطر ہے۔ اگر یوم الفطر ہونے کا ثبوت مہیا نہ ہو سکے تو اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوگا ۔ اگر اس دن میں یوم الفطر کا ثبوت مہیا نہ ہو سکے تو ہم ورزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے درمیان ٹھہرے ہوں گے ایسی صورت میں ہمارے بیان کردہ اصول کے مطابق روزہ رکھ لینے میں زیادہ احتیاط کی بات ہوگی حتیٰ کہ ایسے لوگوں کی گواہی سے یہ ثابت ہوجائے کہ آج یوم الفطر ہے جن کی گواہی کی بنیاد پر حقو ق سے متعلقہ مقدمات کے فیصلے ہوتے ہوں ( پھر جب یوم الفطر کی بات قطعی ہوجائے گی تو روزہ توڑ دیا جائے گا) اللہ تعالیٰ کا یہ قول ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رمضان کے دخول کے متعلق شک والے دن میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ شک کرنے والے کو دراصل شہود رمضان ہو ہی نہیں اس لیے کہ اسے اس کا علم ہی نہیں ہے ، اس بنا پر اس کے لیے جائز نہ ہوگا کہ وہ اس دن رمضان کا روزہ رکھ لے ۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ ( صوم الرویتہ وافطر والمرویتہ فان غم علیکم فعد و اشعبان ثلثین) آپ نے اس دن پر شعبان کے دن ہونے کا حکم لگا دیا جس دن چاند نظر نہ آئے ، اس لیے یہ بات جائز نہیں کہ آنے والے رمضان کا روزہ شعبا ن میں رکھا جائے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی عبد الباقی بن قانع نے ہمیں روایت کی ، عبد الباقی کو فضل بن مخلد المودب نے ، انہیں محمد بن ناصح نے ، انہیں بقیہ نے علی القرشی سے یہ حدیث سنائی ، علی القرشی کو احمد بن عجلان نے صالح سے جو التوئتہ کے مولیٰ تھے ، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ حضور ﷺ نے یوم الدادۃ میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ یہ شک کا وہ دن ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ آج شعبان ہے یا رمضان ۔ ہمیں محمد بن بکر نے حدیث بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے ، انہیں ابو خالد الاحمر نے عمروبن قیس سے ، جنہوں نے ابو اسحاق سے ، ابو اسحاق نے صلۃ سے جنہوں نے فرمایا کہ ہم یوم الشک میں حضرت عمار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک بکری لائی گئی ، لوگ ذرا پرے ہوگئے ۔ حضرت عمار نے فرمایا کہ جس شخص نے آج روزہ رکھ لیا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی ۔ عبد الباقی نے ہمیں حدیث بیان کی ، انہیں علی بن محمد نے ، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد نے محمد بن عمرو سے ، جنہوں نے ابو سلمہ سے ، ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ۔ آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( صوم الرئویتہ وافطروالریتہ ولا تقدموا بین یدیہ بصیام یوم او یومین الاان یوافق ذلک صوما ً کان یصومہ احد کم ) چاند دیکھ کر ورزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو اور رمضا ن سے ایک یا دو دن پہلے سے روزہ رکھنانہ شروع کردو ، البتہ اگر کسی کو اس دن روزہ رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ ان احادیث کے معافی اللہ تعالیٰ کے قول ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کے مدلول کے موافق ہیں ۔ ہمارے اصحاب اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ اس دن نفلی روزہ رکھ لے کیونکہ حضور ﷺ نے اس دن کے متعلق جب یہ حکم لگا دیا کہ یہ شعبان کا دن ہے تو ساتھ ہی ساتھ اس میں نفلی روزہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی ۔ اس ہلال کے متعلق اختلاف ہے جو دن کے وقت نظر آئے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام محمد ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر دن کے وقت ہلال نظر آگیا تو وہ آنے والی رات کا چاند ہوگیا ۔ اگر ایسا چاند زوال سے پہلے یا زوال کے بعد نظر آئے تو اس سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ یہی قول حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت ابن عمر ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عثمان بن عفان ، حضرت انس بن مالک ، حضرت ابو وائل ، سعید بن المسیب ، عطار بن ابی رباح اور جابر بن زید سے مروی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر ؓ سے دو روایتیں ہیں ۔ پہلی روایت تو یہ ہے کہ اگر ہلال زوال سے پہلے نظر آ جائے تو وہ گزشتہ رات کا ہوگا اور اگر زوال کے بعد نظر آئے تو وہ آنے والی رات کا ہوگا ۔ امام ابو یوسف اور سفیان ثوری نے اس روایت کو اپنا مسلک بنایا ہے ۔ سفیان ثوری نے الرکین بن ربیع سے ، انہوں نے اپنے ربیع سے یہ روایت کی ہے ۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ بلجز کے مقام میں تھا۔ میں نے چاشت کے وقت ہلال دیکھا۔ میں نے یہ بات سلیمان کو بتائی سلیمان نے یہ سن کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس کا مشاہدہ کیا جب انہیں بھی ہلال نظر آگیا تو انہوں نے لوگوں کو روزہ توڑ دینے کا حکم دے دیا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے ( ولکلوا وشربوا حتی یتبین لکم الخیط الالبیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل) اس آیت میں جسے مخاطب بنایا گیا تھا اسے آخر رمضان میں بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس ارشاد باری ( وکلوا واشربوا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر) کی یہی مراد ہے۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ ایسا شخص ارشاد باری ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) کے خطاب میں بھی داخل ہو ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو کسی ایک حالت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ اس کا تعلق تمام احوال کے ساتھ ہے خواہ اس نے اس کے بعد چاند دیکھ لیا یا ہو نہ دیکھا ہو ۔ اس پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایسا شخص زوال کے بعد چاند دیکھ لے تو اس پر اتمام صوم کا خطاب پھر بھی قائم رہے گا بلکہ وہ اس لفظ کے حکم میں داخل رہے گا جب زوال کے بعد چاند نظر آنے کی صورت میں اس کا یہ حکم ہوگا تو زوال سے پہلے بھی چاند نظر آنے کی صورت میں اس شخص کا یہی حکم ہوگا اس لیے کہ لفظ کے عموم میں یہ صورت بھی داخل ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ ( صوم الرویتہ وافطروالریتہ) یہ بات ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ روزہ ہے جو رویت ہلال کے بعد ہوگا ۔ اس پر دو طرح سے دلالت ہو رہی ہے ۔ اول یہ کہ گزرے ہوئے دن کے روزہ رکھنے کا حکم دینا محال ہے اور دوم یہ کہ مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر اسے شعبان کی آخری رات کو چاند نظر آگیا تو اس پر آگے آنے والے دنوں کو روزے فرض ہوجائیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور ﷺ کے ارشاد ( صوم الرویتہ) میں وہ صوم مراد ہے جو روایت کے بعد ہو ۔ اس بنا پر جس شخص کو شعبان کے آخری دن زوال سے پہلے چاند نظر آگیا اس پر آنے والے دنوں کے روزے فر ہوگئے نہ کہ گزرے ہوئے دن کا ۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کے ارشاد کا اقتصاد اس روزے پر ہے جو وہ رویت کے بعد رکھے۔ پھر حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ صوموالرویتہ وافطروالرویتہ فان غم علیکم فعدواثلاثین اس سے ہر اس کی تیس کی گنتی پوری کرنا ضروری ٹھہرا جس کا ہلال ہماری نظروں سے مخفی رہے۔ اب اگر دن کے وقت نظر آنے والے ہلال میں گزشتہ رات کا احتمال ہو اور آنے والی رات کا بھی احتمال ہو تو یہی احتمال اسے اس ہلال کے حکم میں کردیتا ہے جو ہماری نظروں سے مخفی رہے۔ اس صورت میں حضور ﷺ کے فرمان کے تحت اس ماہ کے تیس دنوں کی گنتی پوری کرنا واجب ہوگا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور ﷺ نے یہ فرما دیا کہ وافطر والریتہ تو اس امرکا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ جس وقت بھی چاند نظر آئے روزہ ختم کردیا جائے۔ اب جبکہ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ زوال کے بعد ہلال نظر آنے کی صورت میں روزہ دار کو روزہ تو ڑ دینے سے روک دیا گیا ہے تو ہم نے اس اتفاق کی بنیاد پر حضور ﷺ کے درج بالا ارشاد سے اس صورت کو خاص کر کے الگ کردیا لیکن زوال سے پہلے چاند نظر آنے کی صورت میں اس حکم کا عموم باقی رہے گا یعنی زوال سے قبل رویت کی صورت میں اسے روزہ ختم کردینا چاہیے۔ جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کی مراد یہ ہے کہ ہلال کی رویت رات کے وقت ہوئی ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر زوال کے بعد اسے چاند نظر آگیا تو اس سے روزہ ختم کرنا واجب نہیں ہوگا کہ اس نے دن کے وقت چاند دیکھ لیا ہے ۔ اب چونکہ یہی مفہوم زوال سے پہلے چاند دیکھنے کی صورت میں بھی پایا جاتا ہے اس لیے اس کا بھی حکم وہی ہوگا جو زوال کے بعد کا ہے۔ نیز اگر اس فقرے کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے یہ ضروری ہوجائے گا کہ دن میں رویت سے ما قبل کے حصے کو رمضان قرار دیا جائے اور مابعد کے بعد حصے کو شوال ۔ اس لیے کہ اس بات کای یقین حاصل ہوچکا ہے کہ حضور کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ روزہ چھوڑ نا اسی وقت ہوگا جب پہلے چاند نظر آ جائے نہ کہ بعد میں نظر آنے والے چاند کی بنا پر پہلے روزہ کھول دیا جائے ، کیونکہ اسے ایسے وقت میں افطار کا حکم دینا محال ہے جو رویت سے پہلے ہو۔ اس سے یہ بات واجب ہوجائے گی کہ رویت کے بعد کا وقت شوال ہوا ور قبل کا وقت رمضان ۔ اس صورت میں مہینہ انتیس دن اور تیسویں دن کے کچھ حصے پر مشتمل ہوگا جبکہ حضور ﷺ نے مہینے کو دو میں سے ایک عدد کے ساتھ پورا کرنے کا حکم دیا ہے یعنی یا تو انتیس یا پھر تیس کیونکہ حضور ﷺ کا قول ہے کہ ( الشھر تسعۃ وعشرون ) مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔ نیز آپ کا یہ بھی قول ہے کہ الشھر ثلاثون مہینہ تیس دنوں کا ہوتا ہے اور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان احادیث سے حاصل ہونے والے مفہوم پر اعتقاد واجب ہے جو یہ ہے کہ مہینہ ان ہی دو عددوں میں سے ایک کا ہوگا اور جن مہینوں کے ساتھ احکامات کا تعلق ہے وہ یا تو انتیس کے ہوں گے یا تیس کے نہ کہ انتیس اور تیس کا بعض حصہ۔ اسلامی مہینوں میں کسری طور کمی بیشی نہیں ہوتی ہے ۔ غیر اسلامی مہینوں مثلاً رومیوں کے مہینوں میں ایسا ہوتا ہے ، ان کے بعض مہینے اٹھائیس دن اور انتیس کے چوتھائی دن کے ہوتے ہیں ۔ یہ شباط کا مہینہ ہے جو انگریزی مہینہ فروری کے مطابق ہوتا ہے ۔ البتہ لیپ کے سال میں شباط انتیس دنوں کا ہوتا ہے ۔ رومی مہینوں میں بعض اکتیس دن کے ہوتے ہیں اور بعض تیس دنوں کے ، لیکن اسلامی مہینوں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ جب اسلامی مہینے کے لیے اس کے سوا اور کوئی صورت باقی نہیں رہی کہ وہ یا تو انتیس دنوں کا ہوگا یا تیس دنوں کا تو ہمیں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ حضور ﷺ کے قول صوموا الرویتہ وافطروا لرئویتہ سے مراد ہی یہ ہے کہ رویت ہلال رات کے وقت ہو اور دن کے قریب رویت ہلال کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دن کا ایک حصہ کسی اور مہینے کا جز ہو اور دوسرا حصہ کسی اور مہینے کا پھر جس ذات نے صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ ارشاد فرمایا اسی ذات نے فان غم علیکم فعدوا ثلاثین بھی ارشاد فرمایا ۔ اب دن کے وقت رویت ہلال کا معنی یہی ہے کہ ہم پر چاند کا معاملہ اس لحاظ سے مشتبہ ہوگیا کہ ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا تعلق گزشتہ رات سے ہے یا آنے والی رات سے۔ یہ اشتباہ اس امر کو واجب کردیتا ہے کہ ہم اس ماہ کے تیس دن کی گنتی پوری کریں نیز حضور ﷺ سے آپ کا یہ قول بھی ثابت ہے کہ صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ فان حال بینکم و بینہ سحاب او قترۃ فعد واثلاثین چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو ۔ اگر تمہارے اور چاند کے درمیان کوئی بادل یا گرد و غبار حائل ہوجاتے تو تیس دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ حضرت ابن عباس نے اس کی روایت کی ہے اور اس روایت کی سند پہلے گزر چکی ہے۔ حضور ﷺ نے اس چاند پر جس کے نظر آنے میں کوئی بادل وغیرہ حائل ہوجائے اس چاند کا حکم لگایا جو بادل وغیرہ کے بغیر بھی نظر نہیں آیا ہو ۔ یہ جانتے ہوئے کہ اگر ہمارے اور چاند کے درمیان کوئی بادل وغیرہ حائل نہ ہوتا تو وہ نظر آ جاتا ۔ اگر حضور ﷺ کے قول کا یہ مفہوم نہ لیا جائے تو آپ کے اس قول فان حال بینکم و بینہ سحاب او قترۃ فعدوا اثلاثین کا کوئی معنی نہ ہوتا اس لیے کہ اگر بادل وغیرہ کے حائل ہونے کی صورت میں چاند کے متعلق معلوم کرلینا محال ہوتا تو حضور ﷺ ہر گزند کو رہ بالا فقرہ نہ فرماتے کیونکہ اس صورت میں آپ گویا بادل وغیرہ کے حائل ہونے کو تیس کی گنتی پوری کرنے کی شرط قرار دیتے۔ جب کہ آپ کو اس کا علم تھا کہ ہمارے لیے چاند کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس صورت حال کے تحت حضور ﷺ کا یہ قول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے اوپر چاند کے درمیان بادل وغیرہ حائل ہوگیا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہمیں چاند نظر آ جاتا تو ایسی صورت میں ہم اس دن پر رویت ہلال کا حکم نہ لگائیں یعنی سمجھ لیں کہ آج چاند نہیں ہوا ۔ اس لحاظ سے دن کے وقت نظر آنے والے ہلال کے متعلق یہ خیال کرنا اولیٰ ہوگا کہ اس کی روایت رات سے نہیں ہوئی۔ اس بنا پر اس دن کا حکم وہی ہوگا جو اس کے ما قبل دن کا ہے اور یہ گزشتہ ماہ کا دن ہوگا نہ کہ آنے والے مہینے کا ۔ اس لیے کہ رات سے رویت تو ہوئی نہیں ، بلکہ اس کی صورت اس صورت حال سے بھی زیادہ کمزور ہوگی جب کہ ہمارے اور رویت ہلال کے درمیان کوئی بادل وغیرہ حائل ہوجائے اور رویت نہ ہو سکے ۔ کیونکہ بادل وغیرہ حائل ہونے کی صورت میں ہمیں یہ علم ہوجاتا ہے کہ چاند موجود نہیں ہے اور اس کا تعلق گزشتہ رات سے نہیں ہے جبکہ دوسری صورت میں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ اس کا تعلق گزشتہ رات سے ہے بلکہ ہمارے علم میں صرف بات ہوتی ہے کہ ہم نے اسے گزشتہ رات نہیں دیکھا ہے باوجودیکہ ہمارے اور اس کے درمیان کوئی بادل وغیرہ حائل نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ دوسری صورت میں رویت ہلال کا معاملہ پہلی صورت کے مقابلے میں کمزور ہے۔ واللہ الموافق للصواب۔ رمضان کی قضا ارشاد باری ہے ومن کن منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر یرا للہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر تم میں سے جو شخص بیمار یا سفرپر ہو تو وہ دوسرے دنوں سے روزوں کی گنتی پوری کرے، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا ۔ امام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اوپر کی تلاوت کردہ آیت تین وجوہات سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا متفرق دنوں میں جائز ہے ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری فعدۃ من ایام اخر میں ایام کو نکرہ کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اس کے لیے معین دن نہیں ہیں اس لیے اس سے یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ قضا کرنے والے کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ چاہے تو متفرق دنوں میں قضا کرلے اور چاہے تو لگام تار روزے رکھ لے۔ اب جس فقہیہ نے رمضان کی قضا میں لگا تار روزے رکھنے کی شرط لگائی ہے اس نے دو طریقوں سے ظاہر آیت کی خلاف ورزی کی ہے ۔ اول یہ کہہ کر اس نے ایام کے لیے ایسی زائد صفت لازم کردی جس کا آیت میں ذکر نہیں ہے جبکہ کسی نص میں کسی دوسری نص کی بنا پر ہی زیادتی کی جاسکتی ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حج کے موقع پر ہدی نہ دے سکنے کی صورت میں عرفات میں جانے سے پہلے تین روزے اور واپس ہو کر سات روزے رکھنے کا حکم دیا تو اس میں لگا تار رکھنا لازم قرار نہیں پایا ۔ اس لیے کہ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ اسے قضا کو معین دنوں میں خاص کردیا جبکہ آیت میں اس کے لیے غیر معین دن ہیں اور یہ بات جائز نہیں ہے کہ آپ کسی دلالت کے بغیر کسی حکم کے عموم کی تخصیص کردیں۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر اس کے ظاہر کا تقاضا ہے کہ روزہ قضا کرنے والے کے لیے جس صورت میں زیادہ آسانی ہوگی وہ صورت اختیار کرنا اس کے لیے جائز ہوگا ۔ اب ظاہ رہے کہ لگا تار رکھنے کی صورت میں یسر کی نفی ہوجائے گی اور عسر کا اثبات ہوجائے گا جب کہ ظاہر آیت اس بات کی نفی کر رہی ہے۔ تیسری وجہ یہ ارشاد ہے ( ولتکموا العدۃ) اور تا کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کا زیادہ علم ہے کہ ان ایام کی تعداد کیا ہے جن میں اس نے روزہ نہیں رکھا اور جن کی اب قضاکر رہا ہے۔ ضحاک اور عبد اللہ بن زید بن اسلم سے اسی طرح کی روایت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ ہم سے ان دنوں کی تعداد پوری کرانا چاہتا ہے جن دنوں کے ہم نے روزے چھوڑے ہیں ۔ اب کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ آیت میں اس معنی کے سوا اور کسی چیز کی شرط لگائے اس لیے کہ اس سے آیت کے حکم میں زیادتی لازم آئے گی ۔ جس کے عدم جواز کا ہم نے کئی مواقع پر دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ البتہ اس معاملے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حرت معاذ بن جبل ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ، حضرت انس بن مالک ، حضرت ابوہریرہ ؓ ، مجاہد ، طائوس ، سعید بن جبیر اور عطاء بن ابی رباح سے یہ قول مروی ہے کہ قضا کرنے والا چاہے تو متفرق دنوں میں قضا کرلے اور اگر چاہے تو لگا تار روزے رکھ لے۔ شریک نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے حرث سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ حضر ت علی ؓ نے فرمایا : ” کہ رمضان کی قضا ، لگا تار دنوں میں کرو اور اگر متفرق دنوں میں اس کی قضاء کی تو تمہارے لیے یہ بھی جائز ہے “ ۔ حجاج نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے حرث سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ رمضان کی قضا کے متعلق آپ نے فرمایا کہ یہ متفرق دنوں میں نہیں کی جائے گی ہوسکتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے اس قول کا مفہوم یہ ہو کہ مسلسل رکھنا مستحب ہے۔ اور اگر الگ الگ رکھے گئے تو بھی جائز ہے ، جیسا کہ شریک کی روایت میں مذکور ہے۔ حضرت ابن عمر سے قضا رمضان کے متعلق مروی ہے کہ جس ترتیب سے روزے چھوڑے ہوں اسی ترتیب سے قضا کی جائے ۔ اعمش نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ رمضان کی قضا لگا تار ہونی چاہیے امام مالک نے حمید بن قیس مکی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ” میں مجاہد کے ساتھ طواف کر رہا تھا ایک شخص نے ان سے مسئلہ پوچھا کہ جس کسی نے رمضان کے روزے چھوڑے ہوں تو آیا وہ قضا میں لگا تار روزے رکھے گا ؟ ابھی مجاہد نے کچھ نہیں کہا تھا کہ میں بول اٹھا ” نہیں لگا تار نہیں رکھے گا “ یہ سن کر مجاہد نے میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ” میرے والد نے اس آیت کی جو قرأت کی ہے اس میں لفظ ” متتا بعات “ ( لگا تار) بھی موجود ہے۔ عرو بن الزبیر کا قول ہے کہ لگا تار روزے رکھے گا ۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد زفر ، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر چاہے تو متفرق دنوں میں رکھ لے اور اگر چاہے تو مسلسل رکھ لے۔ امام مالک ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ لگا تار رکھنا ہمیں زیادہ پسندیدہ ہے اور اگر متفرق دنوں میں رکھ لے تو بھی جائز ہے۔ اس طرح فقہاء امصار کا اس پر اجماع ہوگیا کہ متفرق دنوں میں قضاء کرنا جائز ہے۔ ہم نے اس سے یہ ذکر کردیا ہے کہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ حماد بن سلمہ نے سماک بن حرب سے ، انہوں نے ہارون بن ام ہانی یا ابن بنت ام ہانی سے یہ روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ام ہانی کو پئے ہوئے پانی کا بچا ہوا حصہ پینے کے لیے دے دیا ، ام ہانی نے پی لیا پھر کہنے لگیں :” اللہ کے رسول ، میں تو روزے سے تھی لیکن میں نے آپ کا جو ٹھا واپس کرنا پسند نہیں کیا “۔ اس حضور ﷺ نے فرمایا : ” اگر یہ رمضان کی قضا کا روزہ تھا تو اس کے بدلے روزہ رکھ لو ۔ اگر نفلی روزہ تھا تو پھر چاہو تو قضا کرلو چاہو تو نہ کرو ۔ حضور ﷺ نے اس دن کی بجائے روزہ رکھنے کا حکم تو دیا لیکن نئے سرے سے تمام روزے دوبارہ رکھنے کا حکم نہیں دیا ۔ اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے دو باتوں پر دلالت ہوتی ہے۔ اول یہ کہ لگاتار رکھنا واجب نہیں ہے۔ دوم یہ کہ لگا تار رکھنا متفرق طور پر رکھنے سے افضل نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ افضل ہوتا تو حضور ﷺ لازمی طور پر حضرت ام ہانی کو اسی کی ہدایت کرتے۔ عقلی طور پر بھی اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ رمضان کے روزے بھی لگا تار نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل ایام میں رکھے جاتے ہیں اور تتابع ان روزوں کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص درمیان سے ایک روزہ چھوڑ دے تو اس پر نئے سرے سے روزہ لازم نہیں ہوگا اور گزشتہ دنوں میں رکھے ہوئے روزے درست ہوجائیں گے جن میں اس ایک دن کے افطار کی وجہ سے تتابع کی صفت ختم ہوچکی تھی ۔ اب اگر اصل رمضان میں لگا تار یعنی تتابع کی شرط نہیں ہے تو اس کی قضاء میں تتابع کی شرط کا نہ ہونا بطریق اولی ہوگا ۔ اگر رمضان کے روزوں میں تتابع ضروری ہوتا تو ایک دن روزہ چھوڑ دینے پر اسے نئے سرے سے لگا تار روزے رکھنے پڑتے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کے روزوں کے مطلق رکھا ہے اور اس میں تتابع کی شرط نہیں لگائی لیکن آپ نے یہ شرط لگا کر نص کتاب میں اضافے کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ چیز ثابت ہوچکی ہے کہ عبد اللہ کی قرأت میں منتابعات کا لفظ بھی موجود ہے۔ یزید بن ہارون نے کہا کہ انہیں ابن عون نے یہ بتایا کہ میں نے قسم کے کفارہ کے روزوں کے متعلق ابراہیم سے دریافت کیا ۔ ابراہیم نے جواب دیا کہ اسی طرح ہیں جس طرح کہ ہم نے قرأت کی ہے یعنی ” فصیام ثلاثۃ ایام متشابعات “ تین دن کے مسلسل روزے۔ ابو جعفر رازی نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابو العالیہ سے روایت کی کہ ابو العالیہ نے کہا : ” میرے والد اس آیت کی ” فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات “ قرأت کرتے تھے، ہم نے اصول فقہ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ( فعدۃ من ایام اخر اور ہم سب کے نزدیک امر پر فی الفور عمل ہونا ضروری ہوتا ہے تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے اول امکانی حال میں قضا شروع کردے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قضا میں تعجیل کی خاطر پے در پے روزے کھتا چلا جائے اگر اسے ایسا کرنا واجب ہوگا تو اس سے تتابع لازم آئے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امر کے فی الفور یحا آوری سے تتابع لازم نہیں آتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امر میں فی الفور کا لزوم حسب امکان ہوتا ہے اور اگر ایک شخص کے لیے پہلے دن کا روزہ رکھنا ممکن ہوگیا ، اس نے روزہ رکھ لیا ، پھر بیمار پڑگیا اور روزہ چھوڑ دیا تو ایسی صورت میں امر کے فی الفور بجا آوری کی بنا پر اس پر نہ تو تتابع لازم آئے گا اور نہ ہی نئے سرے سے اس دن کا روہ رکھنا جس دن اس نے روزہ چھوڑ دیا تھا ، اس سے یہ دلالت ہوتی ہے کہ تتابع کے لزوم کا تعلق امر کے فی الفور بلا مہلت بجا آوری کے ساتھ نہیں ہے اور تتابع کی ایک اور صفت ہے جو امر علی الفور کے ماسوا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top