Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ
: فرض کیا گیا تم پر
اِذَا
: جب
حَضَرَ
: آئے
اَحَدَكُمُ
: تمہارا کوئی
الْمَوْتُ
: موت
اِنْ
: اگر
تَرَكَ
: چھوڑا
خَيْرَۨا
: مال
الْوَصِيَّةُ
: وصیت
لِلْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ کے لیے
وَالْاَقْرَبِيْنَ
: اور رشتہ دار
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
حَقًّا
: لازم
عَلَي
: پر
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کر جائے (خدا سے) ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) قصاص کی کیفیت ارشاد باری ہے : یایھا الذین امنو کتب علیکم القصاص فی القتلی دوسری آیت میں ارشاد ہے : والجروح قصاص ( اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہض نیز ارشاد ہے : وان عاقبتم فعاقبو بمثل ماعوقبتم بہ ان آیات کے ذریعے اللہ سبحانہ نے مثل کی وصولی کو واجب کردیا۔ اور کسی کو خواہ وہ جنایت کی زد میں آنے والا شخص ہو یا اس کا ولی ہو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جنایت کے مرتکب سے اس کے جرم سے بڑھ کر بدلہ لے۔ قصاص کی کیفیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ قاتل نے مقتول کو خواہ جس طرح بھی قتل کیا ہو اسے تلوار کے ذریعے قتل کیا جائے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک کا قول نقل کیا ہے کہ اگر قاتل نے مقتول کو لاٹھی یا پتھر مار کر یا آگ میں ڈال کر یا پانی میں ڈبو کر قتل کیا ہو تو اسے بھی اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ اگر قاتل نہ مرے تو اس پر اسی عمل کی تکرار ہوگی جس کے تحت اس نے قتل کا ارتکاب کیا تھا حتیٰ کہ وہ مرجائے خواہ یہ عمل قاتل کے اپنے فعل سے بڑھ کیوں نہ جائے۔ قاضی ابن شبرمہ نے کہا ہے کہ ہم قاتل کو اس ضرب کی طرح ضرب لگائیں گے جو اس نے مقتول کو لگائی تھی اور اس سے زائد ضرب نہیں لگائیں گے۔ سلف مثلہ ( ناک ، کان اور دیگر اعضاء کاٹ ڈالنے) کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تلوار ان تمام باتوں کی کفایت کردیتی ہے۔ اگر قاتل نے مقتول کی ڈبکیاں دے دے کر مارا ہو تو میں بھی اسے ڈبکیاں دوں گا حتیٰ کہ اس کی جان نکل جائے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر قاتل نے مقتول کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا ہو تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ اگر اس نے مقتول کو مقید کر کے بلا آب و دانہ ہلاک کردیا ہو تو اسے بھی محبوس کردیا جائے گا۔ اگر وہ حبس کے اندر مقتول والی مدت میں نہ مرے تو پھر تلوار سے اسے قتل کردیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب قول باری : کتب علیکم القصاص فی القتلی نیز : والجروح قصاص کا مفہوم کسی اضافے کے بغیر مثل کا استیفاء ( وصولی) ہے تو پھر ولی پر مجرم کے فعل سے زائد کا استیفاء ممنوع ہوگا۔ اگر ولی قصاص کا استیفاء ان حضرات کے مسلک کے مطابق کرے گا جن کا ذکر ہم نے آگ میں جلا کر ، پانی میں ڈبو کر، پھتر مار مار کر اور قید میں ڈال کر قتل کرنے کے سلسلے میں کیا ہے۔ تو اس کا یہ استیفاء قاتل کے لیے ہوئے جرم سے بڑھ کر فعل پر منتج ہوگا کیونکہ اگر قاتل درج بالا صورتوں کے تحت نہیں مرے گا تو اسے یا تو تلوار سے قتل کردیا جائے گا یا اس کے کیے ہوئے فعل کی اس پر تکرار کی جائے گی۔ جبکہ یہی وہ اعتداء ( زیادت) ہے جس سے اللہ سبحانہ نے ہمیں اپنے ارشاد : فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذب الیم اور اس کے بعد جو زیادتی کرے گا اس کے لیے درد ناک عذاب ہے) کے ذریعے روکا ہے، اعتداء قصاص سے آگے چلے جانے کا نام ہے اور قصاص قاتل کے ساتھ اس کے کیے ہوئے فعل کی طرح فعل کرنے کا نام ہے، بشرطیکہ ایسا کرنا ممکن ہوا اور اگر ایسا کرنا معتذر ہو تو ولی اسے قتل کی آسان ترین صورت کے تحت قتل کر دے گا۔ امام مالک کا قول ” قاتل پر اس کے کیے ہوئے فعل جیسے فعل کی تکرار کی جائے گی حتیٰ کہ وہ مرجائے “ درحقیقت قاتل کے فعل سے زائد فعل ہے اور قصاص کے معنی سے خارج ہے۔ اسی طرح امام شافعی کا قول : قاتل کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا اور اگر وہ پھر بھی نہ مرے تو اسے تلوار سے قتل کردیا جائے گا۔ در حقیقت مذکورہ بالا آیات کے حکم کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ قصاص کی جہت اگر یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا تو وہ یہ کا مکر کے اپنا حق وصول کرے گا۔ اس کے بعد قاتل کو قتل کر نا در حقیقت قصاص کی حد سے تجاوز اور اس سے آگے نکل جانا ہوگا جبکہ ارشاد باری ہے : ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلمو نفسہ ( اور جو شخص اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا) اگر قصاص کے معنی جان کے بدلے جان کا اتلاف ہے جس میں کیے ہوئے فعل کی مقدار سے تجاوز نہ ہو، تو اسی بات کے ہم قائل ہیں۔ اس بنا پر ہمارے مخالفین قصاص کے موجَب کے سلسلے میں جس طریق کار کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس کے اندر ہمہ وقت مذکورہ آیات کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ یہ طریق کار قصاص کی حد سے تجاوز کی صورت ہے۔ اسی طرح قول باری : فمن اعتدی علیکم فاعتد و و علیہ بمثل ما اعتدی علیکم نیز : وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ اس امر سے مانع ہے کہ جارح کو اس سے زیادہ زخم لگائے جائیں جس قدر اس نے مجروح کو لگائے تھے۔ سب کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا آدھا بازو قطع کر دے تو اس سے اس کا قصاص نہیں لیا جایء گا اس لیے کہ قصاص لینے میں مقطوع الید کے حق کی مقدار پر اقتصار کے بارے میں عدم تیقن ہوگا اگرچہ تھوڑا بہت غور کر کے اسے اس بارے میں غالب گمان حاصل ہوجاتا کہ مجرم نے اس کے بازو کے جس مقام پر چھری رکھی تھی وہ بھی مجرم کے بازو کے اس مقام پر چھری رکھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود مذکور جرم کے قصاص کے سلسلے میں اجتہاد کو عھ قطعیت کی بنا پر نظر انداز کر کے کہہ دیا گیا کہ اس جرم کا قصاص ممکن نہیں ہے۔ اور جب اس صورت میں اجتہاد کے لیی کوئی گنجائش نہیں رکیھ گئی تو پھر ایسے طریقے سے قصاص لینا کس طرح جائز ہوگا جس کے متعلق ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ قصاص لینے والے ن اپنے حق سے بڑھ کر بدلہ لیا ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ولی کے لیے مجرم کو قتل کردینا جائز ہے لیکن وہ اسے جلا نہیں سکتا اور نہ ہی پانی میں ڈبو کر مار سکتا ہے۔ یہ باس اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں قتل ہی مراد ہے اور جب تلوار سے قتل مراد ہو تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قصاص قتل کے آسان ترین ذریعے سے اتلاف نفس کا نام ہے اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہی صورت مراد ہے تو اس سے جلا کر مارنا، ڈبو کر مارا نیز پتھر مار مار کر سر کچل دینا اور اس طرح کی دیگر صورتوں کا مراد ہونا منتفی ہوگیا۔ کیونکہ مجرم کو تلوار کے ذریعے قتل پر اقتصار کا وجوب دیگر تمام صورتوں کے وقوع کی نفی کردیتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ قصاص میں مثل کا اس اس صورت پر واقع ہوتا ہے جب مجرم کو تلوار کے ذریعے قتل کردیا جائے اور اس صورت میں بھی جب اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا ۔ اگر وہ نہ مرے تو ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ تلوار سے اسے قتل کر کے اس کی جان لے لے اور اسے یہ بھی اختیار ہوگا کہ ابتدا ہی میں اسے تلوار سے قتل کر دے۔ اگر وہ اییسا نہیں کرتا تو وہ اپنا کچھ حق چھوڑ دیتا ہے اور اسے اپنا کچھ حق چھوڑنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تلوار کے ذریعے مجرم کو قتل کرنے کے ساتھ ولی کو یہ حق حاصل ہونا جائز نہیں ہے کہ وہ پتھروں سے اس کا سر کچل دے یا آگ میں ڈال کر اسے جلا دے کیونکہ یہ بات قصاص اور فعل مثل کی منافی ہے۔ اللہ سبحانہ نے قصاص واجب کیا ہے کچھ اور نہیں ، اس لیے قصاص کو ایسے معنی پر محمول کرنا جائز نہیں جو لفظ کے مضمون اور اس کے حکم کے منافی ہو۔ علاوہ ازییں پتھروں سے سر کچل دینے ، آگ میں ڈال کر جلا دینے، پانی میں دبو کر مار دینے اور تیروں کا نشانہ بنانے کے ذریعے قصاص کا استیفاء ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قصاص مثل کے استیفاء کا نام ہے تو پتھروں سے سر کچلنے کی کوئی حد تو معلوم نہیں ہوتی کہ یہ کہا جاسکے کہ فلاں مقدار کے ذریعے قاتل نے مقتول کا سر کچلا تھا۔ اسی طرح تیروں کے ذریعے نشانہ بنانے اور آگ میں جلانے کی کیفیت ہے۔ اس لیے یہ بات درست ہی نہیں ہے کہ مذکورہ صورتیں آیت مییں قصاص کے ذکر کے تحت مراد ہیں۔ نتیجے کے طور پر یہ ضروری ہوگیا کہ آیت میں قصاص سے مراد یہ لی جائے کہ آسان ترین طریقے سے قاتل کی جان تلف کردی جائے۔ ہماری مذکورہ بال آیات پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں حضور ﷺ نے منقلہ ( ایسا زخم جس میں ہڈی اپنی جگہ سے سرک جائے) اور جائفہ ( پیٹ کے اندرونی حصے تک پہنچ جانے والا زخم) میں قصاص لینے کی نفی فرما دی ہے کیونکہ جنایت اور جرم کے اجزاء کی مقداروں کے برابر ان صورتوں میں قصاص لینا متعذر ہے۔ اسی طرح تیروں کا نشانہ بنا کر اور پتھروں سے سر کچل کر قصاص کا اتیفاء بایں معنی ناممکن ہے کہ قاتل کی طرف سے مقتول کو پہنچنے والے الم، نیز مقتول کے ضائع شدہ اجزائے جسم کا اندازہ لگا کر قاتل کو اسی قدر الم پہنچانا اور اس کے اتنے ہی اجزاء تلف کرنا متعذر ہے ۔ اگر کہا جائے کہ مثل کا اسم دو معونوں کی متضمن ہے۔ اسی طرح قصاص بھی۔ ایک معنی یہ ہے کہ قاتل کی جان تلف کردی جائے جس طرح اس نے مقتول کی جان تلف کی تھی۔ ایسی صورت مں مثل اور قصاص جان کے بدلے جان تلف کر کے ہوگا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔ اس لیے ہم اس لفظ کو دونوں باتوں میں استعمال کریں گے کیونکہ لفظ کا عموم ان دونوں کا مقتضی ہے۔ ہم کہیں گے کہ قاتل کے ساتھ پہلے ہم وہی کچھ کریں گے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔ اگر وہ اسی دوران مرجائے تو فبہا ورنہ اس کی جان تلف کر کے مثل کا استیفاء ہوجائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں باتوں کا قصاص اور مثل کے لفظ میں مراد ہونا جائز نہیں ہے، یعنی یہ درست نہیں ہے کہ قاتل کے ساتھ پہلے وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا اور پھر اسے قتل کردیا جائے۔ اگرچہ یہ بات ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک بات انفرادی طور پر آیت میں مراد ہو، اجتماعی طور پر نہیں۔ اس لیے کہ قصاص کا اسم ان دونوں میں سے ہر ا کی کو شامل ہے او یہ بات آیت کے حکم کیی منافی نہییں ہے۔ لیکن اگر ان دونوں کو یکجا کردیا جائے تو پھر یکجا طور پر ان کا مراد ہونا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں بات قصاص اور مثل کی حد سے آگے نکل جائے گی۔ بلکہ اس سے زائد ہوگی۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ آیت کی ایسے معنی پر تاویل جائز ہی نہیں ہوتی جو آیت کی ضد ہو اور اس کے حکم کی نفی کرتی ہو۔ اسی بنا پر سر کچلنے یا پانی میں ڈبونے یا قید میں بھوکا رکھنے کے بعد تلوار کے ذریعے قتل کرنے کا مفہوم مراد لینا ممتنع ہوگیا۔ سفیان ثوری نے جابر بن ابی عازب سے اور انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : قصاص صرف تلوار کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ یہ حدیث دو معنوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے آیت میں مذکور قصاص اور مثل کی مراد کا بیان ہوگیا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ابتدا ایسا عموم ہے جس کے ذریعے تلوار کے بغیر قصاص لینے کی نفی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے یحییٰ بن ابی انیسہ نے الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روای کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : زخمویں کا اس وقت قصاص نہیں لیاجائے گا جب تک وہ بھر نہ جائیں : آپ ﷺ کا ارشاد ہمارے مخالف کے قول کی نفی کرتا ہے، وہ اس طرح کہ اگر یہ بات واجب ہوتی کہ مجرم کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے جرم کا شکار ہونے والے کے ساتھ کیا تھا، تو پھر حضور ﷺ کے ارشاد میں استثناء کی ضرورت نہ رہتی۔ جب استثناء کا ثبوت ہوگیا۔ تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ زخم کے حکم کا اعتبار اس کے انجام کے لحاظ سے کیا جائے۔ اگر کہا جائے کہ یحییٰ بن ابی انیسہ کی روایت اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جاسکے تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ جاہلوں کا قول ہے۔ ایسے جاہلوں کی جرح و تعدیل قابل التفات نہیں ۔ احادیث قبول کرنے میں فقہاء کا بھی یہ طریق کار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں علی المدینی نے ذکر کیا ہے کہ یحییٰ بن سعید نے فرمایا ” زہری سے حدیث روایت کرنے کے سلسلے میں مجھے یحییٰ بن ابی انیسہ کی روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ پسند ہے۔ ایک اور حدیث زیر بحث مسئلے میں ہماری بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی روایت خالد الحداء نے ابو قلابہ سے، انہوں نے ابو الاشعث سے اور انہوں نے حضرت شداد بن اوس ؓ سے کی کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ سبحانہ نے ہر چیز کے کرنے میں احسان یعنی عمدہ طریق کار کو اپنانا فرض کردیا ہے، اس لیے اگر تم (قصاص میں کسی کو ) قتل کرو تو طریقہء قتل کو عمدہ رکھو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ اس حدیث کے الفاظ کا عموم اس امر کا موجب ہے کہ جو شخص کسی کو قصاص میں قتل کرے تو اسے تمام طریقوں میں سے بہتر ، آسان اور سہل طریقے سے قتل کرے۔ یہ بات کسی کو اذیتیں دے کر قتل کرنے، نیز اس کا مثلہ کرنے کی نفی کرتی ہے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے کسی جانور کو تیروں کا ہدف بنا کر کھڑا کرنے کی ممانعت کی ہے۔ یہ بات قصاص میں قاتل کو تیروں کے ذریعے ہلاک کرنے کی ممانعت کرتی ہے۔ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ القسم بن معن، شریک بن عبداللہ کے ساتھ کسی بادشاہ کے پاس گئے۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ : آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کسی کو تیار مار کر دے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ : قاتل کو تیر مار کردیا جائے گا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اگر وہ پہلے تیر سے نہ مرے تو کیا کیا جائے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس پر دوسرا تیر چلایا جائے ، اس پر بادشاہ نے کہا کہ اس طرح آپ اسے تیروں کا ہدف بنا کر کھڑا کردیں گے، حالانکہ حضور ﷺ نے تو کسی جانور کو بھی تیروں کا ہدف بنا کر کھڑا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ سن کر شریک نے کہا : بادشاہ کو بیوقوف نہ بنایا جاسکا۔ اس پر ابوالقسم نے ان سے کہا : ابو عبداللہ، یہ ایسا میدان ہے جس میں ہم اگر تم سے آگے نکلنے کی کوشش کریں تو تم آگے نکل جائو۔ ان کی مراد شریک کا مزاحیہ انداز کلام تھا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ زیر بحث مسئلے میں ہماری بات پر اس حدیث سے بھی دلالت ہوتی ہے جس کی روایت حضرت عمران بن حصین ؓ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے کی ہے کہ حضور ﷺ نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے کہا کہ : حضور ﷺ نے جب کبھی خطبہ دیا تو اس میں ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔ یہ ایک ثابت شدہ حدیث ہے اسے فقہا نے بھی قبول کر کے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ یہ حدیث قاتل کا مثلہ کرنے سے روکتی ہے جبکہ ہمارے مخالفین کے قول میں قاتل کا مثلہ موجود ہے اور یہ قول قصاص کے ایجاب اور مثل کے استیفاء کے سلسلے میں آیت کی مراد کو کسی اور رخ پر موڑ دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قصاص ایسی صورت کے اندر منحصر ہے جو مثلہ کی موجب بنے اور آیت پر ایسے طریقے سے عمل کیا جائے جو حدیث کے مفہوم کے خلاف نہ ہو۔ حضور ﷺ نے عرنیین کا مثلہ کیا تھا۔ ان کے ہاتھ پائوں قطع کر کے نیز ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر انہیں مقام حرہ میں چھوڑ دیا تھا جہاں وہ سب کے سب مرگئے۔ پھر آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم منسوخ ہوگیا کیونکہ آپ نے مثلہ کرنے سے روک دیا تھا اس بنا پر ضروری ہوگیا کہ قصاص کی آیت کو ایسے معنی پر محمول کیا جائے جس میں مثلہ کی صورت نہ ہو ( عرنیین کا واقعہ بہت مشہور ہے اور اہل علم اس سے آگاہ ہیں) ۔ ہمارے مخالفین نے زیر بحث مسئلے میں اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے ہم نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی نے ایک بچے کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا اور حضور ﷺ نے حکم دیا تھا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ یہ حدیث اگر ثابت بھی ہوجائے تو مثلہ کے حکم کی منسوخی کی بنا پر منسوخ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ مثلہ کی منسوخی پر سب کا عمل ہے اور اس طرح سے قصاص لینے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور قاعدہ ہے کہ اگر حضور ﷺ سے دو حدیثیں منقول ہوں اور سب لوگ ان میں سے ایک حدیث پر عمل پیرا ہوجائیں اور دسوری حدیث پر عمل کے بارے میں ان میں اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں متفق علیہ حدیث مختلف فیہ حدیث پر فیصلہ کن حیثیت رکھے گی خواہ وہ عام ہو یا خاص۔ اس کے ساتھ مذکورہ حدیث کے بارے میں یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ یہودی کا قتل حد کے طور پر بھا جس طرح شعبہ نے ہشام بن زید سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کے ساتھ زیادتی کی اس نے اس کے پازیب اتار لیے اور اس کا سر کچل دیا۔ لونڈی کے لواحقین اس لے کر حضور ﷺ کے پاس آئے۔ اس وقت لونڈی آخری سانس لے رہی تھی۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : تمہیں کس نے قتل کیا ؟ فلاں نے ؟ اس نے اپنے سر کے اشارہ سے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : فلاں نے ؟ لونڈی نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم جاری کیا اور اس کا سر دو پتھروں کی درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ یہودی کو حداً قتل کیا گیا تھا کیونکہ اس نے مال بھی لیا تھا اور قتل بھی کیا تھا۔ مثلہ کے طور پر ایسا کرنا جائز تھا جس طرح عرنیین کی آنکھوں میں سلائی پھیری گئی تھی پھر مثلہ سے نہی کی بنا پر ایسا کرنا منسوخ ہوگیا۔ ابن جریح نے معمر سے، انہوں نے ایوب سے انہوں نے ابوقلابہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت بیان کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی سے اس کے زیورات چھیننے کے لیے اس کا سر کچل دیا تھا۔ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کردیا جائے یہاں تک کہ ہلاک ہوجائے۔ اس حدیث میں رجم کا ذکر ہے اور رجم سب کے نزدیک قصاص نہیں ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ مذکورہ یہودی نے نقض عہد کر کے دارالحرب میں پناہ لے لی ہو کیونکہ اس وقت یہودیوں کے ٹجکانے مدینہ منورہ سے قریب تھے، اس کے بعد پھر وہ پکڑا گیا ہو اور اسے اس بنا پر قتل کردیا گیا ہو کہ وہ عہد توڑنے والا حربی تھا جس پر ایک بچے کے قتل کا الزام تھا کیونکہ یہ بات تو درست نہیں ہے کہ مذکورہ قتل اس عورت کی طرف سے اس اشارے اور ایماء کی بنا پر ہوا تھا کہ اس نے اسے قتل کیا ہے اس لیے کہ یہ امر سب کے نزدیک اس شخص کے قتل کو واجب نہیں کرتا جس کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ یقینا کوئی اور سبب ہوگا جس کی وجہ سے مذکورہ یہودی گردن زدنی قرار پایا۔ ہم نے بیان کردیا ہے کہ قصاص سے مراد یہ ہے کہ قاتل کی جان آسان ترین طریقے سے تلف کردی جائے۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص کسی کے حلق میں اس قدر شراب انڈیل دے کہ وہ مرجائے تو قاتل کے حلق میں اسی طرح شراب انڈیلنا جائز نہیں ہوگا بلکہ اسے تلوار ک ذریعے قتل کردیا جائے گا۔ اگر کہا جائے کہ مذکورہ صورت میں شراب اس لیے اس کے حلق میں نہیں انڈیلی جائے گی کہ شراب نوشی معصیت ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسی طرح مثلہ بھی تو معصیت ہے۔ وصیت کے وجوب کا بیان ارشاد باری ہے : کتب علیکم اذا حضراحد کم الموت ان ترک خیرا ن الوصیۃ للوالدین والا قربین بالمعروف حقا علی المتقین ( تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف سے مروی روایات میں اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری : خیراً سے مال مراد ہے، البتہ جس مال میں اللہ تعالیٰ نے وصیت واجب کی ہے اس کی مقدار کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ یاد رہے کہ ایسا وقت بھی گزرا ہے جس وصیت فرض تھی ۔ کیونکہ قول باری : کتب علیکم کے معنی ہیں ، تم پر فرض کردیا گیا جس طرح یہ قول ہے : کتب علیکم الصیام ( تم پر روزے فرض کر دئیے گئے) نیز : ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موتوتا ( نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کردیا گیا) حضرت علی سے مروی ہے کہ وہ اپنے ایک بیمار آزاد شدہ غلام کے پاس عیادت کے لیے گئے۔ اس کے پاس چھ یا سات سو درہم تھے، اس نے پوچھا کہ میں اس کی وصیت نہ کر جائوں ؟ حضرت علی ؓ نے نفی میں جواب دیا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے : ان نرک خیراً اور تمہارے پاس کثیر مال نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ چار ہزار درہم اور اس سے کم رقم نفقہ ہے یعنی انہیں روز مرہ کے اخراجات پر خرچ کیا جائے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ آٹھ سو درہموں میں کوئی وصیت نہیں۔ ایک عورت ک اپن مال میں وصیت کا ارادہ کیا۔ اس کے خاندان والوں نے اسے اس بات سے روکا اور کہا کہ اس کی اولا ہے اور اس کا تھوڑا سا مال ہے۔ جب یہ معاملہ حضرت عائشہ ؓ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ عورت کے کتنے بچے ہیں ؟ جواب ملا کہ چار بچے ہیں۔ پھر پوچھا کہ اس کے پاس کتنا مال ہے ؟ تو عرض کیا گیا کہ تین ہزاردرہم ۔ یہ سب کر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : اس ملا میں کوئی کثرت نہیں ہے۔ ابراہیم نحفی کا قول ہے کہ پانچ سو سے لے کر ہزار درہم تک ہمام نے قتادہ سے قول باری : ان ترک خیراً کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ : کہا جاتا تھا کہ بہترین مال ایک ہزار اور اس سے زائد درہم ہے، زہری نے کہا ہے کہ : اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس پر مال کے اسم کا اطلاق کیا جاسکے خواہ وہ تھوڑا ہو زیادہ۔ مذکورہ بالا تمام حضرات نے مال کی مقدار کی تفسیر اسحباب کے طور پر کی ہے، مذکورہ مقداروں کے ایجاب کے طور پر نہیں کی۔ ان حضرات نے اپنے اپنے اجتہاد سے کام لے کر ان مقادیر کا ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے مال کو خیر کی صفت لاحق ہونے کے سلسلے میں اجتہاد سے کام لیا ہے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ اگر کوئی شخص ایک درہم چھوڑ جائے تو عرف میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے خیر چھوڑا ہے۔ جب مال کو خیر کا نام دینا عرف اور عادت پر موقوف ہے۔ اس بارے میں اندازہ لگانے کا طریقہ اجتہاد اور غالب ظن ہے، جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ تھوڑی مقدار کو خیر کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ کثیر مقدارکو یہ نام دیا جاتا ہے تو اس تسمیہ کا طریقہ اجتہاد اور غالب ظن ہوگا۔ اس کے ساتھ ان حضرات کو حضور ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے اس ارشاد کی معرفت بھی حاصل تھی کہ تہائی مال، اور تہائی کثیر ہے۔ اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جانا اس بات سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگدست چھوڑ کر جائو کہ اپنے گزارے کے لیے یہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ زیر بحث آیت میں مذکور وصیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا یہ واجب تھی یا نہیں، کچھ حضرات کا قول ہے کہ یہ واجب نہیں تھی، بلکہ یہ مستحب تھی۔ اس کی بس ترغیب دی گئی تھی۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ فرض تھی اور پھر منسوخ ہوگئی۔ ان کے درمیان یہ اختلاف بھی ہے کہ اس کا کتنا حصہ منسوخ ہوا ہے۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ وصیت واجب نہیں تھی ، ان کا استدلال ہے کہ آیت کے سیاق اور اس کے مضمون کے اندر اس کے وجوب کی نفی کی دلالت موجود ہے۔ یہ وہ ارشاد باری ہے : الوصیۃ للوالدین و الاقربین بالمعروف جب آیت میں بالمعروف کا لفظ ذکر ہوا تیز یہ بیان ہوا کہ یہ متقی لوگوں پر ہے تو اس کے عدم وجوب پر تین وجوہ سے دلالت ہوگئی۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری : بالمعروف ایجاب کا مقتضی ہے۔ دوسری وجہ قول باری : علی المتقین ہے۔ ہر شخص پر یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ متقی لوگوں میں ہے۔ تیسری وجہ متقین کے ساتھ اس کی تخصیص ہے۔ کیونکہ واجبات کے سلسلے میں متقی اور غیر متقی کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں وصیت کے وجوب کی نفی پر کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ وصیت کا معروف طریقے کے تحت ایجاب اس کے وجوب کی نفی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ معروف کا مفہوم وہ اعتدال ہیجس میں نہ تو کسی تقصیر کا وجود ہو اور نہ ہی کسی زیادتی کا جس طرح یہ قول باری ہے : وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف ( اس صورت میں بچے کے باپ کو معرفو طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا) اس کھانے اور کپڑے کے وجوب کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح قول باری ہے و عاشروھن با معروف ( اور معروف طریقے سے ان کے ساتھ زندگی گزارو) معروف واجب ہی ہے۔ ارشاد باری ہے : والمر بالمعروف وانہ عن المنکر ( اور بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو) نیز ارشاد ہے : یامرون بالمعروف ( معروف کا حکم دیتے ہیں) اس لیے وصیت کے ایجاب کے سلسلے میں معروف کا ذکر وصیت کے وجوب کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اس کے وجوب کو اور موکد بناتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ سبحان کے تمام اوامر معروف ہیں منکر نہیں ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ معروف کی ض منکر ہے اور جو چیز معروف نہیں ہے وہ منکر ہے اور منکرمذموم ہے اور اس سے روکا گیا ہے اس لیے معرفو واجب قرار پائے گا۔ قول باری : حقاً علی المتقین کے اندر وصیت کے ایجاب کی تاکید ہے کیونکہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ متقی بنیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے : یایھا الذین امنو اتقو ( اے ایمان والو متقی بنو) اہل اسلام کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تقویٰ فرض ہے۔ جب اللہ سبحان نے مذکورہ فرضیت کی تنقید کو تقویٰ کی شرط قرار دی تو گویا اس کے ایجاب کی وضاحت کردی۔ متقین کے ساتھ اس کی تخصیص کے اندر اس کے وجوب کی نفی پر کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ اس کے اندر بس اتنی ہی بات ہے کہ آیت متقین پر وصیت کے وجود کی مقتضی ہے۔ اس میں غیر متقین سے وصیت کی نفی کی بات نہیں ہے جس طرح قول باری : ھدیً للمتقین کے اندر اس بات کی نفی نہیں ہے کہ یہ کتاب ، یعنی قرآن مجید غیر متقین کے لیے ہدایت بن جائے جب آیت کے مقتضا کے تحت متقین پر وصیت واجب ہوگئی۔ تو دوسروں پر بھی اس کا وجوب ہوگیا، متقین کے ساتھ اس وجوب کی تخصیص کا فائدہ یہ ہے کہ وصیت کرنا تقویٰ کی نشانی ہے اور لوگوں پر چونکہ لازم ہے کہ و سب کے سب متق بنیں۔ اس لیے ان پر وصیت کا فعل لازم ہے۔ وصیت کے ایجاب اور اس کی فرضیت کی تاکید پر زیر بحث آیت کی دلالت واضح ہے اس لیے قول باری : کتب علیکم کے معنی ہیں تم پر فرض کردی گئی یعنی وصیت جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں پھر قول : بالمعروف حقا علی المتقین کے ذریعے اسے اور مئوکد کردیا۔ وجوب کے الفاظ میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو قائل کے اس قول سے بڑھ کر موکد ہو کہ یہ تم پر حق ہے۔ الفاظ کے اندر اس وجوب کی متقین کے ساتھ تخصیص تاکید کے طور پر ہے جیسا کہ ہم ابھی اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اس کے ساتھ اہل تفسیر سلف کا اس امر پر اتفاق ہے کہ زیر بحث آیت کے ذریعے و صیت کا وجوب ہوا تھا۔ حضور ﷺ سے مروی حدیثیں بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ وصیت واجب تھی۔ عبدالباقی بن قاتع نے روایت بیان کی ۔ ان سے سلیمان بن افضل بن جبریل نے ، ان سے عبداللہ بن ایوب نے ان سے عبدالوہاب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کسی مومن کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ تین راتیں گزارے مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس ہو۔ ہمیں عبدالباقی ہی نے روایت بیان کی، ان سے بشر بن موسیٰ نے ، ان سے الحمیدی نے، ان سے سفیان نے، ان سے ایوب نے کہ میں نے نافع کو حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کرتے ہوئے سنا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا : کسی مسلمان کا جس کے پاس مال ہو اور اس نے اس مال میں وصیت کی ہو، یہ حق نہیں ک اس دو راتیں گزر جائیں مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔ اسی حدیث کی روایت ہشام بن الغازی نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں گزراے مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں ک وصیت واجب تھی لیکن جو حضرات ابتداء میں اس کے وجوب کے قائل ہیں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کا قول ہے کہ زیر بحث آیت میں وصیت کے ایجاب کی تمام باتیں منسوخ ہوگئیں۔ ان حضرات میں حضرت ابن عمر ؓ بھی شامل ہیں۔ ابو محمد جعفر بن محمد بن احمد الواسطی نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو الفضل جعفر بن محمد بن الیمان المئودب نے، ان سے ابوعبید القاسم بن سلام نے ، ان سے حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء الخراسانی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ قول باری : ان ترک خیر ن لوصیۃ للوالدین والا اقربین کو اس آیت سے منسوخ کردیا ہے : للرجال نصیب مما ترک الوا لوالدان و الاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان و الاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا ( مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے) ابن جریج ن عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری : ان ترک خیراً کی تفیسر میں نقل کیا ہے کہ اس سے وہ لوگ منسوخ ہوگئے جو وارث قرار پائے ہیں اور وارث قرار نہ پانے والے منسوخ نہیں ہوئے۔ اس بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی دونوں روایتوں میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں ذکر رہے کہ تمام لوگ منسوخ ہوگئے اور دوسری میں ہے کہ وارث قرار پانے والے رشتہ دار منسوخ ہوگئے اور وارث قرار نہ پانے والے رشتہ دار منسوخ نہیں ہوئے۔ ابو محمد جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ہے ان سے ابوالفضل المئودب نے ، ان سے ابو عبید نے، ان سے ابو مہدی نے عبداللہ بن المبارک سے، انہوں نے عمارہ ابو عبدالرحمن سے کہ میں نے عکرمہ کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ قول باری : ان ترک خیر ن الوصیۃ للوالدین والاقربین کو فرائض کی آیت نے منسوخ کردیا ہے۔ ابن جریج نے مجاہد سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ولد کے لیے میراث تھی اور والدین نیز رشتہ داروں کے لیے وصیت تھی، یہ اب منسوخ ہے۔ دوسرے گروہ کا قول ہے کہ وصیت والدین اور رشتہ داروں کے لیے واجب تھی ، پھر ان لوگوں کے حق میں منسوخ ہوگئی جو وارث قرار پائے اور اسے والدین کے لیے نیز وارث نہ بننے والے رشتہ داروں کے لیے خاص کردیا گیا۔ یہ روایت یونس اور اشعث نے حس بصری سے کی ہے۔ حسن بصری ، جابر بن زید اور عبدالملک بن یعلیٰ سے اس شخص کے متعلق مروی ہے جو غیر رشتہ دار کے لیے وصیت کرے جبکہ اس کا ایسا رشتہ دار بھی موجود ہو جو وارث نہ بن رہا ہو ۔ ایسی صورت میں موصی کے تہائی مال کے دو حصے رشتہ داروں کو مل جائیں گے اور ایک حصہ غیر رشتہ دار کو، جبکہ اس صورت کے متعلق طائوس کا قول ہے کہ ساری وصیت رشتہ داروں کی طرف لوٹا دی جائے گی۔ ضحاک کا قول ہے کہ وصیت صرف رشتہ دار کے حق میں ہوگی الا یہ کہ اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو۔ تیسرے گروہ کا قول ہے کہ وصیت فی الجملہ رشتہ داروں کے لیے واجب تھی۔ لیکن موصی پر لازم نہیں تھا کہ وہ تمام رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے۔ بلکہ اسے صرف قریبی رشتہ داروں پر اقتصار کرنے کی اجازت تھی۔ دور کے رشتہ داروں کے رشتہ دار اپنی اصلی حالت پر باقی رہ گئے یعنی ان کے لیے وصیت کرنا بھی جائز تھا اور ترک وصیت کا بھی جواز تھا۔ جو حضرات وصیت کے نسخ کے قائل ہیں ان کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ کس آیت کے ذریعے وصیت کا یہ حکم منسوخ ہوا۔ ہم نے حضرت ابن عباس ؓ اور عکرمہ سے نقل کردیا کہ آیت مواریث نے وصیت کو منسوخ کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ قول باری : للرجان نصیب مما ترک الوالدان تا آخر آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ بعض حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ نے وصیت کے حکم کو منسوخ کیا ہے۔ یہ حدیث شہر بن جو شب نے عبدالرحمن بن عثمان سے ، انہوں نے حضرت عمر بن خارجہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : وارث کے لیے کوء وصیت نہیں۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ اسماعیل بن عیاش نے شرجیل بن مسلم سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت ابو امامہ ؓ کو کہتے سنا تھا کہ میں نے حضور ﷺ کو حجۃ الوداع کے خطبے میں فرماتے سنا تھا کہ : لوگو، اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لیے اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ حجاج بن جریج نے عطاء الحراسانی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں الا یہ کہ باقی ماندہ ورثا اسے برقرار رکھیں۔ یہ حدیث صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے۔ اسے حجاج نے ابو اسحاق سے انہوں نے الحارث سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ : کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ عبداللہ بن بدر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ : کسی وارث کے لیے کوئی وصیت جائز نہیں۔ اس مسئلے میں حضور ﷺ سے منقول یہ حدیث جس کا ورود ان جہادت سے وا ہے ہمارے نزدیک درجہ تواتر میں ہے۔ اللہ سبحانہ کی طرف سے ورثا کے لیے میراث کا ایجاب وصیت کے نسخ کا موجب نہیں بن سکتا۔ کیونکہ وصیت اور میراث دونوں کا اجتماع جائز ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے وارث کے لیے وصیت کو اس صورت میں جائز قرار دیا ہے جب باقیماندہ ورثاء اس کی اجازت دے دیں، اس لیے ایک ہی شخص کے حق میں وصیت اور میراث کا اجتماع محال نہ ہوتا۔ اگر آیت میراث کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں اللہ سبحانہ نے وصیت کی تنقید کے بعد میراث کی تقسیم کا حکم دیا ہے، تو پھر اس بات میں مانع کون سی چیز ہے کہ ایک شخص کو وصیت سے اس کا حصہ دے دیا جائے اور پھر میراث میں اس کا حصہ اسے مل جائے۔ امام شافعی نے ” کتاب الرسالۃ “ میں کہا ہے کہ احتمال تھا کہ آیت مواریث وصیت کی ناسخ ہو اور یہ بھی احتمال تھا کہ آیت مواریث کے ساتھ وصیت بھی ثابت رہے۔ پھر جب مجاہد کے واسطے سے حضور ﷺ سے یہ رایت منقول ہوئی کہ : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ تو ہم نے آپ ﷺ سے مروی اس روایت کے ذریعے جو منقطع ہے یہ استدلال کیا کہ آیت مواریث والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کے حکم کی ناسخ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے وصیت اور میراث کے اجتماع کے احتمال کی بات تسلیم کی ہے۔ اس لیے جب آیت مواریث کے نزول کے اندر ایسی بات نہیں ہے جو وارث کے لیے وصیت کے نسخ کی موجب بن سکے تو یہی کہا جائے گا کہ وصیت میراث کی بنا پر منسو، نہیں ہوئی کیونکہ ان دونوں کے اجتماع کا جواز موجود ہے۔ نیز مذکورہ بالا حدیث امام شافعی کے نزدیک ثابت شدہ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ ایک منقطع سند کے واسطے سے منقول وئی ہے، حالانکہ وہ حدیث مرسل کو بھی قبول نہیں کرتے خواہ اس کا ورود اتصال اور تواتر کی جہت سے کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس منقطع حدیث کے ذریعے آیت کے حکم کو ختم کردیا حالانکہ ان کے نزدیک سنت کے ذریعے قرآن کا نسخ جائز نہیں ہے تو پھر ضروری ہے کہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کا حکم ثابت رہے اور اسے منسوخ قرار نہ دیا جائے کیونکہ اس حکم کو منسوخ کرنے والی کوئی چیز وارد نہیں ہوئی۔ امام شافعی نے کہا ہے کہ : حضور ﷺ نے ان چھ غلاموں کے بارے میں جنھیں ایک ایسے شخص نے آزاد کردیا تھا جس کے پاس ان غلاموں کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا، یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ ان کے تین حصے کر کے ان میں سے دو کو آزاد قرار دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا ۔ جس شخص نے انہیں آزاد کیا تھا وہ ایک عرب تھا اور اہل عرب صرف ان عجمیوں کے مالک ہوتے ہیں جن کی ان سے کوئی رشتہ داری نہ ہو، اس لیے حضور ﷺ نے ان کے لیے وصیت جائز قرار دے دی۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر غیر رشتہ داروں کے لیے وصیت باطل وتی تو آزادہ شدہ غلاموں کے لیے بھی یہ باطل ہوجاتی کیونکہ وہ میت کے رشتہ دار نہیں تھے۔ اور والدین کی وصیت باطل ہوجاتی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی کے درج بالا کلام میں ظاہری طور پر ابڑا اختلال ہے ان کے اصولوں پر اس کا انتقاض ہوجاتا ہے۔ اختلال کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ : عرب کے لوگ صرف ان عجمیوں کے مالک ہوتے ہیں جن سے ان کی کوئی رشتے داری نہ ہو۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ایک عرب کی ماں عجمی ہوسکتی ہے۔ ان صورت میں ماں کی طرف سے اس کے تمام رشتہ دار عجمی ہوں گے۔ ایسی صورت میں اگر مریض غلام آزاد کرے تو اس کی دی ہوئی آزادی اس کے اقرباء کے لیے وصیت قرار پائے گی۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ آیت مواریث نے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کے حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ تو یہ نسخ صرف ان رشتہ داروں کے بارے میں ہوگا جو ارث بن رہے ہوں لیکن غیر وارث رشتہ داروں کا جہاں تک تعلق ہے تو میراث کے اثبات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ان کے حق میں وصیت کا حکم منسوخ کرنے کی موجب بن جائے۔ امام شافعی کے درج بالا قول کی اصل پر انتقاص کی صورت یہ ہے کہ انہوں نے رشتہ داروں کے لیے وصیت کو منسوخ کرنے کا ایجاب حضرت عمران بن حصین ؓ کی روایت کردہ حدیث سے کیا ہے جس میں ایک مریض کا اپنے غلاموں کو آزاد کرنے کا ذکر ہے، حالانکہ امام شافعی کی بیان کردہ ایک اصل یہ ہے کہ قرآن کو سنت کے ذریعے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ صدر اول کے بزرگوں اور تابعین کی ایک جماعت سے غیروں کے لیے وصیت کے جواز کی روایت منقول ہے، نیز یہ کہ ایسی وصیت اسی طور پر نافذ العمل ہوجاتی ہے جس طور پر موصی نے وصیت کی ہو۔ مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنی ام ولد لونڈیوں کے لیے وصیت کی تھی اور یہ وصیت فی ام ولد چار ہزار درہم کے حساب سے تھی۔ حضرت عائشہ ؓ، ابرہیم نخعی ، سعید بن المسیب ، سالم بن عبداللہ ، عمرو بن دینار اور زہری سے منقول ہے کہ موصی کی وصیت اسی طرح نافذ ہوگی جس طرح اس نے کی ہے۔ تابعین کے عصر کے بعد آنے والے فقہاء کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں دونوں کے لیے وصیت جائز ہے۔ ہمارے نزدیک والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کو جس قول نے منسوخ کردیا وہ آیت موریث کے سیاق میں اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد ہے : من بعد وصیۃ یعصی بھا او دین (اس وصیت کے بعد جو کی گئی ہو یا دین کے بعد) اللہ سبحانہ نے مطلق صورت میں وصیت کی اجازت دے دی اور اسے صرف رشتہ داروں تک محدود نہیں رکھا کہ غیر رشتہ دار اس میں شامل نہ ہو سکیں۔ اس حکم میں والدین اور رشتہ داروں کے یے وصیت کے نسخ کا ایجاب موجوجد ہے، اس لیے کہ ان کے حق میں وصیت فرض تھی اور اس آیت میں ان کے حق میں وصیت ترک کرنے اور غیروں کے لیے وصیت کرنے کی اجازت ہے، نیز باقیماندہ ترکہ کو ورثاء کے مقرر شدہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم ہے۔ یہ بات صری اسی وقت درست ہوسکتی ہے جب والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کو منسوخ قرار دیا جائے۔ اگر کہا جائے کہ یہ احتمال ہ کہ اللہ سبحانہ نے آیت مواریث میں مذکورہ وصیت اور اس کے بعد مواریث کے ایجاب سے وہ وصیت مراد لی ہو جو والدین اور رشتہ داروں کے لیے واجب ہے۔ اس صورت میں وصیت کا حکم ان رشتہ داروں کے لیے ثابت رہے گا جو وارث نہ بن رہے ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اس بنا پر غلط ہے کہ اللہ سبحانہ نے اس مقام پر وصیت کو اسم نکرہ کی صورت میں مطلق رکھا ہے جو جنس کے اندر اس کے شیوع کا مقتضی ہے۔ کیونکہ اسماء نکرہ کا یہی حکم ہے۔ جبکہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے مذکورہ وصیت اسم معرفہ کی صورت میں ہے۔ اس لیے اسے اس کی طرف موڑ دینا جائز نہیں ہوگا۔ اللہ سبحانہ اس کا ارادہ فرماتا تو ارشاد ہوتا : من بعد الوصیۃ تا کہ کلام اس معرف و معہود وصیت کی طرف راجع ہوجاتا جس کا علم پہلے سے تھا۔ جس طرح یہ قول باری ہے : والذین یرمون المحصینات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ( جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ پیش نہیں کرتے انہیں ( اسی ) کوڑے لگائو) پھر دوسری آیت میں جب ان ہی گواہوں کا ارادہ فرمایا تو ارشاد ہوا : فان لم یاتوا بالشھر رآء ( اگر وہ یہ گواہ پیش نہ کرسکے) یہاں گواہوں کا ذکر معرف باللام کی شکل میں ہوا کیونکہ ان سے مراد وہی گواہ تھیجن کا پہلے ذکرہو چکا تھا۔ اس لیے جب آیت مواریث میں وصیت کا ذکر اسم نکرہ کی شکل میں ہوا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ یہاں وہ وصیت مراد نہیں ہے جس کا ذکر والدین اور رشتہ داروں کے سلسلے میں ہوا ہے، بلکہ یہ مطلق ہے اور تمام لوگوں کے لیے جائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جنہیں سنت یا اجماع نے خاص کردیا ہے، یعنی وارث کے لیے وصیت یا قاتل وغیرہما ک لیے وصیت اس بات کے اندر والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کی منسوخی موجود ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے قول باری : الوصیۃ للوالدین والاقربین سے استدلال کیا ہے کہ ماں باپ، رشتہ داروں میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ کسی اور کے ذریعے اپنی اولاد کی طرف منسوب نہیں ہوتے، بلکہ اولاد کے ساتھ ان کی رشتہ داری بذات خود ہوتی ہے۔ جبکہ ان کے سوا باقی تمام رشتہ دار دوسروں کے ذریعے منسوب ہوتے ہیں۔ اس لیے قریبی رشتہ دار وہ ہیں جو کسی اور کے ذریعے قریب ہوئے ہوں۔ امام صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے صلبی بیٹا بھی اقرباء میں شامل نہیں ہے، کیونکہ وہ بذات خود اپنے والد کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اسی بنا پر امام محمد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص خاندان کے اقربا کے لیے وصیت کرے تو اس وصیت میں اس کا بیٹا داخل نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا باپ۔ بلکہ اس میں پوتا اور دادا داخل ہوں گے۔ نیز اس کا بھائی اور اسی طرح کے دوسرے رشتہ دار۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اس کی طرف یک واسطے کے ذریعے منسوب ہوتا ہے۔ ویسے اقرباء کے مفہوم میں اختلاف رائے ہے۔ واللہ اعلم۔ وصیت میں عزیزوں کی رائے کا احترام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماقبل بیان کے ذریعے ورثا کے حق میں وصیت کا نسخ واضح کردیا ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں الا یہ کہ دیگر ورثاء اسے برقرار رکھیں، یعنی اس کی اجازت دے دیں۔ اس حدیث میں یہ بات بیان کردی گئی ہے کہ مورث کی وفات کے بعد ان کی اجازت معتبر ہوگی کیونکہ اس کی زندگی میں مذکور ورثا درحقیقت وارث قرار نیہں پائے ہوں گے۔ انہیں ورثاء ہونے کی صفت موری کی وفات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ اس لیے اگر کوئی وارث وصیت کو بھی دے تو اس کی یہ اجازت باطل ہوگی کیونکہ حضور ﷺ کے ارشاد : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں میں عموم ہے۔ اس حدیث میں یہ دلالت موجود ہے کہ جب دیگر ورثاء اس وصیت کی اجازت دے دیں تو یہ بات ان کی طرف سے کسی ایسے بہ کی بات نہیں ہوگی جسے نئے سرے سے عمل میں لایا گیا ہو اور اس ک نتیجے میں اس وصیت پر ہمہ کے احکام جاری ہوں، یعنی قبضہ اور حوالگی کی اس میں شرط لگائی جائے نیز قابل تقسیم ہونے کی صورت میں شیوع اور اشتراک کی نفی کردی جائی اور اس میں رجوع کی گنجائش بھی رکھی جائے وغیرہ وغیرہ، بلکہ مذکورہ وصیت کو جائز وصایا کے احکام پر محمود کیا جائے گا، اس امر پر محمول نیہں کیا جائے گا کہ اجازت دینے والے ورثاء کی طرف سے یہ ہبہ ہے۔ اس حدیثر میں ایسے عقود کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے جو موقوف صورت میں ہوں اور ان کی اجازت دینے والا بھی کوئی موجود ہو۔ کیونکہ میت نے ایسے مال پر عقد وصیت کیا تھا جو وصیت کے وقوع کے وقت وارث کا مال تھا۔ ایسی وصیت کو حضور ﷺ نے وارث کی اجازت پر موقوف رکھا ہے۔ اس لیے یہ بات اس امر کی بنیاد بن گئی کہ اگر کوئی شخص کسی غیر کے مال کے سلسلے میں بیع کا عقد کرلے یا عتق یا رہن یا ہبہ یا اجارہ وغیرہ کا عقد کرلے، تو ی عقد مال کے مالک کی اجازت پر موقوف ہوگا کیونکہ یہ ایسا عقد ہوگا جس کا ایک مال ہے۔ جو اس عقد کی ابتداء اور اس کے ایقاع کا مالک ہے۔ اس حدیث میں اس امر پر بھی دلالت موجود ہے کہ اگر موصی تہائی سے زائد کی وصیت کرے گا تو یہ وصیت ورثاء پر موقوف ہوگی جس طرح حضور ﷺ نے اس وصیت کو دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف رکھا ہے جو کسی وارث کے حق میں کی گئی ہو۔ یہ تمام معانی حضور ﷺ کی زیر بحث حدیث : کسی وارت کے لیے کوئی وصیت نہیں ، اِلا یہ ک دیگر ورثاء اس کی اجازت دے دیں کے ضمن میں موجود ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے تہائی مال سے زائد کی وصیت کر دے اور موصی کے ورثاء اس کی موت سے اس وصیت کی اجازت دے دیں تو اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر، حسن بن صالح اور عبید اللہ بن الحسن نے فرمایا ہے ک اگر ورثا موصی کی زندگی میں اس کی اجازت دے دیں تو یہ وصیت جائز نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ اس کی موت ک بعد وہ اس کی اجازت دے دیں۔ اسی طرح کا قول حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی سے بھی منقول ہے ابن ابی لیلیٰ اور عثمان البتی کا قول ہے کہ موصی کی وفات کے بعد ورثا کو اس وصیت سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا اور یہ وصیت ان پر نافذ ہوجائے گی۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ اگر وصیت کنندہ اپن ورثاء سے وصیت کی اجازت لے چکا ہو تو ایسے وارثوں کو اس وصیت سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا جو اس سے بائن اور جدا ہوچکے ہوں، مثلاً بیٹا جو اپنے باپ سے جدا ہوچکا ہو، نیز بھائی اور چچا زاد بھائی جو اس کے عیال میں شامل نہ ہو۔ لیکن اس کی بیوی اور بیٹیاں جو اس سے علیحدہ نہ ہوئی ہوں، نیز ہر وہ فرد جو اس کے عیاں میں ہو خواہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ ان سب کو مذکورہ وصیت سے رجوع کرلینے کا حق ہوگا۔ اسی طرح چچا اور چچا کا بشٹا نیز وہ رشتہ دار جسے یہ خوف ہو کہ اگر وہ مذکورہ وصیت کی اجازت نہ دے تو اجازت کا طلبگار موصی جو ابھی بیمارے تندرست ہونے کے بعد اس کا نفقہ بند کر دے گا، ایسے افراد بھی مذکورہ وصیت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ اگر مریض مورث اپنے ورثا سے کسی وارت کے حق میں وصیت کرنے کی اجازت طلب کرے اور وہ اسے اس کی اجازت دے دیں تو پھر انہیں اس وصیت کے کسی حصے سے بھی رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اگر اس نے حالت صحت میں ان سے اجازل لی ہو تو اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو مذکورہ وصیت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ان کی اجازت صرف موصی کی بیماری کی حالت میں جائزہو گی۔ کیونکہ ووہ اس وصیت کے ذریعے اپنے مال سے ان ک حق کو محروم کر دے گا اس لیے یہ وصیت ان پر نافذ ہوجائے گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ارشاد : کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں الا یہ کہ دیگر ورثا اس کی اجازت دے دیں کا عموم ہر حالت میں وصیت کے جواز کی نفی کرتا ہے ۔ جب اس عموم کی تخصیص حضور ﷺ نے اپنے ارشاد الا یہ کہ دیگر ورثا اس کی اجازت دے دیں، کے ذریعے کردی اور دوسری طرف مذکورہ ورثاء موصی کی وفات کے بعد ہی حقیقت میں ورثا بنیں گے اس سے پہلے نہیں۔ تو پھر عموم سے مخصوص شدہ صورت موت کے بعد ورثا کی اجازت کی صورت میں ہوگی۔ اس کے علاوہ دیگر صورتیں وصیت کی باقیماندہ صورتوں کے عموم پر محمول ہوگی۔ نظر یعنی عقلی استدلال بھی اس پر دلال ہے۔ کیونکہ مورث کی زندگی میں ورثا مال کے مالک نہیں ہوتے اس لیے اس مال کے سلسلے میں ان کی اجازت کوئی عمل نہیں کرے گی جس طرح ان کی طرف سے اس مال کا ہبہ اور اس کی بیع جائز نہیں۔ اگر اس ک بعد موت واقع ہوجائے تو اجازت اور بھی زیادہ دور چلی جائے گی۔ چونکہ موصیٰ لہ ( وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہو) ک لیے وصیت کا وقوع موصی کی موت کے بعد ہوگا۔ اسی طرح اجازت کا حکم بھی ہوگا کہ وہ وصیت کے وقوع کی حالت میں دی گئی ہو، نیز یہ کہ وصیت کے وقوع سے پہلے اجازت کوئی عمل نہیں کرتی، نیز جب میت کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اندر وصیت کو باطل کر دے حالانکہ وہ مالک ہوتا ہے، تو ورثا کو اس اجازت سے رجوع کرلینے کا زیادہ حق ہوگا جو انہوں نے دی تھی۔ جب ان کے لیے اجازت سے رجوع کرلینا جائز ہوگا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اجازت درست نہیں ہے۔ اگر کہا جائے کہ موصی ، یعنی مورث کے مال کے اندر اس کی بیماری کی وجہ سے ورثاء کا حق ثابت ہوجاتا ہے اور اسی لیے اسے اپنے مال میں تہائی سے زائد میں تصرف کرنے سے روک دیا جاتا ہے جس طرح کے بعد یہ تصرف ممنوع ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر ورثا وصیت کی اجازت دے چکے ہوں تو ان پر اس اجازت کے لزوم کے باب میں موصی کی بیماری کی حالت کو موت کی حالت شمار کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک مریض کا اپنے پورے مال کے اندر، ہیمہ، صدقہ عتق اور تصرفات کی دیگر تمام وجوہ کے ذریعے تصرف کرنا جائز ہوتا ہے۔ اس کی موت کے بعد ان تصرفات میں سے صرف وہی صورتیں منسوخ قرار پاتی ہیں جو تہائی سے زائد ہوں، کیونکہ موت کے بعد ورثاء کے حق کا ثبوت ہوجاتا ہے لیکن موت سے پہلے مذکورہ مال کے سلسلے میں کسی وارث کے قول کے اعتبار نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مورث کی موت سے پہلے اس کے عقود کو وارث فسخ نہیں کرسکتا۔ یہ حق اس کے لیے مورث کی موت کے بعد اس وقت ثابت ہوتاے جب اس کے مال میں اس کا حق ثابت ہوجائے ۔ اسی طرح مورث کی موت سے پہلے وارث کی وہی ہوئی اجارت کالعدم ہوتی ہے جس طرح مورث کی موت سے پہلے وارث کی طرف سے اس کے عقود کا فسخ کالعدم ہوتا ہے۔ مورث کی طرف سے اپنا ورثا سے وصیت کی اجازت مانگنے پر اجازت نہ دینے کی صورت میں مورث کی طرف سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ کونے والے ورثا اور اندیشہ نہ کرنے والے ورثا کے درمیان امام مالک نے جو فرق رکھا ہے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ اس کی طرف سے ضرر کا خطرہ وارث کے عقود کی صحت کے لیے مانع نہیں ہے کیونکہ یہ خطرہ وارث کے اندر مکرہ راء کے زبر کے ساتھ) کی صفت پیدا نہیں کرے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وارث مورث کے مطالبہ پر کوئی چیز اس کے ہاتھ فروخت کر دے اور پھر کہے کہ : اگر میں اس کی بات قبول نہ کرتا تو مجھے خطرہ تھا کہ کہیں وہ میرا خرچ بند نہ کر دے “۔ تو اس کی یہ بات مذکورہ بیع کے ابطال کے لیے عذر نہیں بن سکتی۔ اسی طرح اگر مریض مورث اپنے وارث سے کوئی چیز ہبہ کے طور پر طلب کرے اور وہ اسے ہبہ کر دے، تو اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں وارث کو لاحق ہونے والے ضرر کا اندیشہ اس کے اس ہبہ پر کسی طرح اثر انداز نہیں وہ گا اور اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جسے مورث کی طرف سے کسی ضرر کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ اس لیے عتق کے ایجاب کے سلسلے میں خرچ اور وظیفہ بند ہوجانے کے ضرر کے اندیشے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اور اس لحاظ سے ان لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا جو مورث کے عیال میں شامل ہوں یا اس کے عیاں میں شامل نہ ہوں۔ واللہ الموفق۔
Top