Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 174
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ۙ اُولٰٓئِكَ مَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَكْتُمُوْنَ
: چھپاتے ہیں
مَآ اَنْزَلَ
: جو اتارا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنَ
: سے
الْكِتٰبِ
: کتاب
وَيَشْتَرُوْنَ
: اور وصول کرتے ہیں وہ
بِهٖ
: اس سے
ثَمَنًا
: قیمت
قَلِيْلًا
: تھوڑی
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
مَا يَاْكُلُوْنَ
: نہیں کھاتے
فِيْ
: میں
بُطُوْنِهِمْ
: اپنے پیٹ (جمع)
اِلَّا
: مگر (صرف)
النَّارَ
: آگ
وَلَا
: اور نہ
يُكَلِّمُهُمُ
: بات کرے گا
اللّٰهُ
: اللہ
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
وَلَا
: اور نہ
يُزَكِّيْهِمْ
: انہیں پاک کرے گا
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
جو لوگ (خدا کی) کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن کلام نہ کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے
(بقیہ تفسیر سابقہ آیت) گھی میں گر کر مرجانے والی چوہیا کا مسئلہ قول باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ نیز ارشاد ہے : حرمت علیکم المیتۃ یہ آیات ان مائع چیزوں کی تحریم کی متقضی نہیں ہیں جن میں گر کر کوئی جانور مرجائے، بلکہ یہ صرف عین مردار اور مردار کے اردگرد والے حصوں کی تحریم کی متقضی بھی ہیں مذکورہ مائع چیز مردار نہیں کہلائے گی۔ اس لئے تحریم کا لفظ اسے شامل نہیں ہوگا۔ تاہم حضور ﷺ کی سنت سے اس مائع چیز کے استعمال کی حرمت ثابت ہے چناچہ زہری نے سعید المسیب سے، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ سے گھی کے اندر گر جانے والی چوہیا کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : اگر گھی منجمد ہو تو چوہیا نیز اس کے ارد گرد کا گھی نکال کر پھینک دو اور اگر گھی مائع شکل میں ہو تو اس کے قریب نہ جائو۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بھی حضور ﷺ سے اسی قسم کی روایت بیان کی ہے۔ زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے حضرت میمونہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ گھی کے اندر ایک چوہیا گر کر مرگئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : چوہیا اور اس کے ارد گرد کا گھی نکال کر پھینک دو اور باقی ماندہ گھی کھالو۔ عبدالجبار بن عمر نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے انہیں بتایا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے آپ ؐ سے ودک ( گوشت اور چربی کی چکنائی) میں گر جانے والی چوہیا کے متعلق مسئلہ پوچھا۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ چربی منجمد تھی ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : چوہیا اور اس کے اردگرد موجود چربی نکال کر پھینک دو اور باقی ماندہ چربی کھالو۔ سائل نے عرض کیا کہ وہ مائع ہو تو کیا حکم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا تو پھر اس سے فائدہ اٹھالو۔ لیکن اسے کھائو نہیں۔ حضور ﷺ نے اسے کھانے کے سوا دوسرے طریقوں سے اس سے فائدہ اٹھانے کی بات مطلق رکھی۔ یہ بات اس کی بیع کی جواز کی متقضی ہے کیونکہ بیع بھی اس سے انتفاع کی ایک صورت ہے۔ اور آپ ﷺ نے انتفاع کی کسی صورت کی تخصیص نہیں فرمائی۔ حضرت ابن عمر ؓ حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت حسن بصری نیز سلف کے دیگر حضرات سے منقول ہے کہ کھانے کے سوا دوسرے طریقوں سے اس سے فائدہ اٹھا لینا جائز ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے فرمایا : اسے فروخت کردو لیکن اسے کھائو نہیں ہمیں کسی بھی فقیہ کے متعلق علم نہیں کہ اس نے مذکورہ گھی یا چیز کے انتفاع مثلاً اسے چراغ میں جلانے اور کھالیں رنگنے میں استعمال سے روکا ہو ۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک اس کی بیع بھی جائز ہے۔ البتہ مائع مبیع یعنی چربی یا گھی وغیرہ کا یہ عیب مشتری سے بیان کردے۔ امام شافعی سے منقول ہے کہ اس کی بیع جائز نہیں ہے، البتہ اسے چراغ میں ڈال کر جلانا جائز ہے حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت کردہ حدیث میں حضور ﷺ سے انتفاع کا اطلاق منقول ہے اور اس میں کسی خاص صورت کے ساتھ اس انتفاع کی تخصیص نہیں ہے جس سے اس بات پر دلالت ہوگئی کہ اسے کھانا تو حرام ہے کسی اور بات کی حرمت نہیں ہے نیز یہ کہ اس کی بیع جائز ہے جس طرح ان دیگر اشیاء کی جن سے انتفاع جائز ہے۔ مثلاً گدھا، خچر وغیرہ کیونکہ ان اشیاء کے اندر کوئی ایسا حق نہیں ہوتا جو ان کی بیع کے لیے رکاوٹ بن جائے جبکہ ان سے انتفاع جائز ہے اور وہ محرم العین بھی نہیں ہیں۔ اگر کہاجائے کہ ام ولد لونڈی اور مدبر غلام ( ایسا غلام جسے اس کے آقا نے کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو) سے فائدہ اٹھانا جائز ہے لیکن اس کی بیع جائز نہیں ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کا یہ اعتراض ہماری مذکورہ بات پر لازم نہیں آتا کیونکہ ہم نے پانی بات کو اس قید کے ساتھ مقید کردیا ہے کہ جب اس سے انتفاع جائز ہو اور اس کے اندر کوئی ایسا حق نہ ہو جو اس کی بیع کے رکاوٹ بن جائے تو اسے کھا لینے کی تحریم اس کی بیع کے جواز کے لیے اس بنا پر مانع نہیں بنے گی کہ کھا لینے کے سوا دوسرے طریقوں سے اس سے انتفاع جائز ہے اور اس کے اندر بیع سے روکنے والا کوئی حق بھی موجود نہیں ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں ام ولد اور مدیر کی مثال دے کر معترض کا اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے لیے آزاد ہوجانے کا حق ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر ان کی بیع جائز کردی جائے تو اس سے ان کے حق کا ابطال لازم آئے گا اسی بنا پر ان کی بیع کی ممانعت کردی گئی ہے اور انتفاع کی دیگر صورتوں کو جائز رکھا گیا ہے ۔ جس مائع چیز کے اندر چوہا گر کر مرجائے وہ محرم العین نہیں بن جاتی، البتہ مردار کی محاورت کی بنا پر اسے کھا لینا حرام ہوجاتا ہے جبکہ انتفاع کی دیگر صورتتیں اس میں جائز ہوی ہیں اس لیے اس کی بیع گدھے، خچر اور کتے وغیرہ کی بیع کی طرح ہوتی ہے جن سے انتفاع تو جائز ہے لیکن انہیں کھانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں سے انتفاع کے جواز کی طرح ان کی بیع بھی جائز ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے منجمد گھی اور چربی میں گر جانے والی چوہیا اور اس کے اردگر د موجود گھی اور چربی کو نکال کر پھینک دینے اور باقی ماندہ کو کھا لینے کا حکم دیا ہے جو دو معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ جو چیز فی نفسہ نجس ہو وہ محاورت کی بنا پر اپنے اردگرد کی چیز کو بھی نجس کردیتی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے مردہ چوہیا کے اردگرد موجود گھی اور چربی کی نجاست کا حکم عائد کردیا تھا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز محاورت کی بنا پر نجس ہوجائے وہ اپنی اردگرد کی چیز کو نجس نہیں کرتی، کیونکہ آپ ﷺ نے مردہ چوہیا کے اردگرد موجود نجس گھی کی بنا پر مذکورہ گھی کے اردگرد والے گھی کی نجاست کا حکم عائد نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس حکم کا وجوب ہوجاتا تو اس سے برتن میں موجود سارے گھی کے نجس ہوجانے کا حکم اس بنا پر واجب ہوجاتا کہ مذکورہ گھی کے ہر چیز کی دوسرے جز کے ساتھ محاورت ہوتی ہے، یعنی ہر چز دوسرے جز کے ساتھ ملا ہوتا ہے یہ ایسا اصول ہے جس کا ثبوت سنت سے ملا ہے ۔ اور یہ تغلیط و تخفیف کے اعتبار سے نجاسبت کے اختلاف مراتب پر دلالت کرتا ہے نیز یہ واضح کرتا ہے کہ مراتب کے اعتبار سے نجاسبت یکساں نہیں ہوتی۔ اسی اصول کی بنا پر یہ بات جائز ہوگی کہ تغلیط و تخفیف پر دلالت کے قیام کے مطابق بعض صورتوں میں نجاست کا اعتبار درہم کی مقدار سے زائد کے اندر کیا جائے اور بعض کے اندر کثیر اور فاحش کا۔ ہنڈیا میں پرندہ گر کر مرجانے کا مسئلہ ابو جعفر الطحاوی نے کہا ہے کہ میں نے ابو حازم القاضی سے سنا کہ انہوں نے سوید بن سعید سے اور انہوں نے علی مسہر سے ان کی یہ بات نقل کی کہ میں امام ابوحنیفہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں عبداللہ ابن المبارک خراسانی لباس میں امام صاحب کے پاس آئے اور ان سے مسئلہ پوچھا کہ ایک شخص نے گوشت کی ہنڈیا چولہے پر چڑھا رکھی تھی کہ ایک پرندہ اڑ کر آیا اور ہنڈیا میں گر کر مرگیا۔ یہ سن کر امام ابوحنیفہ نے اپنے رفقاء سے متوجہ ہوکر فرمایا : اس مسئلے کے بارے میں آپ لوگوں کو کیا خیال ہے ؟ انہوں نے جواب میں امام صاحب کے سامنے حضرت ابن عباس ؓ کا قول پیش کردیا کہ گوشت دھوکہ کھا لیاجائے گا اور شوربا بہا دیاجائے گا۔ یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا ہمارا بھی یہی قول ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کے لیے یہ شرط ہے کہ پرندہ ہنڈیا کے اندر ا س وقت گرا ہو جب وہ پاک نہ رہی ہو، ایسی صورت میں حکم وہی ہوگا جو حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں منقول ہے لیکن اگر ہنڈیا پک رہی ہو اور پھر پرندہ گر کر مرجائے تو ایسی صورت میں نہ تو گوشت کھایاجائے گا اور نہ ہی شوربہ۔ یہ سن کر ابن المبارک نے پوچھا کیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب میں امام صاحب نے فرمایا : ہنڈیا پکنے کے دوران میں جب پرندہ گر کر مرجائے گا تو وہ ہنڈیا میں موجود گوشت کے ساتھ مل جائے گا۔ اور اس کے اثرات گوشت میں داخل ہوجائیں گے، لیکن اگر ہڈیا پک نہ رہی ہو تو وہ گوشت کو صرف گندہ کردے گا۔ یہ سن کر ابن المبارک نے اپنے ہاتھ سے تیس کا ہندسہ بناتے ہوئے فارسی زبان میں کہا :” این زرین است “ یہ ایک قول زریں ہے) ابن المبارک نے عباد بن راشد سے اور انہوں نے حسن بصری سے امام ابوحنیفہ جیسا جواب نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے اپنے جواب میں ہنڈیا پکنے اور نہ پکنے کی حالتوں میں فرق کی علت بیان کردی ہے اور یہ فرق بالکل واضح ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر گوشت کی ہنڈیا پک رہی ہو اور اس میں کوئی مرغی گر کر مرجائے تو اس کے متعلق انہوں نے فرمایا : میں نہیں سمجھتا کہ یہ ہنڈیا کھالوں، کیونکہ مردار مرغی ہنڈیا میں موجود گوشت کے ساتھ محتاط ہوچکی ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ گوشت دھوکہ کھا لیاجائے گا۔ لیث بن سعد نے کہا ہے کہ مذکورہ گوشت اس وقت تک نہیں کھایاجائے گا جب تک اسے کئی دفعہ دھو کر آگ پر اس قدر پکا نہ لیاجائے کہ اس سے سارا اثر ختم ہوجائے۔ ابن المبارک نے عثمان بن عبداللہ الباہلی سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے گوشت کی ہنڈیا میں گر کر مرجانے والے پرندے کے متعلق ان کا قول نقل کیا ہے کہ شوربہ بہا دیاجائے گا اور گوشت کھالیا جائے گا۔ اس روایت میں ہنڈیا پکنے کی حالت کا ذکر نہیں ہے۔ محمد بن ثوبان نے السائب بن خباب سے بیان کیا ہے کہ ان کی ہنڈیا آگ پر رکھی ہوئی تھی کہ اس میں ایک مرغی گر کر مرگئی اور ہنڈیا میں موجود گوشت کے ساتھ پک گئی، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے مسئلہ پوچھا جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ : مردار مرغی نکال کر پھینک دو ، سارا شوربہ بہادو اور گوشت کھالو، اگر تمہیں اس گوشت کے کھانے میں کوئی ہچکچاہٹ ہو اس کا ایک آدھ ٹکڑا مجھے بھیج دو ۔ اس روایت میں بھی ہنڈیا پکنے کی حالت پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ مذکورہ مرغی ہنڈیا میں اس وقت گری ہو جب وہ پک نہ رہی ہو اور شوربہ گرم ہو جس کی گرمی بےمرغی پک گئی ہو۔ واللہ اعلم۔ مردار کے انفحہ اور اس کے دودھ کا مسئلہ (بکری کا بچہ جو ابھی صرف دودھ ہی پیتا ہو اس کے پیٹ سے ایک سیال مادہ نکال کر کپڑے کو اس سے لت پت کرلیا جاتا ہے اور وہ پنیر کی مانند گاڑھا ہوجاتا ہے اسے انفحہ کہا جاتا ہے۔ عوام الناس اسے مجبتہ کہتے ہیں۔ مترجم) امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ مردار کا دودھ اور اس کا انفحہ دونوں پاک ہیں۔ اور انہیں نجاست کا حکم لاحق نہیں ہوتا۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مذکورہ دودھ مکروہ ہے کیونکہ یہ ایک نجس مقام (مردار کے تھن) میں ہوتا ہے۔ اسی طرح افنحہ بھی مکروہ ہے اگر وہ مائع صورت میں ہو۔ اگر جمی ہوئی حالت میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا تمام حضرات کا مردارمرغی سے برآمد ہونے والے انڈوں کے بارے میں قول ہے کہ انہیں استعمال کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام مالک، عبداللہ بن الحسن اور امام شافعی کا قول ہے کہ مردار کے تھن کا دودھ حلال نہیں ہوتا۔ لیث بن سعد نے کہا ہے کہ مردہ مرغی سے برآمد ہونے والا انڈہ نہیں کھایاجائے گا ۔ عبداللہ بن الحسن نے کہا ہے کہ میں اس کی رخصت دینا پسند نہیں کرتا۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ دودھ کو موت کا حکم لاحق ہونا درست نہیں ہے کیونکہ اس میں زندگی نہیں ہوتی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جانور کی زندگی میں دودھ اس سے حاصل کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر دودھ کو موت کا حکم لاحق ہوتا تو اصل، یعنی جانور کو ذبح کیے بغیر اس کا استعمال حلال نہ ہوتا جس طرح جانور کے دوسرے تمام اعضاء کا حکم ہے، قول باری : نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرث ودم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین (ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے) دودھ کی تمام قسموں کے لیے عام ہے۔ یہ دو باتوں کا متقضی ہے۔ اول یہ کہ دودھ کو موت نہیں آتی اور جانور مثلاً بکری کی موت اسے حرام نہیں کرتی، دوم یہ کہ جانور کی موت سے اس کا دودھ نجس نہیں ہوتا اور اسکی حیثیت اس دودھ جیسی نہیں ہوتی جسے نجس برتن میں رکھ دیا گیا ہو۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ زندہ بکری کا دودھ نکال کر اسے نجس برتن میں رکھ دینے اور مردار جانور کے تھن میں اس کے ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟ تو کہا جائے گا کہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پیدائش کے مقام ( موضع خلقت) کے اردگرد کی جگہ اس چیز کی وجہ سے نجس نہیں ہوتی جو اس مقام میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام اہل اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حلال جانور کا گوشت اس میں موجود سمیت کھانا جائز ہے اور اس جواز کے لیے ان لوگوں کو دھونا اور انہیں پاک کرنا ضروری نہیں ہے، حالانکہ ان رگوں کے اندرونی حصے خون سے متصل ہوتے ہیں۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مقام خلقت اس چیز کے ساتھ مجاورت کی بنا پر نجس نہیں ہوتا جو اس میں پیدا کی گئی ہو۔ ایک دلیل اور بھی ہے وہ یہ قوری باری ہے : من بین فرث ودم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین یہ آیت ہماری مذکورہ بات پر دو طرح سے دلالت کرتی ہے۔ اول یہ کہ آیت زندہ اور مردہ دونوں جانوروں کے دودھ کی متقضی ہے۔ اس کا ذکر ہم زیر بحث مسئلے کے آغاز میں کر آئے ہیں۔ دوم یہ کہ آیت کے ذریعے یہ خبر دی گئی ہے کہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں نجس ہیں لیکن ان کے درمیان سے نکلنے والے دودھ پر طہارت کا حکم عائد کیا گیا ہے اور مذکورہ دونوں چیزوں کے ساتھ اس کی مجاورت اس کے نجس قرار پانے کی موجب نہیں بنی، کیونکہ مذکورہ مقام اس کی خلقت اور پیدائش کی جگہ ہے۔ اسی طرح مردہ جانور کے تھن میں دودھ کا ہونا اس کے نجس ہوجانے کا موجب نہیں بنتا۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی روایت شریک نے جابر سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کی ہے کہ حضور ﷺ کے پاس غزوہ طائف میں پنیر کا ایک ٹکڑا لایا گیا۔ وہ اس قدر سخت تھا کہ صحابہ کرام اسے لاٹھی سے ٹھک ٹھک کرنے لگے، آپ ﷺ نے پوچھا کہ اسے کہاں تیار کیا گیا ہے ؟ جواب ملا زمین فارس میں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : بسمہ اللہ پڑھ کر اسے کھالو۔ حالانکہ یہ بات معلم تھی کہ مجوسیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جانور مردار ہوتے ہیں لیکن اس علم کے باوجود کہ مذکورہ پنیر کا ٹکڑا اہل فارس کے ہاتھوں کا تیار کردہ ہے جو اس وقت مجوسی تھے، آپ ﷺ نے اسے کھا لینے کی اباحت کردی جبکہ اس قسم کے پنیر کی تیاری صرف انفحہ سے ہوتی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مردار کا انفحہ پاک ہوتا ہے۔ القاسم بن الحکم نے غالب بن عبداللہ سے، انہوں نے عطار بن ابی رباح سے اور انہوں نے ام المومنین حضرت میمونہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے پنیر کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر بسمہ اللہ پڑھ کر چھری رکھو اور پھر اسے کھالو۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے ہر طرح کے پنیر کے کھانے کی اباحت کردی اور مردار اور غیر مردار کے انفحہ سے تیار شدہ پنیروں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت سلمان ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت حسن بن علی ؓ سے ایسے پنیر کے کھانے کی اباحت مروی ہے جس میں مردار کا انفحہ ملا ہوا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ افنحہ پاک ہوتا ہے خواہ وہ مردار ہی کیوں نہ ہو۔ ہماری اس وضاحت سے جب انفحہ کی طہارت ثابت ہوگئی تو اس سے مردار کے دودھ اور اس کے انفحہ کی طہارت بھی ثابت ہوگئی اور یہ بات ضروری ہوگئی کہ اس انڈے کا حکم بھی یہی ہو جو مردہ مرغی کے پیٹ سے برآمد ہوا۔ کیونکہ انڈا مرغی کی زندگی کے دورا س سے جدا ہوجاتا ہے اور پاک ہوتا ہے۔ اس لئے مرغی کی موت کے بعد بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اگر انڈے کو بح کی ضرورت بھی ہوتی تو صرف اصل یعنی مرغی کی ذبح کے ذریعے ہی اس کی اباحت ہوتی جس طرح مرغی کے دیگر تمام اعضاء اس کی ذبح کے بعد مباح ہوتے ہیں اس لئے کہ ان اعضاء کی اباحت کی شرط ہی یہ ہے کہ اصل یعنی مرغی کا ذبح عمل میں آئے۔ مردار کے بالوں کی پوستین اور درندوں کی کھالوں کا مسئلہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسفخ امام محمد، امام زفر، محمد بن صالح اور عبیداللہ بن الحسن کا قول ہے کہ مردار کی ہڈیوں سے انتفاع جائز ہے۔ نیز مردار کے بال اور اون کے استعمالمیں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بال اور اون مردار نہیں ہوتے کیونکہ جانور کی زندگی کے دوران انہیں اس کے جسم سے اتار لیا جاتا ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ مردار کے پٹھوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، تاہم اس کے سینگوں اور کھروں سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز مردار کی ہڈیوں سے انتفاع میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اس کے بالوں اور اون سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عبدالباقی بن قائع نے روایت بیان کی ہے ان سے اسماعیل بن الفضل نے، ان سے سلیمان بن عبدالرحمن الدمشقی نے، ان سے یوسف بن الشقر نے، ان سے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر سے اور انہوں نے ابو سلمہ سے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ انہوں نے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا : مردار کی کھال میں کوئی حرج نہیں جب اسے دباغت دے دی جائے اور اس کے بالوں اون اور سینگوں میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ جب انہیں پانی دھو ڈالا جائے۔ عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے اسماعیل بن الفضل نے، ان سے الحسن بن عمر نے، ان سے عبداللہ بن سلمہ نے ابن ابی لیلیٰ سے، انہوں نے ثابت النبانی سے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں ن ے اپنے والد سے کہ وہ حضور ﷺ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوستین نیز مساتق ( لمبی آستین کی پوسینوں) کے ساتھ نماز پڑھنے کے متعلق مسئلہ دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : ان کی دباغت کے اندر تمہارے لیے کفایت ہے۔ یحییٰ الحمانی نے کہا ، ہمیں سیف بن ہارون البرحمی نے سلیمان القیمی سے، انہوں نے ابو عثمان الہندی سے اور انہوں ن ے حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت بیان کی کہ حضور ﷺ سے پوستینوں پنیر اور گھی کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : حلال وہ ہے جسے اللہ سبحانہ نے قرآن میں حلال کردیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ سبحانہ نے قرآن میں حرام کردیا ہے اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ اس کی طرف سے عفو ہے۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا احادیث کے اندر دو وجوہ سے بال ، اون ، پوستین اور پنیر کی اباحت کا ذکر ہے۔ اول تو مردار کے بال اور اون کی اباحت پر وہ نص جس کا ذکر ہم نے حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت کردہ حدیث میں ، نیز پوستین اور مساتق کی اباحت پر وہ نص جس کا ذکر ہم نے ابن ابی لیلیٰ کی روایت کردہ حدیث میں کیا ہے۔ دوم حضرت سلمان فارسی ؓ کی روایت کردہ حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ، اس ارشاد میں دو وجوہ سے اباحت پر دلالت موجود ہے۔ اول یہ کہ حضور ﷺ سے جن چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا اگر وہ حرام ہوتیں تو آپ جواب میں سائل کو ان کی تحریم سے آگاہ کردیتے۔ دوم یہ کہ جن چیزوں کی تحلیل کا ذکر نہیں ہوا وہ حضور ﷺ کے ارشاد :” اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ اس کی ( اللہ کی) طرف سے عفو ہے “ کی بنا پر مباح ہے۔ قرآن مجید میں بال اور اون وغیرہ کی تحریم کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اس میں اباحت کو واجب کردینے والی بات کا ذکر ہے : ارشاد باری ہے :( والا نعام خلقھا لکم فیھا رف و منافع ( اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک اور طرح طرح کے دوسرے فائدے ہیں) دف جانور کے بالوں اور اون کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے جسم گرم رکھا جاتا ہے یہ مردار اور زندہ دونوں قسموں کے جانوروں کے بال اور اون کی اباحت کا متقضی ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ومن اصوفھا واوبارھا واشعارھا اثاثاً ومتاعًا الی حین ( اس نے جانور کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی موت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں) یہ آیت اباحت کے حکم میں سب کے لیے عام ہے اور اس میں ذبح شدہ اور مردار جانور کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ جن حضرات نے مردار کے مذکورہ بالا اجزاء کے استعمال کی ممانعت کی ہے انہوں نے قول باری : حرمت علیکم المیتۃ سے استدلال کیا ہے کیونکہ آیت مردا ر کی تحریم بشمول اس کے تمام اجزاء کی متقضی ہے اگر اون، بال اور ہڈیاں وغیرہ مردار کے اجزاء تسلیم کیے جاتے ہیں تو پھر آیت ان تمام کی تحریم کی متقضی ہوگی۔ اس استدلال کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا آیت سے وہ اجزاء مراد ہیں جنہیں کھایا جاسکتا ہو اس کی دلیل یہ دوسری آیت ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ ( ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو) تاآخر آیت۔ اس میں خبر دی گئی ہے کہ تحریم ان اجزاء تک محدود ہے جنہیں خوراک کے طورپر استعمال کیا جاتا ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے مردار میں سے صرف اس کا گوشت حرام کردیا گیا ہے۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے صرف اسے کھانا حرام کیا گیا ہے۔ اس طرح آپ ﷺ نے مردار کی تحریم سے اللہ کی مراد واضح فرما دی۔ چونکہ بال، اون، ہڈی اور اس طرح کے دیگر اجزاء جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کھانے کے کام نہیں اتے اس لیے تحریم کا حکم انہیں شامل نہیں ہوگا ؟ نیز جب ہم نے مردار کی دباغت شدہ کھال کی اباحت کی ان احادیث کی بنا پر تخصیص کردی جو اس سلسلے میں وارد ہوئی تو حرام اجزا کے مجموعے سے بال، اون نیز ان اجزاء کی تخصیص بھی واجب ہوگئی جو کھانے کے کام نہیں آتے۔ اس تخصیص کی بنیاد ان آثار پر ہے جو اس سلسلے میں مروی ہیں اور جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔ ایک اور جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے وہ یہ کہ جب مردار کی کھال کا دباغت کی بنا پر کھانے کے کام نہ آنا اس کی اباحت کا سبب ہے تو پھر ان تمام اجزاء کا بھی یہی حکم ہونا واجب ہے جو کھانے کے کام نہیں آتے، یعنی بال، اون اور اسی طرح کے دیگر اجزاء، اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مردار کی کھالوں سے انتفاع کی اباحت کرنے والی احادیث میں ان کھالوں سے بال اور اون وغیرہ اتار لینے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اباحت کا حکم علی الاطلاق ہے۔ یہ اطلاق کھالوں کی بمعہ ان پر موجود بال اور اون وغیرہ، اباحت کا متقضی ہے۔ اگر بال اور اون میں تحریم ثابت ہوتی تو حضور ﷺ اسے ضرور بیا ن کردیتے کیونکہ آپ کو اس بات کا علم تھا کہ کھالیں جانوروں کے بےجان اجزاء ہیں اور جن اجزاء میں جان نہیں ہوتی انہیں موت لاحق نہیں ہوتی ۔ بال وغیرہ میں جان نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ انہیں قطع کرنے سے جانور کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی جبکہ اس کا اگر کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ بال، اون، ہڈی، کھر اور پر میں جان نہیں ہوتی اس لیے انہیں موت لاحق نہیں ہوگی۔ جیسے درخت اور پودوں کی نشو و نما ہوتی ہو لیکن ان میں جان نہیں ہوتی اور انہیں موت کا حکم لاحق نہیں ہوتا ( مصنف کی یہ دلیل بڑی کمزور ہے اس لئے پودوں کو اگر ہوا اور روشنی سے محروم رکھا جائے تو وہ سوکھ جائیں گے۔ یہ بات ان میں زندگی کے وجود کی نشاندہی کرتی ہے۔ مترجم) ہماری مذکورہ بات پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا زندہ جانور کا جو عضو اس سے جدا کردیاجائے وہ مردار ہوگا۔ جانور کے بال اور اون اس سے اتار لیے جاتے ہیں اور انہیں موت کا حکم لاحق نہیں ہوتا۔ اگر انہیں موت کا حکم لاحق ہوتا تو اس سے ضروری ہوجاتا کہ اصل یعنی متعلقہ جانور کو ذبح کیے بغیر یہ حلال نہ ہوتے جس طرح جانور کے تمام دیگر اعضا اسے ذبح کیے بغیر حلال نہیں ہوتے یہ صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہیں موت کا حکم لاحق نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں ذبح کرنے کی ضرورت ہے۔ حسن بصری محمد بن سیر ین، سعید بن المسیب اور ابراہیم نخعی سے مردار کے بالوں اور اون کی اباحت مروی ہے۔ عطا سے مردار اور ہاتھی کی ہڈیوں کی کراہت منقول ہے طائوس سے بھی ہاتھی کی ہڈیوں کی کراہت مروی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے جسم پر پوستین دیکھی تو فرمایا : کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ (کھال) ذکی یعنی پاک اور ذبح شدہ ہے تو میرے لیے اس سے بنا ہوا لباس حاصل کرنا بڑا خوش کن ہوتا۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کے سر پر لومڑی کی کھال سے بنی ہوئی ٹوپی دیکھی، آپ نے اس کے سر سے یہ ٹوپی اتار کر فرمایا : تمہیں کیا پتہ کہ اسے شائد ذبح نہ کیا گیا ہو۔ درندوں کی کھال کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں نے انہیں مکروہ قرار دیا ہے لیکن ہمارے اصحاب نیز ان اصحابہ کرام اور تاعبین نے ان کی اباحت کردی ہے جن کا ذکرہم پہلے کر آئے ہیں۔ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور ابو الزبیر نے حضرت جابر ؓ سے نیز مطرف نے حضرت عمار ؓ سے درندوں کی کھالوں سے انتفاع کی اباحت روایت کی ہے۔ علی بن حسین ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ضحاک اور ابن سیرین سے منقول ہے کہ درندوں کی کھالیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عطاء نے حضرت عائشہ ؓ سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ان کی دباغت ان کی ذکوۃ یعنی ذبح ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ قتادہ نے ابو الملیح سے ، انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے درندوں کی کھالوں سے منع فرمایا ہے۔ قتادہ نے ابو الشیح الہنائی سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت معاویہ ؓ سے چند صحابہ کرام ؓ سے دریافت کیا کہ : آپ حضرات کو معلوم ہے کہ حضور ﷺ نے چیتوں کی کھالوں سے بنی ہوئی زین پر سواری سے منع فرمایا ہے ؟ ان حضرات نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کے مفہوم کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے، بعض حضرات کا قول ہے کہ حضور ﷺ کی مذکورہ نہی تحریم والی نہی ہے جو تمام احوال میں درندوں کی کھال پہننے کی تحریم کی متقضی ہے، جبکہ دوسرے حضرات کا خیال ہے کہ مذکورہ تحریم کراہت پر نیز عجمیوں کے لباس کے ساتھ تشبہ پر محمول ہے۔ جس طرح ابو اسحق نے ہیرہ بن مریم سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے ان کای ہ قول نقل کیا ہے کہ : حضور ﷺ نے سونے کی انگوٹھی ریشمی کپڑا اور سرخ لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔ درندوں کی کھال پہننے کی اباحت ، نیز اس سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں صحابہ کرام سے مروی آثار اس امرپر دلالت کرتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ نہی کراہیت پر نیز عجمیوں کے ساتھ تشبہ پر محمول ہے۔ حضرت سلمان ؓ و دیگر صحابہ کرام سے پوستین پہننے کی اباحت اور اس سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں حضور ﷺ کی منقول حدیث کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ نیز یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ جس کھال کو دباغت دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔ نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے : کھال کی دباغت اس کی ذکاۃ یعنی ذبح ہے۔ یہ دونوں حدیثیں درندوں اور غیر درندوں سب کی کھالوں کے لیے عام ہیں اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ درندوں کی کھالوں سے مذکورہ نہی ان کھالوں کی نجاست کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کراہت اور عجمیوں کے ساتھ تشبہ کی بنا پر ہے۔ خون کی تحریم کا بیان ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم نیز ارشاد ہے : حرمت علیکم المیتتہ اگر خون کی تحریم کے سلسلے میں ان دونوں آیتوں کے سوا اور کوئی آیت نے ہوتی تو یہ بات قلیل اور کثیر ہر قسم کے خون کی تحریم متقضی ہوتی، لیکن جب ایک اور آیت میں ارشاد ہوا : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ اودماً مسفوحاً ( ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی ن ہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ صر ” دم مفسوح “ ( بہایا ہوا خون) ہی حرام ہے۔ اگر کوئی کہے کہ قول باری : اودماً مسفوحاً اس خون کے بارے میں خاص ہے جو اس صفت کا حامل ہو جبکہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں قول باری خون کی تمام صورتوں میں عام ہے، اس لیے مذکورہ قول باری کو اس کے عموم پر رکھنا واجب ہے کیونکہ آیت میں اس کی تخصیص کرنے والی کوئی بات موجود نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری : اودماً مسفوحاً میں تمام اقسام کے خون کی تحریم کی نفی آئی ہے سوائے اس خون کے جو مذکورہ صفت کا حامل ہو اس لیے کہ ا رشاد باری ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ تا قول باری : اودماً مسفوحاً ۔ اگر بات اسی طرح ہے جو ہم نے بیان کی ہے تو اس صورت میں یا تو یہ ہے کہ قول باری : وانما حرماً علیکم المیتۃ والدم کا نزول قول باری : اودماً مسفوحاً کے نزول سے متاخر ہے یا یہ کہ دونوں کا نزول ایک ساتھ ہوا ہے لیکن جب ہمیں ان دونوں آیتوں کے نزول کی تاریخ معلوم نہیں ہے تو پھر یہ حکم لگانا ضروری ہوگا کہ دونوں کا نزول ایک ساتھ ہوا ہے۔ اس صورت میں خون کی تحریم صرف اس خون میں ثابت ہوگی جو مذکورہ صفت کے ساتھ موصوف ہو، یعنی وہ بہایا ہوا خون ہو۔ ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن اسحاق المروزی نے روایت بیان کی، ان سے الحسین بن ابی الربیع الحرجانی نے ان سے عبدالرزاق نے، ان سے ابن عینیہ نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے عکرمہ سے کہ انہوں نے کہا تھا : اگر اودماً مسفوحاً کی آیت نہ ہوتی تو اہل اسلام رگوں کے سلسلے اس بات کی پیروی کرتے جس کی پیروی یہو دنے کی تھی۔ عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، ان سے الحسن نے، ان سے عبدالرزاق نے، ان سے معمر نے قتادہ سے قول باری : اودماً مسفوحاً کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا کہ : جو خون بہایا ہوا ہو وہ حرام ہے، لیکن اس گوشت کے کھانے میں کوئی حرج نہیں جس کے ساتھ خون محتاط ہو۔ القاسم بن محمدنے حضرت عائشہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ان سے گوشت نیز ذبح کی جگہ پر لگے ہوئے خون کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ : اللہ سبحانہ نے تو صرف بہائے ہوئے خون سے منع فرمایا ہے۔ فقہاء کے مابین اس امر پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ رگوں میں خون کے اجزا کی موجودگی کے باوجود گوشت کھا لینا جائز ہے کیونکہ مذکورہ خون مسفوح نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اس پر پانی ڈالا جاتا ہے تو پانی میں خون کے اجزاء ظاہر ہوجاتے ہیں لیکن یہ اس بنا پر حرام نہیں ہوتا کہ یہ بہایا ہوا خون نہیں ہوتا۔ ہماری مذکورہ بالا وضاحت کی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ پسو، مکھی اور مچھر کا خون نجس نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مچھلی کا خون بھی نجس نہیں ہوتا۔ اسے بمعہ اس کے خون کے کھالیا جاتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر پسو کا خون بہت زیادہ ہو تو اسے دھویا جائے گا، نیز مکھی اور مچھلی سے نکلنے والا خون بھی دھویا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ وضو کا پانی صرف اس صورت میں خراب ہوتا ہے جب اس میں خون یا پیشاب یا اس قسم کی کوئی نجاست گرجائے۔ اس طرح امام شافعی نے نجاست کا حکم خون کی تمام اقسام کے لیے عام رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ قول باری : حرمت علیکم المیتۃ والدم نیز اودماً مسفوحاً مچھلی کے خون کی تحریم کا موجب ہے، کیونکہ یہ خون مفسوح ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تحریم کے حکم سے مذکورہ خون کی تخصیص حضور ﷺ کے اس ارشاد کی بنا پر کی گئی ہے کہ : ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردیے گئے ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے خون کے ساتھ اسے بہائے بغیر مچھلی کی اباحت کردی ہے اور اہل اسلام نے بھی مذکورہ صورت کے تحت مچھلی کی اباحت کے سلسلے میں اس حدیث کو قبول کرلیا ہے، تو مچھلی کے خون کی اباحت کے اندر آیت کی تخصیص واجب ہوگئی کیونکہ اگر مچھلی کا خون ممنوع ہوتا تو خون بہائے بغیر مچھلی حلال نہ ہوتی جس طرح بکری اور دیگر حلال جانوروں کی حلت ان کا خون بہائے بغیر نہیں ہوتی۔ خنزیر کی تحریم کا بیان ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الحنزیر نیز ارشاد ہوا : حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر یہ بھی ارشاد ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم تطعمہ الا انی کون میتۃ اودماً مسفوحاً او لحم خنزیر یہ آیات سور کے گوشت کی تحریم پر نص ہیں اور امت نے اس کی تاویل اور اس کے معنی کے سلسلے میں وہی بات سمجھی ہے جو اس کی تنزیل سے سمجھ میں آتی ہے۔ اگرچہ سور کے گوشت کا خصوصیت سے ذکر ہے لیکن اس کے تمام اجزاء کی تحریم مراد ہے، گوشت کا خصوصیت سے اس لیے ذکر ہوا کہ سور سے فائدہ اٹھانے کی سب سے بڑی صورت اس کا گوشت ہے۔ جس طرح احرام والے شخص کے لیے شکار کے قتل کی تحریم پر نص کیا گیا ہے لیکن اس سے شکار کے سلسلے میں اس کے افعال و حرکات مراد ہیں اور شکار کے قتل کا خصوصیت سے ذکر اس لیے ہوا کہ شکار کا سب سے بڑا مقصد ہی یہی ہوتا ہے، نیز جس طرح یہ قول باری ہے : اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعو الی ذکر اللہ وذروالبیع (جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہوجائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ) یہاں خصوصیت کے ساتھ خریدو فروخت کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے اس لیے کہ خریدو فروخت ہی وہ سب سے بڑ ا ذریعہ تھا جس کے تحت لوگ اپنے فوائد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے جبکہ مراد یہ ہے کہ وہ تمام سرگرمیاں ترک کردو جو تمہیں ج معہ کی نماز سے روکے رکھیں۔ بیع کی نہی پر اس لیے نص کردیا کہ اس کے ذریعے نماز جمعہ سے غفلت اور دوسرے امور ہیں مشغولیت کی ممانعت کی تاکید ہوجائے۔ اسی طرح سور کے گوشت کو ممانعت کے حکم کے ساتھ خاص کردیا کہ اس کی تحریم کے حکم کی تاکید ہوجائے اور اس کے جسم کے تمام اجزا کی بھی ممانعت ہوجائے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ تحریم کے حکم میں اس کے تمام اجزاء مراد ہیں، اگرچہ نص اس کے گوشت کے بارے میں خاص ہے۔ سور کے بالوں سے اتنفاع کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ان سے جوتوں کی سلائی کرنا جائز ہے۔ امام بویوسف نے اس مقصد کے لیے ان کے استعمال کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ان سے اس سلسلے میں اباحت کی روایت بھی منقول ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ سور کے بالوں سے جوتوں کی سلائی کا کام لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور موچی کے لیے ان کی خریدو فروخت جائز ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سور کے بالوں سے انتفاع جائز نہیں ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سور کے گوشت کی تحریم منصوص ہے اور یہ اس کی تحریم کے حکم کی تاکید کے لیے ہے۔ اس لیے یہ کہناجائز ہے کہ تحریم کا حکم بالوں وغیرہ کو بھی شامل ہے اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ تحریم کا حکم سور کے جسم کے ان اجزاء کے بارے میں ہے جن میں جانی ہوتی ہے اور جنہیں قطع کرنے سے سور کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔ بال چونکہ بےجان ہوتے ہیں اس لیے وہ ایک زندہ چیز کے اجزا نہیں بن سکتے۔ نتیجہً انہیں تحریم کا حکم لاحق نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مردار کے بالوں کے بارے میں پہلے بیان کر آئے ہیں، نیز یہ کہ بالوں کے سلسلے میں ذبح شدہ جانور اور مردار دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ البتہ ہمارے جن اصحاب نے سور کے بالوں سے مذکورہ انتفاع کی اباحت بیان کی ہے انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ استحسان کے طورپر اس انتفاع کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات اس امرپر دلالت کرتی ہے کہ تحریم کا حکم ان حضرات کے نزدیک سور کے تمام اجزا بشمول بال کو لاحق ہے۔ ہمارے اصحاب کی طرف سے جوتوں کی سلائی کے لیے سور کے بالوں سے انتفاع کو استحسان کے طورپر جائز قرار دیا گیا ہے۔ ان کی خریدو فروخت جائز قرار نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں اور اہل علم کو دیکھا کہ وہ موچیوں کے ہاں ان کے استعمال پر کوئی نکیر نہیں کرتے، بلکہ انہیں یہ بال استعمال کرنے دیتے ہیں۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے نزدیک ان بالوں سے انتفاع کے جواز پر سلف کے ایک گونہ اجماع کے مترادف ہوگئی۔ اگر عوام الناس کا کسی چیز پر عمل ظاہر ہوجائے اور سلف کی طرف سے انہیں اس پر عمل پیرا رہنے دیاجائے اور نکیر نہ کی جائے تو یہ بات ہمارے اصحاب کے نزدیک اس چیز کی اباحت کا موجب بن جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر ایک شخص حمام میں غسل کرنے کے لیے داخل ہوائے لیکن اجرت مقرر نہ کرے اور نہ پانی کی اس مقدار کا تعین ہی کرے جسے وہ غسل کرنے کے دوران میں صرف کرنے والا ہے اور نہ حمام میں رہنے کی مدت کا ذکر کرے تو اس کے لیے حمام کا استعمال مباح ہوگا اس لیے کہ حمام کا استعمال کرنے کا یہ طریقہ سلف کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور کسی نے بھی اس پر انگشت نمائی نہیں کی۔ یہی کیفیت استصناع کی ہے یعنی کسی کا ریگر سے کوئی چیز بنوانے کے سلسلے میں معاملہ طے کرنا۔ ہمارے حضرات نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ عوام الناس کا تعامل یہی ہے اس بارے میں ہمارے حضرات کا نقطہ نظریہ ہے کہ جب سلف نے تمام لوگوں کو اس تعامل کو برقرار رکھا اور اس پر نکیر نہیں کی تو یہی بات اس تعامل کے جواز کی اصل اور بنیاد بن گئی اس قسم کے نظائر بیشمار ہیں۔ خنزیر الماء ( آبی سور) کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ امام مالک امام شافعی اور ابن ابی الیلیٰ کا قول ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز کھائی جاسکتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ خنزیر الماء کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بعض لوگ اسے حمار الماء ( آبی گدھے) کا نام دیتے ہیں۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ نہ تو آبی انسان کا گوشت کھایاجائے گا اور نہ ہی آبی سور کا۔ ابو بکرحصاص کہتے ہیں کہ قول باری : ولحم الخنزیر کا ظاہر ہر قسم کے سور کی ممانعت کا موجب ہے، خواہ وہ بری ہو یا آبی، کیونکہ آیت میں مذکورہ اسم سب کو شامل ہے۔ اگر کوئی کہے کہ آیت میں مذکورہ اسم صرف بری سور کو شامل ہوگا کیونکہ بری سور ہی کو علی اطلاق اس اسم کا مسمی قرار دیاجاتا ہے جبکہ آبی سور کے لیے اس اسم کا علی الاطلاق استعمال نہیں ہوتا بلکہ مقید صورت میں ہوتا ہے اور عرف میں اس پر آبی گدھے کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آبی سور اپنی خلقت اور صفت میں یا تو بری سور کی طرح ہے یا اس کی طرح نہیں ہے۔ اگر پہلی بات ہے تو پھر بری اور آبی سوروں پر خنزیر کے اسم کے اطلاق میں کوئی فرق اس بنا پر نہیں ہوگا کہ اس کا آبی ہونا اس کے حکم میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرے گا جبکہ وہ خلقت اور صفت کے اندر بری سور کی مانند ہو، الا یہ کہ اس کی تخصیص پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ اگر دوسری بات ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے آبی گدھے کا نام دیا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ لوگوں نے ایسے جانورکو خنزیر کا نام دے دیا جو حقیقت میں خنزیر نہیں ہے، حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کوئی شخص نام رکھنے کے سلسلے میں عوام الناس کو خطا کار قرار نہیں دیتا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آبی سور حقیقت میں سور ہی ہوتا ہے اور آیت میں مذکورہ اسم علی الاطلاق اسے بھی شامل ہے۔ اگر لوگوں نے اسے آبی گدھے کا نام دیا بھی ہے تو اس کی وجہ سے خنزیر کا اسم اس سے سلب نہیں ہوگا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بری اور آبی سوروں کے درمیان فرق کے لییلوگوں نے اسے یہ نام دیا ہو۔ اسی طرح آبی کتے اور بری کتے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں یکساں ہیں کیونکہ کتے کا اسم ان سب کو شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ آبی کتا اپنے بعض اوصاف میں بری کتے سے مختلف ہوتا ہے۔۔ اس جانور کی تحریم جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ قول باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر دما اھل بہ بغیر اللہ ( اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مردار نہ کھائی۔ خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو) اہل اسلام کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس سے مراد وہ ذبیحہ ہے جس پر ذبح کے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں بت پرست اپنے بتوں پر چڑھا وے کے طورپر قربان کرتے تھے جس طرح یہ قول باری ہے : وما ذبح علی النصب ( اور وہ کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو) اور انہوں نے نصرانی کا ذبیحہ جائز قرار دیا ہے جسے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر ذبح کرے۔ عطار، مکحول، حسن بصری شعبی اور سعید بن المسیب کا یہی مسلک ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ سبحانہ نے نصرانیوں کا ذبیحہ کھا لینے کی اباحت کردی ہے جبکہ اس کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ مسیح (علیہ السلام) کا نام لے کر جانور ذبح کرتے ہیں۔ اوزاعی اور لیث بن سعد کا بھی مسلک ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔ اگر وہ اسے ذبح کرتے وقت مسیح (علیہ السلام) کا نام لیں۔ قول باری : وما اھل بہ لغیر اللہ کا ظاہر ذبیحہ پر غیر اللہ کا نام لینے کی صورت میں اس کی تحریم کا موجب ہے کیونکہ آیت میں مذکورہ لفظ غیر اللہ کے اہلال کا مطلب یہی ہے کہ ذبح کے موقع پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاجائے۔ آیت نے مسیح (علیہ السلام) یا ان کے سوا کسی اور کے نام کے درمیان غیر اللہ کے اہلال میں فرق نہیں کیا۔ دوسری آیت میں قول باری ہے : وما ذبح علی النصب، بتوں پرچڑھاوے کے طورپر جانور ذبح کرنے کی عربوں کی عادت اس بات سے مانع ہے کہ آیت کے متقضا یعنی ان جانوروں کی تحریم میں جن پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو آیت کے عموم کا اعتبار نہ کیا جائے۔ عطاء بن الصائب نے زاذان اور میسرہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : جب تم یہود اور نصاریٰ کو کسی جانور پر غیر اللہ کا نام لیتے ہوئے سنو تو اس کا گوشت نہ کھائو اور نہ سنو تو کھالو، کیونکہ اللہ سبحانہ نے ان کے ذبائح حلال کردئیے ہیں ، حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اللہ کو اس کا علم ہے۔ اہل کتاب کے ذبیحے کی اباحت کے قائلین کا یہ استدلال کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا طعام مباح کردیا ہے حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اللہ کو اس کا علم ہے درست استدلال نہیں ہے اس لیے کہ اس میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے، یعنی ان کے ذبیحے کی اباحت۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے طعام کی اباحت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ انہوں نے اس پر غیر اللہ کا نام نہ لیا ہو کیونکہ ہم پر دونوں آیتوں کے مجموعے پر عمل کرنا واجب ہے اس بناپر زیر بحث آیت گویا اس طرح ہے کہ تمہارے لیے ان لوگوں کا طعام حلال ہے جنہیں کتاب دی گئی ہے بشرطیکہ اس پر انہوں نے غیر اللہ کا نام نہ لیا ہو۔ اگر کوئی شخص کہے کہ نصرانی شخص جب اللہ کا نام لیتا ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہوتے ہیں۔ اگر اس کی مراد یہی ہے اور یہ بات اس کے ذبیحے کی صحت کے لئے مانع نہیں حالانکہ وہ مذکورہ مراد کے تحت جانور پر غیر اللہ کا نام لیتا ہے، تو پھر اس کے ذبیحے کا حکم اس صورت میں بھی یہی ہونا چاہیے جب وہ اپنی پوشیدہ مراد کا الفاظ میں اظہار کردے، یعنی جانورپر حضرت مسیح (علیہ السلام) کا نام لے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ ضروری نہیں ہے ، کیونکہ اللہ سبحانہ نے ہمیں صرف ظاہر کے حکم کا مکلف بنایا ہے اور کیونکہ اہلال کے معنی اظہار قول کے ہیں، اس لیے جب وہ غیر اللہ کا نام ظاہر کرے گا تو قول باری : وما اھل بہ بغیر اللہ کی بنا پر اس کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب وہ اللہ کا نام ظاہر کرے گا تو اسے حضرت مسیح پر محمول کرنا ہمارے لیے درست نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے نزدیک اسماء کا حکم یہ ہے کہ انہیں ان کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے اور ان معنوں پر محمول نہ کیا جائے جن پر یہ اسماء واقع نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر یہ کہاجائے کہ ہم اس اسم کے اعتبار کے پابند ہیں جس کا اظہار کیا گیا ہو تو ایسا کہنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص اگر توحید باری اور حضور ﷺ کی رسالت کا اپنے الفاظ میں اقرار کرلے تو اس کا حکم وہی ہوگا جو اہل اسلام کا ہے۔ حالانکہ اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ شرک کا ہو جو توحید کی ضد ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : مجھے لوگوں کے خلاف اس وقت لڑتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں گے تو میرے ہاتھوں سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے سوائے اس صورت کے جس کے تحت ان کی جان اور ان کا مال کسی حق کی بنا پر ان سے لیاجائے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہوگا۔ اللہ سبحانہ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو بتادیا تھا کہ مسلمانوں کے اندر منافقین بھی موجود ہیں جن کا عقیدہ کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان سے وہ سلوک نہیں کیا جس کے مشرکین حقدار گردانے لئے تھے، بلکہ ان کے ظاہر کا اعتبار کرکے دنیاوی احکام میں انہیں مسلمانوں جیسا قرار دیا۔ اسی طرح یہ بات بھی جائز ہے کہ نصرانی شخص کے ذبیحے کی حلت کا تعلق اس کی طرف سے اللہ سبحانہ کے نام کے اظہار کے ساتھ ہو۔ اور جب وہ جانور مسیح (علیہ السلام) کا نام لے تو اس کا ذبیحہ حلال نہ ہو جس طرح تمام مشرکین کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا جب وہ جانور پر اپنے بتوں کا نام لیں۔ واللہ اعلم مردار کھا لینے کی اباحت ارشاد باری ہے : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ( ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں) ایک اور آیت میں ارشاد ہے : وقد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما اضطر رتم الیہ ( حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتاچکا ہے) نیز ارشاد ہے : فمن اضطر فی مخمصۃ غیر متجانف الاثم فان اللہ غفور رحیم ( البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر ان میں سے کوئی چیز کھالے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) ان آیات کے اندر اللہ سبحانہ نے ضرورت کا ذکر فرمایا ہے اور ان میں سے ایک آیت : وقد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما اضطررتم الیہ کے اندر کسی شرط اور صفت کے بغیر ضرورت کے وجود کی بنا پر اباحت کو مطلق رکھا ہے۔ یہ بات اس امر کی متقضی ہے کہ جس حالت میں بھی ضرورت کا وجود ہوگا اس میں مذکورہ اباحت کا بھی وجود ہوگا۔ قول باری : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد کی تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حسن بصری اور مسروق کا قول ہے کہ مردار کے اندر قانون شکنی کرنے والا نہ ہو اور کھانے کے اندر ضرورت کی حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو۔ ہمارے اصحاب اور امام مالک یہی قول ہے، ان حضرات نے مسلم باغیوں کے لیے بوقت ضرورت مردار کھانے کی اباحت کردی ہے جس طرح انہوں نے اہل عدل ( اہل طاعت) کے لیے اباحت کی ہے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ اگر ایک شخص امام المسلمین کا باغی نہ ہو نیز اس کا سفر کسی معصیت کی خاطر نہ ہو، تو اسے بوقت ضرورت مردار کھانے کی اجازت ہیل یکن اگر اس کا سفر کسی معصیت کے سلسلے میں ہو یا وہ امام المسلمین کا باغی بن چکا ہو، تو اسے مردار کھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ قول باری : الا ما اضطررتم الیہ سب کے لیے اباحت کا موجب ہے۔ خواہ وہ اہل اطاعت ہوں یا باغی۔ دوسری دو آیتوں : غیر باغ ولا عاد نیز غیر متجانف میں یہ احتمال ہے کہ ان سے کھانے میں ضرورت کی حد سے تجاوز اور سرکشی مراد ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام المسلمین کے خلاف بغاوت مراد ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم احتمال کی بنا پر مذکورہ بالا پہلی آیت کے عموم کی تخصیص کردیں بلکہ یہ ضروری ہوگا کہ تخصیص کے بغیر مذکورہ عموم کو ان صورتوں پر محمول کریں جو عموم کی ہم معنی ہوں، نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص کسی معصیت کے سلسلے میں س فر نہ کر رہا ہو بلکہ اس کا سفر حج یا جہاد یا تجارت کے سلسلے می ہو اور اس کے باوجود وہ کسی شخص کا مال ناجائز طریقے سے لے کر قانون شکن بن گیا ہو، یا نماز یا زکو ۃ کی ادائیگی ترک کرکے اپنی حد سے تجاوز کرگیا ہو تو اس کی یہ قانون شکنی اور حد سے تجاوز کرنے کی صورت اس کے لیے بوقت ضرورت مردار کی اباحت کے لیے مانع نہیں بنے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری : غیر باغ ولا عاد میں تمام صورتوں کے اندر قانون شکنی اور حد سے تجاوز کا انتفاء مراد نہیں ہے۔ آیت میں کسی مخصوص صورت کا بھی ذکر نہیں ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ آیت کے لفظ کو مجمل قرار دیا جائے اور کہاجائے کہ اس اجمال کو تفصیل کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں اس کے ذریعے پہلی آیت کی تخصیص درست نہیں ہوگی، کیونکہ اجمال کیوجہ سے اسے اپنی حقیقت اور ظاہر پر رکھنا معتذر ہے ، لیکن جب ہم اسے کھانے کے اندر ضرورت کی حد سے تجاوز اور سرکشی پر محمول کریں گے تو مورد اور مردار کے اعتبار سے ہم اسے اس کے عموم اور حقیقت پر رکھیں گے۔ اس لیے دو وجوہ کی بنا پر اسے مذکورہ بالا معنی پر محمول کرنا اولیٰ ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ دریں صورت یہ اپنے عموم پر استعمال ہوگا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے قول باری الا ما اضطرر تم الیہ کی تخصیص لازم نہیں کریں گے۔ اسی طرح قول باری : غیر متجانف لا ثم سے یا تو تمام گناہوں سے کنار کشی مراد ہوگی جس کے نتیجے میں مضطر کے لیے اباحت کی شرح یہ ہوگی کہ وہ کھانے کے معاملے میں نیز دیگر معاملات میں کسی گناہ کی طرف سر سے میلان نہ رکھتا ہو، حتیٰ کہ اگر وہ کسی سے لیا ہوا ایک درہم واپس نہ کرنے پر اڑا رہے یا ایک نماز یا روزہ چھوڑنے کے فعل پر ڈٹا رہے اور اس سے توبہ نہ کرے تو اس کے لیے مردار کھانا حلال قرار نہ دیا جائے۔ یا آیت سے مراد یہ ہوگی کہ معاصی کی کسی ایک صورت پر ڈٹے رہنے کے باوجود حالت اضطرار میں اسے مردار کھا لینے کی اجازت ہے، جبکہ اس کا سفر کسی معصیت کے سلسلے میں نہ ہوا اور نہ وہ امام المسلمین کا باغی ہی ہو۔ یہ بات تو سب کے نزدیک ثابت ہے کہ معاصی کی بعض صورتوں پر اس کا قائم رہنا ضرورت کے وقت مردار کھا لینے کے نزدیک ثابت ہے کہ معاصی کی بعض صورت پر اس کا قائم رہنا ضرورت کے وقت مردار کھا لینے کی اباحت کے لیے مانع نہیں ہوتا۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ مراد یہ نہیں ہے۔ اس کے بعد اب اس گناہ کے اثبات کے لیے جو مردار کھانے کی اباحت مانع ہے زیر بحث آیت کے سوا کسی اور دلالت کی ضرورت ہوگی ۔ یہ بات آیت کے لفظ کے اجمال اور اس اجمال کے بیان کی ضرورت کی موجب بن جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آیت کا حکم کسی اور جانب سے آنے والے بیان پر موقوف ہوجائے گا جبکہ دوسری طرف اصول یہ ہے کہ اگر آیت کے حکم پر عمل ممکن ہو تو اس پر عمل کرنا واجب ہوجائے گا۔ زیر بحث آیت کے حکم پر عمل کے امکان کی جہت وہ ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، یعنی کھانے کے معاملے میں ضرورت کی حد سے تجاوز کی مراد کا اثبات۔ وہ یہ کہ مضطر شخص مردار میں سے صرف اس قدر کھانے کہ بس جسم و جان کا رشتہ باقی رہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے : ( تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) جو شخص حالت اضطرار میں مردار کھانے کی اباحت سے فائدہ نہ اٹھائے اور بھوکا رہ کر مرجائے تو تمام اہل علم کے نزدیک وہ اپنی جان کا قاتل قرار پائے گا۔ اس بارے میں اہل علم کے نزدیک عاصی اور مطیع کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ مردار کھانے سے باز رہنا اس کے عصیان میں اضافے کا باعث بن جائے گا۔ اس لیے بوقت ضرورت مردار کھانے کی اباحت میں عاضی کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو مطیع کا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص اپنے پاس موجود حلال طعام کھانے سے باز رہے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو وہ عاصی قرار پائے گا۔ خواہ وہ امام المسلمین کا باغی کیوں نہ ہو اور کسی معصیت کے سلسلے میں سفر پر کیوں نہ جا رہا ہو۔ ضرورت کے وقت مردار کی حیثیت اس جانور جیسی ہوتی ہے جسے امکان اور گنجائش کی حالت میں ذبح کردیا گیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ بعض دفعہ عاصی کے لیے اپنے عصیان سے توبہ کے ذریعے مردار کھانے کی اباحت تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کرے اور اس کے نتیجے میں بھوکا رہ کر مرجائے تو وہ اپنی جان کے خلاف جرم کرنے والا قرار پائے گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بات اسی طرح ہے جیسا کہ آپ نے کہا ہے البتہ مردار نہ کھا کر اس کے لیے اپنی جان کے خلاف جرم کرنا مباح نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ نہ بھی کرے، کیونکہ ترک توبہ اس کے لیے اپنی جان لینے کا فعل مباح نہیں کرے گا۔ مذکورہ عاصی اگر بوقت ضرورت مردار نہ کھائے اور اس کے نتیجے میں بھوک سے مرجائے تو وہ دو قسم کی معصیت کا مرتکب قرار پائے گا۔ معصیت کی خاطر اس کا نکلنا ایک معصیت ہوگی اور اپنی جان کے خلاف جرم کرنا یعنی مردار نہ کھانے کے نتیجے میں اپنی جان گنوانا دوسری معصیت ہوگی۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے ، حرام اور حلال ماکولات کے اعتبار سے عاصی اور مطیع کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسی تمام ماکولات و مشروبات جو مطیع کے لیے حلال ہوتی ہیں عاصی کے لیے بھی مباح اور حلال ہیں۔ اسی طرح جو ماکولات و مشروبات حرام ہیں مطیع اور عاصی کے لیے ان کی تحریم کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے بوقت ضرورت اگر مردار ایک مطیع کے لیے حلال ہوجائے تو ضروری ہے کہ عاصی کے لیے بھی اسی کا حکم یہی ہو۔ اگر کہا جائے کہ مردار کی اباحت مضطر شخص کے لیے رخصت ہوتی ہے، جبکہ عاصی کے لیے کسی بات کی رخصت نہیں ہوتی، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ معترض ن کہا ہے کہ : مردار کی اباحت مضطر کے لیے رخصت ہوتی ہے۔ تو رخصت کی بات اس بنا پر غلط ہے کہ مردار کھا لینا مضطر پر فرض ہوتا ہے اور اس کا اضطرار اس سے پرہیز کو زائل کردیتا ہے۔ اگر وہ مردار کھانے سے باز رہے اور اس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجائے تو وہ اپنی جان کا قاتل قرار پائے گا اور اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جو امکان کے باوجود روٹی کھانا اور پانی پینا چھوڑ دے اور مرجائے۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ حکم مردار کھانے پر مجبور اور مضطر شخص کا ہے جو باغی نہ ہو۔ اس لیے معترض کا یہ کہنا کہ مردار کی اباحت مضطر کے لیے رخصت ہوتی ہے۔ اس کے اس قول کے مترادف ہے کہ روٹی کھانا اور پانی پینا غیر مضطر کے لیے رخصت ہے۔ کوئی معقول شخص ایسی بات نہیں کہہ سکتا کیونکہ تمام لوگ یہی کہتے ہیں کہ مردار کھانے پر مجبور شخص پر اس کا کھا لینا فرض ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ جب روٹی کھانے اور پانی پینے کے اعتبار سے عاصی اور مطیع کے درمیان کوئی فرق نہیں تو ضرورت کے وقت مردار کھانے کے اعتبار سے بھی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ درج بالا اعتراض کے غلط ہون کی دوسری وجہ یہ ہے کہ معترض نے کہا ہے کہ عاصی کے لیے کوئی رخصت نہیں ہوتی۔ یہ بات اہل اسلام کے اجماع کی رو سے غلط ہے۔ سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر عاصی کی حالت اقامت میں ہو تو بیمار ہونے کی صورت میں اسے رمضان کے روزے نہ رکھنے کی رخصت ہوگی۔ اسی طرح سفر کی حالت میں پانی نہ ملنے کی صورت میں اسے تیمم کرنے کی رخصت ہوگی۔ اہل اسلام عاصی کو ایک دن ایک رات موزوں پر مسح کی رخصت دیتے ہیں۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے مقیم کو ایک دن اور ایک رات اور مسافر کو تین دن تین رات موزوں پر مسح کرنے کی رخصت دی اور اس حکم میں مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس وضاحت سے درج بالا اعتراض کا فساد واضح ہوجاتا ہے۔ قول باری : فن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ نیز فمن اضطر فی مخمصۃ غیر منجانف لاثم فان اللہ غفور رحیم میں سے ہر ایک کے اندر ایک لفظ پوشیدہ اور مخذوف ہے جس کے بغیر کلام اپنا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا ۔ وہ اس طرح کہ ضرورت کا وقوع مضطر کا فعل نہیں ہے۔ کہ قول باری : فلا اثم علیہ نیز قول باری فان اللہ غفور رحیم اس کی خبر بن جائے۔ اب قول باری فمن اضطر کی کوئی نہ کوئی خبر ہونی چاہیے جس کے ذریعے کلام تام ہو سکے کیونکہ حکم کا تعلق نفس ضرورت کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ اس کی خبر جس کے ذریعے کلام تام ہوتا ہے مخذوف ہے یعنی اکل اس بنا پر آیت کی عبارت کچھ اس طرح ہوگی : فمن اضطر فاکل فلا اثم علیہ ( جو شخص مجبور ہوجائے اور پھر مردار کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں) جو حضرات قول باری : غیر باغ ولا عاد کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ : مردار کے سلسلے میں قانون شکنی نہ کرے اور نہ ہی کھانے میں ضرورت کی حد سے تجاوز کرے۔ ان کی تفسیر کی بنا پر یہ دونوں الفاظ مخذوف لفظ کے لیے حامل ہوں گے۔ جو حضرات درج بالا فقرے کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ : مسلمانوں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرنے والا نہ ہو۔ ان کی تفسیر کی بنا پر آیت کی عبارت کچھ یوں ہوگی۔ ( جو شخص مجبور ہو در آنحا لیکر وہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرنے والا نہ ہو اور پھر مردار کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں) زیر بحث آیات میں حذف کی صورت بالکل اسی طرح ہے جس طرح قول باری : فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعذۃ من ایام اخر ( اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرے) میں ہے۔ یہاں عبارت کچھ اس طرحے فافطر فعدۃ من ایام اخر ( پھر روزہ نہ رکھے تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پور کرلے) یہاں لفظ فاطر مخدوف ہے۔ اسی طرح ی قول باری ہے فمن کان منکم مریضا او بہ ادی من راسہ ففدیۃ من صیام ( اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اسے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں کے ذریعے فدیہ دے) یہاں مفہوم ہے کہ اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ حلق کرا لے۔ یعنی سر مونڈ لے تو روزے رکھ کر فدیہ دے) یہاں لفظ ” حلق “ مخدوف ہے۔ ان صورتوں کے اندر حذف کا جواز اس بنا پر ہے کہ مخاطبین کو مخدوف کا علم ہے، نیز خطاب بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ ہماری یہ وضاحت زیر بحث آیت کو کھانے میں ضرورت کی حد سے تجاوز اور سرکشی کے معنوں پر محمول کرنے کو مسلمانوں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کے معنوں پر محمول کرنے کی بہ نسبت اولیٰ قرار دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں مسلمانوں کا کوئی ذکر پہلے نہیں گزرا نہ تو مخذوف صورت میں اور نہی مذکور شکل میں ، جبکہ ” اکل “ کا لفظ مخدوف صورت میں موجود ہے۔ اس لیے ( غیر باغ ولا عاد) کو اکل پر محمول کرنا جو آیت کا مقتضیٰ ہے اسے ایسے معنوں پر محمول کرنے سے اولیٰ ہوگا جسے آیت کا لفظ متضمن نہیں ہے نہ تو مخدوف صورت میں اور نہ ہی مذکور شکل میں۔ قول باری الا ما اضطرر تم الیہ میں کوئی لفظ مخدوف نہیں ہے۔ یہ ایک مفہوم الممعنی جملہ سے استشہار ہے۔ مذکورہ جملہ میں یہ قول باری ہے : وقد فصل لکھ ما حرام علیکم الا ما اضطرر تم الیہ یعنی الا یہ کہ جن چیزوں کے استعمال پر تم مجبور ہو جائو وہ تمہارے لیے مباح ہیں۔ یہ فقرہ کسی مخدوف لفظ سے متغنی ہے ۔ یہاں ضرورت کے معنی اپنی جان پر یا اپنے بعض اعضاء پر اس ضرر کا اندیشہ ہے جو حرام چیز نہ کھانے کی بنا پر پیدا ہوسکتا ہے۔ ضرورت کا یہ مفہوم اپنے اندر دو معنی رکھتا ہے ۔ اول یہ کہ مضطر شخص ایسے مقام پر ہو جہاں وہ کھانے کے لیے مردار کے سوا کچھ اور نہ پائے۔ دوم یہ کہ اس کے پاس مردار کے سوا کھانے کی دوسری چیزیں موجود ہوں، لیکن اسے مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے اور جان جائے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو، ہمارے نزدیک یہ دونوں معنی آیت میں مراد ہیں۔ آیت ان دونوں معنوں کا احتمال رکھتی ہے۔ مجاہد نے آیت کو اکراہ کی ضرورت پر محمول کیا ہے۔ نیز مردار کھانے کی ضرورت کے معنی اگر یہ ہیں کہ اسے نہ کھانے کی صورت میں جان جانے کا اندیشہ ہو ، تو یہ معنی ضرورت اکراہ کے اندہ بھی موجود ہیں۔ اسی لیے دونوں صورتوں کا حکم یکساں ہونا چاہیے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کو مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے، لیکن وہ اسے نہ کھائے اور قتل ہوجائے تو وہ اسی طرح اللہ کا عاصی قرار پائے گا جس طرح وہ شخص جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو لیکن وہ مردار کھانے سے باز رہے اور اپنی جان دے دے۔ ایسا شخص اللہ کا عاصی قرار پائے گا جس طرح وہ شخص اللہ کا عاصی ہوگا جس کے پاس کھانے پینے کی اشیاء موجود ہوں لیکن وہ بھوک ہڑتال کر کے مرجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضرورت کی حالت میں مردار کھانے کی اس طرح اباحت ہوتی ہے جس طرح غیر ضرورت کی حالت میں دیگرحلال اشیاء کھانے کی۔ شراب نوشی پر مجبور شخص کا بیان ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شراب پینے پر مجبور و مضطر شخص کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا ہے کہ مطیع شخص اگر شراب پینے پر مجبور ہوجائے تو وہ اسے پی لے۔ ہمارے تمام اصحاب کا بھی یہی قول ہے، البتہ اضطرار کی صورت میں وہ صرف اتنی مقدار میں شراب استعمال کرے جس سے جسم و جان کا رشتہ قائمرہ سکے۔ حارث العکلی اور مکحول کا قول ہے کہ مذکورہ صورت میں وہ شراب نہیں پیے گا کیونکہ شراب پینے کی وجہ سے اس کی پیاس اور بڑھ جائے گی۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ مذکورہ صورت کے اندر وہ شراب استعمال نہیں کرے گا کیونکہ اس کا یہ فعل اس کی بھوک اور پیاس کو اور بڑھا دے گا۔ امام شافعی نے ایسی صورت میں شراب استعمال نہ کرنے کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ شراب نوشی اس کی عقل اور سمجھ کو ختم کر دے گی۔ امام مالک نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ضرورت کا ذکر صرف مردار کے سلسلے میں ہوا ، شراب کے سلسلے میں نہیں ہوا۔ ابوبر جصاص کہتے ہیں کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ شراب پیاس اور بھوک کی ضرورت کو رفع نہیں کرتی، دو وجوہ سے ان کا یہ قول بےمعنی ہے۔ ایک تو یہ کہ شراب کے متعلق مشاہدہ ہے کہ وہ بوقت ضروتر جسم وجان کے درمیان قائم رشتے کو بچا لیتی اور پیاس دور کردیتی ہے ہماری معلومات کے مطابق بعض اہل ذمہ ( یہودی اور عیسائی) ساری زندگی پانی نہیں پیتے، بلکہ شراب نوشی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر صورت حال اسی طرح ہے جس کا ذکر ان حضرات نے کیا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ ہم سائل کے پوچھے ہوئے مسئلے کو شراب سے ہٹا کر اس سے کہہ دیں کہ شراب پینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ شراب پینے سے عقل ختم ہوجانے کی جو بات امام شافعی نے کی ہے اس کا ہمارے زیر بحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ سوال تو یہ ہے کہ اگر شخص اتنی تھوڑی مقدار میں شراب پینے پر مجبور و مضطر ہوجائے جس کے نتیجے میں اس کی عقل ختم نہ و، تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ امام مالک نے کہا کہ ضرورت کا ذکر مردار کے سلسلے میں ہوا ہے، شراب کے سلسلے میں نہیں ہوا۔ ہم یہ کہیں گے کہ ضرورت کی بعض صورتیں مردار اور اس کے ساتھ ذکر شدہ محرمات کے اندر مذکورہ ہیں اور بعض صورتیں دیگر تمام محرمات کے اندر مذکور ہیں۔ قول باری ہے : وقد فصل لکھ م حسوم علیکم الا ما اضطرر تم الیہ ( حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بنا چکا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ نے شراب کی تحریم کی تفصیل اپنی کتاب کے مختلف مقامات میں کردی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیھما اثر کبیر ( پوچھتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے) نیز فرمایا : قل انما حرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن والاثم ( اے محمد ﷺ) ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں۔ بےشرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ) نیز ارشاد ہے : انما الخمرو والمیسرو الانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ (یہ شراب اور جواء اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گند کے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو) یہ تمام آیتیں شراب کی تحریم کی مقتضی ہیں۔ اضطرار کی آیت میں مذکورہ ضرورت تمام محرمات کو اپنے دبائر میں لیے ہوئے ہے۔ مردار اور اس کے ساتھ مذکہرہ دیگر محرمات میں ضرورت کا ذکر تمام محرمات کے اندر دوسری آیت کے عموم کے اعتبار کے لیے مانع نہیں ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر مردار کی اباحت کے اندر یہ مفہوم ہے کہ مردار کھا کر مضطر اپنی جان بچالے تو یہی مفہوم دیگر تمام محرمات کے اندر بھی موجود ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ضرورت کے وجود کی بناء پر جو حکم مردار کا ہے وہی حکم تمام محرمات کا بھی ہو جن میں شراب داخل ہے۔ واللہ اعلم۔ وہ مقدار جسے مضطر استعمال کرسکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر اور امام شافعی ( المزنی کی روایت کے مطابق) فرماتے ہیں کہ مضطر شخص مردار میں سے صرف اتنی مقدار کھائے جس کے ذریعے اس کی جسم اور جان درمیان رشتہ زندگی قائم رہ سکے۔ ان وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ وہ مردار میں سے پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے اور بطور توشہ بھی لے سکتا ہے، اگر ضرورت باقی نہ رہے توپھینک دے۔ عبداللہ بن الحسن العنبری نے کہا ہے کہ وہ اتنی مقدار میں کھالے جس سے اس کی بھوک رفع ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں ارشاد باری ہے : الا ما اضطرر تم الیہ نیز ارشاد ہے فمن اضطرر غیر باغ ولا عاد۔ ان آیات میں الل سبحانہ نے اباحت کو ضرورت کے وجود کے ساتھ معلق کردیا ہے اور ضرورت کا مفہوم ی ہے کہ مردار کھانے سے اسے ضرر لاحق ونے کا خوف ہو۔ یہ ضرر خواہ جان جانے کی صورت میں ہو یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کی شکل میں۔ اس بناء پر جب مضطر شخص مردار میں سے اتنی مقدار کھالے جس کے نتیجے میں وقتی طور پر ضرر کا خوف دور ہوجائے تو پھر ضرورت ختم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں بھوک رفع و جانے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر بھوک کی ابتدا میں مردار کھانا ترک کرنے کی وجہ سے ضرر لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہوت ایسی بھوک مردار کھانے کی اباحت نہیں کرے گی۔ قول باری : فمن اضطرر غیر باغ ولا عاد۔ کی تفسیر میں ہم نے بیان کردیا ہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مضطر شخص مردار کھانے کے سلسلے میں نہ تو قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ہی ضرورت کی حد سے تجاوز کرنے والا۔ اور یہ بات واضح ہے، اس سے وہ مردار خوری مراد نہیں ہے جو سیر ہوجانے کی حد سے زائد ہو۔ کیونکہ اس حد سے زائد، یعنی پر خوری کی مردار کے اندر بھی ممانعت ہے اور اس کے سوا دیگر مباحات کے اندر بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آیت سے یہ مراد لی جائے کہ وہ یعنی مضصطر مردار کھانے میں سیر ہونے کی حد تک قانون شکنی کرنے والا نہ ہو ۔ اس صورت میں قانون شکنی اور حد سے تجاوز دونوں کا وقوع سیر ہو کر مردار کھانے کی مقدار پر ہوگا تا کہ مضطر شخص مردار کی اتنی مقدار کھائے جس سے ضرر کا خوف اس سے زائل ہوجائے۔ اگر اس کے پاس اتنی مقدار میں حلال طعام موجود ہو جسے کھا کر وہ رشتہ زندگی کو باقی رکھ سکتا ہو تو اس صورت میں اس کے لیے مردار کھانا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ مردار کی اتنی مقدار کھالے جس سے ضرر کا خوف ختم ہوجائے تو اس پر مزید مردار خوری حرام ہوجائے گی کیونکہ ضرورت ختم ہوجانے کے بعد مردار کھانے کی اباحت تو اپنی جگہ رہی مباح طعام کھانے کی بھی اباحت نہیں ہوتی اور جب بلا ضرورت مباح طعام کھانے کی اباحت نہیں ہے تو پھر بلا ضرورت مردار خوری کی کس طرح اباحت ہوسکتی ہے۔ ( مترجم) اوزاعی نے حسان بن عطیہ اللیثی سے روایت بیان کی ہے ک ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا : ہم ایسی سرزمین میں رہتے ہیں جہاں ہمیں بھوکے رہنے کی مصیبت لاحق ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے لیے مردار کب حلال ہوسکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا : جب تمہیں صبح کے وقت پینے کے لیے کچھ نہ ملے یا شام کے وقت پینے کے لیے کچھ نہ ملے یا تمہیں کوئی سبزی ترکاری نہ ملے تو پھر مردار کھالو۔ آپ ﷺ ان کے لیے مردار خوری کی صرف اس صورت میں اباحت کی جب انہیں صبوح ( صبح کے وقت پی جانے والی چیز) یاغبوق ( شام کے وقت پی جانے والی چیز) یا کھانے کے لیے سبزی وغیرہ نہ ملے۔ اس لیے کہ جس شخص کو صبح یا شام کا کھانا یا سبزی وغیرہ مل جائے وہ مضطر نہیں ہوتا، آپ ﷺ کا یہ ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ضرورت مردار کی اباحت کردیتی ہے۔ مضطر کی حالت، یعنی اس کے مطیع یا عاصی ہونے کے اعتبار نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضور ت ﷺ نے اباحت کے سلسلے میں مسائل کے سامنے مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ، بلکہ دونوں کو یکساں رکھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مردار کی اباحت ضرر کے خوف والی حالت تک محدود ہے۔ واللہ اعلم
Top