Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 173
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا
: در حقیقت
حَرَّمَ
: حرام کیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةَ
: مردار
وَالدَّمَ
: اور خون
وَلَحْمَ
: اور گوشت
الْخِنْزِيْرِ
: سور
وَمَآ
: اور جو
اُهِلَّ
: پکارا گیا
بِهٖ
: اس پر
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
فَمَنِ
: پس جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
غَيْرَ بَاغٍ
: نہ سرکشی کرنے والا
وَّلَا
: اور نہ
عَادٍ
: حد سے بڑھنے والا
فَلَا
: تو نہیں
اِثْمَ
: گناہ
عَلَيْهِ
: اس پر
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا ہے
اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
مردار کی تحریم ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتہ والدم والحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ ( اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے مردارنہ کھائو، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہش رع میں میتہ اس مردہ جانور کو کہتے تھے جسے ذبح نہ کیا گیا ہو۔ جانور کبھی مردار اس طرح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی طبعت موت مرجائے، اس کی موت میں کسی آدمی کا داخل نہ ہو اور کبھی وہ کسی آدمی کے فعل کے سبب مردار ہوجاتا ہے بشرطیکہ آدمی کا یہ فعل اسے ذبح کرنے کی صورت میں نہ ہو۔ ہم انشاء اللہ ذبح کی شرائط کا اس کے موقعہ پر ذکر کریں گے۔ مردار ہوجانا اگرچہ اللہ کی مثیت سے ہوتا ہے لیکن تحریم کو اس کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے، حالانکہ ہمیں ی ہ معلوم ہے کہ تحریم و تحلیل اور ممانعت و اباحت ہمارے افعال سے متعلق ہوتے ہیں کسی اور کے افعال سے ان کا تعلق نہیں ہوتا لیکن چونکہ یہ مفہوم مخاطبین کی سمجھ میں آسکتا تھا اس لئے اس میں لفظ تحریم و تحلیل کا اطلاق درست ہوگیا۔ اگرچہ حقیقت یہ نہیں تھی، تاہم یہ انداز بیان تحریم کے حکم کی تاکید بن گیا۔ کیونکہ تحریم منافع (جمع منفعت) کی تمام صورتوں کوش امل ہے، اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ مردار سے کسی صورت میں بھی فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے حتیٰ کہ کتوں اور دیگرجانوروں کو بھی اسے کھلانا درست نہیں ہے۔ یہ بھی انتفاع کی ایک صورت ہے اور اللہ سبحانہ نے مردار کی مطلقاً تحریم کردی ہے اور تحریم کو عین مردار کے ساتھ معلق کرکے ممانعت کے حکم کو اور بھی موکد کردیا ہے، البتہ اگر کوئی مردار کسی دلیل کی بنا پر تحریم کے حکم سے خاص کردیا گیا ہو تو اسے تسلیم کرلینا واجب ہوگا۔ حضور ﷺ سے مردہ مچھلی اور مردہ ٹڈی کی مذکورہ حکم سے تخصیص مروی ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضر ت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ہمارے لیے د و مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں۔ دو مردار ٹڈی ار مچھلی ہیں اور دو خون تلی اور جگر ہیں۔ عمر و بن دینار نے حضرت جابر ؓ سے جیش الخبط کے واقعہ کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے کہ سمندر کی موجوں نے مجاہدین کی طرف ایک بڑی مچھلی اچھا ل دی جس کا گوشت وہ نصف ماہ تک کھاتے رہے۔ پھر جب یہ مجاہدین واپس آئے تو انہوں نے حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اس مچھلی کا کوئی حصہ مجھے کھلانے کے لئے ہے ؟ اہل اسلام کے مابین غیر طانی مچھلی اور ٹڈی کی اباحت کے بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے ( طافی اس مچھلی کو کہتے ہیں جو پانی میں مرکر سطح آب پر آجائے) بعض حضرات نے مردار کی تحریم والی آیت کے عموم کی تخصیص پر قول باری : احل لکم صید البحر و طعامہ متاعًا لکم وللسیارۃ (تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے جہاں تم ٹھہرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادراہ بھی سناسکتے ہو) سے استدلال کیا ہے۔ انہوں نے حضور ﷺ کے اس ارشاد سے بھی یہ استدلال کیا ہے جس کا ذکر آپ ﷺ نے سمندر کے بارے میں کیا تھا کہ : اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے۔ اس حدیث کی روایت صفوان بن سلیم الرزقی نے سعید بن سلمہ سے کی ہے۔ انہوں نے المغیرہ بن ابی بردہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے سنا۔ اس روایت کی سند کا ایک راوی سعید بن سلمہ مجہول اور حفظ میں غیر معروف ہے۔ یحییٰ بن سعید انصاری نے سند میں اس سے اختلاف کیا ہے اور المغیرہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے۔ سند میں اس جیسا اختلاف حدیث کے اضطراب کا موجب ہوتا ہے اور ایسی حدیث کے ساتھ ایک محکم آیت کی تخصیص جائز نہیں ہوتی۔ ابن زیاد عبداللہ البکائی نے روایت بیان کی ہے، ان سے سلیمان الاعش نے، ان سے ان کے اصحاب نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اس کا شکار پاک یعنی ذبح شدہ ہے اور اس کا پانی پاک ہے ۔ محدثین کے نزدیک یہ روایت پہلی روایت سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی ہے جس کی روایت یحییٰ بن ایوب نے جعفر بن ربیعہ اور عمرو بن الحارث سے بیان کی ہے۔ انہوں نے بکر بن سوادہ سے، انہوں نے ابو معاویہ العلوی سے، انہوں نے مسلم بن مخشی المدلحبی سے اور انہوں نے الفراسی سے کہ حضور ﷺ نے سمندر کے بارے میں فرمایا : اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے لیکن یہ حدیث بھی روایت کی مجہولیت کی بنا پر قابل استدلال نہیں ہے اور اس کے ساتھ ظاہر قرآن کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ، ان سے احمد بن حنبل نے، ان سے ابو القاسم بن ابی الزماد نے، ان سے اسحاق بن خادم نے عبداللہ بن مقسم سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت جابر عبداللہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ سے سمندر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے جواب دیا : اس کا پانی پاک اور اس کامردار حلال ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ” سمک طافی “ (ایسی مچھلی جو پانی کے اندر طبعی موت مرجائے اور سطح آب پر آجائے) کے بارے میں اختلاف رائے ہے، ہمارے اصحاب اور حسن بن حی نے اسے مکروہ کہا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی نے کہا ہے کہ اسے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس بارے میں سلف کا بھی اختلاف ہے۔ عطاء بن الصائب نے میسرہ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ سمندر کا جو مردار سطح پر آجائے اسے نہ کھائو۔ عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے اور عبداللہ بن ابی الہذیل نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ان دونوں حضرات نے مر کر سطح آب پر آ جانے والی مچھلی کو مکرہ قرار دیا ہے۔ جابر بن زید، عطاء سعید بن المسیب، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی سے بھی اس کی کراہت منقول ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے مذکورہ مچھلی کھانے کی اباحت منقول ہے۔” سمک طافی “ کھانے کی ممانعت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( حرمت علیکم المیتہ۔ اہل اسلام اس حکم سے غیر طافی مچھلی کی تخصیص پر متفق ہیں اس لیے ہم نے اس کی تخصیص کر دلی۔ لیکن ” سمک طافی “ کے بارے میں اختلاف رائے ہوگیا اس لیے اس میں مذکورہ بالا آیت کا عموم جاری کرنا ضروری ہوگیا۔ محمد بن بکہ نے روایت بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے احمد بن عبدہ نے، ان سے یحییٰ بن سلیم الطائفی نے، ان سے اسماعیل بن امیہ نے ابو النہ بیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد ؓ اللہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : سمندر تمہاری طرف جو مچھلی اچھال دے یا جس مچھلی کو چھوڑ کر اس کا پانی پیچھے چلا جائے ( جس طرح مدوجزر میں جزر کے اندر ہوتا ہے) تو اسے کھالو، لیکن جو مچھلی سمندر میں مر کر اس کی سطح پر ا جائے اسے نہ کھائو۔ اسماعیل بن عیاش نے روایت بیان کی ہے، ان سے عبدالعزیز عبداللہ نے وہب بن کسی ان اور نعیم بن عبداللہ المجمہ سے، ان دونوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا سمندر جس مچھلی کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے اسے نہ کھائو اور جسے اچھال دے اسے کھالو۔ اور جسے تم سطح آب پر مردہ صورت میں پائو اسے نہ کھائو۔ ابن ابی ذیب نے ابو الزبیر سے ، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ نیز عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے موسیٰ بن زکریا نے، ان سے سہل بن عثمان نے، ان سے حفظ نے یحییٰ بن ابی انیسہ سے، انہوں نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر تم اسے ( مچھلی کو) زندہ پائو تو کھالو، اور جسے سمندر زندہ باہر پھینک دی اور پھر وہ مرجائے تو اسے کھالو اور جسے تم مردہ صورت میں سطح آب پر پائوا سے نہ کھائو۔ ہمیں ابن قانع نے روایت بیان کی، ان سے عبداللہ بن موسیٰ ابی عثمان الدہقان نے۔ ان سے الحسین بن یزید الطحان نے، ان سے حفص بن غیاث نے ابن ابی ذیب سے، انہوں نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جس کا تم شکار کرلو جبکہ وہ زندہ ہو اور پھر مرجائے تو اسے کھالو اور جسے سمندر مردہ صورت میں سطح آب سے باہر پھینک دے اسے نہ کھائو۔ اگر کہا جائے کہ اس حدیث کی سفیان ثوری، ایوب اور حماد نے ابو الزبیر سے حضرت جابر ؓ پر موقوف صورت میں روایت کی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات ہمارے نزدیک حدیث میں کوئی خرابی پیدا نہیں کرتی کیونکہ حضرت جابر ؓ کبھی تو اس حدیث کو حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور کبھی آپ کی طرف سے اس کی روایت کرتے ہیں اور ایسی صورت میں حضور ﷺ سے روایت کردہ حدیث کی بنا پر حضرت جابر ؓ کا فتویٰ دینا مذکورہ روایت میں کسی خرابی کا باعث نہیں ہے بلکہ اسے موکد کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں اسماعیل بن امیہ کی ابو الزبیر سے روایت ان حضرات کی روایت سے کم تر نہیں ہے۔ یہی کیفیت ابن ابی ذیب کی روایت کی ہے۔ اس لئے ان حضرات کی روایت پر مذکورہ دونوں راویوں کی طرف سے رفع کا اضافہ قابل قبول ہوگا۔ اگر کہا جائے کہ حضور ﷺ سے منقول ہے کہ ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں ، یعنی مچھلی اور ٹڈی نیز تلی اور جگر اور آپ ؐ کا یہ ارشاد ان تمام چیزوں کے اندر عموم کی صورت میں ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس میں تخصیص ہماری روایت کردہ وہ حدیث کرتی ہے جو مرکر سطح آب پر آجانے والی مچھلی کی نہی کے سلسلے میں ہے۔ روایات کی ترتیب کے سلسلے میں معترض کے اختیار کردہ اصول کے مطابق اس پر لازم ہے کہ وہ خاص پر عام کی بنا کرکے دونوں پر عمل کرے، نیز وہ عام کی وجہ سے خاص کو ساقط نہ کرے علاوہ ازیں معترض کی بیان کردہ روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ اسے مرحوم العطار نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے ان پر موقوف صورت میں روایت کیا ہے۔ اور اسے یحییٰ الحمانی نے عبدالرحمن بن زید سے مرفوع صورت میں بیان کیا ہے۔ اس بنا پر ” سمک طافی “ کے بارے میں مروی حدیث کے سلسلے میں معترض نے جو اعتراض کیا ہے وہی اعتراض اس پر بھی مذکورہ بالا روایت کے اندر لازم آتا ہے۔ اگر اس بارے میں حضور ﷺ سے منقول اس حدیث سے استدلال کیا جائے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا (سمندر کا) پانی پاک اور اسکا مردار حلال ہے اور کہا جائے کہ آپ ﷺ نے اس ارشاد میں طافی کی غیر طافی سے تخصیص نہیں کی، تو جواب میں کہا جائے گا کہ ہم دونوں حدیثوں پر عمل کرتے ہیں اور انہیں یوں قرار دیتے ہیں کہ گویا دونوں کا درود ایک ساتھ ہوا ہے، ہم طافی سے متعلقہ روایت کو نہی کے لئے استعمال کرتے اور اباحت والی روایت کو طافی کے سوا دیگر مچھلیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ خاص اور عام کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا اصولی ہے کہ جب فقہاء ان میں سے ایک پر عمل پیرا ہونے پر متفق ہوں اور دوسرے پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے ان میں اختلاف رائے ہو تو ایسی صورت میں عمل کے اعتبار سے متفق علیہ امر مختلف فیہ امر کا خاتمہ کردے گا۔ یہاں حضور ﷺ کے ارشاد :” اس کا مردار حلال ہے “ نیز ” ہمارے لئے دو مردار حلال کردئیے گئے ہیں “ پر عمل متفق ہے اور طافی کے سلسلے میں آپ ﷺ کے ارشاد پر عمل مختلف فیہ ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا دونوں روایتوں کی بنا پر اس روایت کا خاتمہ کردیاجائے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مذکورہ بالا مسلک اس روایت کے سلسلے میں معروف ہے جس کی تائید کتاب اللہ کی نص سے نہ ہوتی ہو، لیکن اگر کتاب اللہ کا عموم اس روایت کی تائید کرتا ہو جس پر عمل مختلف فیہ ہے تو اس بارے میں ہمیں امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کا علم نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کتاب اللہ کا عموم ایک روایت کی تائید کرے اور پھر اس پر عمل کے بارے میں اختلاف پیدا ہوجائے تو امام ابوحنیفہ اس اختلاف کا اعتبار نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں وہ مذکورہ روایت پر اس عام کے ساتھ عمل کرتے ہیں جس پر عمل متفق علیہ ہے۔ اور مذکورہ روایت کی اس عام سے تخصیص ہوجاتی ہے۔ اگر اختلاف رکھنے والے حضرات ” جیش الخبط “ کے واقعہ کے حضرت جابر ؓ کی روایت کردہ حدیث سے ا ستدلال کریں جس میں حضور ﷺ نے اس مچھلی کے گوشت کی اباحت کردی تھی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ مذکورہ مچھلی ہمارے نزدیک طافی نہیں تھی، طافی تو وہ مچھلی ہے جو کسی خارجی سبب کے بغیر پانی کے اندر طبعی موت مرجائے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ طافی کی کراہت کا سبب پانی کے اندر اس کا اتنی دیر تک پڑے رہنا ہے کہ وہ سطح آب پر ابھر آئے۔ اور پھر یہ حضرات مذکورہ سبب کا سہارا لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر کسی جانورکو ذبح کر کے پانی میں ڈال دیاجائے اور وہ پانی میں پڑے پڑے سطح آب پر ابھر آئے تو اس کا حکم بھی ہمارے نزدیک یہی ہونا چاہیے۔ ان حضرات کی یہ بات دراصل اس قول اور نقطہ اختلاف سے عدم واقفیت پر ہے۔ ان کے خیال میں اگر مچھلی مرکر سطح آب پر ابھر آئے تو اسے کھا لیاجائے گا اور اگر وہ اپنی طبعی موت مرجائے اور سطح آب پر نہ ابھرے تو اسے کھایا نہیں جائے گا، حالانکہ ہمارے نزدیک اصل سبب پانی کے اندر مچھلی کی طبعی موت مرجانا ہے اور بس۔ عبدالباقی نے ایک حدیث روایت کی ہے اور اس کے متعلق ہمیں بتایا ہے کہ یہ منکر حدیث ہے۔ ان کے قول کے مطابق عبیدین شریک البزاز نے یہ حدیث ان سے بیان کی ہے۔ عبید کو ابو الجماہر نے، ان سے سعید بن بشیر نے ابان بن ابی عیاش نے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ سطح سمندر پر جو چیز (مچھلی) ابھر آئے اسے کھالو۔ ابان بن عیاش ایسا راوی ہے جس کی روایت کی بنا پر درج بالا حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ شعبہ کا قول ہے کہ : ابن بن عیاش سے روایت کرنے کی بہ نسبت ستر دفعہ بدکاری کرلینا مجھے زیادہ پسند ہے۔ اگر کوئی شخص قول باری : احد لکم صید البحر وطعامہ سے استدلال کرتے ہوئے کہے کہ اس میں طافی اور غیر طافی سب کے لئے عموم ہے تو اس کا جواب دو طرح سے دیاجائے گا۔ اول یہ کہ مذکورہ عموم کے اندر مردار کی تحریم کے بارے میں ذکر کردہ آیت، نیز ان روایات کی بنا پر تخصیص کردی گئی ہے جن میں ” سمک طافی “ کا گوشت کھانے سے روک دیا گیا ہے دوم یہ کہ قول باری : وطعامہ کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مچھلی ہے جسے سمندر باہر پھینک دے اور پھر وہ مرجائے اور قول باری : صید البحر کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ مچھلی ہے جسے زندہ شکار کرلیاجائے۔ طافی مچھلی ان دونوں سے خارج ہے کیونکہ اسے نہ تو سمندر باہر پھینک دیتا ہے اور نہ ہی اس کا شکار کیا جاتا ہے اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ فلاں شخص نے مردہ مچھلی کا شکار کیا ۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں شخص نے مردار کا شکار کیا اس بنا پر مذکورہ آیت طافی مچھلی کو شامل نہیں ہے۔ واللہ اعلم ٹڈیاں کھانے کا بیان ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ ٹڈیاں کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، خواہ وہ زندہ تمہارے ہاتھ آ جائیں، یا تم انہیں مردہ صورت میں حاصل کرلو۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص زندہ ٹڈی پکڑ کر اس کا سر قطع کردے اور اسے بھون لے تو وہ اسے کھا سکتا ہے لیکن اگر زندہ پکڑ لینے کیب عد وہ اس سے غافل ہوجائے اور ٹڈی مرجائے تو اسے نہیں کھایاجائے گا۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو اس ٹڈی کی ہے جسے شکار کرنے سے پہلے مردہ صورت میں پایاجائے، یہ ٹڈی نہیں کھائی جائے گی۔ زہری اور ربیعہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا یہ قول بھی ہے کہ جس ٹڈی کو کوئی مجوسی مارڈالے اسے بھی نہیں کھایا جائے گا۔ لیث بن سعد نے کہا ہے کہ مجھے مردہ ٹڈی کھانا پسند نہیں ہے۔ البتہ اگر اسے زندہ پکڑ لیاجائے تو اسے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کردہ حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ہمارے لیے دو مردار حلال کردئیے گئے ہیں، یعنی مچھلی اور ٹڈی، دونوں قسم کی ٹڈیوں کی اباحت کا موجب ہے۔ یعنی ایسی ٹڈی جسے مردہ حالت میں پایاجائے اور ایسی ٹڈی جسے کوئی شخص پکڑ کر مار ڈالے۔ جمہور نے ٹڈیاں کھانے کی اباحت کے سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث پر عمل کیا ہے، اس لئے اس حدیث پر اس کے عموم کے تحت یہ شرط لگائے بغیر عمل کرنا واجب ہے کہ پکڑنے والا اسے مار ڈالے کیونکہ حضور ﷺ نے مذکورہ شرط عائد نہیں کی۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی کہ ان سے الحسن بن المثنیٰ نے، ان سے مسلم بن ابراہیم نے ان سے زکریا بن یحییٰ بن عمارہ الانصاری نے، ان سے ابو العوام فائد نے ابو عثمان الہندی سے اور انہوں نے حضرت سلمان ؓ سے کہ حضور ﷺ سے ٹڈیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، یہ اللہ کی بڑی فوجیں ہیں، میں انہیں نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور حضور ﷺ جس چیز کو حرام قرار نہ دیں وہ مباح ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کا ٹڈی نہ کھانا اس کی ممانعت کا موجب نہیں ہے کیونکہ مباح چیز کو نہ کھانا درست ہوتا ہے لیکن حرام چیز سے تحریم کی نفی جائز نہیں۔ آپ ﷺ نے مردہ ٹڈی اور پکڑنے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی ٹڈی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ عطاء نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے ہم حضور ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ پر گئے۔ ہمیں ٹڈیاں مل گئیں، ہم نے انہیں کھالیا، حضرت عبداللہ بن ابی اونی ؓ نے فرمایا میں سات غزوات میں حضور ﷺ کے ہمراہ رہا، ہم ٹڈیاں کھاتے اور ہم میں سے کچھ نہ کھاتے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اس روایت کے اندر مردہ اور مقتول ٹڈی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے موسیٰ بن زکریا التستری نے، ان سے ابو الخطاب نے، ان سے ابو عتاب نے، ان سے النعان نے عبیدہ سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے الاسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ وہ ٹڈیاں کھایا کرتی تھیں اور فرماتیں کہ حضور ﷺ بھی کھایا کرتے تھے۔ ابو بکرحصاص کہتے ہیں کہ ٹڈیوں کے بارے میں مذکورہ بالا آثار نے مردہ اور ہلاک شدہ ٹڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اگر کہاجائے کہ قول باری، حرمت علیکم المیتہ کا ظاہر تمام قسم کی ٹڈیوں کی ممانعت کا متقضی ہے اس لیے اس حکم سے صرف اس صورت کی تخصیص ہوسکتی ہے جس پر اجماع ہو اور یہ وہ ٹڈیاں ہیں جنہیں پکڑنے والا ہلاک کردے۔ ان کے سوا دیگر ٹڈیاں ظاہر آیت پر محمول ہونگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ٹڈیوں کی اباحت کے بارے میں داردشدہ روایات اس حکم سے ان کی تخصیص کرتی ہیں اور آیت کی تخصیص میں ان روایات پر سب کا عمل ہے جبکہ ان روایات میں ٹڈیوں کے مابین کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ان روایات کے ذریعے آیت پر اعتراض کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایات آیت کے حکم کے بارے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے اور آیت کی تخصیص کرتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ٹڈیاں اس معاملے میں مچھلیوں کی طرح نہیں ہیں جسے تحت ہم نے طافی مچھلی کی ممانعت کردی ہے اور باقیوں کو مباح رکھا ہے اس لیے کہ وہ روایتیں جو مرداروں میں سے مچھلی کی اباحت کی تخصیص کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ان کے بالمقابل طافی مچھلی کی ممانعت میں وارد رروایتیں بھی موجود ہیں۔ اس لیے ہم نے ان تمام روایات پر عمل کیا ہے اور ان میں سے خاص کے ذریعے عام کا فیصلہ کردیا ہے اور اس میں ممانعت کی روایتوں کو آیت کی تائید بھی حاصل ہے، نیز جب ہم نے امام مالک اور ان کے ہم خیال حضرات کی مقتول ٹڈیوں کے سلسلے میں م وافقت کی تو اس سے اس پر بھی دلالت حاصل ہوگئی کہ مقتول اور قتل کے بغیر مردہ ٹڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ ٹڈیوں کے حق میں قتل کا عمل ذبح کا عمل نہیں ہے، اس لیے کہ ذبح کا عمل دوصورتوں میں ہوتا ہے اور یہ عمل ان جانوروں پر ہوتا ہے جن کے اندر بہنے والا خون ہو۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ذبح متعذر ہونے کی صورت میں جانور کا خون بہا دیا جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شکار جب پکڑا جائے تو اس پر ذبح کا عمل اس طرح ہوتا ہے کہ شکاری زخمی کر کے اسی کا خون بہا دے۔ ٹڈیوں کے اندر چونکہ بہنے والا خون نہیں ہوتا اس لئے انہیں ہلاک کردینا اور ان کا از خود طبعی موت مرجانا دونوں یکساں ہوتے ہیں جس طرح بہنے والا خون رکھنے والے جانور کا خون بہائے بغیر اسے قتل کردینا اور اس کا طبعی موت مرجانا اس کے غیرمذبوح ہونے میں یکساں ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ٹڈیوں کو قتل کرنے اور ان کے طبعی موت مرجانے کا حکم یکساں ہو کیونکہ ان کے جسم میں بہنے والا خون نہیں ہوتا۔ اگر کہا جائے کہ آپ ﷺ نے طافی مچھلی اور پکڑنے والے کے ہاتھوں قتل ہوجانے والی یا کسی حادث سبب کی بنا پر مرجانے والی مچھلی کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اور اگر ہم مقتول اور مردہ ٹڈیوں کے درمیان فرق کرتے ہیں تو آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ؟ اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مچھلی کے اندر بھی یہی قیاس ہے کیونکہ اسے مذ کی (ذبح کے ذریعے پاک) قرار دینے کی صحت کے لیے خون بہانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ، لیکن ہم نے ان روایتوں کی بنا پر یہ قیاس ترک کردیا جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ اور ہمارا اصول یہ ہے کہ آثار کے ذریعے قیاس کی تخصیص ہوسکتی ہے جبکہ معترض کے نزدیک کوئی اثر اور روایت نہیں ہے جس کے ذریعے کچھ ٹڈیوں کی اباحت کے حکم میں تخصیص کردی جائے اور بعض کی نہ کی جائے۔ اس بنا پر اباحت کی حامل روایتوں کو تمام ٹڈیوں میں استعمال کرنا ضروری ہوگیا۔ دوم یہ کہ مچھلی کے اندر بہنے والا خون ہوتا ہے اس لئے قتل کردینے کی صورت میں اس کی ذکاۃ یعنی ذبح عمل میں آ جاتی ہے اور ذکاۃ کی شرط کے لئے خون بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا خون پاک ہوتا ہے اور اسے بمعہ خون کھایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھلی کے اندر یہ شرط ہے کہ اس کی موت کسی حادث سبب کی بنا پر ہوئی ہو جو اس کے لئے اس ذکاۃ کے قائم مقام بن جائے جو بہنے والا خون رکھنے والے تمام جانوروں کے سلسلے میں ضروری ہوتی ہے۔ یہ بات ٹڈیوں میں نہیں پائی جاتی اس بنا پر مچھلی اور ٹڈی میں فرق ہوگیا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ تمام ٹڈیاں مذ کی ذبح شدہ ہوتی ہیں۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت صہیب ؓ اور حضرت مقداد ؓ سے ٹڈیاں کھا لینے کی اباحت منقول ہے۔ ان حضرات نے اس حکم کے اندر ٹڈیوں کے درمیان فرق نہیں رکھا ہے۔ جنین کی ذکاۃ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اونٹنی اور گائے وغیرہ کے جنین کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہیں یعنی اگر ماں کو ذبح کر دیاجائے اور اس کے پیٹ سے مردہ بچہ برآمدہو تو اس بچے کا کیا حکم ہوگا ؟ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ایسے بچے کا گوشت نہیں کھایاجائے گا، الایہ کہ وہ زندہ برآمد ہوا اسے ذبح کرلیاجائے۔ حماد کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی، امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ ایسے بچے کا گوشت کھا لیاجائے گا، خواہ اس کے جسم پر بال نمودار ہوچکے ہوں یا نمودار نہ ہوئے ہوں۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ ” جنین کی ذبح اس کی ماں کی ذبح سے عمل میں آجاتی ہے “ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ اگر جنین کی خلقت یعنی جسمانی ساخت مکمل ہوچکی ہو اور بال نمودار ہوچکے ہوں خ تو اس کا گوشت کھایاجائے گا ورنہ نہیں، سعید بن المسیب کا بھی یہی قول ہے اوزاعی کا قول ہے کہ اگر اس کی خلقت کی تکمیل ہوچکی ہو تو اس صورت میں اس کی ماں کی ذبح سے اس کا ذبح عمل میں آجائے گا۔ قول باری ہے : حرمت علیکم المیتۃ واللہ (تم پر مردار اور خون حرام کردئیے گئے ہیں) اس آیت کے آخر میں ارشاد ہے : الا ماذکیتم ( سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا) نیز فرمایا انما حرم علیکم المیتۃ ( اللہ نے تم پر مردار حرام کردیا) اللہ نے مردار کو م مطلقاً حرام قرار دیا اور اس حکم سے صرف ان جانوروں کو مستثنیٰ کردیا جنہیں ذبح کرلیا گیا ہو اور حضور ﷺ نے بیان فرما دیا کہ جس جانور کے ذبح کی قدرت ہو اس کے ذبح کا عمل نحر ( سینے کے بالائی حصے) اور حلقوم میں ہوتا ہے اور جس جانور کے ذبح کی قدرت نہ ہو اس کے ذبح کا عمل اس کا خون بہا کر ہوتا ہے، چناچہ ارشاد ہے : جس چیز کے ذریعے چاہو خون بہا دو ۔ نیزمعراض ( بغیر پر کاتیر جس کا درمیانی حصہ موٹا ہو) کے بارے میں فرمایا : اگر وہ جانور کا جسم پھاڑ دے تو اس کا گوشت کھالو اور اگر نہ پھاڑے تو نہ کھائو۔ جب ذکاۃ یعنی ذبح کا عمل ان دوصورتوں میں منقسم ہوگیا اور دوسری طرف اللہ سبحانہ نے مردار کی تحریم کا عام حکم دے دیا اور اس حکم سے صرف وہی جانور مستثنیٰ ہے جسے اس طریقے سے ذبح کیا گیا ہو جس کا ذکر ہم نے حضور ﷺ کے الفاظ میں کردیا ہے اور یہ طریقہ جنین کے اندر موجود نہیں ہوتا اس لیے ظاہر آیت کی رو سے جنین حرام ہوگا۔ جن حضرات نے اس کی ایاحت کی ہے انہوں نے اپنے استدلال کی بنیاد ان روایات پر رکھی ہے جو حضرت ابوسعید خدری ؓ ، حضرت ابو الدرداء ؓ ، حضرت ابو امامہ ؓ ، حضرت کعب بن مالک ؓ حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت ابو ایوب ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کے واسطوں سے مروی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جنین کی ذکاۃ یعنی ذبح اس کی ماں کے ذبح سے عمل میں آجاتی ہے۔ یہ تمام روایات محدیثن کے نزدیک سند کے اعتبار سے انتہائی ضعیف ہیں، میں ن ے ان اسانید کا نیز ان کے ضعف اور اضطراب کا ذکر طوالت کے خوف سے ترک کردیا ہے۔ ان میں سے کسی روایت کے اندر اختلافی نکتے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ حضور ﷺ کا ارشاد : جنین کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ ہے۔ اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ شاید آپ ﷺ کی مراد یہ ہے کہ اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ شاید آپ ﷺ نے یہ مراد لی ہے کہا سے بھی اسی طرح ذبح کرنا ضروری ہے جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہے۔ جیسے یہ قول باری ہے : وجنتہ عرضھا السموت والارض (اور جنت جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں) یا مثلاً جس طرح کوئی کسی سے کہے : میری بات تمہاری بات اور میرا مسلک تمہارا مسلک ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میری بات اور میرا مسلک تمہاری بات اور تمہارے مسلک کی طرح ہے شاعر کا شعر ہے ؎ فعیناک عینا ھا وجیدک جیدھا سوی ان عظم الساق منک دقیق (اے محبوبہ ، تمہاری آنکھیں ہرنی کی آنکھیں اور تمہاری گردن ہرنی کی گردن ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تمہاری پنڈلی کی ہڈی باریک ہے ، یعنی ہرنی کی آنکھوں اور گردن کی طرح۔ جب لفظ کے اندر اس بات کا احتمال موجود ہے جس کا ذکر ہم نے کیا ہے اور حدیث کے اندر مذکورہ دونوں معنی مراد ہونا اس بنا پر درست نہیں ہے کہ ان کے درمیان منافات ہے کیونکہ ایک معنی کے حبین کے ذبح کا ایجاب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنین اگر فی ذاتہ غیر مذ کی ہو تو اسے کھایا نہیں جاسکتا۔ دوسرے معنی کے تحت اگر ماں کا ذبح عمل میں آچکا ہو تو جنین کے کھانے کی اباحت ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنین کا بذاتہ ذبح غیر معتبر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے مذکورہ حدیث کے ذریعے آیت کی تخصیص جائز نہیں ہوگی، بلکہ حدیث کو آیت کی موافقت والے مفہوم پر محمول کیا جائے گا کیونکہ کمزور سند والی خبر واحد کے ذریعے جس میں آیت کی موافقت کا احتمال بھی موجود ہو، آیت کی تخصیص جائز نہیں ہے۔ جنین کا ذبح بھی اسی طر ح واجب ہے جس طرح اس کی ماں کا ذبح، اس پر اس جہت سے دلالت ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر جنین زندہ برآمد ہو تو اس کا ذبح واجب ہوتا ہے اور ایسی صورت میں اس کے ماں کے ذبح پر اقتصار جائز نہیں ہوتا۔ گویا مذکورہ بالا حدیث سے مراد یہی ہے اس بنا پر اب اس مراد کے ساتھ ساتھ یہ بات مراد نہیں ہوسکتی کہ اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے کیونکہ ان دونوں معانی میں تضاد اور منافات ہے، اس لئے کہ ایک معنی میں اس کے ذبح کے ایجاب کا مفہوم ہے اور دوسرے کے اندر اس ایجاب کی نفی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ مذکورہ بالا دونوں معنی دو حالتوں میں مراد لیے جائں تو اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے یعنی جب جنین زندہ حالت میں برآمد ہو تو اسے ذبح کرنا واجب کردیاجائے تو جب مردہ حالت میں برآمد ہو تو اس کی ماں کے ذبح کی بنا پر اسے مذبوح قرار دیاجائے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ ذیر بحث حدیث میں ان دو حالتوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں ایک ہی لفظ مذکور ہے اور اس ایک لفظ سے دونوں باتیں مراد لیناجائز نہیں ہے کیونکہ دونوں میں ایک معنی مراد لینے کی صورت میں ایک حرف کے اضافے کا اثبات ہوگا اور دوسرے معنی میں ایک حرف کے اثبات نہیں ہوگا اور یہ بات درست نہیں ہے کہ ایک لفظ کے اندر ایک حرف اور ایک غیر حرف کا وجود ہوجائے۔ اس بناپر جو لوگ دونوں معنوں کی بات کرتے ہیں ان کی بات باطل ہے۔ اگر کہاجائے کہ اگر دونوں میں سے ایک معنی کا ارادہ کیا جائے تو یہ بات ایک حرف، یعنی حرف کاف کے اضافے کی موجب ہوگی اور دوسرے میں کوئی اضافہ نہ ہوگا، اس لئے اسے اس معنی پر محمول کرنا اولیٰ ہوگا جس میں کسی اضافے کی ضرورت نہ ہو کیونکہ حرف کا حذف اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ لفظ مجاز قرار پائے اور اگر اس میں کوئی حذف نہ ہو تو اس صورت میں لفظ حقیقت پر محمول ہوگا اور لفظ کو حقیقت پر محمول کرنا اسے مجاز پر محمول کرنے سے اولیٰ ہوتا ہے۔ اس کے جوا ب میں کہاجائے گا کہ حرف کا مخذوف ہونا یا مخذوف نہ ہونا اس سے احتمال کو زائل نہیں کرے گا، کیونکہ وہ اگرچہ مجاز ہوگا لیکن وہ لفظ کا مفہوم اور اس کا متحمل ہوگا اور جو بات لفظ کا متقضا ہو اس میں حقیقت اور مجاز کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس بنا پر آیت کی تخصیص جائز نہیں ہوگی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ لفظ کے اندر یہ احتمال نہیں ہے کہ ماں کے ذبح سے جنین غیر مذبوح ہوتا ہے کیونکہ جنین کو جنین کا اسم صرف اس وقت دیاجاتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہو اور جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آ جائے تو اسے جنین کا نام نہیں دیاجاتا جبکہ حضور ﷺ نے جنین کے لئے ذبح کا اثبات اس حالت میں فرمایا ہے جب اس کا اتصال ماں کے ساتھ ہو اور یہ صورت اس امر کو واجب کردیتی ہے کہ جب مذکورہ حالت کے اندر ماں کا ذبح عمل میں آجائے تہ جنین بھی مذبوح تسلیم کرلیاجائے۔ اس کا جواب دو طرح سے دیاجائے گا۔ ایک تو یہ کہ انفصال کے بعد بھی اسے جنین کے نام سے موسوم کرنا درست ہے کیونکہ ماں کے پیٹ میں اس کے پوشیدہ رہنے کا زمانہ اس سے قریب ہی ہوتا ہے اور کوئی شخص یہ قول اختیار کرنے سے انکار ی نہیں ہے کہ اگر جنین زندہ برآمد ہو تو اس کی ماں کی طرح اسے بھی ذبح کیا جائے اس طرح ماں سے علیحدہ ہونے اور ذبح ہوجانے کے بعد بھی اس پر جنین کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ حمل بن مالک نے کہا ہے کہ میں اپنی دو لونڈیوں کے درمیان موجود تھا کہ ایک نے دوسری کو خیمے کے ڈنڈے سے ضرب لگائی۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ مضروبہ نے اپنا حمل گرا دیا جو مردہ تھا۔ حضور ﷺ نے اس جھگڑے کا فیصلہ یہ فرمایا کہ جرمانے کے طورپر ایک راس غلام یا لونڈی واجب کردیا۔ یہاں حمل گر جانے کے بعد بھی اسے جنین کا نام دیا گیا۔ اگر بات اسی طرح ہے تو پھر یہ کہناجائز ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد جنین کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے۔ سے آپ ﷺ مراد یہ ہے کہ اسے بھی اسی طرح ذبح کیا جائے گا جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہے۔ اگر ماں اسے زندہ صورت میں گرا دے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کی مراد یہ ہوتی کہ جنین حالت جنین کے اندر بھی مذبوح ہوتا ہے تو اس سے یہ واجب ہوتا کہ زندہ برآمد ہونے کی صورت میں بھی اپنی ماں کے ذبح کی بنا پر مذبوح قرار دیاجاتا اور برآمد ہونے کے بعد مرجانے کی صورت میں اس پر مردار کا حکم عائد نہ ہوتا جس طرح ماں کے پیٹ میں مرجانے کی صورت میں اس پر یہ حکم نہیں کیا جاتا لیکن جب سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جنین کا زندہ برآمد ہونا اس بات سے مانع ہے کہ اس کی ماں کے ذبح کو اس کا ذبح تسلیم کرلیاجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور ﷺ کی مراد یہ نہیں ہے کہ ماں کے ساتھ اس کے اتصال کی حالت میں ماں کا ذبح اس کا ذبح قرار دیاجائے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ حضور ﷺ نے اس حکم کے اثبات کا اس صورت میں ارادہ کیا ہے جبکہ وہ مردہ حالت میں برآمد ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کے اس دعوے کا ذکر حضور ﷺ نے نہیں فرمایا۔ اگر معترض کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ پیٹ کے اندر جنین ہونے کی حالت میں مرجانے کی شرط عائد کردے، اگرچہ حضور ﷺ نے اس کا ذکر نہیں فرمایا تو پھر ہمارے لئے بھی جائز ہوگا کہ ہم اس کے ذبح کی شرط عائد کردیں خواہ وہ زندہ برآمد ہو یا مردہ اور جب اس میں ذبح کے عمل کا وجود نہ پایاجائے تو اس کا کھانا جائز نہ ہو۔ علاوہ ازیں جب ہم جنین کی ذات کے اعتبار سے ذبح کے ایجاب کی شرط عائد کریں گے اور اس بارے میں اس کی ماں کا اعتبار نہیں کریں گے تو گویا ہم زیر بحث حدیث پر اس کے عموم کے اعتبار سے عمل پیرا ہوں گے۔ اس طرح ہم جنین کے گوشت کی اباحت کو جنین ہونے کی حالت کے اندر اور برآمد ہونے کے بعد اس کی ذات میں ذبح کے عمل کے وجود کے ساتھ معلق کردیں گے۔ زیر بحث حدیث کو ہماری بیان کردہ اس توجیہ پر محمول کرنا معترض کی بیان کردہ صورت کے اندر اسے محدود کردینے اور اس میں ایک ایسا حرف محذوف ماننے سے اولیٰ ہے جس کا ذکر نہ تو اس میں ہے اور نہ اس پر اس حدیث کی دلالت ہی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ زیر بحث حدیث کو اس معنی پر محمول کرنا جس کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی جنین کے زندہ برآمد ہونے کی صورت میں اس کے ذبح کا ایجاب، حدیث سے حاصل ہونے والے فائدے کو ساقط کردیتا ہے کیونکہ یہ بات تو اس حدیث کے ورود سے پہلے ہی معلوم تھی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیر بحث حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اگر جنین زندہ برآمد ہوجائے تو اس کا ذبح واجب ہوجائے گا خواہ وہ ایسی حالت میں مرجائے کہ اسے ذبح کرنے کی مہلت نہ ملے، یا خواہ وہ زندہ باقی رہے۔ اس توجیہ سے ان حضرات کا قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اگر جنین ایسی حالت میں مرجائے کہ اسے ذبح کرنے کی مہلت نہ ملے تو اس کی ماں کے ذبح کی بنا پر اسے بھی مذبوح تسلیم کرلیاجائے گا نیز دوسری جہت سے مذکورہ حدیث جنین کے ذبح کے ایجاب کا حکم بھی ہے نیز یہ کہ اگر جنین مردہ حالت میں برآمد ہو تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا کیونکہ ایسی صورت میں وہ غیر مذبوح ہوگا۔ اور اگر وہ زندہ برآمد ہو تو اسے ذبح کیا جائے گا۔ اس طرح حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مردہ ہونے کی صورت میں وہ مردار ہوگا اور اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ اس توجیہ سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ مردہ حالت میں برآمد ہونے کی صورت میں اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جس کا ذکر زکریا بن یحییٰ الساجی نے بندار اور ابراہیم بن محمد التیمی سے کیا ہے، ان دونوں نے یحییٰ بن سعید سے، ان سے مجالد نے ابو الوداک سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید ؓ سے کہ حضور ﷺ سے مردہ حالت میں برآمد ہونے والے جنین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا : اگر تم چاہو تو اسے کھالو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کے ذبح کے ذریعے عمل میں آگیا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ثقہ راویوں کی ایک جماعت نے یحییٰ بن سعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے لیکن انہوں نے اس میں مردہ حالت میں برآمد ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ ایک اور جماعت نے جس میں ہشیم، ابو اسامہ اور عیسیٰ بن یونس شامل ہیں۔ اس حدیث کی روایت مجالد سے کی ہے لیکن انہوں نے اس میں یہ ذکر نہیں کیا کہ جنین مردہ حالت میں برآمد ہوا تھا۔ ان راویوں نے تو صرف یہ بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ سے اس جنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا جو اونٹنی یا گائے یا بکری کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا تھا کہ : اسے کھالو، کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے۔ اس کی روایت ابن ابی لیلیٰ نے عطیہ سے، انہوں نے حضرت ابو سعید سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے بھی کی ہے۔ ان تمام حضرات نے جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں حضور ﷺ سے اس حدیث کی روایت ان ہی الفاظ میں بیان کی ہے اور کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ جنین مردہ حالت میں برآمد ہوا تھا۔ صرف الساجی کی روایت میں ان ا لفاظ کا ذکر ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافہ الساجی کی جانب سے ہے کیونکہ یہ راوی ایسی کوتاہیوں سے غیر محفوظ تصور ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ استدلال کرے کہ قول باری : احلت لکم بھیمۃ الانعام (تمہارے لئے مویشی حلال کردئیے گئے ہیں) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس سے مراد جنین ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد تمام چوپائے ہیں اور قول باری : الا ما یتلی علیکم ( بجز اس کے جس کا ذکر آگے تم سے کیا جاتا ہے) سے مراد سور ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ : بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے ہے بہتر یہ ہے کہ مذکورہ قرآنی لفظ کو تمام چوپایوں پر محمول کیا جائے بلا دلالت تخصیص لازم آئے گی۔ اگر مذکورہ لفظ سے جنین مراد بھی ہوں تو دوسرے تمام چوپایوں کی طرح ان کی اباحت کو بھی ذبح کی شرط کے ساتھ مشروط کردیاجائے گا کیونکہ دوسرے تمام چوپائے ذبح کی شرط کے ساتھ مباح اور حلال قرارپاتے ہیں۔ مذکورہ لفظ سے جنین مراد ہونے کی صورت میں یہ تمام جنین اس جنین کی طرح ہوں گے جو زندہ برآمد ہو جس کی اباحت ذبح کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے نیز قول باری : احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم سے اگر مراد یہ ہے کہ :” بجز اس کے جو فی الحال حرام ہے اور جس کے متعلق تمہیں مستقبل میں بتایاجائے گا “ تو اس صورت میں یہ قول باری مجمل ہوگا اور اس سے استدلال درست نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں یہ قول باری یوں ہوگا کہ گویا اللہ سبحانہ نے فرمایا : بعض چوپائے مباح ہیں اور بعض ممنوع اور اجمال کی تفصیل نہ ہونے کی وجہ سے اس سے کسی عموم کا اعتبار درست نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس کے نتیجے میں عورت مرجائے اور مردہ جنین گرا دے تو ایسی صورت میں جنین کا حکم وہی ہوگا جو اس کی ماں کا حکم ہے۔ اسی طرح ذبح کے اندر بھی جنین کا یہی حکم ہونا چاہیے جب وہ اپنی ماں کی موت کی وجہ سے پیٹ کے اندر مرجائے۔ اگر مذکورہ حاملہ عورت جنین کو زندہ صورت میں گرادے اور پھر جنین مرجائے تو اس صورت میں ایک راس غلام یا لونڈی کے ایجاب کے اندر وہ اپنی ذات کے حکم میں منفرد ہوگا اور اس حکم میں اس کی ماں شامل نہیں ہوگی۔ اگر کوئی کہے کہ اسی طرح جانور کے جنین کا حکم بھی ہونا چاہیے، یعنی اگر وہ اپنی ماں کی موت کی وجہ سے پیٹ میں مرجائے اور مردہ صورت میں برآمد ہو تو اس کا گوشت کھا لینا چاہیے اور اگر زندہ صورت میں برآمد ہو تو ذبح کیے بغیر اس کا گوشت نہ کھایاجائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک فاسد قیاس ہے کیونکہ یہ ایک حکم کو اس کے غیر کے حکم پر قیاس کرنے کی صورت ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اگر دو مسئلوں کو ایک حکم کے تحت کسی ایسی علت کی بنا پر یکجا کردیاجائے جو ایک مسئلے کو دوسرے مسئلے کی طرف لوٹا دینے کی موجب بن رہی ہو لیکن اگر مسئلے کو دوسرے مسئلے پر دو مختلف حکموں کے اندر قیاس کیا جائے تو ایسا کرنا قیاس نہیں کہلائے گا چناچہ یہاں معترض نے جس مسئلے کو استشہاد کے طورپر پیش کیا ہے اس کا حکم تو یہ ہے کہ جب جنین اپنی ماں سے اس کی موت کے بعد زندہ صورت میں علیحدہ ہو تو پھر اس کا تاوان عائد ہوجائے گا جبکہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ایک حالت کے اندر ماں کے ذبح کو جنین کے ذبح کا اثبات قراردیاجائے اور دوسری حالت کے اندر اس اثبات کی ممانعت کی جائے۔ ایسی صور ت میں اس مسئلے کو مذکورہ بالا مسئلے کی طرف کس طرح لوٹا یا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حاملہ بکری وغیرہ کے پیٹ پر ضرب لگائے اور وہ مردہ جنین گرا دے تو ضارب پر اس جنین کا نہ کوئی جرمانہ عائد ہوگا اور نہ ہی اس کی قیمت۔ اس میں صرف ماں کو پہنچنے والے نقصان کا پورا کرنا واجب ہوگا بشرطیکہ اسے کوئی نقصان پہنچ جائے۔ جب چوپایوں کے جنین کے لئے اپنی ماں سے علیحدہ ہوجانے کے بعد ماں کے زندہ رہنے کی صورت میں جرمانے وغیرہ کا کوئی حکم نہیں ہوتا جبکہ یہ حکم عورت کے جنین کے لیے ثابت ہوتا ہے تو پھر چوپائے کو انسان پر قیاس کو ناکس طرح جائز ہوگا۔ ان دونوں کے حکم میں خود اس صورت کے اندر اختلاف ہے جس کا ذکر معترض نے کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ماں کے ساتھ اتصال کی حالت میں جنین ماں کے ایک عضو کے حکم میں ہوتا ہے اس لئے ماں کے ذبح کے ساتھ اس کا ایک عضو ہونے کی حیثیت سے وہ بھی حلال ہوجائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنین کو اس کی ماں کا ایک عضو قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ کبھی ماں کی زندگی میں اس کا زندہ برآمد ہونا اور کبھی ماں کی موت کے بعد اس کا زندہ باہر ا ٓ جانا ممکن ہوتا ہے جبکہ عضو کو اگر پورے جسم سے علیحدہ کردیاجائے تو اس کے بعد اس کے لیے زندگی کا حکم ثابت کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جنین اپنی ماں کے تابع نہیں ہوتا نہ تو ماں کی زندگی کے دوران اور نہ ہی اس کی موت کے بعد۔ اگر کہا جائے کہ ذبح کے اندر جنین کا اپنی ماں کے تابع ہونا اسی طرح ضروری ہے جس طرح عتاق، کتابت اور استیلاء کے اندر بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس اعتبار سے غلط ہے کہ ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس کرنا ممتنع ہوتا ہے جس کی وضاحت ہم گزشتہ سطور میں کر آئے ہیں۔ اسے ایک جہت سے دیکھیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ جب لونڈی آزاد ہوجائے تو اس کا ولد آزاد ہوئے بغیر اس سے علیحدہ ہوجائے حالانکہ وہ ان احکام کے اندر ماں کے تابع ہوتا ہے جن کا معترض نے اوپر ذکر کیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بات ممکن ہے کہ ماں کو ذبح کریں اور اس کے پیٹ سے جنین زندہ برآمد ہو۔ ایسی صورت میں جمہور کے نزدیک ماں کا ذبح اس کا ذبح قرار نہیں پائے گا۔ اس وضاحت سے مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں فرق واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معترض کے قیاس کا فساد کھل کر سامنے آ جاتا ہے اس وضاحت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ جنین ذبح کے اندر اپنی ماں کے تابع نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ ماں کے تابع ہوتا تو پھر یہ بات جائز نہ ہوتی کہ ماں کے ذبح کے بعد بھی وہ اس معاملے میں اپنی ذات کے اعتبار سے الگ ہو یعنی زندہ برآمد ہونے کی صورت میں اسے ذبح کرنا لازم ہوجائے۔ جنین کے ذبح کے مسئلے میں امام مالک کا مسلک اس حدیث پر مبنی ہے جسے سلیمان ابو عمران نے ابو البراء سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت براء ؓ بن العازب سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے چوپایوں کے جنین کے بارے میں فیصلہ دیا تھا کہ اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے جب اس پر بال آ چکے ہوں۔ زہری نے ابن کعب بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام فرماتے تھے کہ جب جنین کے بال اگ آئیں تو اس کا ذبح اس کی ماں کے ذبح کے تحت عمل میں آ جاتا ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالا روایت میں بال اگ آنے کا ذکر ہے اور دوسری روایات میں جو مذکورہ روایت سے زیادہ صحیح ہیں اور حضرت جابر ؓ ، حضرت ابو سعید ؓ ، حضرت ابو الدردا ؓ اور حضرت ابو امامہ ؓ سے منقول ہے بال اگ آنے کی بات کہ مبہم رکھا گیا ہے تو پھر ان دو قسموں کی روایتوں کو یکساں کیوں نہیں رکھا جاتا جبکہ دوسری قسم کی روایتیں اس حکم کی نفی نہیں کرتیں جس کا ایجاب بال اگ آنے والی روایت نے کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں قسم کی روایتیں ایک ہی حکم کو واجب کرتی ہیں۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک قسم کی روایت میں اس حکم کی تخصیص ہے اس کے غیر کی نفی نہیں ہے اور دوسری میں اس حکم کا ابہام اور اس کا عموم ہے پھر جب ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر جنین کے جسم پر بال نہ آئے ہوں تو اس صورت میں ماں کے ذبح کا جنین کے اندر اعتبار نہیں ہوگا بلکہ خود اس کے ذبح کا اعتبار ہوگا اور جنین اس حالت کے اندر اس بات سے زیادہ قریب ہوگا کہ ماں سے جدا ہونے کے بعد وہ اس کا ایک عضو شمار ہو تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ اس کا حکم اس صورت میں بھی یہی ہو جب اس کے جسم پر بال اگ آئے ہوں۔ حضور ﷺ کے ارشاد :” اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے “ کے یہ معنی لیے جائیں کہ اسے بھی اسی طرح ذبح کیا جائے جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہے۔ امام شافعی اور ان کے ہمنوائوں سے کہاجائے گا کہ اگر حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” اس کے بال اگ آئے ہوں تو اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے “ بال نہ ہونے کی صورت میں اس کی ماں کے ذبح کو اس کا ذبح قرار دینے کی نفی کرتا ہے تو پھر اس روایت کے ذریعہ مذکورہ مبہم روایات کی تخصیص کیوں نہیں کی گئی ؟ کیا آپ لوگوں کے نزدیک اس قسم کی دلیل کے ذریعہ عموم کی تخصیص کی جاسکتی ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی کمزور دلیل کی بہ نسبت عموم اولیٰ ہوتا ہے اس بارے میں امام شافعی کے مسلک کے خلاف حضور ﷺ کے ارشاد : ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں کے ذریعے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس ارشاد کی دلالت امام شافعی کے نزدیک مذکورہ دونوں مرداروں کے ساتھ تمام مرداروں کی تحریم کی متقضی ہے۔ اس سے امام شافعی پر لازم آتا ہے کہ وہ حضور ﷺ کے ارشاد :” جنین کا ذبح اس کی ماں کے ذبح سے عمل میں آجاتا ہے “۔ کے معنی کو مذکورہ بالا روایت کی دلالت کی موافقت پر محمول کریں۔ مردار کی کھال کی وباغت قول باری ہے : حرمت علیکم المیتہ والدم ( تم پر مردار اور خون حرام کردیا گیا) نیز ارشاد ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتہ اودماً مسفوحا ( اے محمد ! ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو) یہ آیات مردار کے تمام اجزاء کی تحریم کی متقضی ہیں، مردار کی کھال اس کا جز ہوتی ہے کیونکہ مردار کی کھال کو بھی موت لا حق ہوجاتی ہے، البتہ قول باری : والانعام خلفا لکم فیھا رف و منافع اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تحریم کو مردار کے ان اجزاء تک محدود رکھا گیا ہے جو کھانے کے کام تو آسکتے ہوں۔ اسی مفہوم کو حضور ﷺ نے دباغت کے بعد مردار کی کھال کے سلسلے میں واضح فرمایا ہے، ارشاد ہے : صرف مردار کھانا حرام ہے، صرف اس کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔ دباغت کے بعد مردار کی کھال کے مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ دباغت سے مراد یہ ہے کہ کھال کو نمک وغیرہ لگا کر خشک کرلیاجائے اور اس کی رطوبت ختم ہوجائے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نیز حسن صالح، سفیان ثوری، عبداللہ بن الحسن العنبری، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ دباغت کے بعد مردار کی کھال کی فروخت جائز اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ امام شافعی کے نزدیک کتے اور سور کی کھالیں اس جواز سے مستثنیٰ ہیں۔ ہمارے اصحاب نے صرف سور کی کھال کے سوا کتے اور دیگرجانوروں کی کھالوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ انہوں نے دباغت کی بنا پر کتے کی کھال کو پاک قرار دیا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ مردار کی کھال سے (دباغت کے بعد) بیٹھنے وغیرہ کے سلسلے میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ لیث بن سعید کا قول ہے کہ مردار کی کھال دباغت سے پہلے فروخت کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو حضرات مردار کی کھال کو پاک قرار دیتے اور اسے ذبح شدہ سمجھتے ہیں ان کی دلیل وہ آثار و روایات ہیں جو حضور ﷺ سے مختلف طرق اور الفاظ میں تواتر کے ساتھ منقول ہیں۔ یہ تمام روایات مردار کی مدبوغ کھال کی طہارت اور اس کے ذبح شدہ ہونے کا حکم عائد کرنے کی موجب ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے جس کھال کی دباغت ہوجائے وہ پاک ہے۔ نیز حسن بصری کی حدیث جس کی روایت انہوں نے المجون بن قتادہ سے کی ہے اور انہوں نے حضرت سلمہ بن المحبق ؓ سے کہ حضور ﷺ غزوہ تبوک میں ایک مکان کے اندر تشریف لے گئے جس کے صحن میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے پانی طلب کیا جواب میں عرض کیا گیا کہ یہ مشکیزہ مردار کی کھال کا بنا ہوا ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : کھال کی ذکاۃ یعنی ذبح کی دباغت ہے۔ سعید بن المسیب نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : مردار کی کھالوں کی دباغت ان کی پاکی ہے۔ سماک نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت سودہ ؓ بن زمعہ سے روایت بیان کی ہے کہ ہماری ایک بکری تھی جو مرگئی ہم نے اسے پھینک دیا۔ حضور ﷺ تشریف لائے اور پوچھا۔ تمہاری بکری کو کیا ہوا ؟ ہم نے عرض کیا کہ اسے ہم نے پھینک دیا ہے۔ یہ سن کر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : قل لا اجد فیما احی الی محرما علی طاعم یطعمہ تاکہ آخر آیت اور فرمایا : تم لوگوں نے اس کی کھال سے کیوں نہیں فائدہ اٹھایا ؟ چناچہ ہم نے اس کی کھال اتار کر اس کی دباغت کی اور اس سے ایک مشک بنا کر پانی لانے کے لیے استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ مشک پرانی ہوگئی۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا : حضور ﷺ حضرت میمونہ ؓ کی مردہ بکری کے پاس سے گرے اور اسے یونہی پھینکی ہوئی دیکھ کر فرمایا : اگر اس بکری کے مالکان اس کی کھال سے فائدہ اٹھا لیتے تو کیا ہوتا ؟ زہری نے عبید اللہ بن عبداللہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے حضرت میمونہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ ان کی ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ان لوگوں نے اس کی کھال کو دباغت کیوں نہیں دی کہ اس کے ذریعے وہ اس سے فائدہ اٹھا لیتے ؟ عرض کیا گیا یہ تو مردار ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا : صرف مردار کا کھانا حرام ہے۔ اسی طرح کی دیگر روایات ہیں جو سب کی سب دباغت کے بعد مردار کی کھال کے پاک ہوجانے کی موجب ہیں میں نے طوالت کے خوف سے ان روایات کا ذکر مناسب نہیں سمجھا۔ یہ تمام روایات تو اتر کی صورت میں وارد ہوئی ہیں اور دو وجوہ کی بنا پر علم اور عمل دونوں کی موجب ہیں نیز زیر بحث آیت کے مفہوم کے لیے فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ روایات اس قدر مختلف جہات سے وارد ہوئی ہیں کہ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ روایوں کی طرف سے وہم اور غلط بیانی پر اتفاق ہوگیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء نے ان روایات کو قبول کرکے ان پر عمل کیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مردار کی تحریم والی آیت پر عمل کے ساتھ ساتھ ان روایات پر بھی عمل ضروری ہے نیز یہ کہ آیت میں مردار کی قبل دباغت کھال کی تحریم مراد ہے۔ قول باری : علی طاعم یطعمہ کی دلالت کے سلسلے میں ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ آیت سے مراد مردار کے وہ اجزاء ہیں جنہیں کھایا جاسکتا ہو اور دباغت کے بعد کھال خوراک بننے کے دائرے سے خارج ہوجاتی ہے اس لیے تحریم کا حکم اسے شامل نہیں ہے تاہم یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ درج بالا احادیث کا ورودلامحالہ کی تحریم کا حکم آنے کے بعد ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ مردہ بکری کو پھینک نہ دیتے اور حضور ﷺ یہ نہ فرماتے کہ اس کا کھانا حرام ہے۔ یہ صورت حال اس امرپر دلالت کرتی ہے کہ مردار کی تحریم کا حکم ان روایات پر مقدم ہے۔ نیز ان روایات سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ دباغت کے بعد جو کھال ہوتی ہے وہ آیت میں مردار نہیں ہے۔ امام مالک نے جب دباغت کے بعد کھال سے فائدہ اٹھانے کے جواز پر موافقت کی تو گویا انہوں نے مذکورہ کھال کی طہارت کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات پر عمل کیا۔ ان روایات میں کھال کو بطور فرش استعمال کرنے اور اس پر نماز پڑھنے اور اسے فروخت کرنے کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا گیا بلکہ تمام روایات میں یہی ذکر ہے کہ اسے دباغت دینا اس کی ذکاۃ اور اس کی طہارت ہے جب مذکورہ کھال کو ذبح شدہ یعنی مذکاۃ تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس پر نماز پڑھنے اور اسے فروخت کرنے کے حکم اور اسے بطور فرش استعمال کرنے اور اس پر بیٹھنے کے حکم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ دباغت سے پہلے مذکورہ کھال کے بارے میں تحریم کا یہ حکم باقی رہتا ہے کہ کسی بھی صورت میں اس سے فائدہ اٹھانا ممتنع ہے جس طرح مردار کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ممتنع ہے۔ پھر جب ہم سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دباغت کے بعد کھال مردار کے حکم سے نکل جاتی ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ پاک اور اسی طرح ذبح شد ہ ہوتی ہے جس طرح ایک حلال جانور ذبح شدہ ہوتا ہے۔ نیز اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ تحریم کا حکم اس کے ماکول ہونے کے ساتھ متعلق ہے اور جب یہ خوراک بننے کی حد سے نکل جاتی ہے تو لکڑی اور کپڑے وغیرہ کی طرح ہوجاتی ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ امام مالک ہم سے اس مسئلے میں متفق ہیں کہ مردار کے بالوں اور اون سے انتفاع جائز ہے اس لیے کہ ان چیزوں کو کھانا ممتنع ہوتا ہے۔ یہ بات دباغت کے بعد کھال کے اندر بھی موجود ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ کھال کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو مذکورہ چیزوں کا ہے۔ اگر یہاں کہا جائے کہ بالوں اور اون سے انتفاع اس لیے جائز ہوا کہ جانور کی زندگی کے اندر یہ چیزیں اس کے جسم سے اتاری جاسکتی ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس بات کا ہم نے ذکر کیا ہے ابا حت کے لیے اسے علت قرار دینے میں کوئی امتناع نہیں ہے اور جس بات کا معترض نے ذکر کیا ہے اباحت کی وہ بھی علت بن سکتی ہے، اس طرح گویا اباحت کی دو علتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ اسے کھانے کے طورپر استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔ دوسری یہ کہ جانور کی زندگی میں وہ چیز اس کے جسم سے اتاری جاسکتی ہو اور اس طرح اس سے انتفاع جائز ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ دو علتوں کا موجب ایک ہی حکم ہے۔ اگر ہم تعلیل کے طورپر وہ علت بیان کریں جس کا ہم نے ذکر کیا ہی تو پھر اس پر کھال کو قیاس کرنا واجب ہوجاتا ہے اور اگر معترض تعلیل کے طورپر وہ علت بیان کرے جس کا اس نے ذکر کیا ہے تو اس صورت میں حکم صرف معلول تک محدود رہے گا۔ الحکم نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے عبداللہ بن عکیم سے ان کی بہ بات نقل کی ہے کہ : ہمیں حضور ﷺ کا ایک مکتوب پڑھ کر سنایا گیا جس میں مذکور تھا کہ : مردار سے نہ تو اس کی کھال کے ذریعے فائدہ اٹھائو اور نہ ہی اس کے کسی عصب یعنی پٹھے کے ذریعے۔ اس روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے کہ دباغت کے بعد بھی مردار کی کھال سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہے تاہم اس روایت کے ذریعے اباحت کے بارے میں وارد روایات کا معاوضہ جائز نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ جن روایات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وہ تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں جو علم کا موجب ہوتا ہے جبکہ عبداللہ بن عکیم سے مروی حدیث احاد کے طریقے سے وارد ہوئی ہے۔ عاصم بن علی نے قیس بن الربیع سے، انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے عبداللہ بن عکیم سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ : ہمیں حضرت عمر ؓ نے لکھا کہ مردار سے نہ تو اس کی کھال کے ذریعے فائدہ اٹھائو اور نہ ہی اس کے کسی پٹھے کے ذریعے۔ اس روایت میں عبداللہ بن عکیم نے بیان کیا کہ یہ بات حضرت عمر ؓ نے انہیں لکھی تھی، اس بنا پر اس جیسی روایت کے ذریعے ہماری بیان کردہ روایات کا معارضہ جائز نہیں ہوگا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھے، اگر ان دونوں قسموں کی روایات کو نقل کے اعتبار سے یکساں درجہ دیاجائے تو تو بھی اباحت کی رویت اولیٰ ہوگی، اس لیے کہ لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر عبداللہ بن عکیم کی روایت کردہ حدیث کو ہماری بیان کردہ روایات کے معارضہ سے الگ بھی رکھا جائے تو بھی اس میں ایسی بات کا وجوہ نہیں ہوگا جو دباغت کے بعد کھال کی تحریم پر دلالت کرتی ہو، اس لیے کہ مذکورہ حدیث میں اھاب کا لفظ آیا ہے اور اہاب اس کھال کو کہتے ہیں جسے ابھی دباغت نہ دی گئی ہو۔ دباغت شدہ کھال کو ادیم کا نام دیا جاتا ہے اس بنا پر مذکورہ حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دباغت کے بعد کھال کی تحریم کی موجب ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ دباغت سے پہلے مردار کی کھال کی فروخت جائز ہے لیکن ان کا یہ قول فقہاء کے متفقہ قول کے دائرے سے باہر ہے۔ کسی نے بھی اس قول کے اندر لیث کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ اس کے علاوہ لیث کا یہ قول حضور ﷺ کے اس ارشاد کے خلاف ہے کہ مردار سے نہ تو اس کی کھال کے ذریعے فائدہ اٹھائو اور نہ اس کے کسی پٹھے کے ذریعے۔ اور فروخت چونکہ فائدہ اٹھانے کی ایک صورت ہے اس لیے مذکورہ حدیث کے تحت اس کی ممانعت واجب ہوگی۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد :(مردار کو کھانا حرام ہے) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تحریم کا حکم کھانے تک محدود ہے بیع اس کے ضمن میں نہیں آتی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد کی بنا پر مردار کے گوشت کی بیع بھی جائز ہوجانی چاہیے، اور اگر مذکورہ ارشاد سے مردار کے گوشت کی بیع جائز نہیں ہوئی تو دباغت سے پہلے کھال کا بھی یہی حکم ہوگا، یعنی اس کی بیع جائز نہیں ہوگی۔ اگر کوئی شخص کہے کہ حضور ﷺ کے درج بالا ارشاد کے تحت مردار کے گوشت کی فروخت کی ممانعت کی گئی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ میں قول باری : حرمت علیکم المیتۃ کے تحت کھال کی فروخت کی ممانعت کرتا ہوں کیونکہ اس آیت میں کھال اور گوشت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے، البتہ اس کے مجموعے سے صرف دباغت شدہ کھال کی تخصیص کردی گئی ہے۔ نیز حضور ﷺ سے مروی ہے : یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان پر چربی حرام کردی گئی تو انہوں نے اسے فروخت کرکے اس کے ثمن کو کھالیا۔ یعنی بجائے چربی کے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا لیا۔ جب دباغت سے قبل کھال کا کھانا مردار کے گوشت کی طرح حرام ہے تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ دباغت سے پہلے اس کی بیع بھی جائز نہ ہو جس طرح خود گوشت کی بیع، نیز دیگر حرام معینہ اشیاء مثلاً شراب اور خون وغیرہ کی بیع جائز نہیں۔ مردار کی چکنائی سے انتفاع ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ( اللہ نے تو تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت حرام کردیا ہے) نیز ارشاد ہے : قل لا احد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ ( ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو الا یہ کہ وہ مردار ہوض یہ دونوں آیتیں اس بارے میں واضح ہیں کہ مردار کی چربی اور چکنائی کی بھی اسی طرح ممانعت ہے جس طرح اس کے گوشت اور دیگر تمام اجزاء کی۔ محمد بن اسحاق نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ جب مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ ﷺ کے پاس وہ لوگ آئے جو جانور کی ہڈیوں سے چربی اور چکنائی حاصل کرنے کا کام کرتے تھے، انہوں نے عرض کیا ہم یہ چربی اور چکنائی جمع کرتے ہیں۔ اسے ہم مردہ جانوروں سے حاصل کرتے ہیں اور اسے صرف کشتیوں اور کھالوں میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی چمڑا رنگنے اور کشتیوں کے تختوں پر لگانے میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے ان پر چربی کی تمام صورتیں حرام کردی گئی تھیں، انہوں نے اسے فروخت کرے اس کا ثمن کھالیا۔ اس طرح آپ ﷺ نے مسئلہ پوچھنے والوں کو مردار کی چربی اور چکنائی کے استعمال سے روک دیا۔ آپ ﷺ نے یہ بتادیا کہ اللہ سبحانہ کی طرف سے علی الاطلاق اس کی تحریم اس کی بیع کی تحریم کی بھی اسی طرح موجب سے جس طرح اسے کھانے کی تحریم کی۔ ابن جریح نے عطاء سے نقل کیا ہے کہ مردار کی چربی کشتیوں کے تحتوں پر لگائی جاسکتی ہے لیکن یہ شاذ قول ہے اس کی تحریم کی روایت موجود ہے اور آیت سے اس کی ممانعت ہوتی ہے۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ کریں)
Top