Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں (اور جہازوں) میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لیکر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقلمندوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
قول باری ہے : ان فی خلق السموت والارض واختلاف اللیل والنھار ( آسمانوں اور زمین کی ساخت میں اور رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں) تا آخر آیت۔ یہ آیت توحید باری پر نیز اس بات پر کہ اس کی کوئی نظیر ہے نہ شبیہ، کئی قسم کی دلالتوں کو متضمن ہے۔ اس آیت میں ہمارے لیے یہ حکم بھی ہے کہ ہم ان دلالتوں سے استدلال کریں ، چناچہ ارشاد ہے : لا یات لقوم یعقلون ( جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے بیشمار نشانیاں ہیں) اس نے یہ نشانیاں اس لئے قائم کی ہیں کہ ان سے استدلال کرکے اس کی معرفت، اس کی توحید کی پہچان نیز اس کی ذات سے اشباہ و امثال کی نفی تک رسائی حال کی جائے۔ اس میں ان لوگوں کے قول کا ابطال ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کی ذات کی معرفت صرف خبر کے ذریعے ہوسکتی ہے اور اس کی ذات کی معرفت تک رسائی میں انسانی عقول کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ کی ذات پر آسمانوں اور زمین کی دلالت کی صورت یہ ہے کہ آسمان اپنی وسعت اور حجم کے پھیلائو کے باوجود کسی ستون اور سہارے کے بغیر ہمارے اوپر قائم ہے اور اپنی جگہ نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح زمین بھی اپنی عظیم ساخت کے باوجود ہمارے نیچے قائم اور موجود ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان میں سے ہر ایک کی کوئی نہ کوئی انتہا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک وقت واحد کے اندر موجود ہے اور کمی بیشی کا احتمال رکھتا ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر ساری مخلوق اکٹھی ہوکر ایک پتھر کو سہارے کے بغیر ہوا میں معلق رکھنا چاہیے تو وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ اس سے ہمیں اس بات عا علم ہوتا ہے کہ آسمانوں کو ستونوں کے بغیر اور زمین کو سہارے کے بغیر قائم رکھنے والی کوئی نہ کوئی ذات ضرور ہے، گویا یہ بات ذات باری کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور یہ واضح کردیتی ہے کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے اس میں اس امر کی دلیل بھی موجود ہے کہ اللہ کی ذات اجسام کی مشابہ نہیں ہے، نیز وہ قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ اجسام کے اختراع پر قادر ہے کیونکہ عقول کے نزدیک اجسام و اجرام کا اختراع اور ان کی ایجاد ان کے حجم کے پھیلائو اور کثافت ( بھاری پن) کے باوجود انہیں ستونوں اور سہاروں کے بغیر قائم رکھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ باتیں ایک اور جہت سے ان اجسام کے حدوث پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ وہ یوں کہ متضاد اعراض ( پیدا ہونے والی متنوع قسم کی کیفیات ) سے ان اجسام کے خالی رہنے کا جواز ممتنع ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ مذکورہ اعراض حادث ہیں۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک پہلے معدوم تھا اور پھر موجود ہوا۔ اور جو چیز احداث سے پہلے موجود نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے۔ اس استدلال سے مذکورہ اجسام و اجرام کے حدوث کا دعویٰ درست ہوگیا۔ حادث اشیاء کسی محدث (وجود میں لانے والے) کی متقضی ہوتی ہیں۔ جس طرح عمارت تعمیر کنندہ کی اور کتابت کاتب کی نیز تاثیر موثر کی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آسمان و زمین اور ان کے مابین موجود ساری کائنات اللہ کی آیات ہیں اور اس کی ذات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حضرت سعدی نے کیا خوب کہا ہے ؎ برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر درقے دفتریست معرفت کردگار رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے کا سلسلہ اللہ کی ذات پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد حدوث ہوتا ہے اور حادث کسی محدث ( وجود میں لانے والے) کا متقضی ہوتا ہے۔ اس طرح رات اور دن اپنے محدث پر دلالت کرتے ہیں، نیز اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ان کا محدث ان کے مشابہ نہیں ہے، کیونکہ غافل اپنے فعل کے مشابہ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ معمار اپنی عمارت کے اور کاتب اپنی کتابت کے مشابہ نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر محدث حادث کے مشابہ ہوتا تو اس پر بھی حدوث کی وہی دلالت جاری ہوتی جو حادث پر جاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں حدوث کے اندر حادث اپنے محدث کی بہ نسبت اولیٰ نہ ہوتا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اجسام و احرام نیز لیل و نہار کا محدث قدیم ہے تو یہ بات بھی درست ہوگئی کہ وہ ان کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا، نیز اس بات کی نشاندہی ہوگئی کہ مذکورہ اشیاء کا محدث قادر بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر فعل کا وجود صرف اس ذات سے ممکن ہوتا ہے جو قادر اور زندہ ہو، نیز اس کے علام ہونے پر دلالت ہورہی ہے۔ اس لیے کہ ایک محکم، متقن اور متسق فعل کو صرف وہی ذات وجود میں لاسکتی ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا پورا علم رکھتی ہو۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ رات اور دن کی ایک دوسرے کے بعد پیہم آمد ایک ہی ڈھنگ اور طریقے پر جاری ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں سال کی مقدار کے اندر دن اور رات کے چھوٹے بڑے ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رات اور دن کا مخترع قادر اور علیم ہے۔ اگر وہ قادر نہ ہوتا تو اس سے فعل وجود میں نہ آتا اور اگر علیم نہ ہوتا تو اس کے فعل میں یہ اتقان اور یہ نظم نہ ہوتا۔ سمندر میں چلنے والی کشتی کی اللہ کی توحید پر دلالت کی جہلت یہ ہے کہ سب کے علم میں ہے کہ اگر کائنات کے تمام اجسام پانی جیسا رقیق اور سیال جسم جس نے کشتی کو اپنی پیٹھ پر لا د رکھا ہے ، پیدا کرنے نیز کشتی کو چلانے والی ہوائوں کو وجود میں لانے کے لیے یکجا ہوجائیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر ہوائیں رک جائیں تو کشتی سمندر میں ٹھہر جائے اور اس صورت میں کوئی مخلوق بھی اسے چلا نہ سکے جس طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے : ان یشا یسکن الریح فیضللن روالدعلی ظھرہ ( اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ساکن کردے اور پھر یہ کشتیاں سمندر کی پشت پر رکی رہیں) اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے پانی کو مسخر کردیا اور ان کشتیوں کو چلانے کے لیے ہوائوں کو تابع فرمان بنادیا۔ یہ باتیں وہ عظیم ترین دلیلیں ہیں جن سے اللہ سبحانہ کی وحدانیت کا اثبات ہوتا ہے۔ اور یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ قدیم وقادر اور علیم، نیز حی و قیوم ہے، اس کی کوئی نظیر ہے نہ شبیہ کیونکہ اجسام کو ان افعال کے سرانجام دینے کی قدرت ہی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو اپنا تابع فرمان کردیا، تاکہ وہ اپنی پشت پر کشتیوں کا بوجھ اٹھائے رکھے۔ ہوائوں کو انہیں چلانے کے لیے مسخر کردیا۔ تاکہ کشتیوں اور جہازوں کی آمدورفت سے مخلوقات کو فائدہ دینے والی اشیاء ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہوتی رہیں اور کارہائے نمایاں کے ذریعے انسانوں کو اپنی وحدانیت اور اپنی نعمتوں کی ہمہ گیری سے آگاہ کردیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان باتوں پر غور و فکر کریں تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان کے خالق نے ان نعمتوں سے انہیں نوازا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اس کے شکر گزار بندے بن کر آخرت میں دائمی ثواب کے مستحق قرار پائیں۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ آسمان سے پانی کا برسنا اللہ کی توحید پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ ہر عاقل کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اوپر سے نیچے کی طرف بہنا پانی کی خصوصیت ہے۔ اور نیچے سے اوپر کی طرف پانی کا بلند ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کوئی فاعل یہ کام کرے۔ بادلوں میں موجود پانی سے ایک تو جیہ ضروری ہے۔ یا تو کسی محدث نے بادلوں کے اندر ہی اس پانی کا احداث کیا ہے یا اس نے پانی کو اس کی ذخیرہ گاہوں یعنی سمندروں سے اٹھا کر ان تک پہنچایا ہے ( دوسری بات موجودہ سائنس کے عین مطابق ہے جس کا کہنا ہے کہ سورج کی تیز شعاعوں سے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور فضا کے اندر منطقۂ باردہ میں پہنچ کر دوبارہ قطرات کی شکل اختیار کرلیتا اور بادلوں سے برس پڑتا ہے۔ مترجم) ان دونوں میں سے جو توجیہ بھی قبول کرلی جائے وہ اللہ کے واحد اور قدیم ہونے کے اثبات پر دلالت کرے گی۔ پھر دیکھئے اللہ اپنی قدرت کاملہ سے اس پانی کو بادلوں کے اندر روکے رکھتا، بلکہ دنیا کے جس خطے میں چاہتا ہے تابع فرمان ہوائوں کے ذریعے پہنچا دیتا اور بارش برسا دیتا ہے۔ یہ ساری کیفیت اللہ کی وحدانیت اور اس کی کامل قدرت کی قول ترین دلیل ہے کیونکہ اس نے بادلوں کو پانی کا مرکب اور ہوائوں کو بادلوں کا مرکب بنادیا ہے کہ یہ ہوائیں ان بادلوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچا دیتی ہیں تاکہ تمام مخلوقات کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔ چناچہ ارشاد ہے : اولم یروا انا نسوق الماء الی الارض الجرز فنخرج بہ زرعاً تاکل منہ انعامھم وانفسھم ( کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں ڈالی کہ ہم خشک افتادہ زمین کی طرف پانی پہنچاتے رہتے ہیں ، پھر اس کے ذریعے سے کھیتی پیدا کردیتے ہیں جس سے ان کے مویشی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی) پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کو قطرہ قطرہ کرکے نازل کرتا ہے کہ فضا میں ایک قطرہ دوسرے قطرے کے ساتھ نہیں ملتا حالانکہ ہوائیں ان تمام قطرات کو ایک ساتھ حرکت میں لے آتی ہیں، حتیٰ کہ یہ تمام قطرے علیحدہ علیحدہ زمین پر اپنی اپنی جگہ برس جاتے ہیں۔ اگر ایک حکیم، علیم اور قادر ذات بارش برسانے کا یہ انتظام ن ہ کرتی تو بادلوں سے بارش کے برسنے کی یہ ترتیب اور یہ نظام کس طرح وجود میں آتا ؟ جبکہ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ سیلاب کی شکل میں ایک ساتھ بہہ پڑتا ہے۔ اگر یہ قطرات فضا میں یکجا ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ مل جائے تو پھر بارش کی بجائے آسمان سے سیلاب کا نزول ہوتا اور زمین پر پہنچ کر یہ سیلاب تمام حیوانات و نباتات کی تباہی کا باعث بن جاتا اور صورت حال وہ ہوتی جس کا ذکر طوفان نوح کے سلسلے میں ہوا۔ ارشاد باری ہے : ففتحنا ابواب السماء بماء منھر ( اور ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے بکثرت برسنے والے پانی سے) اس آیت کی تفسیر میں کہا جاتا ہے کہ آسمان سے پانی اس طرح برسا جیسے زمین پر سیلابوں کا پانی بہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضا میں بادلوں کا پیدا کرنا، ان بالدوں کو پانی سے بھر دینا اور اور انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف چلانا اس کی وحدانیت اور قوت کے قوی ترین دلائل ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات جسم اور جسمانیت سے پاک ہے اور اجسام کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے کیونکہ اجسام کے لئے ایسے کارہائے عظیم سرانجام دینا ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ اجسام ان کے بارے میں سوچ نہیں سکتے اور نہ ہی ان کی توقع کرسکتے ہیں۔ مردہ زمین کو زندگی بخشنے کا عمل اللہ کی توحید پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ اگر ساری مخلوق مردہ زمین کے کسی حصے کو زندہ کرنے کے لیے یکجا ہوجائے تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتی اور نہ زمین پر ایک پودا بھی اگا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پانی کے ذریعے زمین کو زندہ کردینا اور اس میں طرح طرح کی فصلیں اور نبانات اگانا ( ہمیں یہ بات یقین اور مشاہدہ سے معلوم ہے کہ زمین میں پہلے یہ فصلیں موجود نہ ہوتیں اور پھر خدا کے حکم سے یہ فصلیں اگ آتی ہیں) دراصل ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ اگر ہم صرف اس عمل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ سب کچھ ایک صانع و حکیم اور قادر و علیم کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے اپنی قدرت سے کام لے کر مٹی کے اجزاء کو ترتیب دے کر انہیں ایک مربوط و مستحکم نظام کے تحت منظم کردیا۔ یہ بات اس امر کی ایک قوی ترین دلیل ہے کہ تمام چیزوں کا ایک خالق ہے اور وہ قادر و علیم ہے، نی یہ کہ یہ سارا نظام فطرت کے عمل کا نتیجہ نہیں ہے جیسا کہ اللہ کی ان آیات کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان سے برسنے والا پانی یکساں خصوصیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح زمین کے اجزاء میں بھی یکسانیت ہوتی ہے اور اسی طرح ہوا بھی یکساں خاصیت رکھتی ہے لیکن اس تمام یکسانیت کے باوجود زمین پانی اور ہوا کے ملاپ کے نتیجے میں طرح طرح کے نباتات اور رنگ برنگے پھول پیدا ہوتے ہیں، درختوں پر لگنے والے پھلوں کے اشکال والو ان مختلف ہوتے اور ان کا مزہ ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ فطرت کے عمل کا نتیجہ ہوتا تو ان تما م چیزوں میں یکسانیت پائی جاتی کیونکہ یکسانیت کا حامل عمل عدم یکسانیت اور رنگ برنگے مظاہرہ و نتائج کا موجب نہیں ہوتا۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ ایک صانع و حکیم اور قادر وعلیم ذات کی کرشمہ سازی جس نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کی تخلیق اور انہیں مختلف انواع و اقسام اور الوان و اشکال میں پیدا کرکے بندوں کی روزی کا سامان کردیا اور انہیں اس بات سے آگاہ کردیا کہ یہ سب کچھ اس کی کاریگری اور اس کے انعام کا مظہر ہے۔ زمین پر ہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلا دینے کا عمل اللہ سبحانہ کی وحدانیت پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ یہ مختلف الانواع جاندار اس کی قدرت کا ملہ کے عظیم مظاہر ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ ان جانداروں نے اپنی تخلیق آپ کی ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں یا تو نہوں نے اپنی تخلیق اپنی موجودگی کی حالت میں کی ہوگی یا اپنی معدومیت کی حالت میں۔ اگر یہ پہلے سے ہی موجود ہوں تو پھر ان کے احداث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اگر معدوم ہوں تو معدوم کی ذات سے کسی فعل کو وجود میں لانا محال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ وجود میں آ جانے کے باوجود اجسام کے اختراع اور اجرام کی تخلیق کی قدرت نہیں رکھتے، تو جب موجود ہونے کی صورت میں وہ تخلیق کے عمل کی قدرت نہیں رکھتے تو معدوم ہونے کی حالت میں بطریق اولیٰ اس کی قدرت نہیں رکھیں گے، نیز ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی جاندار اپنے جسم کے کسی حصے کے اضافے کی قدرت نہیں رکھتا، تو پھر پورے جسم کی تخلیق کی کس طرح قدرت رکھ سکتا ہے ؟ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان جانداروں کا محدث و موجد اللہ ہی ہے جو قادر و حکیم ہے اور جس کی کسی چیز کے ساتھ مشابہت نہیں ہے۔ اگر ان جانداروں کا محدث ان کے ساتھ کسی جہت سے بھی مشابہت رکھتا تو اجسام کے احداث کو عمل میں لانے کے جواز کے امتناع میں اس کا حکم بھی وہی ہوتا جو ان جانداروں کا ہے۔ ہوائوں کی گردش اللہ کی وحدانیت اور قدرت پر اس جہت سے دلالت کرتی ہے کہ اگر ساری مخلوق ان ہوائوں کو چلانے کی کوشش میں یکجا ہوجائے تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ جب ہم ہائوں کو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی طرف کبھی باد صبا کی صورت میں اور کبھی دبور ( بچھوائی ہوا) کی شکل میں چلتے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا احداث ہوا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ علم بھی ہوجاتا ہے کہ ان کی گردش کا محدث و موجد و قادر و حکیم ہے جس کی کوئی نظیر و شبیہ نہیں ہے۔ یہ ہیں وہ دلائل جن سے اللہ تعالیٰ نے عقلاء کو آگاہ کرکے انہیں ان کے ذریعے استدلال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگرچہ یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ پانی اور زراعت کے بغیر نبانات پیدا کردیتا اور نر و مادہ کی جفتی کے بغیر جانور وجود میں لے آتا۔ لیکن اس نے موجودہ نظام کے تحت تخلیق کے عمل کو اس لیے جاری کیا کہ ہر نئی چیز کی آمد پر دیکھنے والوں کا دھیان خالق کی قدرت کی طرف جائے اور وہ اس کی عظمت پر غور وفکر کرنے پر مجبور ہوجائیں، نیز ان کے ذہنوں سے غفلت کا پردہ ہٹ جائے اور ذات باری کے متعلق ان کی سوچ کی راہیں ہموار ہوجائیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی اس طرح تخلیق فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر قائم و دائم ہیں اور تخلیق کے وقت ان کی جو کیفیت تھی وہی آج تک باقی ہے۔ اس میں ذرہ برار بھی تغیر واقع نہیں ہوا۔ یہی کیفیت ان کی فنا کے وقت تک باقی رہے گی، پھر اس نے زمین سے انسانوں اور دیگرجانوروں کی تخلیق کی اور پھر زمین ہی سیان سب کے لئے رزق پیدا کیا اور تھوڑا تھوڑا کرکے انہیں دیا تاکہ وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اب انہیں مزید کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ نے سالانہ پیداوار کی شکل میں ان کی خوراک کا اتنی مقدار میں بندوبست کردیا جو ان کی کفایت کرسکے تاکہ وہ خود سر نہ ہوجائیں بلکہ انہیں اللہ کی طرف اپنی حاجت مندی کا ہر وقت احساس رہے۔ اس کے ساتھ اللہ سبحانہ نے انسانوں کو زراعت اور کھیتی باڑی کی شکل میں زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے کچھ گر سکھا دئیے تاکہ انہیں اس حقیقت سے آگاہ کردے اور اس کا شعور دلالے کہ اعمال کے ثمرات اور اچھے برے نتائج ہوتے ہیں اور اس طرح وہ اچھے اعمال کرکے ان کے ثمرات سے مستفید ہونے اور برے اعمال سے اجتناب کرکے ان کے عواقب سے بچ جانے کے قابل ہوجائیں۔ جہاں تک آسمان سے پانی برسانے کا تعلق تھا تو اس کا م کی ذمہ داری خود ذات باری نے سنبھال لی کیونکہ اپنے لئے بارش برسانا انسانوں کی قدرت میں نہیں تھا۔ اس مقصد کے لئے اللہ سبحانہ نے فضائے آسمانی میں بادل پیدا کیے، پھر انہیں پانی سے بھر دیا اور پھر ضرورت کے مطابق بارش کی شکل میں زمین پر برسایا اور اس پانی کے ذریعے زمین سے وہ تمام چیزیں پیدا کیں جو مخلوق کی خوراک و پوشاک کے لئے ضروری تھیں نیز اللہ سبحانہ نے بارش کے ذریعے برسنے والے پانی کو اس طرح نہیں کہ بس برسنے کے وقت ہی اس سے فائدہ اٹھا لیا جائے بلکہ اس نے اس پانی کے لئے زمین میں بڑی بڑی ذخیرہ گاہیں اور چشمے بنادئیے کہ یہی پانی ان میں جمع ہوکر حسب ضرورت بہتا رہتا ہے۔ ارشاد باری ہے : الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء مسل کہ ینابیع فی الارض ( کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین میں اس کے چشمے جاری کردئیے) اگر آسمان سے برسنے والے پانی کو ضرورت کے وقت تک محفوظ کرنے کے لیے زمین میں انتظامات نہ ہوتے تو پھر سارا پانی بہہ جاتا اور اس میں ایک طرف جاندار ڈوب کر ہلاک ہوجاتے اور دوسری طرف پانی کی عدم موجودگی میں پیاس سے ہلاک ہوجاتے۔ بڑی با برکت ہے وہ ذات جس نے زمین کو گھر اور ٹھکانے کی حیثیت عطا کردی کہ انسان کو اس میں پناہ ملتی ہے اور آسمان کو چھت کی شکل دے دی اور بارش نیز نباتات و حیوانات کو ان چیزوں کی مثل بنادیا جنہیں انسان اپنی ضروریات کے پیش نظر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ نے ہمارے لیے زمین کو اس طرح مسخر کردیا کہ ہم بہ آسانی اس پر چل پھر سکتے ہیں اور اس کی راہوں سے گزر سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں اس بات کی قدرت بھی عطا کردی کہ ہم اس پر مکانات تعمیر کرلیں اور ان میں رہائش رکھ کر بارش اور سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رہیں نیز دشمنوں سے بھی اپنا بچائو کرسکیں۔ ہمیں اپنے مکانات کی تعمیر کے لیے زمین کے سوا کسی اور سیارے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم زمین کے اندر جہاں بھی مکان بناناچا ہیں وہاں ہمیں تعمیراتی سامان یعنی مٹی، گارا، پتھر، چونا اور لکڑی وغیرہ سب مل جائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ سبحانہ نے ہمارے لئے زمین کے معدنیات کی صورت میں سونا، چاندی، لوہا، تانبا اور سیسہ وغیرہ پیدا کردیا۔ ان کے علاوہ ہیرے اور جواہرات کے ذخائر بھی مہیا کردیے تاکہ ہم جس طرح زمین کے بیرونی حصے سے پیداوار کی شکل میں فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح زمین کے اندرونی حصے سے بھی معدنیات کی صورت میں فائدہ اٹھائیں۔ ارشاد باری ہے۔ وقد رفیھا اقواتھا ( اور اس نے اسی (زمین ) میں (اس پر رہنے والوں کی) غذائیں رکھ دیں۔ یہ تمام اشیاء زمین کی برکات اور منافع ہیں جن کی تعداد شمار وقطار سے باہر ہے پھر چونکہ ہماری اور دیگر جانداروں کی عمروں کی مدت محدود ہے اس لئے زمین ہی کو بعد الموت بھی ہمیں سمیٹ لینے والی بنادیا۔ ارشاد ہے : الم نجعل الارض کفا تا احیاء و امواً ( کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹ لینے والی نہیں بنایا) مزید فرمایا : ان جعلنا ما علی الارض زینۃً لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً وانا لجاعلون ما علیھا صعیداً اجززا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں) پھر حق سبحانہ نے نبانات و حیوانات کی تخلیق میں لذت نجش نیز غذا بننے والی چیزوں پر اقتصار نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ تلخ اور زہریلی چیزیں بھی پیدا کیں تاکہ نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں کے امتزاج سے ہمیں یہ احساس دلائے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم ان تلذات کی طرف ہی مائل رہیں اور ان میں منہمک ہوکر آخرت کو فراموش کربیٹھیں۔ دوسرے الفاظ میں نقصان دہ چیزوں کے اندر اللہ سبحانہ نے ہمارے لئے نفع اور خیر کا پہلو اسی طرح رکھ دیا ہے جس طر ح خوش کن لذت انگیز چیزوں کے اندر ہے۔ دنیاوی زندگی میں جب ہم آلام و شدائد کا مزہ چکھیں گے تو اس سے ہمیں آخرت کے آلام کا احساس ہوگا۔ یہ احساس ہمیں قبائح اور آثام سے روک دے گا اور اسکے نتیجے میں ہم آخرت کی اس لازوال راحت و نعمت کے مستحق قرار پائیں گے جس میں تکلیف و الم کا شائبہ تک نہیں ہے اور جو ہر قسم کی متعصات سے پاک ہے۔ اس ایک آیت کے اندر اللہ کی وحدانیت کے جو دلائل بیان ہوئے ہیں۔ اگر غافل انسان صرف ان پر ہی غور کرلے تو ان تمام اقوال کا بطلان ہوجائے گا جن کا تعلق گمراہ فرقوں سے ہے۔ یہ فرقے وہ ہیں جو نظام کائنات میں فطرت یعنی نیچر کی کارروائی کے قائل ہیں یا ثنویت پرست ہیں یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ کائنات کا نظام دو خدا چلا رہے ہیں۔ ایک یزدان، دوسرا ہرمن۔ یزدان خالق خیرا اور راہرسن خالق شر ہے۔ یا وہ فرقہ جو تشبیہ کا عقیدہ رکھتا ہے اور ذات باری کو اجسام و اجرام کے مشابہ قرار دیتا ہے۔ اگر ہم زیر بحث آیت کے معانی و مطالب نیز اس کے ضمن میں موجود دلائل توحید کو صفحہ قرطاس پر پھیلا دیں تو بحث طویل ہوجائے گی۔ ہم نے درج بالا سطور میں آیت کے معانی و مطالب میں جتنا کچھ لکھ دیا ہے ہمارے خیال میں وہ کافی ہے۔ ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے بیان کردہ دلائل سے استدلال کرنے اور اسکے ذریعے راہ ہدایت حاصل کرنے کی عمدہ توفیق عطا فرمائے وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا بہترین کارساز ہے۔ بحری سفر کی اباحت قول باری : والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس ( اور ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں) میں بحری سفر کی اباحت کا ذکر ہے خواہ یہ سفر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی غرض سے کیا یا تجارت کی غرض سے یا دیگر منافع کی تلاش میں ۔ کیونکہ آیت میں منفعت کی کسی ایک صورت کی تخصیص نہیں کی گئی۔ کہ دیگر صورتیں اس میں شامل نہ ہوسکیں۔ ایک جگہ ارشاد ہے : ھو الذی یسیرکم فی البر والبحر ( وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے) نیز ارشاد ہے : ربکم الذی یرجی لکم الفلک فی البحر لتبتغو ا من فضلہ ( تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر اور دریا میں کشتیاں چلتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرسکو) قول باری : لتبتغوا من فضلہ تجارت وغیرہ سب کو شامل ہے، جس طرح یہ ارشاد باری ہے : فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشرو ا فی الارض وابتغو ا من فضل اللہ جب ( جمعہ کی) نماز ادا کرلی جائے تو تم زمین میں بکھر جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) نیز ارشاد ہے : لیس علیکم جناح ان تبتغو ا فضلاً من ربکم ( اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) صحابہ کرام کی ایک جماعت سے بحری سفر کے ذریعے تجارت کرنے کی اباحت مروی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے مسلمانوں کی جانوں کو لاحق ہونے والے خطرا ت کے پیش نظر جہاد کی غرض سے بحری سفر کی ممانعت کردی تھی، نیز حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا قول مروی ہے کہ کوئی شخص بحری سفر اختیار نہ کرے، البتہ اگر وہ جہاز پر جاناچاہتا ہے یا حج یا عمرے کی نیت سے یہ سفر کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ یہاں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بات مشورے کے طورپر کہی ہو یا ان کے پیش نظر بحری سفر کے خطرات ہوں۔ یہی بات ایک حدیث میں حضور ﷺ سے بھی مروی ہے محمد بن بکر البصری نے یہ حدیث بیان کی ہے ان سے ابو دائود نے ان سے سعید بن المنصور نے، ان سے اسماعیل بن زکریا نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” کوئی شخص بحری سفر نہ کرے الا یہ کہ وہ حج یا عمرہ کرنے والا ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔ “ یہاں یہ کہنا جائز ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد استحباب کے طورپر ہوتا کہ کوئی مسلمان دنیا کی طلب میں اپنی جان خطرے میں نہ ڈالے چونکہ یہ بات حج، عمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اندر نہیں ہے، اگر کوئی شخص مذکورہ مقاصد میں سے کسی مقصد کے تحت بحری سفر کرے اور ڈوب جائے تو وہ شہید قرار پائے گا۔ محمد بن بکر نے روایت بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے سلیمان بن دائود العتکی نے، ان سے حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ام سلیم ؓ کی بہن حضرت ام حرام ؓ بنت ملحان نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ﷺ ان کے گھر میں آرام فرما تھے کہ آپ ﷺ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، حضرت ام حرام نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا :” میں نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس سمندر کی پشت پر اس طرح سوار ہیں جس طرح بادشاہ لوگ اپنے اپنے تخت پر سوار ہوتے ہیں۔ “ یہ سن کر حضرت ام حرام ؓ نے عرض کیا :” اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمائیے کہ مجھے بھی اللہ ان لوگوں میں سے کردے۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا تم بھی ان میں سے ہو۔ “ اس کے بعد آپ پھر سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، جب حضرت ام حرام ؓ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے انہیں حسب سابق جواب دیا۔ انہوں نے اپنی درخواست دہرائی جسے سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : تم اولین میں سے ہو “۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ ؓ بن الصامت ؓ نے ان سے نکاح کرلیا اور جب جہاد پر جانے کے لیے بحری سفر اختیار کیا تو ان کو بھی ساتھ لے گئے۔ جہاد سے واپس آئے تو حضرت ام حرام ؓ کو سواری کے لیے ایک مادہ خچر پیش کی گئی جس نے انہیں گرا دیا اور ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وفات پا گئیں۔ محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو دائود نے، ان سے عبدالوہاب بن الرحیم الجوہری الدمشقی نے، ان سے مروان نے، ان سے ہلال بن میمون الرملی نے یحییٰ بن شداد سے، انہوں نے حضرت ام حرام ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بحری سفر کرنے والا شخص جس کا سر چکرائے اور اسے الٹیاں شروع ہوجائیں اور وہ فوت ہوجائے تو اسے ایک شہید کا اجر ملے گا اور ڈوب کر فوت ہوجانے والے شخص کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ “
Top