Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنادو
قول باری ہے : ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو ا انا للہ وانا الیہ راجعون ( اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدینوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دے دو ( تا قول باری : واولئک ھم المھتدون ( اور یہی ہیں ہدایت یافتہ) عطاء الربیع اور حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ اس خطاب سے حضور ﷺ کے بعد الہجرۃ صحابہ کرام مراد ہیں۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ نے پہلے ہی ان سے وہ باتیں بیان کردیں جو ہجرت کے بعد انہیں اللہ کی راہ میں تکلیفوں اور سختیوں کی صورت میں پیش آنے والی تھیں۔ اس بیان کی دو وجہیں بیان ہوسکتی ہیں ۔ اول یہ کہ حضرات صحابہ کرام ؓ ان باتوں کے پیشگی سماع سے اپنی طبیعتوں کو سختیوں پر صبر کرنے کا عادی بنالیں تاکہ جب یہ مشکلات پیش آئیں تو ان پر بہ آسانی صبر کرسکیں۔ دوم یہ کہ نفس کا صبر کا عادی بنانے پر انہیں فوری طورپر اس کا ثواب مل جائے۔ قول باری وبشر الصابرین۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دیجئے جو مذکورہ شدائد پر صبر کرنے والے ہیں۔
Top