Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 35
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا
وَاَوْفُوا : اور پورا کرو الْكَيْلَ : پیمانہ اِذَا كِلْتُمْ : جب تم ماپ کر دو وَزِنُوْا : اور وزن کرو تم بِالْقِسْطَاسِ : ترازو کے ساتھ الْمُسْتَقِيْمِ : سیدھی ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور سب سے اچھا تَاْوِيْلًا : انجام کے اعتبار سے
اور جب (کوئی چیز) ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کردو) تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔
ناپ تول کے احکام قول باری ہے (واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم۔ اور جب پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو) آیت میں یہ دلالت ہے کہ جو شخص کوئی چیز ناپ کر یا تول کر خریدے تو اس پر یہ امر واجب ہے کہ ناپ کر خریدی ہوئی چیز کو ناپ کرے اور تول کر خریدی ہوئی چیز کو تول کرے، نیز اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ کیل یا وزن کے ذریعے دی جانے والی چیز کو یونہی انداز سے لے لے اس مں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مبیع اور ثمن میں جبکہ وہ ہم جنس ہوں تفاضل کی تحریم کا اعتبار کیل اور وزن کے اندر کیا جائے گا یعنی تمام مکیلات اور موزو نالت میں خواہ وہ ماکولات ہوں یا غیر ماکولات ہم جنس ہونے کی صورت میں تفاضل حرام ہوگا۔ اس لئے کہ آیت نے مکیل میں ایجاب کیل کو اور موزوں میں ایجاب وزن کو صرف ماکولات یعنی اشیائے خوردنی کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اس حکم میں تمام مکیلات اور تمام موزونات داخل ہیں۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ جب کوئی شخص مکیلا ت اور موزونات کے تحت آنے والی اشیاء کی خریداری کرے اور مبیع اور ثمن ہم جنس ہوں تو کیل کے بدلے کیل اور وزن کے بدلے وزن کی صورت میں خریداری کرے۔ اٹکل اور اندازے سے خریداری کی صورت جائز نہیں ہوگی۔ مکیلات کے تحت آنے والی اشیاء کا تعلق خواہ کو لات یعنی اشیائے خوردنی کے ساتھ ہو یا غیر ماکولات کے ساتھ مثلاً گچ، چونہ، چونے کا پتھر وغیرہ اسی طرح موزونات کے تحت آنے والی اشیاء مثلاً ، لوہا ، سیبہ اور دیگر تمام موزونات۔ ناپ تول کی طرح اجتہاد بھی ظن غالب ہے آیت میں اجتہاد کے جواز پر نیز اس پر کہ ہر مجتہد درست رد ہوتا ہے دلالت پائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ناپ تول میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ کرنا صرف اجتہاد اور ظن غالب کی بنا پر وقوع پذیر ہوسکتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ایک شخص کسی دوسرے کو کوئی چیز ناپ کر یا تول کر دے رہا ہو تو اس کے لئے یہ دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہوگا کہ اس نے ناپ یا تول میں ایک حبہ برابر نہ کمی کی ہے نہ بیشی۔ بلکہ خریدار کو اس کا پورا پورا حق دینے کے لئے وہ اپنے اس غلبہ ظن سے کام لے گا کہ اس نے پورا بھر کرنا چاہے یا درست ترازو سے وزن کیا ہے۔ جب ایک کیل کرنے والا یا وزن کرنے والا صرف اپنے غلبہ ظن کی بنا پر مذکورہ بالا صورت میں کیل یا وزن کر کے اللہ کے حکم کو پورا کرسکتا ہے اور اسے حقیقی مقدار کے حصول کا مکلف نہیں بنایا جاسکتا جس کا علم صرف اللہ کو ہے تو پھر اجتہادی مسائل میں مجتہد کو بھی اپنے اجتہاد اور غلبہ ظن سے کام لینے کی بنا پر مصیبت یعنی درست قرار دیا جائے گا۔ قسطاط کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ میزان اور ترازو کا نام ہے خواہ یہ چھوٹا ہو یا بڑا حسن قول ہے کہ قسطاس قبان یعنی بھاری اشیاء کو تولنے کے آلے کا نام ہے۔ ہم نے مکیل اور موزون کا جو مفہوم بیان کیا ہے اس کے پیش نظر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی پر مکیل اور موزون کے تحت آنے والی اشیاء میں سے کوئی شے قرض ہو تو قرض خواہ کے لئے وہ چیز یونہی اٹکل اور اندازے سے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا خواہ اس پر طرفین کی رضا مندی کیوں نہ حاصل ہوجائے ۔ آیت میں کیل اور وزن کا ظاہری امر اس بات کا موجب ہے کہ طرفین باہمی رضا مندی کے ذریعے بھی کیل اور وزن کو ترک نہیں کرسکتے اسی طرح دو شریکوں کے درمیان ایسی اشیاء کی اندازاً تقسیم بھی اس علت کی بنا پر جائز نہیں ہوگی جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ اگر اشیاء کا تعلق تکیلات اور موزونات سے نہ ہو بلکہ کپڑوں اور سامان کی صورت ہو تو پھر باہمی رضا مندی سے اٹکل اور اندازے کے ذریعے ان کی خریداری بھی درست ہوگی اور شریکین کے درمیان تقسیم بھی اس لئے کہ دریں صورت ہم پر کیل اور وزن کو پورا کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ قول باری ہے (ذلک خیرو احسن تاویلاً یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔ ) مفہوم یہ ہے کہ یہ طریقہ اچھا ہے اور دنیا و آخرت میں انجام کے لحاظ سے بھی تمہارے لئے بہتر ہے۔ تاویل اس مفہوم کا نام ہ جو ایک چیز کا مرجع اور اس کی تفسیر ہو۔ جب کوئی شخص لوٹ کر آئے تو عرب کہتے ہیں ۔ ” ال یئول، اولاً ۔ “
Top