Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 109
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩  ۞
وَيَخِرُّوْنَ : اور وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل يَبْكُوْنَ : روتے ہوئے وَيَزِيْدُهُمْ : اور ان میں زیادہ کرتا ہے خُشُوْعًا : عاجزی
اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرپڑتے ہیں (اور) روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے۔
نماز کی حالت میں گریہ کا بیان قول باری ہے (ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعاً اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے) اسی طرح یہ قول باری ہے (خروا سجداً ویکیاً وہ روتے ہوئے سجدے میں گرپڑے) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ نماز کے اندر خشیت الٰہی کی بنا پر گریہ کرنے سے نماز منقطع نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور لوگوں کی اس بنا پر تعریف فرمائی ہے کہ وہ سجدے میں جا کر روتے ہیں۔ اللہ نے سجدئہ صلوۃ سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر کے درمیان اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ سفیان بن عینیہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن محمد بن سعد نے، انہیں حضرت عبداللہ بن شداد نے، وہ کہتے ہیں کہ ایک متربہ میں نے باجماعت نماز ادا کی۔ میں آخری صف میں تھا ۔ حضرت عمر نماز پڑھا رہے تھے، مجھے حضرت عمر کی ہچکیوں کی آواز آئی۔ ایک دفعہ آپ نے صبح کی نماز میں سورة یوسف کی قرأت شروع کی جب آیت (انما اشکو ابنی وحزنی الی اللہ) پر پہنچے تو آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ آپ کی اقتدا میں صحابہ کرام نماز ادا کر رہے تھے لیکن کسی نے آپ کو اس پر نہیں ٹوکا۔ اس طرح اس مسئلے پر گویا صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا۔ حضو ر ﷺ کے متعلق مروی ہے کہ آپ نماز پڑھتے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکلتی جیسی چولہے پر رکھی ہوئی دیگ سے۔ قول باری صویزیدھم خشوعاً ) س ے مراد یہ ہے کہ نماز کے اندر یہ جس قدر خشوع کرتے ہیں سجدے میں جا کر گریہ کرنے کی وجہ سے ان کے اس خشوع میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں میں موجود خوف خدا پر دلالت کرتی ہے۔ یہی خوف انہیں گریہ و زاری کی منزل تک پہنچا دیتا ہے اور اللہ کی اطاعت کا سبب بن جاتا ہے نیز اسی خوف خدا کی بن اپر ا ن کے اندر عبادت میں اس طرح کا اخلاص پیدا ہو جات ا ہے جیسا اخلاص اللہ تعالیٰ ٰکی دی ہوئی نعمتوں کا کما حقہ، شکر بجا لانے کے سلسلے میں عبادت کے اندر ہونا چاہیے۔
Top