Aasan Quran - An-Nisaa : 137
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًاؕ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے ثُمَّ كَفَرُوْا : پھر کافر ہوئے وہ ثُمَّ : پھر اٰمَنُوْا : ایمان لائے ثُمَّ كَفَرُوْا : پھر کافر ہوئے ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا كُفْرًا : بڑھتے رہے کفر میں لَّمْ يَكُنِ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَغْفِرَ : کہ بخشدے لَھُمْ : انہیں وَ : اور لَا لِيَهْدِيَھُمْ : نہ دکھائے گا سَبِيْلًا : راہ
جو لوگ ایمان لائے، پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے، پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، اللہ ان کو بخشنے والا نہیں ہے، اور نہ انہیں راستے پر لانے والا ہے۔ (82)
82: اس سے مراد منافق بھی ہوسکتے ہیں جن کا ذکر چل رہا ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے پاس آکر مسلمان ہونے کا اعلان کرتے تھے، مگر تنہائی میں کفر اختیار کرلیتے تھے، پھر کبھی مسلمانوں کا سامنا ہوتا تو دوبارہ ایمان لانے کا مظاہرہ کرتے، مگر پھر اپنے لوگوں کو اپنے کفر کا یقین دلاتے، اور اپنے عمل سے کفر ہی میں بڑھتے چلے جاتے۔ نیز بعض روایات میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی ذکر آیا ہے جو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوئے، پھر توبہ کر کے مسلمان ہوئے، مگر بالآخر دوبارہ مرتد ہو کر کفر ہی کی حالت میں مرے۔ آیت کے الفاظ میں دونوں قسم کے لوگوں کی گنجائش ہے۔ اور ان کے بارے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ اللہ نہ ان کو بخشے گا، نہ راستے پر لائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے کفر اور اس کے نتیجے میں دوزخ کی راہ کو چن لیا تو اللہ ان کو زبردستی ایمان اور جنت کے راستے پر نہیں لائے گا کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے، اور ہر شخص کا انجام اس کے اپنے اختیار سے چنئے ہوئے راستے کے مطابق ہونا ہے۔ اللہ نہ کسی کو زبردستی مسلمان بناتا ہے نہ کافر۔
Top