Aasan Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں، اور تم (کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو (37)
37 اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کا دوسرا نام ہے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، تمام تر یہودی اور اکثر عیسائی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے، مدینہ منورہ میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی اور رسول اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد نہ صرف ان کو اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ان سے امن کا معاہدہ بھی فرمایا تھا، لہذا اس مدنی سورت میں زیرنظر آیت سے آیت نمبر : 143 تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، جس میں انہیں اسلام کی دعوت بھی دی گئی ہے اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ان کی بد عنوانیوں پر متنبہ بھی کیا گیا ہے، شروع میں ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیسے کیسے انعامات فرمائے تھے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہو کر اس عہد کو پورا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر ایمان لائیں گے ؛ لیکن انہوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس میں من مانی تاویلیں شروع کردیں اور اس کے احکام کو بدل ڈالا ؛ چونکہ اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی تھی کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کا ڈر تھا کہ وہ کہیں ان سے بد ظن نہ ہوجائیں اس لئے اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ مخلوق سے ڈرنے کے بجائے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہیے۔
Top