Aasan Quran - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو (101) بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
101: اس سورت کی آیت نمبر 40 سے بنی اسرائیل سے متعلق جو سلسلہ کلام شروع ہوا تھا وہ پورا ہوگیا اور آخر میں مسلمانوں کو ہدایت کردی گئی کہ وہ فضول بحثوں میں الجھنے کے بجائے اپنے دین پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوں، چنانچہ اب مختلف اسلامی عقائد اور احکام کا بیان شروع ہورہا ہے، اس بیان کا آغاز صبر کی تاکید سے ہوا ہے ؛ کیونکہ یہ دور وہ ہے جس میں مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ میں دشمنوں کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آرہی تھیں، اسی زمانے میں جنگوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور بہت سی سختیاں برداشت کرنی پڑرہی تھیں، جنگوں میں اپنے عزیز رشتہ دار اور دوست شہید بھی ہورہے تھے یا ہونے والے تھے۔ لہذا اب مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ دین حق کے راستے میں یہ آزمائشیں تو پیش آنی ہیں، ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی رہ کر صبر کا مظاہرہ کرے، واضح رہے کہ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کسی تکلیف یا صدمہ پر روئے نہیں، صدمے کی بات پر رنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی، جو رونا بےاختیار آجائے وہ بھی بےصبری میں داخل نہیں، البتہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہ ہو ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر انسان عقلی طور پر راضی رہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر آپریشن کرے تو انسان کو تکلیف تو ہوتی ہے اور بعض اوقات اس تکلیف کی وجہ سے انسان بیساختہ چلا بھی اٹھتا ہے ؛ لیکن اسے ڈاکٹر سے شکایت نہیں ہوتی ؛ کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کی ہمدردی میں اور اس کی مصلحت کی خاطر کررہا ہے۔
Top