Aasan Quran - Al-Baqara : 131
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُ : اس کو رَبُّهُ : اس کا رب اَسْلِمْ : تو سر جھکا دے قَالَ : اس نے کہا اَسْلَمْتُ : میں نے سر جھکا دیا لِرَبِّ : رب کے لئے الْعَالَمِينَ : تمام جہان
جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ : سر تسلیم خم کردو ! (85) تو وہ (فورا) بولے : میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا۔
85: یہاں سر تسلیم خم کرنے کے لئے قرآن کریم نے ”اسلام“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابع فرمان ہوجانے کے ہیں۔ ہمارے دین کا نام اسلام اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ ہی کا تابعدار بنے۔ حضرت ابراہیم ؑ چونکہ شروع ہی سے مومن تھے اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو ایمان لانے کی تلقین کرنا نہیں تھا اسی لئے یہاں اس لفظ کا ترجمہ اسلام لانے سے نہیں کیا گیا البتہ اگلی آیت میں حضرت ابراہیم ؑ کی جو وصیت اپنی اولاد کے لئے مذکور ہے وہاں اسلام کے مفہوم میں دونوں باتیں داخل ہیں، دین برحق پر ایمان رکھنا بھی اور اس کے بعد اللہ کے ہر حکم کی تابعداری بھی۔ اس لئے وہاں لفظ ”مسلم“ ہی استعمال کیا گیا ہے۔
Top