Aasan Quran - Al-Israa : 78
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا
اَقِمِ : قائم کریں آپ الصَّلٰوةَ : نماز لِدُلُوْكِ : ڈھلنے سے الشَّمْسِ : سورج اِلٰى : تک غَسَقِ : اندھیرا الَّيْلِ : رات وَ : اور قُرْاٰنَ : قرآن الْفَجْرِ : فجر (صبح) اِنَّ : بیشک قُرْاٰنَ الْفَجْرِ : صبح کا قرآن كَانَ : ہے مَشْهُوْدًا : حاضر کیا گیا
(اے پیغمبر) سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ (43) اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔ یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں مجمع حاضر ہوتا ہے۔ (44)
43:: سورج ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی چار نمازوں کی طرف اشارہ ہے، اور فجر کی نماز کا ذکر الگ سے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کو نماز کے لئے اٹھنا پڑتا ہے، جس میں دوسری نمازوں کے مقابلے میں زیادہ مشقت ہوتی ہے، اس لئے اس کو خاص اہمیت کے ساتھ الگ ذکر فرمایا گیا ہے۔ 44: اکثر مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ صبح کی نماز میں جو تلاوت کی جاتی ہے اس میں فرشتوں کا مجمع حاضر ہوتا ہے، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی نگرانی کے لئے جو فرشتے مقرر ہیں وہ باری باری اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، چنانچہ ایک جماعت فجر کے وقت آتی ہے جو سارے دن اپنے فرائض انجام دیتی ہے، اور دوسری جماعت شام کو عصر کے وقت آتی ہے، پہلی جماعت فجر کی نماز میں آکر شریک ہوتی ہے، اور بعض مفسرین نے اس سے نمازیوں کی حاضری مراد لی ہے، یعنی فجر کی نماز میں چونکہ نمازیوں کو حاضری کا موقع دینے کے لئے اس نماز میں لمبی تلاوت کرنی چاہیے۔
Top