Aasan Quran - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعا) اس کا حق پہنچتا ہو۔ (17) اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ چنانچہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ (18) یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔
17: کسی کو قتل کرنے کا حق صرف چند صورتوں میں پہنچا ہے جن میں سے ایک اہم صورت کا ذکر اگلے جملے میں آرہا ہے اور وہ یہ کہ کسی شخص کو ظالمانہ طور پر قتل کردیا گیا ہو تو اس کے ولی یعنی وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بدلے میں عدالتی کاروائی کے بعد قاتل کو قتل کریں، یا کروائیں، اس بدلے کو ”قصاص“ کہا جاتا ہے۔ 18: قاتل کو قصاص میں قتل کروانے کا حق تو اولیاء مقتول کو حاصل ہے لیکن اس سے زیادہ کسی کاروائی کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ ہاتھ پاؤں یا دوسرے اعضاء کو کاٹنا یا قتل کرنے کے لیے کوئی زیادہ تکلیف دہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اسے قرآن کریم نے حد سے تجاوز قرار دیا ہے۔
Top