Aasan Quran - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
(اے پیغمبر ! ان کافروں سے) کہہ دو کہ : اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے کہیں تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور ہاتھ روک لیتے۔ (52) اور انسان ہے ہی بڑا تنگ دل۔
52: رحمت کے خزانوں سے یہاں مراد نبوت عطا کرنے کا اختیار ہے، کفار مکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں دی گئی ؟ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو نبوت ہماری مرضی سے دینی چاہیے تھی، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہے ہیں کہ اگر نبوت عطا کرنے کا اختیار تمہیں دے دیا جاتا تو تم اس میں اسی طرح بخل سے کام لیتے جیسے دنیوی دولت کے معاملے میں بخل کرتے ہو کہ خرچ ہونے کے ڈر سے کسی کو نہیں دیتے۔
Top